لاہور سے کمراٹ ویلی، جہازبانڈہ اور باڈگوئی ٹاپ تک سفر رودادحصہ چہارم
(یہ تحریر پہلی بار 2016 میں شئر کیا گیا تھا جس کو آج سے دوبارہ آکے خدمت میں پیش کیا جاتا ہے)
جہاز بانڈ
جہاز بھانڈا کے نام کی وجہ شہرت میں نے بیان کردی ہے۔ اس وادی کا یہ حسین ترین مقام ہے۔ اس مقام تک کوئی بھی گاڑی نہیں جاتی۔ اس کا بیس کیمپ جندرئی گاؤں ہے، جہاں پر ایک عجائب گھر بھی ہے۔ جندرئی سے جہاز بھانڈا تک کا کل سفر 12 کلومیٹر ہے جسے مقامی لوگ دو سے اڑھائی گھنٹوں کی پیدل مسافت طے کرکے جاتے ہیں جبکہ غیر مقامی یا میدانی علاقوں کے لوگ چار سے پانچ گھنٹوں میں اس مقام تک پہنچ پاتے ہیں۔ یہاں پہنچنے کے بعد انسان اپنی ساری تھکان بھول جاتا ہے۔ دو پہاڑوں کے درمیان بنی ہوئی صاف اور شفاف پانی سے بنی ہوئی کٹورا جھیل (کٹورا پانی کے پیالے کو کہتے ہیں، یہ جھیل پانی کے پیالے کی مانند ہے اس لئے اسے کٹورا جھیل کہا جاتا ہے) سیاحوں کو دعوت نظارہ دیتی ہے۔
جہاز بھانڈا سطح سمندر سے 11 ہزار 5 سو فٹ بلند جگہ ہے۔ یہاں پر سیاحوں کے لئے ایک ریسٹ ہاؤس بھی قائم ہے۔ جہاز بھانڈا سے کٹورا جھیل کا سفر 6 کلومیٹر ہے اور یہاں پہنچنے کے لئے 4 گھنٹے درکار ہوتے ہیں۔ اس جھیل میں تیرتے ہوئے برف کے ٹکرے یوں لگ رہے ہوتے ہیں جیسے سفید کنول کے کئی کئی فٹ لمبے پھول جھیل میں تیر رہے ہوں، جھیل سے پانی ایک آبشار کی مانند نیچے وادی میں گر رہا ہوتا ہے۔ کٹورا جھیل یا جہاز بھانڈا تک پہنچنا ایک کٹھن اور مشکل مرحلہ ہوتا ہے مگر یہاں پہنچ کر انسان اپنی تھکان بھول کر قدرت کے دلکش نظاروں میں محو ہوجاتا ہے۔ سیاحوں کے علاوہ مہم جو افراد کے لئے جہاز بھانڈا اور کٹورا جھیل کا سفر یقیناً یادوں کے ناقابل فراموش لمحات محفوظ کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ کمراٹ سے بلیک واٹر تک قدرت کے حسین اور انمول شاہکاروں میں میرا تیسرا دن تھا۔ اس دن کا آغاز پختون روایتوں کے امین کوہستانی سلسلے کی مہمان نوازی سے ہوا۔ واپسی پر گرد اْڑاتی سڑک کے دونوں جانب دیو قامت چیڑھ، دیودار، صنوبر اور کائل کے درخت فلمی مناظر پیش کررہے تھے۔ سڑک گرچہ پُر خطر تھی مگر جیپ کا ڈرائیور ماہر تھا۔ جس طرح اس جیپ کو پہاڑوں کی شہزادی کہا جاتا ہے، ایسے میں یہ ڈرائیور اس بپھری ہوئی شہزادی کو قابو میں کرنے کا ہنر بخوبی جانتا تھا۔ گزشتہ 2 دن برف پوش پہاڑوں، جھیلوں، شور مچاتی ندیوں اور پھولوں کے درمیان گزرا، آج کا دن دریائے پنجکوڑا کے ساتھ ساتھ وادی کمراٹ میں گزر رہا تھا۔
چند منٹ دریا کے شور شرابے سے اٹکھیلیاں کرتے گزارے، یخ بستہ پانی کی لہروں سے چھیڑ چھاڑ کرنے کا نتیجہ ہاتھوں کے سُن ہوجانے کی صورت میں بھگتنا پڑالیکن سچ پوچھیں تو جنگل کے بیچوں بیچ گزرتے ہوئے دریا ایک رومانوی منظر پیش کر رہا تھا۔ درختوں کے درمیان سے سورج کی کرنیں یوں چھن کر آرہی تھیں جیسے کسی حسینہ کے چہرے پر اس کی زلفیں بکھری ہوئی ہوں اور ہوا ان زلفوں سے شرارت کر رہی ہو۔ دریا کا شور ہی ہے جو اس وادی کا سکوت توڑنے والی واحد شے تھی۔ بل کھاتی ندیاں، شور مچاتا دریا اور مسحور کن آبشاروں کی اس وادی میں ہماری منزل بلیک واٹر یعنی کالا چشمہ تھی۔ اس وادی میں جگہ جگہ قدرت جھک جھک کر استقبال کر رہی ہوتی ہے۔ کمراٹ میں محکمہ جنگلات کے ریسٹ ہاؤس میں ہمارے ٹھہرنے کا انتظام تھا، مگر تاخیر سے پہنچنے کے باعث محکمہ نے بکنگ منسوخ کردی تھی، چار و ناچار دریا کنارے خیمہ بستی لگائی۔۔(جاری)