کُمراٹ (جنت کا ایک ٹکڑا)
تحریر: محمد امین
میں سیزن میں دو سے تین بار کمراٹ جاتا ہوں اور ہر بار مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کمراٹ پچھلی دفعہ سے زیادہ خوب صورت ہے۔ جیسے میں کُمراٹ کے جنگلوں میں داخل ہوتاہوں تو کمراٹ کا سحر مجھ پہ ایسے طاری ہو جاتا ہے کہ پھر وہاں سے واپس آنے کو دل ہی نہیں کرتا۔ دن کو وقفے وقفے سے بارش وہاں کے ماحول کو ایسی تازگی بخشتی ہے کہ جیسے گلاب کے پھولوں کی تازہ تازہ کلیاں نکل آئی ہو۔ مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے وہاں ہر طرف خوشبوئیں پھیلی ہوئی ہیں۔
وہاں بادل ایسے گھوم رہے ہوتے ہیں کہ اگر آپ تھوڑا سا اِن کے پیچھے جائیں تو آپ آسانی سے اِن کو چھو سکتے ہیں۔ وہاں کے اونچے اونچے دیو ہیکل پہاڑوں پر جب نظر پڑتی ہے تو لگتا ہے جیسے آسمان نیچے کی طرف جھکا ہوا ہے اور آسمان اور پہاڑ آپس میں محوِ گفتگو ہیں۔ میں گھنٹوں سوچتا ہوں کہ کیا واقعی آسمان اِن پہاڑوں سے بات کرتا ہوگا؟ کمراٹ کے جنگل میں آپ کو جگہ جگہ صاف اور شفاف پانی کے چشمے نظر آئیں گے۔ انسان کا دل کرے کہ اُن چشموں کے ساتھ ساتھ چلتا جائے اور سُراغ لگائے کہ یہ پانی آتا کہاں سے ہے۔ لیکن اللہ کی قدرت تو اللہ ہی جانتا ہے۔
کمراٹ کے جنگل میں لگائے گئے کیمپوں میں جب رات گزارتا ہوں اور دریا کا شور اور بارش کی ٹِپ ٹِپ کی آوازیں جب ساری رات میرے کانوں میں پڑتی ہیں تو گماں ہوتا ہے کہ جیسے اللہ نے جنت کا ایک ٹکڑا اٹھا کر زمیں پہ رکھ دیا ہے۔ میں فوراً اپنا کیمپ چھوڑ کر جنگل کی طرف نکل جاتا ہوں اور پھر دیر تک اللہ کی شان کے بارے میں سوچتا رہتا ہوں کہ جس اللہ نے اتنی خوب صورت دنیا بنائی ہے وہ خود کتنا عظیم ہوگا۔ آپ کمراٹ سے آگے کالا پانی، دو جنگا اور شہزور جھیل کی طرف جائیں تو انسانی آنکھ کھلی کی کھلی رہ جاتی ہے۔
جو اللہ اتنی خوب صورت تخلیق کرتا ہے وہ خود کتنا خوب صورت ہوگا۔ اللہ کی ذات کی خوبصورتی تو شاید انسانی آنکھ برداشت ہی نہ کر سکے۔ میں ذرا زیادہ دور نکل گیا۔ بات کو سمیٹتے ہوئے کہنا چاہتا ہوں کہ ہم انسان اللہ کی بنائی ہوئی اِس خوب صورتی کو دن بہ دن بِگاڑ رہےہیں ۔ہم انسان جہاں بھی جاتے ہیں اپنے نشان چھوڑ کر آتے ہیں ۔ہم اپنے ساتھ ہر طرح کی کھانے پینے کی چیزیں لے تو جاتے ہیں لیکن جب وہاں خوب انجوائے کرنے کے بعد وہ چیزیں کھا پی لیتے ہیں تو خالی شاپر اور پانی کی بوتلیں وہیں پھینک کر آ جاتے ہیں۔
کتنے دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ ہم اچھا خاصا وزن اپنے ساتھ لے کے جاتے ہیں لیکن اپنے خالی شاپر اور بوتلیں واپس لانے میں ہمیں موت پڑتی ہے۔ خدارا اِس بات کو سنجیدگی سے لیں اور اپنے ساتھ کے لوگوں کو بھی اِس بات کا احساس دلائیں کہ صفائی کتنی ضروری ہے ۔ہم گندے کپڑے فوراً اتار دیتےہیں، گندے بیڈ پہ سونا پسند نہیں کرتے، گندہ کھانا اچھا نہیں لگتا، حتیٰ کہ جس جگہ میں ہم گند پھینک دیتے ہیں وہ جگہ بھی ہمیں اچھی نہیں لگتی۔ آئیں آج وعدہ کریں کہ ہم سے جتنا ہو سکے گا، اپنے پہاڑوں، دریاؤں اور جنگلوں کو صاف رکھنے کی پوری پوری کوشش کریں گے۔ امید ہے آپ کو میری بات بری نہیں لگی ہوگی۔