کنڈبانڈہ پربتوں کے راہی سے اقتباس
تحریر: عمرفاروق عارفی
آسمان پہ بادلوں کا گھیرا تنگ ہونے لگا، موسم کے تیور بدلے اور گرج کے ساتھ ہلکی ہلکی پھوار ہونے لگی، بیس منٹ آبشار کے قدموں تلے گزارنے پہ رخ پھیرا اور کنڈ بانڈہ کی طرف اترنے لگے جو آبشار سے چند فرلانگ پہ واقع ان بیاہا جنت کا ٹکڑا تھا، جس کے بائیں طرف آخری سرے پہ اونٹ کی کوہان جیسے پہاڑ تھے جن پہ برفوں کی سفیدی نمایاں تھی، جن پہ بادل دھوئیں کی طرح اترتے تھے اور شاید ان میں پریاں بھی یہی برف پگھل کر ناگن ندی کا روپ دھاررہی تھی، جس کے پانی ٹھنڈے ضرور تھے لیکن تیز طرار نہیں تھے، پانی شفاف اتنا کہ اسکی تہہ میں بیٹھے سنگریزے چشم عاشقاں کو سیراب کرتے تھے، لطف دیتے تھے۔
اس ندی کے اپنے رنگ تھے بل کھاتی شفاف پانی کی ندی جسکی کناریوں پہ گھاس کے قطعات تھے.جن پہ قطار در قطار خیمے گاڑے گئے تھے لکڑی کا ایک ڈھابہ تھا جو اس جنت میں اترتے ہی بائیں ہاتھ تھا، جس کے باہر سجے میز کرسیوں پہ چائے پینا کسی فلمی سین جیسا تھا ندی کو پار کرنے کیلیے لکڑی کی بیس سے پچیس فٹ کی ایک چورس لٹھ استعمال ہوتی تھی، جس کے دونوں سروں پہ تین تین لکڑیوں سے گیٹ کی شکل بنائی گئی تھی، ندی پار پہاڑ کی ڈھلوان پہ اونچے لمبے درختوں کا ایک گھنا چھوٹا سا جنگل اس جنت کو مزید دلکش بناتا تھا۔
کنڈبانڈہ ایسی پرسکون اور صاف ستھری جگہوں میں شامل ہے جو پہلی نظر میں پسند آئی جہاں پہنچتے ہی دل میں خواہش ابھری کہ یہاں کئی راتیں گزارنی چاہئیں، لیکن دامن وقت میں اتنی وسعت میسر نہ تھی اسلیے چندگھڑیاں ہی یہاں گزارنے کا موقع ملا میں اس بہشت کدے میں اترتے ہی اس پہاڑی مینڈھے کو ڈھونڈ رہا تھا جس کی خبریں میں لاہور میں بیٹھ کر سنا کرتاتھاکہ کنڈبانڈہ میں ایک ایسا مینڈھا ہے جس کے چار سینگ ہیں، امیر صاحب نے بالآخر بتایاکہ صاحب بہادر کہیں چرنے گیاہے، پندرہ بیس سیاح پہلے سے اس بہشت نگری میں موجود تھے، بارش کی پھوار چند چھینٹوں کے بعد رکی ہوئی تھی، فلک میں دھواں سا پھیلاتھا اور ہم ندی پار کرکے اس پرسکون ٹکڑے کے سینے پہ اتررہے تھے۔