کمراٹ میں گزری ایک سرد، حسین اور ناقابلِ فراموش رات
تحریر: جہاں گرد
کچھ لمحے، پل، دن اور راتیں اور کچھ یادیں اتنی خوب صورت ہوتی ہیں کہ ہم اُنہیں چاہ کر بھی بھلا نہیں سکتے۔ اِس کے ساتھ ساتھ کچھ دن ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جیسے ہم پہ قیامت گزر رہی ہے۔ ہم اُنہیں بھی نہیں بھول سکتے۔ آپ کی زندگی میں بھی کئی ایسے حسیں لمحے ہوں گے لیکن میں اپنی بات کروں گا۔ میری زندگی میں کئی خوبصورت یادیں ہیں جنہیں میں کبھی نہیں بھلا سکتا۔ مثال کے طور پر۔
جس دن میں اپنے مَن پسند انسان سے ملا تھا۔
اُس کی سالگرہ کا دن۔
جس دن میں ہمیشہ کے لئے اُس سے جدا ہوا تھا۔
جس دن مجھے پہلی سیلری ملی اور میں نے امی کے ہاتھ میں تھما دی۔
جس دن میں دبئی ایئرپورٹ پر اترا تھا اور میرے پاس دبئی گھومنے کے لئے صرف بیس گھنٹے تھے۔ اُن بیس گھنٹوں کے لئے مجھے دبئی کا ویزہ درکار تھا اور ویزے کی قیمت 140 ڈالر تھی۔ میں نے 140 ڈالر کا ویزہ لیا اور پھر دبئی میں خوب گھوما۔ وہ بیس گھنٹے مجھے نہیں بھولتے۔
جس دن میں ایران (تہران) گیا اور وہاں چند دن رہا۔
مشہد (ایران) میں چند دن کا قیام میں کبھی نہیں بھول سکتا۔
اِسی طرح زاہدان (ایران) میں گزرے ہوئے چند دن میری زندگی کے حسین دنوں میں شامل ہیں۔ لیکن کمراٹ میں گزری وہ سرد اور حسین رات کیوں ناقابلِ فراموش ہے۔ آئیں آپ کو بتاتا ہوں۔
ستمبر کی سترہ تاریخ ہے۔ ایک طرف کمراٹ کا گھنا جنگل ہے۔ دوسری طرف دریائے پنجکوڑہ کی جادوئی موجیں ہیں اور تیسری طرف کمراٹ کا خوبصورت آبشار ہے جس کے پانی کے گرنے کی آواز مجھ جیسے بندے کو پاگل کر دینے کے لئے کافی ہے۔ کراچی سے آئیں دونوں مہمان خواتین کو سلا کر جب میں اپنے کیمپ میں پہنچا تو رات کے گیارہ بج چکے تھے اور ٹھنڈ اپنی انتہاء پر پہنچ چکی تھی۔ میں نے دو کمبل اوڑھ لئے اور سونے کی کوشش کی لیکن نیند میری آنکھوں سے میلوں دور۔ ایک تو میرا کیمپ آبشار سے ڈیڑھ سو میٹر کے فاصلے پر لگا تھا۔ آبشار کے گرنے کی آواز سونے نہیں دے رہی تھی۔ دوسرا یخ، ٹھنڈی ہوا جب درختوں کے درمیان مین سے گزر کر میرے کانوں کے پردوں سے ٹکراتی تو اتنی سریلی آواز پیدا ہوتی کے دل کرتا ساری رات اِس آواز کو سنتا رہوں۔ تیسرا یہ کہ میری نیند میری تقدیر کی طرح مجھ سے روٹھی ہے۔ آتی ہی نہیں۔ آبشار کی آواز اور ہوا کی وہ سریلی سرسراہٹ سنتے سنتے کب نیند آئی پتہ ہی نہیں چلا۔
اچانک میرے کیمپ کو ایک زوردار جھٹکا لگا جس کی وجہ سے میں فوراً اٹھ گیا۔ ڈر کے مارے باہر نکل آیا لیکن باہر کچھ نظر نہیں آیا۔ دل کو تسلی دینے کے لئے کہا کہ شاید چھوٹا موٹا جانور ہوگا جو میرے کیمپ سے ٹکرا کر بھاگ گیا ہوگا ورنہ اِس ٹھنڈ میں صبح چار بجے پریاں اتنی فارغ تو نہیں ہوں گی کہ میرے کیمپ سے ٹکرائیں گی ۔ سوچا دوبارہ سو جاؤں لیکن چاند اتنی خوبصورت چاندنی بکھیر رہا ہو۔
کمراٹ کا گھنا جنگل ہو۔
ڈیڑھ سو میٹر کے فاصلے پر خوبصورت آبشار ہو۔
اِس سے بھی کم فاصلے پر دریائے پنجکوڑہ کی موجیں اپنا جادو جگا رہی ہوں۔
اِس سے بھی مزے کی بات یہ ہے کہ ہلکی ہلکی بوندھا باندھی ہو رہی ہو۔ تو کس پاگل کا دل کرتا ہوگا کہ یہ سب چھوڑ کر سو جائے۔جلدی سے گرم شال اوڑھی اور آبشار کے قریب جا کے بیٹھ گیا۔ ابھی دس پندرہ منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ مجھے پانی کے گرنے کی آواز نے ڈرا دیا۔ آبشار سے دور تھا تو اُس کی آواز مزہ دے رہی تھی۔ جیسے اُس کے پاس بیٹھا تو ڈرانا شروع کر دیا۔ اصل میں سارے لوگ سو رہے تھے اور میں اکیلا آبشار کے پاس بیٹھا اُس کا دیدار کر رہا تھا۔ شاید اُسے برا لگا ہو۔ وہاں سے اٹھا تو دریا کے کنارے بیٹھ گیا لیکن وہاں بھی ڈر لگنے لگا۔ دریا کی موجوں کے شور نے مجھے واقعی ڈرا دیا تھا۔ دریا سے تھوڑے فاصلے پہ ایک درخت کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا اور دریا کے موجوں کی روانی میں ایسا گم ہوا کہ پتہ ہی نہیں چلا۔ یہاں بھی پندرہ بیس منٹ گزرے ہوں گے کہ ٹھنڈ کی وجہ سے میرا خون جمنے لگا۔
کچھ تو ٹھنڈی ہوا کا اثر تھا۔ کچھ بارش کی وجہ سے سردی تھی جبکہ کچھ دریا کی موجوں سے اٹھنے والے بھاپ کا اثر تھا۔ مجبوراً یہاں سے بھی اٹھنا پڑا۔ کیمپ کی طرف واپس ہی جا رہا تھا کہ جنگل میں مجھے چاند کی اُس خوبصورت چاندنی نے اپنی طرف کھینچ لیا۔ وہ چاندنی اتنی خوبصورت تھی کہ صبح ساڑھے چار بجے اُس ٹھنڈ میں، میں نے واک شروع کر دی۔ ایک طرف دریا۔۔۔ جنگل کے بیچ و بیچ واک کرنا۔ واک کرتے کرتے میں کافی دور نکل آیا۔ کافی دیر بعد خیال آیا کہ میں تو کافی دور نکل آیا ہوں۔ وہاں سے واپسی کی اور اپنے کیمپنگ ایریا میں جا کر اپنی مہمان خواتین کو دیکھا جو آرام سے سو رہی تھی۔ ٹھنڈے پانی سے وضو کیا اور اپنے کیمپ میں داخل ہو گیا۔
امید ہے پڑھ کر آپ کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی ہوگی۔ چلو مسکراہٹ نہ سہی۔ وہ والی فیلینگ تو آ گئی ہوگی جو اِس وقت میری ہے۔ لوگوں کے لئے جتنا ہو سکے، آسانیاں پیدا کریں۔ اللہ آپ کے لئے آسانیاں پیدا فرمائے گا۔