دریائے پنجکوڑہ
عمران کوہستانی کے قلم سے
دیر کوہستان کے تمام تر رعنائی خوبصورتی ،اور شادابی دریائے پنجکوڑہ ہی کے مرہوں منت ہے۔ دریائےپنجکوڑہ ہی کی بدولت دیر کوہستان کی تمام وادیاں قدرتی حُسن و جمال کا مظہر دکھائی دیتی ہیں اور اس کا ہر گوشہ سرسبز شاداب نظر آتا ہے۔ دیر کوہستان کے تقریباً تمام قابل دید گاوں دریائے پنجکوڑہ ہی کے کنارے آباد ہیں۔دریائے کمراٹ یا دریائے پنجکوڑہ کوہندوکش کے برفیلے پہاڑں سے نکل کر دیر بالا اور پھر دیر زیریں سے بہتے ہوئے چکدره، ضلع مالاکنڈ، کے قریب دریائے سوات میں شامل ہو جاتا ہے۔اس دوران یہ وسیع و عریض علاقے کو سیراب کرکے اس کی شادابی اور رعنائی کا باعث بنتا ہے۔دریائے پنجکوڑہ کا منبع ایک نہیں ہے بلکہ اس کے کئی منبعے ہیں۔ یہ دریا کوہِ ہندوکش کی اوٹ میں واقع وادی کمراٹ کے شاہ زور( وادی کمراٹ سے چترال جانے کا قدیم راستہ بھی یہی ہے) جھیل سے نکل کر متول کینہ لام ( لاموتی ) کے مقام پر دریائے جندرری جس کا منبع کٹورا جھیل ہے میں شامل ہوکر بڑی بڑی چٹانوں کو پھلانگتا ،کہیں گناتا اور کہیں دھاڑتا ہوا اپنا راستہ طے کرتا ہے۔ مختلف مقامات پر اس کے ساتھ ندی نالے شامل ہوتے چلے جاتے ہیں۔ کلکوٹ کے مقام پر اس میں جونکی ندی ( خوڑ) شامل ہو جاتا ہے۔ راستے میں بہت سارے ندی نالوں کو اپنے دامن میں سمیٹ کر راجکوٹ کے مقام پر دریائے گوالدی میں شامل ہوجاتا ہے۔ دریائے گوالدئی کا منبع سمت شاہی اور کوڑماہی کے جھیلیں ہیں۔ سمت شاہی سے ہی پیدل باآسانی چترال پہنچا جا سکتا ہے۔ زمانہ قدیم سے یہ راستہ زیر استعمال ہے۔ سمت شاہی اور کوڑ ماہی کی ندیاں بمقام دو جنگا ایک دوسرے سے مل کر دریائے گوالدئی بن جاتا ہے۔ یہ حسین دریا اپنا سفر طے کرتے ہوئے کہیں تو محجوب ہو کر سکڑ سمٹ جاتا ہے اور کہیں فخر سے سینہ پُھلا کربہنے لگتا ہے۔
شرینگل کے مقام پر دریائے ڈوگدرہ میں شامل ہوکر کسی منہ زور گھوڑے کے طرح جھاگ اڑاتا ہوا چکیاتن کے مقام پر خواگو اوبہ اور دریائے براول سے مل جاتاہے۔ بعض تاریخی کتب میں اسے تریشاما، دریائے گوری بھی کہا گیا ہے۔ مؤرخین کیمطابق ارین قبائل جب ان قبائلی علاقوں میں نمودار ہوئے تو کچھ عرصہ بعد ان کے دس قبائل کے درمیان مشھور جنگ ایک دریا کے کنارے لڑی گئ تھی۔ ارین قبائل ماتا دیوی کی پرستش کرتے تھے۔جمیل یوسفزئ کے کتاب ،،دیر کی مختصر تاریخ،، دیر میں چکیاتن ( جگیہ استین) کا علاقہ جو تین دریاؤوں کا نقطہ اتصال ہے، کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یھی مقام ارین کے ہاں بہت مقدس تھا،پنجکوڑه کے کنارے آرین قبائل ایک خاص وقت یہاں جمع ہوکرقربانی کیساتھ ساتھ مذہبی گیت گایا کرتے تھے،اس کے علاوه اس موقع پر ان کے مذہبی پیشوا جمع ہوکر مذہبی قانون بھی کرتے تھے.ان دلائل کے روشنی میں یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ 900 ق م میں لکھی گئ آرین کی مشھور مقدس کتاب رگ وید کے بعض حصے اس مقدس زیارت چکیاتن ( جگیہ آستین ) میں تخلیق ہو چکے ہونگے۔ دریائے پنجکوڑہ انسانوں کے لئے طرح طرح کی نعمتیں لے کر آتا ہے۔ اس کے پانی سے متعدد فصلیں سیراب ہوتی ہیں جن میں مکئی، دھان اور گندم شامل ہیں۔ کئی طرح کی سبزیاں مثلاً آلو، مٹر، شلجم، گوبھی، ٹماٹر وغیرہ اس دریا کی بدولت انسان کو نصیب ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد خوش ذائقہ پھل مثلاً خوبانی، آلوچہ، لوکاٹ، سیب، ناشپاتی، مالٹا، انگور، اخروٹ، شفتالو(آڑو) اور چائنا املوک کے درختوں کے لئے حیات بخش پانی، دریائے پنجکوڑہ ہی لے کر آتا ہے۔ ساتھ ساتھ دریائے پنجکوڑہ کے کنارے گلاب، گلِ نرگس، غانٹول، بنفشہ، پھلواری، ریحان اور دیگر طرح طرح کے خوشبودار اور دھنک رنگ پھول بھی کھلتےہیں۔
اللہ تعالیٰ نے دریائے پنجکوڑہ میں جو مچھلیاں پیدا کی ہیں ان میں ٹراؤٹ مچھلی سب سے زیادہ مشہور ہے۔ ٹراؤٹ مچھلی بہت سرد پانی میں ملتی ہے۔ اس کا ذائقہ نہایت لذیذ اور بے مثال ہوتا ہے۔ ان مچھلیوں کا شکار کانٹے، جال، بجلی کے اور کرنٹ کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔ دیر کوہستان کے مقامی لوگوں نے کئی مقامات پر دریائے پنجکوڑہ پر بجلی گھر (پَن) بنائے ہیں۔ یہ بجلی گھر عرصہ دراز سے دیر کوہستان کو مقدور بھر بجلی فراہم کرنے کے باعث بنے ہوئے ہیں۔ حکومت اگر چاہے دریائے پنجکوڑہ پر مزید بجلی گھروں کی تعمیر کا مربوط منصوبہ بناکر ان کے ذریعے ملک بھر کے لئے کافی بجلی پیدا کر سکتی ہے۔ یہ بجلی تھرمل بجلی گھروں میں پیدا ہونے والی بجلی کی نسبت بہت سستی پڑے گی۔
دریائے پنجکوڑہ کا مطلب پنج خوڑ یعنی پانج ندیوں کا دریا ہے لیکن ایک مقامی (راجکوٹ) کوہستانی لوک کہانی کے مطابق ریاست مساگا یا آج کے تلاش سے کوہستانی لوگ سب سے پہلے شرینگل آئے تھے ۔ تاریخ میں دیر کوہستان کے طرف آنے والے دو بھائی جن کے نام دوش، مندوش ہیں کا ذکر ملتا ہے۔ حویط المعروف پنجکوڑہ جو دوش کے اولاد میں سے تھا، جو تالاش میں دوش خیلہ کے مقام پر رہتا تھا۔ اس کے 5 بیٹے تھے، امان کوڑ( بلور)، جیکوڑ، ممد کوڑ،راجکوڑاور رامکوڑ۔ ان میں سے راجکوڑاور رامکوڑکی نسل راجکوٹ ( پاتراک ) میں آباد ہے اور باقی بیٹوں کی نسل حیاگے، گرڑی، نارکن، صدیق بانڈہ، اور رضا بانڈہ میں اباد ہیں،اگرچہ یہ لوگ کوہستانی زبان بولنے سے قاصر ہے۔