دیر کوہستان تار
اٹھارہ سو اسی کے لگ بھگ انگریزحکومت نے دیر،سوات اور باجوڑ کے نام سے ایک رپورٹ شائع کی جسے ملٹری گزٹئیر کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ رپورٹ میں تمام علاقوں کا باریک بینی سے جائزہ لیا گیا ہے اور ان تمام مقامات کو جہاں فوجی جنگ کے صورت میں قیام کرسکتے ہیں۔ روپورٹ میں ان مقاما ت کی نشاند ہی کی گئی ہے جہاں چارہ وافر مقدار میں دستیاب ہے اور جنگ کی صورت میں جنگی خچر اور گھوڑوں کو کسی
بھی وقت چارہ فراہم ہے۔ رپورٹ میں میں دیر کوہستان کے تمام گاؤں کا ذکر موجود ہے جس کا خلاصہ کچھ یوں ہے۔
پاتراک۔1886 میں
پاتراک ۔ دیر کوہستان کا ایک اہم کوہستانی گاؤں جو پہاڑ کے ڈھلوان پر دریائے پنجکوڑہ کے دائیں جانب آباد ہے۔ گاؤں کی آبادی بہت ہی گنجان آباد اور پہاڑ کے ڈھلوان پر دریائے پنجکوڑہ اور گوالدئی ندئی کے درمیاں واقع ہے ۔ گاؤں کے دونوں اطراف اور گوالدی ندی کے کنارے لہلہاتے کھیت ہیں۔گاؤں کے چاروں طرف گھنے جنگلات ہیں اور یہ جگہ فوجی کیمپ کے لیے موذوں ہے۔ دریا ئے پنجکوڑہ کے بائیں جانب علاقے کو ایک پل سے جوڑا گیا تھا۔ یہ پل عرصہ قدیم سے رائج کین ٹی لیور کے طرز پر تعمیر کیا گیا ہے۔پل کی حالت خراب ہے۔
پاتراک ۔ایک اہم کوہستانی گاؤں جو پہاڑ کے ڈھلوان پر دریائے پنجکوڑہ کے دائیں جانب آباد ہے۔ گاؤں کی آبادی بہت ہی گنجان آباد اور پہاڑ کے ڈھلوان پر دریائے پنجکوڑہ اور گوالدئی ندئی کے درمیاں واقع ہے ۔ گاؤں کے دونوں اطراف اور گوالدی ندی کے کنارے لہلہاتے کھیت ہیں۔گاؤں کے چاروں طرف گھنے جنگلات ہیں اور یہ جگہ فوجی کیمپ کے لیے موذوں ہے۔ دریا ئے پنجکوڑہ کے بائیں جانب علاقے کو ایک پل سے جوڑا گیا تھا۔ یہ پل عرصہ قدیم سے رائج کینٹیلیور کے طرز پر تعمیر کیا گیا ہے۔پل کی حالت خراب ہے۔
بیاڑ۔ سطح سمندر سے انچائی 5600 کلومیٹر
بیاڑ دریائے پنجکوڑہ کے دائیں کنارے پر آباد کوہستانی گاؤں ہے جو پاتراک سے تقریباً 4 میل اوپر واقع ہے ۔ پہاڑی کی ڈھلوان پر گنجان مکانات ایک دوسرے کے پیچھے قطار کی شکل کی شکل میں تعمیر کیےگئے ہیں ۔ گاؤں کے آس پاس زمین زیر کاشت ہے اور گاؤں پنجکوڑہ دریاسے تقریباً 200 گز کے فاصلے پر واقع ہے۔ ۔ گاؤں کے سامنے دریا پر پل ہے۔ بیاڑ سے ایک راستہ جبئی سے ہوتا ہوا اپر سوات کو جاتا ہے۔ گاؤں میں کوہستانی قوم کے 70 گھر ہے جو پشتو نہیں بولتے۔ 1895 میں بیاڑ گاؤں کے ملکانان محمد اور ملا امام محمد ہیں جبکہ تاجروں کی 4 دکانیں ہیں۔
یک دوسرے روپورٹ جو چترال، گلگت اور کوہستان کے راستوں کے نام سے شائع ہوا تھا کے مطاق بیاڑ، کوہستان میں گھرو دوسرے گاؤں کے برعکس، دریا کے دائیں کنارے پر لکڑیوں سے بنے بکھرے ہوئے ہیں ۔ دریا پر 75 انچ لمبا اور 6 انچ چوڑا مضبوط کینٹیلیور پل ہے۔ 1923 ء میں اس گاؤں کی آبادی تقریباً 400 افراد تھے ۔
بریکوٹ- سطح سمندرسے انچائی 5650 کلومیٹر
بریکوٹ دریائے پنجکوڑہ کے بائیں کنارے پر، پاتراک سے 6 میل اور بیاڑ سے تقریباً 2 میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ گاؤں کے پہاڑ گھنے اور ایک دوسرے کے قریب ہیں جو دریا تک پہنچ چکے ہیں۔ کاشت اور اور کیمپنگ کے لیےز مین بہت تنگ اور گنجائش بہت ہے۔ 40 گھروں پر مشتمل گاؤں دریا سے 50 فٹ کی دوری پر پہاڑی کی طرف بنایا گیا ہے۔ دریا پر پل ہے جوکہ 5 فٹ وسیع اور 63 فٹ لمبا ہے۔ گاؤں میں بسنے والے لوگ "بشکری" ہیں، جو پشتو سے ناواقف ہیں۔
اٹھارہ سو اٹھاون میں بریکوٹ کے مشہور ملک دلبر شاہ اور فضل میر ہیں۔ ایک دوسرے کتاب" چترال، گلگت اور کوہستان میں راستے" میں بتایا گیا ہے کہ گاؤں بریکوٹ میں 50 گھ ہیں۔
کلکوٹ۔
کلکوٹ سطح سمندر سے 6150 کلومیٹر بلند، پاتراک سے 15 میل اوپر، دیر ندی کے سنگم سے 25 میل کے فاصلے پر دریائے پنجکوڑہ کے دائیں کنارے ایک پہاڑ کی ڈھلوان پر آباد گاؤں کا نام ہے ۔ اس گاؤں میں پہلے 400 سے 500 گھر تھے، اسے عمرا خان کے بھائی محمد شاہ نے جلا دیا تھا، جب 1885 میں وہ دیر کا گورنر تھا اب صرف 120 گھر ہی رہ گئے۔دریائے پنجکوڑہ پر گاؤں کے سامنے 54 فٹ لمبا اور 5 فٹ چھوڑا ایک پل عام مقامی کینٹیلیور قسم کی طرز پر تعمیر کیا گیا ہے۔ گاؤں کے دونوں طرف ، خاص طور پر دریا کے دائیں جانب سیراب شدہ کھیت ایک قطار کی شکل میں زیر کاشت ہے، کلکوٹ اور اس کے آس پاس پہاڑوں پر دیودار کی گھنے جنگلا ت ہیں۔
کاکا خیل میانگان کلکوٹ کا زیادہ تر جنگل کاٹتے ہیں۔ چارہ وافر ہے۔ یہاں کے باشندے کوہستانی ہیں، پشتو سے نابلد ہیں، ملک محراب شاہ اور یوسف یہاں کے ملک ہیں۔ چترال، گلگت اور کوہستان کے راستوں کے نا م سے شائع کتاب میں لکھا گیا ہے کہ گاؤں کلکوٹ میں گھر ایک قطاروں کی شکل میں ایک دوسرے کے اوپر بنائے گئے ہیں اور اس کی آبادی تقریباً 1500 (1922) ہے۔
گاؤں لاموتی
گاؤں لاموتی ایک اہم کوہستانی گاؤں لاموتائی نالے کے دائیں کنارے اوپر بہت ہی اچھےطریقے سے تعمیر کیا گیا ہے، جو پنجکوڑہ کے بائیں کنارے تک پھیلا گیا ہواہے ۔ گاؤں لاموتی دیرسے تقریباً 28.5 میل اور پاتراک سے 19.5 میل اوپر واقع ہے۔ گاؤں دریا سے تقریباً نصف میل کے فاصلے پرواقع ہے، جس کے کنارے تک کھیت ہیں۔ پہاڑیو کی چوٹیاں دیودار اور دوسرے درختوں سے مالامال ہیں اور چارہ بہت زیادہ ہے۔
یہاں کے باشندے پشتو سے ناواقف ہیں۔ 1895 میں ملک، عظیم شاہ، سید شاہ اور کش احمد وغیرہ نمایاں ہیں ۔ 120 مکانات ہیں۔ ایک دوسرے کتاب چترال، گلگت اور کوہستان کے راستے" کے مطابق گاؤں لاموتی دیر کوہستان کا سب سے اہم گاؤں تھل کے بعد دوسرا گاؤں ہے جس کی کل آبادی 1922 میں 2000 تھی۔ گاؤں لاموتی کے لوگ دیگر کوہستانیوں سے زیادہ مہذب ہیں اور سوات کوہستان کے باشندوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھتے ہیں۔ تاہم وہ کلکوٹ اور تھل کے باشندوں سے دشمنی میں ہیں جنہوں نے ان کے خلاف اتحاد کیا ہے۔
تھل
تھل، دریائے پنجکوڑہ کوہستان کا سب سے بالائی گاؤں ہے جو پاتراک سے سڑک کے ذریعے 20 میل اور دیر ندی کے سنگم سے تقریباً 30 میل اوپر واقع ہے۔ یہ گاؤں پنجکوڑہ دریا کے دائیں کنارے پر سطح مرتفع پر سیڑھیوں کی شکل میں کمپیکٹ انداز میں یعنی ایک دوسرے کے اوپر تعمیر کیا گیا ہے اور کھیتوں سے گھرا ہوا ہے۔ اس کے ارد گرد کی پہاڑیاں دیودار، چیڑ اور فر کے گھنے جنگلات سے ڈھکی ہوئی ہیں۔
یہ گاؤں کچھ فاصلے تک کاشت کیا گیا ہے اور یہاں چراگاہ بہت عمدہ ہے۔ دریا کے وہ حصے جہاں پانی کم ہو، انہیں عبور کیا جا سکتا ہے، (یعنی پیدل، جانور پر سوار ہو کر یا کسی گاڑی میں بیٹھ کر بھی)۔ آدھے میل نیچے ایک پل ہے جو دریا کے بیچ ایک جزیرے پر بنایا گیا ہے۔ یہاں دریا کی ریت سے لوہا بھی نکالا جاتا ہے۔
یہاں کوہستانی قبیلے کے تقریباً 500 گھر ہیں۔ 1895 میں اس گاؤں کے معززین، جنہیں ملک کہا جاتا ہے، قاظم اور قاضی تھے۔ کسی اجنبی کو تھل سے آگے جانے کی اجازت نہیں ہے اور نہ ہی کاکا خیل کو یہاں سے لکڑی کاٹنے کی اجازت ہے۔ اس گاؤں کو ایک بار محمد شاہاں، جو دیر کے گورنر تھے، نے جزیہ ادا کرنے پر مجبور کیا اور وہ یہاں سے بڑی تعداد میں مویشی اور گھوڑے لے گئے۔ یہاں کے لوگ آزاد ہیں اور دیر کو کوئی ٹیکس ادا نہیں کرتے۔