A JOURNEY TO KUMRAT VALLEY BY UZMA ARIF A Paradise on Earth Kumrat Valley

Latest

A JOURNEY TO KUMRAT VALLEY BY UZMA ARIF

سفرنامہ کمراٹ
Kumrat Valley journey

کمراٹ جانے سے پہلے ہی ہم نے ہوٹل اور جیپوں کی ایڈوانس بکنگ کروائی تھی۔ لیکن ایڈوانس بکنگ کے تجربے سے یہ سبق ملا ہے کہ آئندہ ایڈوانس بکنگ نہیں کروانی وہ کیوں یہ آپ کو پوسٹ پڑھ کر سمجھ آجائے گی ۔
صبح چھ بجے گھر سے نکلے سوات موٹروے کراس کر کے کمراٹ کی طرف چلے شرینگل تک راستہ ٹھیک تھا ۔ ہم اپنی گاڑیوں پر گئے تھے شرینگل سے آگے تھل تک جانا تھا ۔ تھل سے آگے جیپ پر کمراٹ جانا تھا ۔ جیپ ہماری تھل پر کھڑی تھی لیکن شیرنگل سے تھل تک پہنچنے تک تین سے چارگھنٹے لگ گئے کیونکہ راستہ سارا کچا ، اونچا نیچا، کھڈے اور ایک طرفہ تھا ۔ اور پہاڑی راستے پر رفتار بھی آہستہ رکھنی ہوتی ہے ۔
شرینگل بازار سے ہم پوچھتے پوچھتے آئے کہ تھل تک کتنا وقت لگے گا اور راستہ کیسا ہے ۔ شیر ینگل سے لے کر تھل سے جب دس پندرہ منٹ ہی دور رہ گئے تو تب تک ہر راہ چلتے مقامی بندے سے راستہ پوچھنے پر یہی جواب ملا کہ تین گھنٹے کا سفر رہ گیا ہے ۔ مطلب تین گھنٹے کا سفر ہم طے کر کے آچکے ہیں پھر بھی تین گھنٹے کا سفر رہتا ہے کمال ہے بہت ہنسی آئی ۔ شرینگل سے تھل تک اپنی گاڑی پر جانے کا تجربہ اچھا بھی تھا خراب راستے کی وجہ سے برا بھی تھا۔ اس سے یہی سبق ملا کہ شرینگل سے ہی جیپ کروا لینی چاہیے تھی ۔ اپنی گاڑیوں پر جانے والے دوستوں کو مشورہ ہے کہ اپنی گاڑیاں شرینگل میں کہیں پارکنگ میں کھڑی کریں اور جیپ شرینگل بازار سے ہی بک کروا لیں کیونکہ شرینگل بازار سے تھل تک راستہ بہت خراب ہے اپنی گاڑی کو نقصان پہنچانے والی بات ہے ۔
خیر اصل کہانی تھل پہنچ کرشروع ہوتی ہے ۔جن مقامی بھائی سے جیپ بک کروائی تھی گاڑیاں ان کے گھر پر پارک کی گئی۔جن بھائی صاحب سے جیپ بکنگ کروائی تھی وہ خود نہیں گئےانہوں نے آگے کمراٹ اپنے چھوٹے بھائی کو بھیج دیا ۔کمٹمنٹ یہ تھی کہ جیپ نے ہمیں کمراٹ لے کر جانا تھا جس ہوٹل میں بکنگ کروائی تھی اور اگلے دن ہمیں کمراٹ گھمانا تھا اور واپس ہماری گاڑیوں کی پارکنگ تک چھوڑنا تھا ۔
گاڑیاں پارک کر کے جیپ میں سامان لوڈ کر کے ہم سب جیپ میں بیٹھے عصر کا وقت ہو چکا تھا صبح چھ بجے کے گھر سے نکلے ہوئے تھے مسلسل سفر میں تھے ۔ جیپ والے بھائی نے تھل بازار میں جاکر جیپ روک دی جیپ کی سروس کروانے اور ٹائر چینج کروانے کے لیے ۔ اب یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ بھائی جب ایڈوانس بکنگ کروائی ہے تو آپ کی جیپ ریڈی کیوں نہیں ہے ۔ ہمارے آنے سے پہلے جیپ کا ہرکام کروا کر رکھیں ۔ خیر دوگھنٹے وہاں لگے کیونکہ ہم سے پہلے دوسری جیپ کا کام ہو رہا تھا ۔ مغرب کے بعد اندھیرا چار سو پھیرچکا تھا ہمارے ساتھ بچے تھے اور اب بچے صبح کے گاڑی میں بیٹھ بیٹھ کر تھک چکے تھے ۔ تھل سے کمراٹ تک کا سفر اندھیرے میں کیاگیا کچھ نظر نہیں آ رہا تھا کہ راستے میں کیا ہے - کہاں سے گزر رہے ہیں ہم -کدھر جا رہے بس کچے اور خراب راستے کی وجہ سے جھٹکے کھاتے رہے ۔
جیپ والے بھائی نے ہمیں مکمل اندھیرے میں ہوٹل کی پارکنگ میں پہنچایا ۔ وہاں جا کر دوسرا جھٹکا لگا کہ جو ہوٹل بک کروایا تھا یہ وہ نہیں ہے اس کی جگہ دوسرا ہوٹل دوسرا کمرہ دے رہے ہیں جب پوچھا جو تصویریں دکھائی تھی یہ وہ تو نہیں ہے تو کہنے لگے کہ وہ ہوٹل پولیس نے سیل کر دیا ہے ۔ رات ہو چکی تھی بچے ہمارے تنگ ہو رہے تھے ہم سب بھی تھکن سے چور تھے ۔ ایڈوانس بکنگ انسان اس لیے کرواتا ہے کہ منزل پر پہنچ کر بچوں اور فیملی کے ساتھ خوار نہ ہونا پڑے لیکن پاکستانی ہوں اور ٹھگی سے باز آجائیں ممکن نہیں ہے ۔صرف لڑکے ہوتے تو وہ دوسری طرح ڈیل کرتے لیکن ہمارے ساتھ بچوں اورخواتین ہونے کا فائدہ اٹھایا گیا کہ رات کے اس وقت یہ کہاں جائیں گے جو آفر کر رہے ہیں اسی پر گزارہ کریں گے ۔
یہ سب ایڈوانس بکنگ کروانے کا مقصد ہی یہ تھا کہ یہ ساری خجالت نہ ہو لیکن ایڈوانس بکنگ کروانے کے بعد بھی وہی سب کچھ جھیلنا پڑا جو کہ ہمارے لوگوں کا کام ہے دو نمبریاں کرنا ۔ ہوٹل والوں کو بھی پتہ ہے کہ رات کہ اس وقت کہاں جائیں گے بچے ہیں فیملی ہے ساتھ پھر ہوٹل میں ہی چار پانچ کمرے دیکھنے کے بعد ایک جو صاف ستھرا لگا اس میں سامان پہنچایا لیکن اس صورتحال سے موڈ بہت خرااب ہوگیا تھا کہ یار یہ کیا بکواس ہے ۔ اس تجربے سے بھی یہی سبق ملا کہ ایڈوانس بکنگ نہیں کروانی خود جاکر at the spot ہوٹل دیکھنا ہے ۔ خیر کمرے میں گئے سامان رکھا فریش ہوئے بچوں کو سب سے پہلے کھلایا پلایا فریش کیا ان کو سلایا ۔ گرم پانی برائے نام صرف سنک والے نلکے میں آرہا تھا ۔ وہ بھی تھوڑی دیر بعد ختم ہوگیا ۔ پورے دن سفر سے سر گھوم رہا تھا اور بھوک کے مارے برا حال تھا ۔ بھائی جا کر دیکھ کر آئے کہ کھانے میں کیا کیا پکا ہے سبزی میں بھنڈی تھی جس کا کوئی حال نہیں تھا یہی سوچا کہ چلو چکن کڑاہی کا آرڈر دیتے ہیں ۔ آرڈر دے دیا ۔ اور پھر جب تک کھانا آتا ہےسب سستانے لگے ۔ جب ڈنر پیش کیا گیا تو ایسی کڑاہی میں نے آج تک زندگی میں کہیں نہیں دیکھی تھی ۔ مصالحہ ایک دم جلا ہوا تھا ، کڑاہی کا برتن میلا کچیلا جس کی وجہ سے کڑاہی بھی بہت میلی کچیلی لگ رہی تھی اور روٹیاں کچی ۔ صرف بھوک ختم کرنے کے لیے زبردستی کچھ نوالے اس بد زائقہ جلی ہوئی کڑاہی کے کھائے اور باقی کھانا واپس بھیج دیا اور پھر ہم سب سو گئے ۔
صبح پانچ بجے جاگے تو پانی ٹھنڈا اور بجلی غائب تھی۔ ہوٹل والے عملے کے جو بھائی ڈیل کر رہے تھے ان سے بار بار کہا کہ جنریٹر آن کردو موبائل چارج کرنے ہیں تیار ہونا ہے مگر وہ کہتے رہے کہ شور سے باقی لوگ جاگ جائیں گے تو ہم نے یہی کہا کہ یہاں سونے تھوڑی آئیں ہیں گھومنے پھرنے آئیں ہیں صبح ہوگئی ہے ۔ مگر بھائی صاحب کے کانوں پر جوں نہیں رینگی ۔ ناشتے کے لئے ہم نے جو اپنے ساتھ انڈے رکھے تھے وہ دے کر آملیٹ بنوائے اور دودھ بھی ہمارا تھا اس کی چائے بنوائی اور پراٹھے ہوٹل سے لیے ناشتہ کرکے ہم لوگ جیپ میں بیٹھے اور پہلے ہم کمراٹ گلئیشیر کی طرف روانہ ہوئے ۔
صبح کی روشنی میں جب کمراٹ دیکھا تو پتہ چلا کہ کمراٹ کتنا خوبصورت ہے جیسے زمین پر ہی جنت کا ایک ٹکڑا مل گیا ہوا ۔ صاف و شفاف پانی بہہ رہا ہے درخت پہاڑ یہ سب مل کر انسان کو مسحور کر دیتے ہیں ۔ کمراٹ پہاڑوں کے درمیان ایک بہت ہی خوب صورت وادی ہے اور یہ سطریں لکھتے وقت میری آنکھوں کے سامنے پھر سے کمراٹ کے خوب صورت مناظر آ جا رہے ہیں میں ایک دفعہ پھر خود کو کمراٹ میں محسوس کر رہی ہوں ۔ قدرت کے وہ مسحور کن نظارے میری آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچا رہے ہیں ۔ کمراٹ کی وادی میں وہ بارش میں بھیگنا ، گلیشئر کی برف پر پھسلنا ، جیپ والے راستے کے آس پاس چار سو قدرت کے سو رنگ بکھرے پڑے تھے جو کہ میرے ذہن میں تاعمر محفوظ رہیں گے ۔ کمراٹ کی خوب صورتی کو بیان کرنے کے لیے ہزاروں صفحے کالے کیے جاسکتے ہیں پھر بھی کمراٹ کی divine خوب صورتی کو بیان کرنے کے لیے لفظ کم پڑ جائیں گے ۔ گلیشیر سے گھوم پھرکر ہم کمراٹ دریا پر واپس آئے وہاں چائے پکوڑوں کا آرڈر دیا ۔ چائے پکوڑے بہت مزے کے تھے مزہ آیا ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی ہم سب انجوائے کر رہے تھے اتنے میں ایک دم سے سرکاری جیپوں کا قافلہ نمودار ہوا اور آننا فاننا دریا کے پکنک پوائنٹ پر اس گاڑیوں کے قافلے نے بریکیں لگائی بلکل فلمی سین تھا ۔ سرکاری قافلہ اور بندوق بردار باڈی گارڈز ہر طرف پھیل گئےکسی نے منہ پر نقاب کیا ہوا تھا کسی نے نہیں کیا تھا ۔ کوئی سیاسی شخصیت تشریف لائی تھی جو کہ وہاں ہوٹل کے مالک کے ساتھ وہاں کے مسائل پر بات چیت کرنے آئی تھی لیکن اس سین میں ٹوئسٹ تب آیا جب اس سرکاری قافلے کے ایک باڈی گارڈ نے اپنی جیپ کے کھلے حصے میں پڑے سامان کو بارش سے بچانے کے لیے ہماری جیپ کے ٹائر پر کمبل ڈالا ہوا تھا( جو کہ سفر میں ہم نے ساتھ رکھا ہوا تھا راستے میں بچوں کے اوپر ڈالنے کے لیے ٹھنڈ سے بچانے کے لیے۔برف پر بچھا کر بیٹھے تھے جس کی وجہ سے گیلا ہوگیا تھا اس کو جیپ میں رکھنے کی بجائے جیپ کے باہر لگے ٹائر پر ڈال دیا تھا ) بنا پوچھے اتارا اور اٹھا کر جانے لگا میں نے دیکھا اور حیدر کو کہا وہ دیکھو ہمارا کمبل کہاں لے کر جا رہا ہے ۔ حیدر اس کی طرف بڑھا اور بولا یہ ہمارا کمبل ہے کہاں لے کر جار ہے ہو ۔ایسے کیسے لے کر جار ہے ہو ایک دم سے وہ شخص بولا سامان پر رکھنا ہے حیدر نے کہا بھائی یہ ہمارا کمبل ہے پوچھ کر بھی لے سکتے ہو یہ کیا طریقہ ہے ہر چیز کو مفت کا مال سمجھ رکھا ہے ایک دم سے باقی لوگ آگئے اور بیچ بچاو کروا دیا سوری معذرت کر لی ہمیں اس بات پر غصہ آیا کہ بھائی ہم وہاں کھڑے ہیں جیپ کے پاس ہمارا سامان ہے ہم سے پوچھ کر لے لو تو جب تک ہم وہاں تھے ہم دے دیتے آپ کو بنا پوچھے اپنے ابا کا مفت کا مال سمجھ کر اٹھا کر لے کر جانے کی کیا ضرورت ہے ۔ اس واقعے کے بعد ہم لوگ جیپ میں بیٹھ کر واپس کمراٹ آبشار کی طرف آئے ۔
ہم نے کمراٹ دو راتیں رکنا تھا مگر ان تمام ناقص انتطامی معاملات اور ہوٹل کی poor customer سروس کی وجہ سے ایک رات رکنے کے بعد واپسی کا فیصلہ کیا ۔ یہاں میں ان لوگوں کو جواب دوں گی جو کہتے ہیں کہ سیاحتی مقام پر ہوٹلز وغیرہ سیزن کا انتظار کرتے ہیں ۔ اور سیزن میں ہی قیمتیں زیادہ کی جاتی ہیں ۔ ہم نے ہر جگہ جو قیمت مانگی گئی ادا کی ہے۔ کہیں بھی کھانے پینے پر یا جیپ ہوٹل کی بکنگ پر پارکنگ قیمت پر بھاو تاو نہیں کیا اس بات کو سمجھتے ہوئے کہ ان علاقوں میں باقی جگہوں کی نسبت قیمتیں زیادہ ہونگی ان کا حق بنتا ہے لیکن اس سب کے نتیجے میں سیاح کوالٹی کی سہولیات ڈیزرو کرتے ہیں یا نہیں ؟ چکن کڑاہی آپ بے شک تین ہزار کی دیں مگر ڈھنگ کی تو بنا کر دیں ۔کیا آپ سے ایک دفعہ بھی کہا کہ پیسے کم کرو پھر آپ کھانے کا ، سروسز کا معیار برقرار کیوں نہیں رکھتے ڈنڈی کیوں مارتے ہو؟
اچھا آگے سے پھر آپ لوگ یہ تاویل دیتے ہو کہ کمراٹ میں ابھی چار پانچ سال ہوئے ہیں سیاح آنے شروع ہوئے ہیں تو ان لوگوں کو پتہ نہیں ہے سیاح کیسے ڈیل کرنے ہیں تو بھائیوں میں یہ سمجھتی ہوں کہ جب آپ کے پاس موبائل اور انٹرنیٹ پہنچ گیا ہے تو پھر آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہمیں کچھ پتہ نہیں ہے سیاحت کیا ہوتی ہے ؟ سیاحت کی دنیا میں بزنس کیسے چل رہا ہے ؟ دنیا میں بزنس کیسے ہو رہا ہے ؟ پوری دنیا آپ کی جیب میں موبائل کی صورت میں پڑی ہے استعمال آپ نے کرنا ہے اور سیکھنا ہے کوئی اور نہیں سکھائے گا ۔ اور اکثریت مقامی لوگ یہاں سے نکل باہر پاکستان کے دوسرے علاقوں میں بھی کام کرکے آئے ہوتے ہیں تو ان کو سب پتہ ہے پاکستان کے باقی علاقوں میں کیا چل رہا ہے ۔
کمراٹ سے واپس تھل آئے۔ تھل میں بھی ہوٹل ایڈوانس بک تھا ۔ جیپ کے ڈرائیور بھائی نے ہمارے ساتھ ہوٹل میں رکنا تھا مگر انہوں نے کہا کہ میں پانچ دن سے گھر نہیں گیا میں گھر جاوں گا صبح واپس آوںگا لیکن ان کی یہ پانچ دن والی بات ایسے جھوٹ ثابت ہوتی ہے کیونکہ ہم ان کے گھر سے ہی جیپ پر بیٹھ کر کمراٹ کی طرف گئے تھے یعنی وہ اپنے گھر پر ہی تھے تو یہ صرف ایک بہانہ تھا اپنی کمٹمنٹ پوری نہ کرنے کا ۔ انہیں ہم نے کہا صبح پھر چھ بجے پہنچ جانا ۔ وہ کہتےہیں آپ لوگ بارہ یہی بجا دو گے ہم نے کہ جی نہیں جناب ہم سات بجے ناشتہ کر کے یہاں سے نکل جائیں گے آپ صبح جلدی تشریف لائیں ۔
بھائی صاحب جیپ ہوٹل کی پارکنگ میں کھڑی کرکے اور ہمیں ہوٹل ڈراپ کرکے خود چلے گئے ۔ یہ والا ہوٹل پہلے والے ہوٹل کی نسبت اچھا تھا ۔ سامان وغیرہ رکھ کر ہم نے ہوٹل والوں سے کھانے کا پوچھا کچھ بھی تیار نہیں تھا آرڈر پر بنے گا ۔ہم نے سوچا کہ تھل بازار میں گھوم پھر کر دیکھتے ہیں اور کھانا بھی باہر سے کھاتے ہیں تھل بازار میں گھومنے نکلے ۔ تھل بازار مین کچھ خاص نہیں ہے ۔ کچی جگہ ہونے کی وجہ سے جگہ جگہ کیچڑ بنا ہوا تھا کیونکہ صبح بارش ہوئی تھی ۔ دکانیں بھی عام سی تھیں سیاحوں کی اٹریکشن کے لیے وہاں کچھ نہیں تھا۔ اسی طرح گھومتے پھرتے دو تین ہوٹلز پر کھانے کا پتہ کیا کسی کے پاس کچھ تیار نہیں تھا۔ گھوم پھر کر ایک اور ہوٹل نظر آیا وہاں کھانے میں دال ماش ، سبزی اور آلو گوشت بنا ہوا تھا ۔ پہلے میں نے ایک ایک چمچ سارے سالن چیک کیے کیونکہ پچھلی رات کی چکن کڑاہی واالے تجربے کی وجہ سے زہن میں یہی تھا کہ پتہ نہیں کیسا کھانا ہوگا ۔ لیکن دال ماش اور آلو گوشت ایک دم مزیدار بنا ہوا تھا۔ کھانے کا آرڈر دیا۔ ہمارے سامنے گرما گرم روٹیاں اور تازہ سلاد کاٹ کر کھانا پیش کیا گیا ۔ سچ میں پچھلے کھانے والے تجربے کی ساری کڑواہٹ تھل کے اس ہوٹل سے کھانا کھا کر ختم ہوگئی ۔ کھانے کے بعد خوش ہوکر چائے بھی نوش کی گئی ۔کھانے کا جتنا بھی بل بنا وہی بل دیا قیمت کم کروانے کی کوئی بحث وغیرہ نہیں کی۔ اچھا کھانا کھا کر موڈ بہت خوشگوار ہوگیا تھا اور یہی فیصلہ ہوا کہ صبح ناشتہ بھی یہیں سے کریں گے ۔ کھانا کھا کر پھر تھل بازار گھومتے گھامتے اپنے ہوٹل کی طرف چلے شاپنگ کے لیے کچھ خاص نظر نہیں آیا۔ ڈرائی فروٹس لینے تھے ایک شاپ سے دیکھے مگر وہ تازہ نہیں تھے پچھلے سال کے تھے ۔ تھل میں مردوں کی شدید گھوریوں کا سامنا کرنا پڑا کچھ الگ فیل نہیں ہوا کیونکہ پاکستان میں تقریبا ہر جگہ عورتوں کو ایسی ہی شدید اسکین کرتی ہوئی آنکھوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کو مہذب دنیا میں نظری جنسی تشدد کہا جاتا ہے۔ ہر بات پر جذباتی نہیں ہوجاتے۔ ایک مرد سیاح یہ نہیں لکھے گا کیونکہ اس کو ایسی صورتحال کو سامنا نہین کرنا پڑتا لیکن ایک عورت سیاح ہونے کے ناطے میں ہی یہ لکھوں گی ۔ اس لیے سینٹی نہیں ہونا چاہیے بات کو سمجھنا چاہیے ۔ عورتیں صرف اکا دکا پانی بھرتی جاتی نظر آئی باقی ہر جگہ مرد ہی مرد تھے ۔
ہوٹل واپس آئے مغرب ہوچکی تھی اور ہر طرف اندھیرا پھیل چکا تھا تھکے ہوئے مسافر اپنے کمروں میں سستانے چلے گئے۔ مائیں بچوں کو واش روم وغیرہ سے فری کر کے لوریاں دے کر سلانے لگی ۔ سارے دن کے سفر کی تھکاوٹ کے بعد بچے گرم گرم بستر میں گھستے ہی جلد ہی نیند کی وادی میں چلے گئے ۔ بچے سو چکے تھے ۔ رات چاروں طرف اپنے پر پھیلا چکی تھی۔ ہم بڑوں میں سے بھی کچھ سو چکے تھے کچھ جوان جاگ رہے تھے ہم کمروں سے نکل کر باہر ٹیرس پر رکھے صوفوں پر بیٹھ گئے ۔ آسمان تاروں سے بھرا تھا ہوٹل کے سامنے دریا شور مچاتا ٹھاٹیں مارتابہتا جا رہا تھا ۔ بہتے دریا کے پانی کے شور سے رات کی تاریکی میں ایک خوشگوار احساس پیدا ہو رہا تھا ایک منفرد موسیقی جنم لے رہی تھی جو کانوں کو بھلی لگ رہی تھی ۔ قدرت کے ساتھ جڑت کے اس احساس نےاندر تک سرشار کر دیا تھا ۔ سچ تو یہی ہے کہ سیاح اپنی روزمرہ کی شہری روٹین سے نکل کر کچھ دنوں کے لیے شمالی علاقہ جات میں قدرت کی آغوش میں تھکن اتارنے جاتے ہیں بس ۔ ۔۔۔۔۔۔
خیر آگے بڑھتے ہیں۔ میں کہیںں بھی جاوں مجھے وہاں تکے کھانا بہت پسند ہے۔ حیدر سے کہا تکے کھاتے ہیں اس نے جا کر پوچھا تو ہوٹل کے عملے نے کہا آرڈر پر پورا چکن باربی کیو ہوگا ۔ جیسے یہاں شہروں میں الگ سے سیخیں مل جاتی ہیں وہاں ایسا سین نہیں ہوتا۔ پیٹ پوجا تو ہم پہلے ہی کر چکے تھے اس لیے پورے چکن کی پیٹ میں جگہ نہیں تھی صرف اپنے چسکے کے لئے تکے کھانے تھے ۔پھر یہی سوچا چلو قہوہ اور ابلے انڈے کھا لیتے ہیں ۔ آرڈر دے کر ہم ٹیرس پر بیٹھ کر گپ شپ کرنے لگے ۔ باتیں کرتے کرتے آدھا گھنٹہ گزر گیا اوپر سے آواز لگا کر پوچھا بھائی قہوہ اور انڈے تیار ہوگئے جواب آیا ۔ ہو رہے ہیں تیار ۔
ہم پھر خوش گپیوں میں لگ گئے ایک گھنٹہ مزید گزر گیا ۔ اب نیند کے ہلکے ہلکے ہلکورے مجھے آنے لگے تھے پھر حیدر سے کہا پوچھو یار قہوہ اور ابلے انڈے کہاں رہ گئے ہیں کتنی دیر لگے گی ۔ پھر پوچھا گیا پھر جواب آیا بنا رہے ہیں ۔
باتیں کرتے کرتے دوگھنٹے گزر گئے اب برداشت ختم ہوچکی تھی اب ہم جھنجھلا چکے تھے ۔ حیدر نے پھر پوچھا بھائی کتنا ٹائم ہے جواب آیا سلنڈر میں گیس نہیں ہے۔ یہ جواب سن کر ہم سب کا میٹر شاٹ ہوگیا کہ دو گھنٹے سے پھر یہ کیوں بول رہے ہو کہ بنا رہے ہیں لا رہے ہیں پہلے ہی بتا دیتے کہ گیس ختم ہوگئی ہے ہم اتنا انتظار نہ کرتے نا ہم نے مائنڈ کرنا تھا مگر بات تو صاف صاف بتاو ۔چکر کیوں دیتے ہو کہ بنا رہے ہیں لا رہے ہیں ۔ بہت غصہ آیا اور پھر موڈ آف گیا۔ آف موڈ کے ساتھ ہم کمرے میں جا کر سوگئے۔ صبح چھ بجے جاگے تو جیپ کا ٹائر راتوں رات کھڑے کھڑے پکنچر ہو چکا تھا ۔ بھائی نے خود اسٹپنی لگائی ہم نے ناشتہ کیا اور سات بجے تک ہمارے ڈرائیور کا کوئی اتا پتہ نہیں تھا ۔ ہوٹل والے ہم۔سے اکھڑے تھے ہم ہوٹل والوں سے اکھڑے اکھڑے تھے۔ بھائی نے خود جیپ ڈرائیو کی اور ہم جیپ خود ڈرائیو کرتے ہوئے اپنے ڈرائیور کے گھر تک پہنچے وہاں سے ان کو پیسے دئیے اپنی گاڑیوں میں سامان رکھا اور کمراٹ تھل کو الوداع کرتے ہوئے واپسی کی طرف چلے ۔
نوٹ1: یہ پوسٹ لکھنے کے مجھے پیسے نہیں ملے ۔
نوٹ 2 : میں نے کسی قوم کا نام لے کر فرقہ واریت کو ہوا دینے کی کوشش نہیں کی جیسا کہ مجھ پر کسی خاص قوم یا علاقے کے بارے میں نفرت پھیلانے کے الزامات لگائے گئے ۔
نوٹ 3: کسی قوم کا نام لے کر ان کی دل آزاری کرنے کی کوشش نہیں کی ۔ سب اپنے ہیں
نوٹ 4: سفر کے دوران پیش آنے والے انتظامی امور سے متعلق معاملات اور کسٹمر سروس سے جڑے تجربات من و عن بیان کر دئیے ہیں ۔ نوٹ 5: ہوٹلز ، جیپ کی بکنگ بھائی نے ایڈوانس کروائی تھی اس لیے مجھے کسی ہوٹل یا جیپ سروس کا نام نہیں پتہ نا میں نے ناموں پر دھیان دیا اس لیے مجھے سے نام وغیرہ نا پوچھیں جائیں ۔ اگر پتہ ہوتا تب بھی میں نے اس لیے نہین بتانے تھے کہ نام لے کر میں کسی کو بدنام کرنے کی کوشش نہیں کر رہی ۔