کمراٹ سے باہر کی دنیا کو کیسے دور رکھنا ہے یہ ہمارے بزرگ بہت اچھی طرح جانتے تھے یہاں تک کہ نوابان دیر نے بھی کبھی ہمت نہیں کی وہ بذاتِ خود بالائی پنجکوڑہ آتے۔ جب بھی ضرورت پڑی انہوں نے اپنی بیگمات کو بھیجا بدلے میں ہمارے بزرگوں نے انہیں مقامی دستور کے مطابق چادر کے طور پر مختلف چراگاہیں اور علاقے دیئے۔ نوابان دیر نے بعد میں ان جگہوں پر پشتون اور گوجر آباد کیئے جو ریاست کے ختم ہونے کے بعد آہستہ آہستہ ایک ایک کرکے مالک بن گئے۔
90 کی دہائی میں نواز شریف صاحب دو بار کمراٹ آئے تھے۔ پہلی بار کے بارے میں نہیں معلوم البتہ دوسری بار جب وہ آئے تو مقامی لوگوں نے رات کے وقت ان کے کیمپ کے اوپر پر فائرنگ کی۔ صبح ہونے کے بعد جب پوچھ گچھ شروع ہوئی تو مقامی بزرگوں نے بہانہ کیا کہ پہاڑی علاقہ ہے لوگ شکار کھیلنے آتے ہیں شائد کسی جانور سے سامنا ہوا ہوگا۔ یہ سب سن کر عجیب لگتا ہے لیکن صد فیصد حقیقت ہے سامنے چاہیے کوئی بھی تھا ہمارے بزرگوں نے کمراٹ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔
کمراٹ صرف تھل کے لوگوں کے نزدیک حساس جگہ نہیں تھی بلکہ اس پورے بالائی پنجکوڑہ کے داردی لوگوں کے نزدیک یہ انتہائی حساس اور اہم جگہ تھی جہاں سے باہر کے لوگوں کو دور رکھنے کے لئے انہوں نے جانوں کے نذرانے پیش کیئے۔ یہی وجہ ہے کہ بعد کے ادوارِ میں نواب کو ٹیکس کی شکل میں دی جانی والی لکڑی میں سے کمراٹ سے کوئی درخت نہیں کاٹا گیا بلکہ دوسرے گاؤں دیہاتوں کے جنگلوں سے وہ لکڑی پوری کی گئی۔ سب سے زیادہ درخت گوالدی اور اس کے بعد بیاڑ بالخصوص رامگل کے جنگل سے کاٹے گئے تھے۔ دو ہزار گیارہ میں بڑے بھائی منیر کوہستانی نے کمراٹ ویلی کے نام سے پیج بنا کر دنیا کو کمراٹ کی خوبصورتی دیکھانے کی کوشش کی۔ اگرچہ اس وقت بہت ہی کم مقامی لوگوں کو سوشل میڈیا کے بارے میں پتہ تھا لیکن اس کے باجود انتہائی شدید ردعمل آیا۔ پیج کے اوپر اس وقت کے کمینٹس میں دی گئی گالیاں گواہ ہے کہ کمراٹ اس وقت بھی اتنا ہی حساس تھا جتنا ماضی میں تھا۔ بعد میں جب ہم نے اس علاقے پر لکھنا شروع کیا تو سماجی دباؤ کے وجہ سے گمنام کوہستانی کے نام سے لکھنا پڑا۔ سالوں تک کسی کو پتہ نہیں تھا کہ یہ اکاؤنٹ کس کا ہے۔ میرے سامنے کئی بار لوگوں نے دل کھول کر گمنام کوہستانی کو گالیاں دی ہے۔ یقین کامل ہے اگر انہیں پتہ ہوتا کہ یہی گمنام کوہستانی ہے تو ادھر ہی معاملہ ختم کر دیتے۔ 2013 کے بعد آہستہ آہستہ باہر کے لوگوں نے آنا شروع کیا یوں مقامی لوگوں کو بھی آہستہ آہستہ اندازہ ہوا کہ مہمانوں کے آنے سے انہیں بھی کچھ مل سکتا ہے۔ لیکن پھر بھی کافی مشکلات تھی۔ راہ چلتے یا کسی گاڑی میں اگر کسی کو پتہ چلتا کہ یہ گمنام کوہستانی ہے تو مار دھاڑ نہ سہی گالیاں تو بہت دیتے تھے۔ سب کا ایک ہی خوف تھا کہ باہر کے لوگ آئیں گے تو ہمارا کلچر تباہ ہو جائے گا۔ ثقافت کے نام پر یہ اپنی خواتین سے ڈرتے تھے کہ کہیں شہری عورتوں کو دیکھ کر ہماری عورتیں بھی پینٹ شرٹ نہ پہننا شروع کر دیں۔ لمبی کہانی ہے بڑی مشکلوں سے بزرگوں کے ساتھ میٹنگز کیے بڑی مشکلوں سے لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔
خیر وہ سب اپنی جگہ لیکن آج یہ حال ہے کہ دنیا بھر سے سیاح بلا خوف و خطر کمراٹ ویلی آ رہے ہیں۔ پاکستانی سیاح تو خیر اپنے لوگ ہیں لیکن غیر ملکی سیاح کو دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے۔ اس خوبصورت علاقے میں مہمانوں کو آمن و امان سے گھومنے پھرنے میں مقامی جوانوں سمیت مقامی پولیس نے اہم کردار ادا کیا ہے ورنہ بزرگ تو اب بھی نہیں چاہتے کہ کوئی یہاں آئے۔ یہ مقامی جوان تھے جنہوں ہندوکش کے ان گمنام وادیوں کے بارے میں دنیا کو بتایا یہ مقامی پولیس تھی جن کی کوششوں سے سیاحوں میں اعتماد پیدا ہوا اور وہ آج بلا خوف و خطر کہیں بھی گھوم پھر سکتے ہیں۔ زیر نظر تصویر میں نظر آنے والے سیاح کا نام ایلیس جولیس اور تعلق فرانس سے ہے۔ جولیس کے ساتھ موجود جوانوں کا تعلق تھل پولیس سٹیشن سے ہیں۔ تھل پولیس سٹیشن کمراٹ آنے والے تمام غیر ملکی سیاحوں کو نہ صرف سیکورٹی دیتا ہے بلکہ جوان مہمانوں کے سیکورٹی کے ساتھ ساتھ فری میں گائڈ بھی بن جاتے ہیں بلکہ بعض اوقات اپنے جیب خرچ سے ان کی مہمان نوازی بھی کرتے ہیں۔ نہیں یاد کہ کبھی غیر ملکی مہمانوں کی مہمان نوازی کیئے بغیر کسی کو جانے دیا ہو زیادہ نہ سہی ایک کپ چائے تو ساتھ ضرور پیتے ہیں۔ مستقبل کا مورخ ہندوکش کے اس حصے میں سیاحت کی فروغ اور امن قائم کرنے کے لئے مقامی پولیس کی قربانیوں کا ذکر کئے بغیر اپنا کام مکمل نہیں کر سکتا۔ یہ مقامی پولیس تھی جنہوں نے خون بہا کر ان علاقوں میں امن کو برقرار رکھا۔ یہ مقامی پولیس ہے جنہوں نے غیر ملکی سیاحوں میں اتنا اعتماد پیدا کیا کہ وہ آج وہ بلا خوف و خطر کمراٹ ویلی آ سکتے ہیں۔