HISTORY OF DIR STATE AND GAWRI A Paradise on Earth Kumrat Valley

Latest

HISTORY OF DIR STATE AND GAWRI

ریاست دیر کی تاریخ اور گاوری
تحریر: گمنام کوہستانی
ریاست دیر پر قلم اٹھانے والوں سے ہمیشہ یہ شکوہ رہے گا کہ انہوں نے دیر کی تاریخ کو مسخ کیا، ان لوگوں نے یہاں پر اپنی حکمرانی کے قصے تو لکھے ہیں لیکن جس قوم سے یہ سب کچھ چھینا تھا ان کا ذکر نہیں کیا۔ آپ ریاست دیر پر لکھی گئی کسی بھی کتاب کو اُٹھائے اس میں یہ تو لکھا ہوگا کہ سن 1804 میں خان ظفر خان نے یوسفزئی جنگجوں کے لشکر کے مدد سے دیر خاص پر حملہ کرکے یہاں حکمران کوہستانی غیر مسلم شاہی خاندان کو شکست دی، ان کے قلعے کو تہس نہس کیا اور دیر میں ایک پشتون ریاست کی داغ بیل ڈالی لیکن یہ نہیں لکھا ہوگا کہ کوہستانی شاہی خاندان کدھر گیا؟ کیا سب کے سب مارے گئے ؟، اگر بھاگ گئے تو کدھر ؟؟۔ ان کے پاس ان سوالوں کے جوابات نہیں ہے۔
Before 1500 AD, Dir upper was ruled by the pagan tribe of Dir Kohistan commonly known as Kohistani Tribes. After invasion of  of Yousafzai on Dir State, the mostly royal family has been massacred and the remaining fled to Chitral or Gilgit..
دیر کے قدیم ناموں دیرواتی، گوری، گورائے، باشکار، درد، دھیرہ کا ذکر تو کیا لیکن دیر کی سب سے قدیم قوم کون سی ہے اس کا ذکر گھول کر گئے، لفظ دیر کو کبھی سنسکرت کا لفظ کہا تو کبھی اسے عربی کا جامہ پہنایا گیا لیکن دیر کی سب سے قدیم زبان گاوری میں اس کے معنی ڈھونڈنے کی کسی نے کوشش نہیں کی ۔ دریائے پنجکوڑہ کو پانچ ندیوں کا نام دے کر ہمارے کوڑ داد کے پوری نسل کھا گئے۔ آخون سالاک کے جہاد کی کہانیاں تو مزے مزے سے بیان کی لیکن اس جہاد کے چکر میں جو لوٹ مار ہوئی اس کا ذکر کرنا بھول گئے۔ یہ تو یاد رہا کہ کس طرح آخون سالاک نے پشتون لشکر کے مدد سے کوہستان دیر پر حملہ کرکے وہاں موجود غیر مسلم کوہستانیوں کے خلاف جہاد کیا اور انہیں مسلمان کرایا لیکن یہ نہیں لکھا کہ کس طرح کوہستان کے مفتوح قوم کے گاوں دیہات کے نام تبدیل کئے گئے، کس طرح مفتوح قوم کے شاندارماضی کے یادگاروں پر کافر کا لیبل لگاکر انہیں صفہ ہستی سے مٹادیا گیا، کس طرح مفتوح قوم کے کلچر کا مذاق اڑایا گیا، کس طرح ان کے تہواروں کو کافروں کے تہوار کہہ کر ان کو حرام قرار دیا، کس طرح لفظ کوہستانی کو اتنا بدنام کیا کہ مفتوح قوم کے پاس فاتح کے قوم میں ضم ہونے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا، کس طرح مفتوح قوم کے باپ دادا کو کافر کہہ کر ان کا مذاق اڑایا گیا، کس طرح ان کے مزاروں کے خلاف اعلان جہاد کرکے انہیں مسمار کیا، کس طرح مفتوح قوم کی شناخت مٹانے کی کامیاب کوشش کی گئی ۔

عمرا خان کو افغان نپولین اور غازی کا نام دے کر ان کے کارناموں کے بارے میں تو دنیا کو بتا دیا لیکن یہ نہیں بتایا کہ اسی عمرا خان نے دیر کوہستان کے راجکوٹ ( پاتراک ) سے لے کر تھل تک ہر گاوں کو مسجد سمیت جلایا اور تھل کے مقام پر داردیک گاوری نسل کے ڈھائی سو لوگوں کو شہید کیا۔ پالام بابا کے بزرگی کے بارے میں تو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں لیکن یہ بھول گئے کہ یہی بزرگ پالام بابا کوہستانیوں سے صرف اس وجہ سے ناراض ہوگئے تھے کہ انہوں نے پالام بابا کو کمراٹ دینے سے انکار کیا تھا۔ جب ہم لوگ دنیا کو سچائی بتانے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ لوگ ناراض ہوجاتے ہیں ، آپ لوگ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اس سارے معاملے میں ہم لوگ دوسرا فریق ہے ، ہم سے ہمارا وطن چھینا گیا، اقتدار چھینا گیا ہمیں مجبور کیا کہ ہم پشتون ولی میں ضم ہوجائے۔

لوگوں نے ان کی کتابیں پڑھی ہے اصل حقائق کیا ہے کسی کو نہیں معلوم اس لئے جب ہم آخون سالاک یا اس وقت کھیلے گئے اس ڈرامے کے کرداروں کے بارے میں سوال اٹھاتے ہیں تو فوراٰ فتوی داغ دیتے ہیں ، فتوئ نہیں جواب دو صاحب ، ہم اس پورے کھیل میں مخالف فریق تھے اس لئے سوال تو بنتا ہے، آج تک ریاست دیر پر جتنی بھی کتابیں لکھی گئی ہے وہ صرف فاتح قوم کی تاریخ ہے مفتوح قوم پر کیا گذری کسی نے اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کی۔ آج تک دنیا کو ان حقائق کے بارے میں اس لئے معلوم نہ ہو سکا کہ ہم میں سے کوئی ایسا پیدا ہی نہیں ہوا جو دنیا کو یہ بتا دے کہ ہندوکش کے شاخ ہندوراج میں کیا کھیل کھیلا گیا تھا، اب اگر ہم میں سے کوئی اس ڈرامے پر انگلی اٹھاتا ہے تو آپ لوگ فتویٰ لگاتے ہو، فتویٰ نہیں جواب چاہئے۔