لاہور سے کمراٹ ویلی، جہازبانڈہ اور باڈگوئی ٹاپ تک سفر رودادحصہ ششم
(یہ تحریر پہلی بار 2016 میں شئر کیا گیا تھا جس کو آج سے دوبارہ آکے خدمت میں پیش کیا جاتا ہے)
مچھلی کے ناکام شکار کے دوران ہی آسمان پر گہرے سیاہ بادلوں نے راج کرلیا تھا، کسی بھی وقت آندھی اور طوفان کے ساتھ شدید بارش کا امکان تھا ایسے میں صہیب الدین کاکا خیل کی جانب سے واپسی کا اعلان کیا گیا۔ چار و ناچار واپسی کے لئے گاڑی پر سوار ہوئے، قدرت کے نظاروں سے مزید لطف اندوز ہونے کے لئے میں نے جیپ کی چھت پر بیٹھنے کو ترجیح دی اور یوں ہمارا کارواں کمراٹ کی خیمہ بستی میں پہنچ گیا۔ ہوٹل والوں نے ہمارے لئے دوپہر کا کھانا تیار کر رکھا تھا جس پر ہم فوری جھپٹ پڑے اور پلک جھپکنے میں دستر خوان سے تمام اشیاء کا صفایا کردیا۔ نماز مغرب کا وقت ہوا جا رہا تھا اس لئے کھانے کے فوری بعد نماز ادا کی۔ اس دوران مقامی افراد کی جانب سے ہمارے لئے ایک مینڈھے کا انتظام کیا ہوا تھا جسے ذبح کرکے ہم نے خود ہی پکانا تھا۔ رات کے سائے گہرے ہوتے ہیں، مینڈھے کو ذبح کیا گیا اور جنگل میں لکڑیاں جلا کر کیمپ فائر کا ماحول بنا دیا۔
تمام نوجوان سیاح درویشوں کی طرح آگ کے الاؤ کے گرد جمع ہوکر خوش گپیوں میں مگن ہوگئے۔ رات کو مینڈھے کے گوشت کے ساتھ پختونوں والا سلوک کیا گیا، تین قسم کے کھانے ایک مینڈھے کے گوشت سے بنائے گئے اور کچھ بچا کر صبح کے ناشتے کے لئے رکھ لئے گئے۔ صبح اس جنت نظیر وادی سے واپسی کی راہ لی اور رات گئے ہم نے مردان میں قیام کیا۔ اس قیام پر بھی ایک تحریر لکھی جاسکتی ہے۔ مردان میں میزبانوں کی مہمان نوازی لاجواب تھی، سیاحوں کو اس جنت نظیر وادی کا دورہ کرانے میں جہاں ایم این اے محمد علی کی ذاتی دلچسپی تھی وہیں اس میں نوجوان طالب علم داؤد احمد درانی کی خصوصی کوششیں اور روابط بھی شامل تھے، ان کی کوششیں اور انتظامات واقعی لاجواب تھے۔ اگر آپ اس وادی میں جانا چاہتے ہیں تو یہ چند درج ذیل نکات ذہن میں رکھئے!
آپ تیمرگیرہ یا دیر بالا تک لوکل بس پر جائیں۔
دیر بالا سے جیپ کرائے پر حاصل کریں جس میں جیپ کا ایندھن آپ کے ذمہ ہوگا، جبکہ جیپ کا مالک 4 سے 5 ہزار یومیہ معاوضہ طلب کرسکتا ہے۔
جیپ سارے سفر کے دوران 35 سے 40 لیٹر ایندھن استعمال کرے گی۔
سفر کے دوران خیمے اور کیمپنگ کا سامان ہمراہ رکھیں۔
وادی میں ہوٹلز کم ہیں اکثر اوقات آپ کو خود کھانا بنانا پڑسکتا ہے۔
گرم کپڑے چادر وغیرہ لازماً رکھیں۔
اگر آپ خاتون ہیں تو سفر کے دوران پردے کا اہتمام کریں اور پختون روایا ت کی پاسداری کا خیال رکھیں۔
اگر آپ کا گروہ مرد و خواتین پر مشتمل ہے تو آبادیوں میں ہلا گلا کرنے سے گریز کریں۔
کسی بچے کو تحفہ نہ دیں کیوں کہ بچوں کو نقدی کی صورت میں تحفہ یہاں کے لوگوں کو ایک آنکھ نہیں بہاتا۔
یہاں کوہستانی قبیلے کے افراد آباد ہیں مہمان نوازی کا جذبہ ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے کسی کی دعوت کو ٹھکرا کر اس کی دل آزاری نہ کریں۔
تصاویر کشی صرف قدرتی مناظر کی کریں، خواتین کی تصاویر بنانے کی غلطی قطعًا نہ کریں۔
اس علاقے میں صرف دو نجی موبائل کمپنیوں کی سروس ہے اس لئے کوشش کریں کہ بیرونی دنیا سے رابطے کے لئے انہی کمپنیوں کے نمبرز آپ کے پاس موجود ہوں۔
موبائل اور کیمرے کا استعمال احتیاط سے کریں کیوںکہ آپ کو چارجنگ کے مسائل پیش آسکتے ہیں۔۔(ختم شد)