رونز
تحریر : گمنام کوہستانی
گاؤری اور کلکوٹی میں اس جانور کو رونز کہتے ہیں۔ اس جانور کے ناف میں خوشبو کی ایک چھوٹی سی تھیلی نما گھٹلی ہوتی ہے جس کی بڑی مانگ ہے۔ ماضی قریب تک کیل اور شرہ ( مارخور اور آئی بیکس) کی طرح رونز بھی ہمارے ہاں بکثرت پائے جاتے تھے۔ بزرگوں کے بقول بندوق کے آنے تک بالائی پنجکوڑہ کے جنگلوں میں شرہ، کیل اور رونز کے بڑے بڑے ریوڑ ہوا کرتے تھے۔ اس وقت کے لوگ شکار کے لئے عمومآ تیر کمان استعمال کرتے تھے اور شکار بھی مخصوص وقت اور حسب ضرورت کرتے تھے۔ شکار بھی دو طرح کیا جاتا تھا انفرادی اور اجتماعی۔ انفرادی شکار میں فرد یا کچھ لوگ مل کر شکار کرتے جیسا کہ آج کل کرتے ہیں اور اجتماعی شکار میں پورا گاؤں، قبیلہ شریک ہوتا تھا۔ اس وقت شکار ضروری تھا مقامی لوگ مؤسم خزاں میں شکار کرکے گوشت طویل سردیوں کے لئے محفوظ کرتے تاکہ سردیوں میں کھا سکے۔
بعد میں جب بندوق آیا تو سب کچھ تباہ ہوگیا۔ بندوق کے آنے کے بعد ان جانوروں کا بے دریغ شکار شروع ہوا۔ پہلے ایک آدھ بندہ شکاری تھا اب ہر ایک شکاری بن گیا۔ ان نایاب جنگلی جانوروں کی نسلی کشی میں اس وقت شدت آئی جب کاروباری شکار شروع ہوا۔ مارخور، کیل کے سینگ اور رونز کے ناف میں مشک وغیرہ کے وجہ سے کاروباری شکاریوں نے بلا تفریق سیزن، چھوٹے، بڑے، نر مادہ شکار شروع کیا۔ یوں کچھ ہی سالوں میں ان نایاب جانوروں کے بڑے بڑے ریوڑ یوں غائب ہوئے جیسے تھے ہی نہیں۔ کلکوٹ کے پہاڑ روموش کے لئے مشہور تھے۔ کچھ سال پہلے کلکوٹ کے ایک پہاڑی چوٹی کے دامن میں ایک رونز دیکھا گیا تھا۔ نہیں معلوم پنجکوڑہ کے بلند اور گھنے جنگلوں کا یہ آخری رونز اب تک زندہ ہے یا یہ بھی اپنے ہم نسل دوسرے جانوروں کی طرح شکار ہوا۔ لیکن اس کے علاؤہ اس وقت شائد ہی پورے سوات و دیر کے پہاڑوں میں کوئی رونز موجود ہو۔
پنجکوڑہ جس طرح ہمارا گھر تھا ان جانوروں کا بھی گھر تھا لیکن ہم اشرف المخلوقات انہیں بلا ضرورت کھا گئے یوں ان کی نسل مٹ گئی۔ آنے والی نسلوں کو ان جانوروں کے نام بھی معلوم نہیں ہوں گے۔