اندرونی کالونائیزیشن اور داردی
تحریر: گمنام کوہستانی
جہاں ہم رہتے ہیں یہاں ہمارے بزرگ صدیوں پہلے آئے تھے۔ تمام تر تاریخی اور آثار قدیمہ کے شہادت کے مطابق داردی قبائل موجودہ علاقوں میں آنے سے پہلے میدانی علاقوں میں آباد تھے۔ بالائی سوات میں آباد توروالی اور گاوری قبائل، بالائی پنجکوڑہ اور چترال کے گوار قبائل سمیت انڈس میں آباد گور قبائل اور چھیلس قبائل پشتون قبائل کے آنے سے پہلے زیریں دیر سوات بنیر اور باجوڑ میں رہتے تھے۔ کچھ لوگ نورستان اور کنڑ کے علاقوں کے طرف بھی گئے۔ لمغان سے لے کر کونڑ، کاپیسا لمغان، باجوڑ، دیر سوات اور انڈس تک اس پورے علاقے پر پشتون قبائل ایک دم قابض نہیں ہوئے۔ یوسفزئی قبائل نے پہلے ہشت نگر کے علاقوں سے مقامی دیگان، شلمانی اور دلہ زاک قبائل کو بے دخل کیا، پھر سوات پر حملہ کیا اور آہستہ آہستہ میدانی علاقوں پر قابض ہوئے۔ انڈس کے میدانی علاقوں میں آباد ڈوما قبائل کو بالائی انڈس کے پہاڑی علاقوں کے طرف دھکیلا گیا۔
جنوب کے طرف ہونے والے ان حملوں سے پہلے پشتون لمغانات، کونڑ اور پیچ سمیت نور درہ تک پھیل چکے تھے۔ مقامی لوگوں نے بے جگری سے آنے والوں کا مقابلہ کیا تھا۔ سوات کا تیرات ہو یا بالائی پنجکوڑہ کے گاوں دیہات میں لڑنے والے مقامی لوگ، یوسفزیوں بزرگوں نے خود ان لوگوں کی بہادری کی تعریف کی ہے۔ مقامی لوگوں کی جنگ صرف یوسفزئی یا پشتون قبائل سے نہیں تھی بلکہ جہاد کے نام پر حملہ آوروں کے لشکر میں دوسرے قوم قبیلوں کے مسلمان بھی تھے۔ مقامی قبائل چونکہ اپنے قدیم مذاہب کے پیروکار تھے تو یہ کافروں اور مسلمانوں کے درمیان جنگ تھی۔ آخون کریم داد، آخون سالاک، آخون پنجو، میاں قاسم اور دوسرے مذہبی بزرگوں کی دعاوں سے یوسفزئی قبائل دوسرے مسلمان پشتون غیر پشتون گجر قبائل وغیرہ کی مدد سے مقامی قبائل کو دکھیلتے دکھیلتے موجودہ علاقوں تک لے آئے۔ اس مذہب تبدیلی کی صورت میں مقامی لوگوں کو پرانے مذہب کے ساتھ ساتھ مادری زبان ثقافت شناخت سب سے ہاتھ دھونا پڑتا تھا۔ نئے مذہب کے ساتھ نئی شناخت اور زبان بھی ملتی تھی۔
یہ ایسا ہی ہوا جیسا آج کے کلاشہ کے ساتھ ہوا۔ یہاں ہم دیکھ رہے ہیں تبدیلی مذہب کے ساتھ زبان، شناخت سب کچھ تبدیل ہوجاتا ہے۔ نئے مذہب کے پہچنے کے صورت میں دو ہی راستے ہوا کرتے تھے۔ قبول کرو یا ہجرت کرو۔ ہجرت دوسرے علاقے میں موجود ہم نسل لوگوں کی علاقے کی طرف کی جاتی تھی۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ ہجرت کرنے والوں نے دوسرے علاقے میں آباد لوگوں کو بے دخل کیا اور خود بس گئے۔ جہاں جہاں گئے وہاں یا تو مقامی زبان اپنائی یا مقامیوں نے نئے آنے والوں کی زبان اپنائی کام دیش کے کام قبائل اس کا سب بڑا ثبوت ہے۔ باہر کے علاقوں کے طرف جو گئے ان کے بارے میں کسی کو بھی نہیں معلوم۔ آج ہم جب شمال کے داردی قبائل کی ماضی کے تاریخ پر نظر دوڑاتے ہیں تو ایک ہی قبیلے کے لوگ مختلف علاقوں میں مخلتف ناموں، زبانوں کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ دیر کے گورائے یا گورین کہیں گور کہلائے، کہیں بشقاریک، کہیں گوار بیتی اور کہیں گاوری۔ سب مختلف علاقوں میں ایک دوسرے سے ملتی جلتی داردی زبان بولتے ہیں اور سب کے سب زیریں دیر اور سوات باجوڑ سے موجودہ علاقوں میں گئے ہیں۔ اس وقت جس کو جہاں جگہ ملی اس نے وہاں کا رخ کیا۔ اوچ زیریں دیر میں آباد مقامی لوگوں پر جب حملہ ہوا تو زیادہ تر لوگ مارے گئے۔ کچھ لوگ نورستان فرار ہوئے، وہاں سے کچھ پھر چترال جنجریت کوہ آئے اور بعد میں مسلمان ہوئے۔
یہ ایسا ہی ہوا جیسا آج کے کلاشہ کے ساتھ ہوا۔ یہاں ہم دیکھ رہے ہیں تبدیلی مذہب کے ساتھ زبان، شناخت سب کچھ تبدیل ہوجاتا ہے۔ نئے مذہب کے پہچنے کے صورت میں دو ہی راستے ہوا کرتے تھے۔ قبول کرو یا ہجرت کرو۔ ہجرت دوسرے علاقے میں موجود ہم نسل لوگوں کی علاقے کی طرف کی جاتی تھی۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ ہجرت کرنے والوں نے دوسرے علاقے میں آباد لوگوں کو بے دخل کیا اور خود بس گئے۔ جہاں جہاں گئے وہاں یا تو مقامی زبان اپنائی یا مقامیوں نے نئے آنے والوں کی زبان اپنائی کام دیش کے کام قبائل اس کا سب بڑا ثبوت ہے۔ باہر کے علاقوں کے طرف جو گئے ان کے بارے میں کسی کو بھی نہیں معلوم۔ آج ہم جب شمال کے داردی قبائل کی ماضی کے تاریخ پر نظر دوڑاتے ہیں تو ایک ہی قبیلے کے لوگ مختلف علاقوں میں مخلتف ناموں، زبانوں کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ دیر کے گورائے یا گورین کہیں گور کہلائے، کہیں بشقاریک، کہیں گوار بیتی اور کہیں گاوری۔ سب مختلف علاقوں میں ایک دوسرے سے ملتی جلتی داردی زبان بولتے ہیں اور سب کے سب زیریں دیر اور سوات باجوڑ سے موجودہ علاقوں میں گئے ہیں۔ اس وقت جس کو جہاں جگہ ملی اس نے وہاں کا رخ کیا۔ اوچ زیریں دیر میں آباد مقامی لوگوں پر جب حملہ ہوا تو زیادہ تر لوگ مارے گئے۔ کچھ لوگ نورستان فرار ہوئے، وہاں سے کچھ پھر چترال جنجریت کوہ آئے اور بعد میں مسلمان ہوئے۔
ان علاقوں میں جو کچھ ہوا وہ سب ماضی قریب میں نورستان میں بھی ہوا۔ زر، زن اور زمین کے لئے لڑی جانی والی ان لڑائیوں میں مقامی قبائل کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ کسی بھی جہاد میں نہیں ہوتا۔ آخون سالاک اور ان جیسے دوسرے لوگوں کو غازی کہا جاتا ہے لیکن ان لوگوں کی اصل حقیقت مال و دولت کے بچاریوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ پشتون دوست عبد الرحمان کو چاہئے دودھ سے دھلا ثابت کریں لیکن یہ حقیقت ہے اس نے جو کچھ نورستان میں مقامی لوگوں کے ساتھ کیا وہ کسی طرح کے جہاد میں نہیں ہوتا۔ یہاں بھی عورتیں کنیزیں اور مرد غلام بنائے گئے اور نورستان میں بھی۔ آخون سالاک ہو یا عبد الرحمان دونوں کو خوبصورت کنیزوں اور مال و دولت کی تلاش تھی۔ دونوں حملہ آور غاصب، جابر تھے چاہئے انہیں کتنا ہی مقدس جامہ کیوں نہ پہنایا جائے۔ مقامی قبائل کو ان کے سفید اور سیاہ لباسوں کے وجہ سے سیاہ پوش اور سفید پوش، سرخ کافر وغیرہ کے نام دیئے گئے تھے۔ جن مقامی لوگوں نے نئے مذہب کو قبول کیا وہ ان کو کوہستانی، تاجک کے نام دیے گئے۔ جو پرانے مذہب پر قایم رہیں وہ بدستور سیاہ اور سفید پوش کافر کہلائے۔
شمال کے دوسرے علاقوں میں آباد داردی قبائل کے بنسبت کونڑ سے لے کر باجوڑ، دیر سوات اور انڈس کے داردی قبائل کا چونکہ پشتونوں کے ساتھ براہ راست سامنا ہوا تھا، اس لئے پشتون مورخین نے ان علاقوں میں آباد داردی قبائل کو کوہستانی اور تاجک وغیرہ کے نام دیئے۔ باقی دوسرے علاقوں میں آباد داردی قبائل جیسے، کشمیری، کھوار اور بالائی کونڑ نورستان میں آباد داردی قبائل سمیت شین قبائل اپنے قدیم ناموں سے پہجانے جاتے تھے۔ اس لئے آج ہمیں کونڑ سے لے کر دیر سوات انڈس تک کوہستان اور کوہستانی نام کے قبائل ملتے ہیں۔ یہ قبائل تاریخ میں کبھی بھی کوہستانی نہیں کہلائے۔ یہ نام ہمیں پشتونوں کے آمد کے بعد ملتا ہے۔ فاتح مفتوح کی نشانیاں مٹاتے ہیں ہمارے ساتھ بھی یہ ہوا۔ پشتون موجودہ تحریر کے فن سے آشنا تھے۔ وہ فاتح تھے اور ہم مفتوح۔ انہوں نے ہمارے بارے میں جو لکھا دنیا نے یقین کیا۔ مقامی لوگوں کو ضدی، جاہل اور علم و ہنر سے عاری مشہور کیا گیا۔ قدیم تہذیبوں کے شاندار آثارمسمار کئے گئے۔ قدیم مذاہب، زبانیں اور کلچر کافروں کی نشانیاں قرار دی گئی۔ یہاں تک کہ مقامی کھانوں تک کے مذاق اڑائے گئے۔ ایسا تاثر پھیلا گیا جسے ان کے آنے سے پہلے یہاں کچھ نہیں تھا۔ فاتح کا سب کچھ مقدس ہوتا ہے تو یوں آہستہ آہستہ مقامی لوگوں کی اکثریت مادری زبان چھوڑ کر پشتونوں میں ضم ہوتے گئے۔ پشتونوں نہ صرف مقامی لوگوں کو زمینوں سے بے دخل کیا بلکہ ان سے شناخت بھی چھین لی۔ کچھ نسلیں گذرنے کے بعد مقامی لوگ سب کچھ بھول گئے۔ جو کچھ پشتون اور تاجک مولویوں نے انہیں پڑھایا انہوں نے آنکھ بند کرکے یقین کر لیا۔ قدیم کافروں کی اولاد ہونا باعث شرم ہوا کرتا تھا تو بچے کچے قبائل نے ماضی سے آنکھیں موندھ کر نئے رشتے بنا لئے۔گاوری، گوردیشی،گوار، توروالی،اور انڈس میں آباد کچھ قبائل عرب بن گئے کیونکہ عرب مسلمان بھی تھے اور طاقتور بھی تھے۔ ان کے ساتھ رشتہ داری مقامی قبائل کو نفسیاتی برتری دلا سکتی تھی اس لئے کچھ مقامی قبائل عرب بن گئے۔ کلاش کے لوگ چونکہ کافر تھے اس لئے وہ عرب تو نہیں بن سکتے تھے تو یونانی ہوگئے۔ نہ مقامی لوگ عرب تھے اور نہ یونانی یہ سب ہند آریائی قبائل ہیں جنہیں مورخین نے داردی کا نام دیا ہے۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ یہ سب دوسروں کی لکھی ہوئی تاریخ، اور ناموں کو اپنا کر اپنے قدیم ناموں کو چھوڑتے گئے۔ بعض داردی قبائل آج بھی ایک دوسرے کو قدیم داردی ناموں سے یاد کرتے ہیں۔ سوات میں آباد توروالی قبائل بالائی سوات اور بالائی پنجکوڑہ میں آباد گاوری قبائل کو ” گوو“ جبکہ گاوری انہیں توروالی کہتے ہیں۔ اسی طرح کھوار بولنے والوں کو گھیکی اور کھوار گاوریوں کو بشکاریک کہتے ہیں۔ انڈس میں آباد قبائل کو چھیلیس، مایو وغیرہ کے نام سے پکارتے ہیں۔
جس طرح یہاں ہمارے اوپر کوہستانی نام مسلط کیا گیا اسی طرح افغانستان میں آباد پشائی قبائل کو شاڑی کا نام دیا گیا۔ ان تمام ناموں کے جو امیج بنائے گئے تھے وہ اتنے بھیانک ہیں کہ آج تک محسوس کیئے جا سکتے ہیں۔ نہ کوہستانی نام ہماری شناخت تھا اور نہ ہم عرب، یونانی ہیں۔سیاہ پوش، سفید پوش، کلش اور کوہستانی وغیرہ کے یہ نام ہمیں باہر کے لوگوں نے دیئے ہیں۔ ماضی میں یہ نام مختلف ریاستیں اور مذہبی بزرگ دیا کرتے تھے آج کل کچھ ادارے یہ کر رہے ہیں۔ یہ ریاستیں،بزرگ اور ادارے کل بھی مقامی قبائل کا استحصال کرکے پیٹ پال رہے تھے اور آج بھی پال رہے ہیں۔ شمال کے داردی قبائل کی شناخت مٹانے والے، ان کے قدیم ناموں کے بجائے اپنے طرف سے دیئے گئے نام استعمال کرنے والے کل بھی قابل نفرت تھے اور آج بھی قابل نفرت ہے۔ چاہئے وہ کل کی ریاستیں، مذہبی بزرگ ہو یا آج کے ادارے یا افراد۔