WORLD TOURISM DAY AND KUMRAT VALLEY A Paradise on Earth Kumrat Valley

Latest

WORLD TOURISM DAY AND KUMRAT VALLEY

"ورلڈ ٹوورزم ڈے"
world tourism day and kumrat valley
گمنام کوہستانی ۔
1970 میں ورلڈ ٹوارزم آرگنائزیشن کی ایگزیکٹیو کونسل کی سفارشات پر اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی میں منظور ہونے والے قرارداد کے مطابق 27 ستمبر عالمی یوم سیاحت ہے۔ ہر سال 27 ستمبر کو منائے جانے والے عالمی یوم سیاحت کا مقصد دنیا کو یہ سمجھانا ہے کہ سیاحت ہم سب کے لئے ناگزیر ہے۔ اور یہ محض کہیں کچھ دن کی چھٹیاں گزارنے کا نام نہیں ہے بلکہ اس سے مختلف ثقافتوں اور خطوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے اور مختلف تہذیبوں کو قریب لانے کا باعث بنتی ہے۔ آج سے دس سال پندرہ سال پہلے کوہستان دیر کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے تھے۔ بہت کم لوگوں معلوم تھا بالائی پنجکوڑہ کے پرپیچ گھاٹیوں کے اندر اتنی حسین وادیاں بھی ہے۔ باہر ہمارے یہ علاقے بدنام تھے، پنجاب سندھ تو خیر دور تھا پشاور کے لوگ بھی یہاں آتے ہوئے ڈرتے تھے۔ ہم مقامی لوگوں نے بھی اپنے آپ کو ایک خول میں بند کیا تھا، باہر سے کوئی بھی آتا تو ہمیں وہ جاسوس لگتا تھا، ہر نئے آنے والے کو ہم لوگ مشکوک نظروں سے دیکھتے تھے کہ یہ ہم سے ہمارا یہ وطن چھیننے آیا ہے۔

ہمارا خوف بلاوجہ بھی نہیں تھا، ہم ڈرے ہوئے تھے، صدیوں کے اس ماردھاڑ اور زیریں دیر و سوات سے دیر کوہستان تک کے اس سفر اور داستان نے ہمیں مجبور کیا کہ ہم دنیا سے الگ تھلگ رہیں، ہم نے ڈر، خوف اور اپنی شناخت کو بچانے کے لئے اپنے دروازیں بند کیئے اور دنیا ہمیں غیر مہذب اور شرپسند سمجتھی رہی حالانکہ نا تو ہم غیر مہذب تھے اور نا شرپسند ہم تو دنیا کے قدیم اور شاندار تہذیب کے امین اور مہمان نواز لوگ ہیں۔ ہمارے آج کے برعکس ہمارے کل میں خاک وخون کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ ہر ایک نے مارا، کسی نے جان سے مارا، کسی نے ہماری شناخت مٹانے کی کوشش تو کسی نے ہمارے کلچر اور ہمارے زبان کا مذاق اڑایا تو کوئی ہمارے دھرتی پر قابض ہوا۔ بزرگوں کا زیریں دیر و سوات سے شروع ہونے والے اس سفر کا مقصد صرف اپنی جان بچانا نہیں تھا بلکہ اپنی تہذیب اپنی زبان اور اپنے شناخت کو بچانا تھا، بزرگ کامیاب ہوئے ہم مٹ نہ سکے نا ہماری شناخت ختم ہوئی اور نا ہم نے اپنی زبان چھوڑی، ہم یقیناً اس دنیا کے سخت جان لوگ ہیں جو اتنے پر آشوب دور سے گزر کر بھی اپنی شناخت، اپنی زبان برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئے ورنہ ہمارے ساتھ کیا کیا نہیں ہوا۔

وہ ماضی تھا گزر گیا اسے یاد رکھ کر آج کے ساتھ چلنا ہے، ہمارا آج کل سے مختلف ہے، ماضی کے برعکس آج ہم دنیا کے ساتھ چل سکتے ہیں۔ آج ہمارے پاس بھی وہ سب کچھ ہے جو کل دشمن کے پاس تھا۔ وہ سب کچھ جس کی وجہ سے ہمیں اپنی دنیا سے دستبردار ہونا پڑا۔ اپنی گھروں سے بے دخل ہونا پڑا اپنے کھیت کھلیان جلتے ہوئے دیکھے۔ ماضی گزر گیا ہم آج میں زندہ ہیں، ماضی میں جہاں پشاور مردان کے لوگ آتے ہوئے ڈرتے تھے آج وہاں جرمنی ہالینڈ فرانس وغیرہ لوگ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے آتے ہیں۔ یہ سب ایک دن میں نہیں ہوا۔ اس کے لئے دھرتی سے محبت کرنے والوں نے محنت کی ہے۔ اپنے لوگوں کو سمجھایا کہ وقت بدل گیا ہے، اب کوئی بزور طاقت آپ سے آپ کی دھرتی نہیں چھین سکتا، ہتھیار تبدیل ہوئے ہیں، بندوق کی جگہ قلم نے لی ہے۔ دنیا کو بھی اس خوبصورت جنت کے بارے میں بتایا۔

لوگوں کے اندر سے اس نام نہاد ڈر کو ختم کیا تب جاکر دیر کوہستان کو یہ مقام ملا کہ آج لاہور پنجاب سے اکیلی خواتین آتی ہے اور کوہستان بھر میں بلا خوف و خطر گھومتی ہیں۔ یہ ہم سب کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ آج دنیا نے ہمارا اصل چہرہ دیکھا ورنہ اغیار نے تو ہمیں اتنا بدنام کیا تھا کہ کبھی کبھار لگتا تھا ہم دیر کوہستان میں نہیں بلکہ یاغستان میں رہتے ہیں جہاں کسی کی جان مال محفوظ نہیں ہے۔ آج اس عالمی یوم سیاحت کے موقع پر ہم اہلیان دیر کوہستان اپنے ان گمنام محسنوں کا تہہ دل سے مشکور ہیں جنہوں نے کوہستان دیر کو گمنامی سے نکال کر اسے ایک نام دیا۔ جن کی کوششوں کے وجہ سے آج دیر کوہستان کے مہمان نواز لوگ اور حسین وادیاں ملک بھر میں مشہور ہیں ہمارے گمنام محسنوں کوہستان دیر آپ کے احسانات کا بدلہ نہیں چکا سکتا سدا آپ کا مقروض رہے گا۔