TIRELESS JOURNEY PART-I A Paradise on Earth Kumrat Valley

Latest

TIRELESS JOURNEY PART-I

سفرِ بے تھکان (قسط اوّل)
Tireless Journey
سفر ، اوارہ گردوں کا طریقہ واردات رہا ہے اور آلہِ واردات چند دیگر اشیاء جیسے کہ سیگرٹ کی چند ڈبیاں، کیمپ اور سلیپنگ بیگز! دیر کوہستان میں پوسٹنگ کے دوران متعدد مرتبہ چترال جانے کا ارادہ بنا لیکن چاہتے نا چاہتے ہوئے اسے ترک کرنا پڑا۔چترال کی داستانیں، اس کے خوبصورتی کے قصّے، اس کے با اخلاق لوگوں اور ان کی مہمان نوازی کی باتیں اکثر لواری ٹاپ اور کمراٹ کے بلند و بالہ پہاڑوں کو عبور کرتی ہوئی ، ہواوں کے جھونکوں کی مانند، دروش سے دیر میں داخل ہوتی! شیرینگل جیسے دور دراز علاقوں میں تعینات شدہ سرکاری کارندوں کی زندگی کی بقاء گفتگو ہوتی۔ سو کبھی دریاِ پنچگوڑہ کے کنارے بنے ہوئے کے آر تھری ہوٹل میں بیٹھے تو کبھی کمراٹ کی وسیع و عریض وادیوں میں بیٹھ کر، شوکت اور گمنام کوہستانی جیسے آوارہ گرد دوستوں سے چترال کی خوبصورتی کے قصّے، اس کی منفرد مشروبات، تاریخ ، دیر کوہستان سے مماثلت اور ان میں یکسانیت اور کلچر پر گھنٹوں گفتگو ہوتی اور چترال اکثر ہماری گفتگو کا مرکز رہتا۔ یہ تمام باتیں اس وقت میرے لاشعور میں موجود تھی جس شب میں نے چترال کے سفر کا ارداہ کیا۔ گمنام کوہستانی کو دادری زبان اور اس کے علاقائی رسم و روج پر نا صرف مکمل عبور حاصل تھا بلکہ یہی وہ شخصیت تھی جس نے مجھ میں ان علاقاجات کے بارے میں تجسس پیدا کیا۔ ارادہ تو عرصہ ِ دراز سے تھا لیکن رمضان میں اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کا فیصلہ کیا گیا۔
عید اور اس کے بعد کے چند روز کوہستان میں گُزرے۔ عید سے چند روز قبل ہی اپنے یارانِ سفر، مذکر ، طلحہ اور رضوان کو اس سفر سے آگاہ کر چکا تھا۔ ہفتہ کی شب رات گئے تینوں مسافر کوہستان پہنچے۔ پٹن گیسٹ ہاوس میں موسم کی کیفیت کو دیکھ کر لان میں کیمپنگ کا فیصلہ کیا گیا اور چار کیمپ نصب کر دیا گئے۔ ہوا میں خنکی تھی، انڈس کا شور، کسی دلدادہ لیکن بے ترنم گائیکہ کی مانند اپنے ارد گرد کے ماحول کو اپنی موجودگی کا احساس دلا رہا تھا۔ دور پہاڑ کے اوپر گزرتی ہوئی قراقرم ہائی وے پر وقفہ وقفہ سے گزرتی ہوئی گاڑیاں جگنووں کی مانند دکھائی دے رہی تھی۔ آنے والے سفر کی غیر یقینی صورتِ حال ایک تجسس اور بے چینی کی فضاء قائم کر چکی تھی۔ میوزک سسٹم سے آنے والی آواز عروج آفتاب کی تھی جو اپنے منفرد ترین انداز سے اس ماحول کو مزید بے چین بنانے میں مصروفِ عمل تھی! اگر تو اتّفاقاً مل بھی جائے۔۔
تیری فرقت کے صدمے کم نا ہوں گے! انڈس کے کناروں پر چلنے والی ہواوں کے جھونکے لمحہ بھر کو ہمیں ان وادیوں کا احساس دلاتے جہاں سے ہم ہو کے آئے تھے، یا جس منزل کا رختِ سفر ہم باندھ چکے تھے۔ یا پھر ان تمام لمحات کی یادوں کی بارات ، جو ہم نے اپنے پسندیدہ ترین لوگوں اور احباب کے ساتھ گزارے یا پھر چند نا تمام حسرتوں کا سوگ۔ یہ ایک فطری عمل ہے۔ انسان جب قدرت کے اس قدر قریب ہو جائے تو ایسے میں انسانی خیالات کا دائرہ بہت محدود ہو جاتا۔ چند چہرے، کچھ باتیں اور لمحات۔۔اور کوئی بھی آوارہ گرد اس راز سے بخوبی واقف ہو گا کہ انہی احساسات کو اجاگر کرنے کے لیے، خیالات کی دنیا کو چند یادوں، لوگوں اور لمحات تک محدود کرنے کے لیے، اور کسی کے وجود کو محسوس کرنے کے لیے کوسوں میلوں کا سفر تہہ کر کے، پہاڑوں کی چوٹیوں، وسیع مرغزاروں، میدانوں اور جنگلوں کا رُخ کیا جاتا۔ تمام نا مکمل حسرتوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کا اہتمام کرنے کے لیے بھی ایسی ہی جگہوں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔
سو ہم سب کے بے چین دِلوں کو پٹن گیسٹ ہاوس کے دامن میں مورچہ زن ہو کر کچھ تسلی سے ہو رہی تھی! زخموں پر مرہم رکھنے کا آغاز کیا جا چُکا تھا۔اس وقت سب سے مضطرب روح میری تھی، اور میں اس اضطراب کی وجہ بھی نہیں بتا پا رہا تھا۔ اگرچہ کہ پچھلے ڈیڑھ ماہ سے سٹیشن پر ہونے اور عید بھی یہاں گُزارنے کے باوجود، ابھی تک مجھے ۵ روزہ چھٹیوں کا فائنل اپرول نہیں ملا تھا۔ یہ بتانا یہاں مناسب سمجھوں گا کہ ڈیڑھ دو ماں چھٹی پر نا جانے کا مقصد بھی عید کے بعد مجوزہ پلان کے لیے چھٹیاں ریزرو رکھنا تھا۔ لیکن چند وجوہات کی بناء پر ابھی تک سینیر آفیسرز سے چھٹیوں کے بابت بات نا کر سکا۔ اور میری اس کیفیت کا سب سے زیادہ نقصان چوھدری رضوان کو ہوا جس کی سیگرٹ کی ڈبّی پر پہ در پہ حملہ آور ہو کر ، میں نا قابلِ تلافی نقصان پہنچا رہا تھا۔۔ جاری ہے