شٹیر
تحریر : گمنام کوہستانی
موسم بہار کے شروع ہوتے ہی دیر کوہستان کے کچھ باسی اپنے مال مویشیوں کو لیکر دور پہاڑی چراگاہوں کے طرف نکل جاتے ہیں۔ ان چراگاہوں کو مقامی زبان گاؤری میں بانال کہتے ہیں ۔ پورے موسم گرما کے دوران یہ لوگ جنہیں بانالوج یا بانالی کہتے ہیں ان اونچے اور سرسبز پہاڑوں پر اپنے ڈور ڈنگر کے ساتھ رہتے ہیں۔ قبل از اسلام دوسرے داردی قبائل کے طرح ہمارے ہاں بھی پاکی، ناپاکی کا تصور موجود تھا۔ سب سے پاک جگہ اونچے بلند پہاڑ اور چراگاہیں ہوتی تھی اور سب سے ناپاک جگہ نشیبی علاقے ہوتے تھے۔ دوسرے داردی قبائل کی طرح یہاں بھی خواتین کو مخصوص حالات میں ناپاک سمجھا جاتا تھا اس لیے مویشی خانوں سے لے کر بلند چراگاہوں تک ہر جگہ ان کے داخلے پر پابندی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت بلند چراگاہوں میں مرد حضرات ہی جاتے تھے۔ وہاں مویشیوں کے دیکھ بھال سے لے کر دودھ دوہنا اور اس سے کئی اقسام کی چیزیں بنانا صرف مردوں کے کام ہوا کرتے تھے۔ خواتین گاؤں میں گھر کے دوسرے مردوں کے ساتھ کھیتی باڑی میں مدد کیا کرتی تھی۔ چترال میں آباد قدیم داردی مذاہب کی آخری نشانی کالاش مذہب پر عمل کرنے والے داردی کالاش قبائل آج بھی اس پر عمل کرتے ہیں۔ آج بھی ان کے ہاں کسی خاتون کو بلند چراگاہوں اور دوسرے پاک جگہوں پر داخلہ ممنوع ہے۔ یہی سب کچھ داردستان کے دوسرے علاقوں سمیت دیر کوہستان میں بھی رائج تھا۔
قبول اسلام کے بعد پاکی ناپاکی کا تصور اگرچہ تبدیل ہوا لیکن خواتین کو بہت بعد میں ان بلند چراگاہوں میں جانے کی اجازت ملی۔ آج کل گرمائی چراگاہوں میں مرد و خواتین دونوں رہتے ہیں۔ ان کی ساتھ پوری فیملی نہیں ہوتی بس ایک آدھ مرد، ایک آدھ عورت اور ایک دو بچے ہوتے ہیں۔ ماضی قریب تک ہمارے ہاں موسم گرما میں زیادہ تر بچے بھی بلند چراگاہوں میں ہوتے تھے۔ بزرگوں کا ماننا تھا کہ چراگاہوں کی اب و ہوا اور خالص غذائیں بچے کی صحت اور نشوونما کے لئے ضروری ہے۔ بعد میں جب علاقے میں مویشی کم ہوگئے تو زیادہ تر لوگوں نے گرمائی چراگاہوں کو استعمال کرنا چھوڑ دیا یوں بچے بھی گاؤں میں بڑے ہونے لگے۔ یہی وجہ ہے اس وقت ہمارے بزرگوں میں سے زیادہ تر یا تو ان بلند چراگاہوں میں پیدا ہوئے ہیں یا انہوں نے بچپن یہاں گزارا ہے۔ شائد یہ آخری نسل ہے جو ان بلند چراگاہوں میں پیدا ہوئے یا بڑے ہوئے ہیں۔ نورستان کے زیادہ تر علاقوں میں آج بھی یہی دستور ہے۔
ہمارے طرف تو یہ سب ختم ہوگیا البتہ کچھ مخصوص لوگ جن کے پاس آج بھی مال مویشی ہیں اپنے مال مویشیوں اور بچوں سمیت موسم بہار میں ان بلند چراگاہوں کا رخ کرتے ہیں اور ستمبر کے آخری ہفتے میں واپسی کا سفر شروع کرتے ہیں ۔ بانال میں چونکہ دودھ سے کئی اقسام کے کھانے کی چیزیں بنائی جاتی ہے جنہیں شٹیر کہا جاتا ہے تو واپسی سے پہلے انہیں گاوں پہنچایا جاتا ہے ۔ شٹیر میں دیسی گھی، پنیر ، چھون اور متر، بگور وغیرہ شامل ہیں۔ اس کام کے لئے ہر بانال میں گدھے اور خچر وغیرہ پالے جاتے ہیں ، جن پر یہ سامان لاد کر گاوں لایا جاتا ہے ۔ مقامی لوگوں کو اس شٹیر کا بڑی بے صبری سے انتظار رہتا ہے کیونکہ موسم سرما کے طویل سردیوں میں ان لوگوں گذارہ دودھ سے بنی ہوئی ان چیزوں پر ہوتا ہے ۔