KUMRAT VALLEY TRAVEL GUIDE PART-1 A Paradise on Earth Kumrat Valley

Latest

KUMRAT VALLEY TRAVEL GUIDE PART-1

کوہستان نامہ
Tour to Kumrat Valley
تحریر: شایان خان
بہت سے عجائبات کی طرح کشش بھی ایک عجیب شے کہ جس چیز میں انسان کو نظر آئے اسکی سحر سے نکلنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوجاتا ہے میں کئی چیزوں کی کشش کی وجہ سے ان کی سحر میں مبتلا ہو اور اس سحر انگیزی کا عالم یہ ہے کہ میں چاہتے ہوئے بھی ان چیزوں کی سحر سے خود کو آزاد نہیں کرسکا۔ ان میں ایک کوہستان ہے جس کی تعریف چند الفاظ پر مشتمل ہے کہ وہاں کوہستانی زبان بولی جاتی ہے پر میرے نزدیک کوہستان کی تعریف کمراٹ، جہاز بانڈہ اور بدگوئی ٹاپ اور اسکے علاوہ کوہستان کے دل آویز لوگ ہیں کوہستان قدرتی خوبصورتی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا ثانی تو کیا سایہ ملنا بھی محال ہے۔

وبائے عام کی ستم ظریفی اور خوف و ہراس سے تنگ آکر چند دن پہلے کزنز کے ساتھ ٹُوَر ارینج کرکے ایک جیپ اور ڈرائیور کو سرِ فہرست رکھا، پٹرول کے بحران کے باوجود پٹرول جمع کرنے میں کامیاب ہوگئے اور بنا تاخیر کیے 14 جون صبح ساڑھے چھ بجے گھر سے روانہ ہوگئے، تقریباً 11 بجے پاتراک میں کزن کے دوست کے ہاں رکھے وہاں خوب شکم سیر ہونے کے بعد دوبارہ اپنا سفر جاری کیا اور تین بجے تھل بازار پہنچے، ہمارا ارادہ تو سیدھا کمراٹ جانے کا تھا پر وہاں کچھ عزیز انتظار کر رہے تھے سو کمراٹ سے پہلے لاموتی گاؤں جانا پڑا، (لاموتی گاؤں تھل سے پیوست ہے ان دونوں کا نام بھی اکٹھا لیا جاتا ہے، تھل لاموتی) وہاں ہمارا میزبان ملک گل اکبر خان اور اسکا فرزند زیارت فقیر 
پہلے سے سڑک کے کنارے ہمارے انتظار میں کھڑے تھے۔


جیسے ہی ہم گاڑی سے اترے گرم جوشی سے گلے لگایا اور ہمارے کندھوں سے بیگ اتار کر اپنے کندھوں پر منتقل کیے، (کوہستانی لوگوں کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ کبھی بھی جب مہمانوں کے ہاتھوں میں کوئی چیز دیکھتے ہیں تو فوراً اسے اپنے ہاتھوں میں منتقل کرتے ہیں وہ مہمانوں کو وزن دار چیز تو کیا ٹِشو پیپر بھی اٹھانے نہیں دیتے) زیارت فقیر نے ہمیں ساتھ لیا اور دو منٹوں میں ہم ان کے بیٹھک پہنچ گئے، اسی دن ہم نے آرام کیا ملک صاحب نے نہایت بہترین اور پر تکلف کھانے کا انتظام کیا تھا سو ہم خوب شکم سیر ہوگئے اس کے باوجود انھوں نے ناراضگی ظاہر کی کہ آپ لوگوں نے کچھ نہیں کھایا حالانکہ ہم پٹنے سے دو لقمے دوری پر تھے، نماز پڑھ کر سفر کی تھکان کے باعث جلدی نیند آگئی اور سو گئے صبح اٹھ کر ناشتہ تیار تھا ہم نے ناشتہ کیا اور باڈگوئی ٹاپ (کالام اور کمراٹ/لاموتی کا بارڈر) کا رُخ کیا۔

باڈگوئی ٹاپ کا راستہ انتہائی سخت اور کھٹن راستہ تھا بڑے موڑ اور ان میں بڑے بٹے پتھر آخر اللّٰہ اللّٰہ کرکے ڈھائی گھنٹے بعد ہم باڈگوئی ٹاپ پہنچ گئے باڈگوئی ٹاپ انتہائی دلآویز منظر پیش کر رہا تھا، گھاس سے برے خوبصورت ہموار میدان جیسے وینڈو سیون کی تصویر ہے بالکل اس کی طرح، ارد گرد برف سے ڈھکے سفید پوش پہاڑ اور گلیشیئر، بہت جلد ہمیں بھوک لگ گئی، ہم تو ہوٹل کے آسرے پہ گئے تھے پر لاک ڈاؤن کی وجہ سے وہاں ہوٹل تو کیا کسی بشر کا وجود تک نہ تھا، ملک صاحب ہمارے ساتھ تھے تھوڑا آگے جاکر ملک صاحب نے ایک بانڈے (آبادی سے بہت دور مال مویشیوں کے لئے ایک چھوٹا سا گھر، جہاں لوگ مال مویشیوں کو ساتھ لے کر گرمیوں میں رخ کرتے ہیں) سے ہمارے لئے کھانا طلب کیا، دو چھوٹے بچے جَوّ کی روٹی کے ساتھ دہی دودھ اور خالص دیسی گھی لے ائے، میرے بغیر سب نے مل کر مزے کھانا کھایا اور تعریفیں کرنے لگے (بدقسمتی سے مجھے ڈیری پراڈکٹس پسند نہیں) کھانے سے فارغ ہونے کے بعد ہم نے وہاں نماز پڑھی اور باڈگوئی ٹاپ سے سیدھا کمراٹ کے لیے روانہ ہوئے۔

تھل پہنچ کر ہم نے وہاں نماز پڑھی اور کھانے پینے کے اشیاء ساتھ لے کر کمراٹ کی طرف روانہ ہوگئے، رستے میں بلند و بالا خوبصورت پہاڑ، ساتھ بہتا نیلے پانی کا شفاف دریا اور دیودار کے اونچے درخت روح کو تازگی بخش رہے تھے، تقریباً گھنٹہ سفر کرنے کے بعد ہم کمراٹ جنگل کے حدود میں داخل ہوگئے کہ ملک صاحب نے کہا رات ادھر ہی ایک عزیز کے ہاں گزارتے ہیں کل صبح انشاءاللہ کمراٹ میں گھومے گے، ہم سب نے رضامندی ظاہر کی اور رات ادھر ہی ملک صاحب کے دوست کی ایک خوبصورت سی بیٹھک میں گزار دی، ملک صاحب کے دوست کی مہمان نوازی اور خوش اخلاقی سے ہم بہت متاثر ہوئے اور چھوٹا سا لفظ شکریہ کہہ کر ہم وہاں سے کمراٹ کے لیے روانہ ہوگئے، تقریباً آدھے گھنٹے بعد ہم نے خود کو کمراٹ جنگل کے عین وسط میں پایا، وہاں وہاں ایک ہوٹل میں میں ہم نے اپنی جیپ کھڑی کی اور جنگل میں پیدل سفر کرنے لگے انتہائی پر کشش اور دل آویز منظر الفاظ میں جس کا بیان کرنا ممکن نہیں، پورا جنگل تین چیزوں کا مجموعہ تھا، دیودار کے اونچے درخت اور بلند و بالا خوبصورت پہاڑ نیچے شفاف پانی کی ندیاں اور جنگل کے کنارے بہتا نیلے رنگ کا دریا، ہم سفر کرتے کرتے آبشار تک پہنچ گئے بلندی سے گرنے والا آبشار جو وہشت پیدا کر رہا تھا نے ہم جیسے سر پھروں کو اپنی سحر انگیزی کے ذریعے باندھ لیا، تقریباً گھنٹہ بھر ہم وہاں بیٹھے رہے اور پھر نہ چاہتے ہوئے واپسی کی راہ لی، جنگل میں دوبارہ سفر شروع کیا اور کچھ ہی دیر میں ہم گاڑی تک پہنچ گئے، گاڑی میں بیٹھ کر ہم تھل روانہ ہوئے، تھل پہنچ کر ہم نے وہاں کھانا کھایا اور نماز پڑھی تھل سے ہم لاموتی گاؤں کے لئے نکلے اس بار ہمارا اردہ جہاز بانڈہ جانے کا تھا جو ہمارے ٹور کا آخری حصہ تھا، لاموتی پہنچ کر ہم نے ملک صاحب کے بیٹھک میں خود کو فریش کیا کپڑے تبدیل کئے اور چائے پی کر تھوڑا آرام کیا۔

اور پھر جندرئ گاؤں کے لئے نکل پڑے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کے مسافت کے بعد ہم جندرئ گاؤں پہنچ گئے وہاں ملک صاحب کے ایک عزیز کے ہاں جیپ کھڑی کی اور مقامی لوگوں کے ہزار بار منع کرنے کے باوجود ہم جہاز بانڈہ کے لیے نکل پڑے، اندھیرا چھا گیا تھا، اور ہم جنگل میں سفر کر رہے تھے آدھے سے زیادہ اور سخت رستہ طے کرنے کےبعد ہمارے ڈرائیور کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی اور مزید ایک قدم آگے جانے سے انکار کیا، میں نے سامان ملک صاحب اور فواد کے حوالے کیا اور خود شاہد کو لے کر ڈرائیور کے ساتھ نیچے جندرئ گاؤں تک آیا، اسے ملک صاحب کے ایک عزیز کے بیٹھک میں چھوڑ کر میں اور شاہد اس اندھیرے میں دوبارہ جہاز بانڈہ کے لیے نکل پڑے، ایک اندھیرا اور دوسرا شاہد کے ہموار تلو والے شوز، وہ بار بار پھسل رہا تھا، پر میں نے اسکا ہاتھ پکڑا تھا، اسکے علاوہ ساتھ میں جنگل بھی وہشت پیدا کر رہا تھا، آخر اللّٰہ اللّٰہ کرکے کے ہم ملک صاحب اور فواد کے ہاں پہنچ گئے جو ادھر ایک بانڈے میں ہمارا انتظار کر رہے تھے وہاں پہنچ کر ہم نے تھوڑا آرام کیا اور دوبارہ وہ دیسی کھانا جس کا ذکر میں نے پہلے کیا تھا، کھایا ان کا شکریہ ادا کیا اور رات کی تاریکی میں دوبارہ سفر کا آغاز کیا، زیادہ اندھیرا ہونے کی وجہ سے ہم رستے سے بھٹک گئے فواد نے کہا یہ رستہ تو بالکل مخالف سمت ہے شاہد نے کہا آگ جلا کر ادھر ہی رات گزارتے ہیں صبح دیکھے گے، ملک صاحب نے بھی شاہد سے اتفاق کیا واحد میں تھا جو کہہ رہا تھا یہ رستہ صحیح ہے اور یہ اس مین رستہ کا متبادل رستہ ہے بہر حال میں نے انکی ڈھارس باندھی اور روانہ کیا تھوڑا آگے جاکر ہمیں ایک لائٹ نظر آیا جو جہاز بانڈہ میں چمک رہا تھا سب کے چہروں پر فاتحانہ مسکراہٹ آگئی جو اندھیرے کی وجہ سے دیکھنے کے بجائے آوازوں سے محسوس ہوئی، تھوڑی دیر میں ہم جہاز بانڈہ پہنچ گئے وہاں پہنچ کر پہلے ہوٹل والا ہی ملک صاحب کا دوست نکلا اسنے ہمارے لئے کمرے کا انتظام کیا کھانا تو ہم نے رستے میں ہی کھا لیا تھا بس تھکاوٹ کی وجہ سے فوراً نیند آگئی اور ہم سو گئے۔
(جاری)

Read Part-II