جہاز بھانڈا کے نام کی وجہ شہرت میں نے بیان کردی ہے۔ اس وادی کا یہ حسین ترین مقام ہے۔ اس مقام تک کوئی بھی گاڑی نہیں جاتی۔ اس کا بیس کیمپ جندرئی گاؤں ہے، جہاں پر ایک عجائب گھر بھی ہے۔ جندرئی سے جہاز بھانڈا تک کا کل سفر 12 کلومیٹر ہے جسے مقامی لوگ دو سے اڑھائی گھنٹوں کی پیدل مسافت طے کرکے جاتے ہیں جبکہ غیر مقامی یا میدانی علاقوں کے لوگ چار سے پانچ گھنٹوں میں اس مقام تک پہنچ پاتے ہیں۔ یہاں پہنچنے کے بعد انسان اپنی ساری تھکان بھول جاتا ہے۔ دو پہاڑوں کے درمیان بنی ہوئی صاف اور شفاف پانی سے بنی ہوئی کٹورا جھیل (کٹورا پانی کے پیالے کو کہتے ہیں، یہ جھیل پانی کے پیالے کی مانند ہے اس لئے اسے کٹورا جھیل کہا جاتا ہے) سیاحوں کو دعوت نظارہ دیتی ہے۔
جہاز بھانڈا سطح سمندر سے 11 ہزار 5 سو فٹ بلند جگہ ہے۔ یہاں پر سیاحوں کے لئے ایک ریسٹ ہاؤس بھی قائم ہے۔ جہاز بھانڈا سے کٹورا جھیل کا سفر 6 کلومیٹر ہے اور یہاں پہنچنے کے لئے 4 گھنٹے درکار ہوتے ہیں۔ اس جھیل میں تیرتے ہوئے برف کے ٹکرے یوں لگ رہے ہوتے ہیں جیسے سفید کنول کے کئی کئی فٹ لمبے پھول جھیل میں تیر رہے ہوں، جھیل سے پانی ایک آبشار کی مانند نیچے وادی میں گر رہا ہوتا ہے۔ کٹورا جھیل یا جہاز بھانڈا تک پہنچنا ایک کٹھن اور مشکل مرحلہ ہوتا ہے مگر یہاں پہنچ کر انسان اپنی تھکان بھول کر قدرت کے دلکش نظاروں میں محو ہوجاتا ہے۔ سیاحوں کے علاوہ مہم جو افراد کے لئے جہاز بھانڈا اور کٹورا جھیل کا سفر یقیناً یادوں کے ناقابل فراموش لمحات محفوظ کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔
کمراٹ سے بلیک واٹر تک قدرت کے حسین اور انمول شاہکاروں میں میرا تیسرا دن تھا۔ اس دن کا آغاز پختون روایتوں کے امین کوہستانی سلسلے کی مہمان نوازی سے ہوا۔ واپسی پر گرد اْڑاتی سڑک کے دونوں جانب دیو قامت چیڑھ، دیودار، صنوبر اور کائل کے درخت فلمی مناظر پیش کررہے تھے۔ سڑک گرچہ پُر خطر تھی مگر جیپ کا ڈرائیور ماہر تھا۔ جس طرح اس جیپ کو پہاڑوں کی شہزادی کہا جاتا ہے، ایسے میں یہ ڈرائیور اس بپھری ہوئی شہزادی کو قابو میں کرنے کا ہنر بخوبی جانتا تھا۔ گزشتہ 2 دن برف پوش پہاڑوں، جھیلوں، شور مچاتی ندیوں اور پھولوں کے درمیان گزرا، آج کا دن دریائے پنجکوڑا کے ساتھ ساتھ وادی کمراٹ میں گزر رہا تھا۔
چند منٹ دریا کے شور شرابے سے اٹکھیلیاں کرتے گزارے، یخ بستہ پانی کی لہروں سے چھیڑ چھاڑ کرنے کا نتیجہ ہاتھوں کے سُن ہوجانے کی صورت میں بھگتنا پڑالیکن سچ پوچھیں تو جنگل کے بیچوں بیچ گزرتے ہوئے دریا ایک رومانوی منظر پیش کر رہا تھا۔ درختوں کے درمیان سے سورج کی کرنیں یوں چھن کر آرہی تھیں جیسے کسی حسینہ کے چہرے پر اس کی زلفیں بکھری ہوئی ہوں اور ہوا ان زلفوں سے شرارت کر رہی ہو۔ دریا کا شور ہی ہے جو اس وادی کا سکوت توڑنے والی واحد شے تھی۔ بل کھاتی ندیاں، شور مچاتا دریا اور مسحور کن آبشاروں کی اس وادی میں ہماری منزل بلیک واٹر یعنی کالا چشمہ تھی۔ اس وادی میں جگہ جگہ قدرت جھک جھک کر استقبال کر رہی ہوتی ہے۔ کمراٹ میں محکمہ جنگلات کے ریسٹ ہاؤس میں ہمارے ٹھہرنے کا انتظام تھا، مگر تاخیر سے پہنچنے کے باعث محکمہ نے بکنگ منسوخ کردی تھی، چار و ناچار دریا کنارے خیمہ بستی لگائی۔
کمراٹ میں قائم ایک ہوٹل سے رابطہ کیا، چائے پی اور دوپہر اور شام کے کھانے کے لئے ہوٹل کے مالک کو ہدایات دے کر ہم اگلی منزل بل یک واٹر یعنی کالا پانی کی جانب چل پڑے۔ چند ہی قدم کا فاصلہ طے کیا تھا کہ دائیں جانب ایک خوبصورت آبشار دعوت نظارہ دے رہی تھی۔ ہمارا قافلہ کل سے دو گاڑیوں پر مشتمل ہوگیا تھا، کیوںکہ نوجوانوں کا ایک اور وفد ہمارے ساتھ شامل ہوگیا تھا۔ بس پھر تمام لوگ گاڑیوں سے اتر کر آبشار کی جانب چل پڑے۔ آبشار پر ابھی بیٹھے ہی تھے کہ دور نیچے وادی سے ایک بزرگ کافی تیزی سے ہماری جانب آرہے تھے۔ بزرگ کی تیز رفتاری ہم سب کے لئے حیران کن تھی، 10 سے 15 منٹ میں بزرگ آبشار تک پہنچ گئے، آتے ہی گویا ہوئے آپ لوگوں نے آج دوپہر کا کھانا میرے ساتھ کھانا ہے۔ 23 لوگوں کے لئے کھانے کا انتظام کرنا جان جوکھوں کا کام ہے، خاص طور پر ایسی جگہ جہاں اپنی لئے کھانے کا سامان پہنچانا دشوار ہو، کھانے سے انکار کیا لیکن بزرگ ہمیں لسی اور چائے پلانے پر مصر تھے۔ خیر بزرگ کی محبت، مہمان نوازی اور چاہت واقعی لاجواب تھی۔ انکار نہیں کیا جا سکا۔ لسی کا گھڑا بزرگ خود لے کر آئے اور ٹھنڈی اور لاجواب لسی سے ہماری تواضع کی، اس کے بعد بزرگ کی جانب سے چائے پلائی گئی، جس کی لذت واقعی لاجواب تھی، کیوںکہ اس میں چاہتوں کی مٹھاس تھی، خلوص کے بے پناہ اثرات تھے۔ سارے دورے کے دوران اس وادی سے چاہتوں کے انمول نمونے پائے مگر اس بزرگ نے پیار، اخلاص اور اپنائیت کے جو انمٹ نقوش ہماری یادوں میں سمو دئیے ہیں ان کے اثرات شاید عمر بھر زائل نہ ہو سکیں۔ وادی کمراٹ آلو کی کاشت کے لئے مشہور ہے۔ یہاں کا آلو صوبہ خیبر پختونخواہ کے علاوہ راولپنڈی اور اسلام آباد کی سبزی منڈی میں بھی فروخت کیا جاتا ہے، اس کے علاوہ جوار، گوبھی اور شلغم یہاں کی اہم فصلیں ہیں جن سے یہاں کے لوگ قلیل سرمایہ حاصل کرتے ہیں۔ ان لوگوں کا زیادہ انحصار جنگلات کی لکڑی سے حاصل ہونے والی آمدنی پر ہے جس کی 80 فیصد آمدن یہاں کے مقامی لوگوں کی ہوتی ہے جبکہ 20 فیصد صوبہ خیبر کی حکومت کی ہوتی ہے۔ گزشتہ سال سے حکومت نے جنگلات کی کٹائی پر پابندی لگا دی ہے جس کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کا ذریعہ آمدن ختم ہوچکا ہے، لیکن اس کا سب سے بڑا نقصان محکمہ جنگلات کو ہی ہو رہا ہے کیوںکہ پابندی لگنے کے بعد لکڑی کی اسمگلنگ میں بے تحاشا اضافہ ہوگیا ہے۔
دوسری جانب مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ حکومت جنگلات کی حفاظت کے لئے اگر ایسا اقدام کررہی ہے تو بہتر ہے مگر جنگل میں بارشوں اور برف باری کی وجہ سے گرے ہوئے درخت اٹھانے پر بھی پابندی ہے۔ اس وقت اس وادی میں بارش اور برف باری سے متاثر تقریباََ ایک کروڑ مکعب فٹ قیمتی لکڑی گل سڑھ رہی ہے، جس کا نقصان مقامی لوگوں کے علاوہ حکومت کو بھی ہے۔ ہمارے وفد کے دورے سے ایک دن قبل ہی پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان مقامی عمائدین سے مذکرات کے لئے کمراٹ گئے تھے، مگر عمران خان کے ساتھ ان کے مذکرات ناکام ہوگئے تھے۔ آبشار کا نظارہ کرنے اور بزرگ کی بے پناہ محبتیں سمیٹنے کے بعد دوبارہ بلیک واٹر کی سمت روانگی کے لئے چل پڑے۔ محض 2 کلومیٹر مزید سفر طے کیا کہ پہلے آبشار سے زیادہ وسیع اور بلند آبشار نظر آئی، ہر فرد پلک جھپکنے میں آبشار تک پہنچنے کے لئے بے تاب تھا۔ آبشار سے کئی میٹر دور تک اس کا پانی ٹھنڈی پھوار کی مانند آرہا تھا یوں لگ رہا تھا جیسے شبنم برس رہی ہو۔ آبشار کے سامنے پتھر پر ہاتھ پھیلا کر کھڑے ہوکر گہری سانسیں لینا، شاید سالوں یوگا کرنے سے کہیں زیادہ سکون دے رہا تھا۔ پانی آبشار سے اُڑتا ہوا چہروں سے ٹکرا رہا تھا، پانی کا چہرے سے ٹکرانا بہت لطیف احساس دلا رہا تھا، زندگی کو جینے کا جذبہ، چاہتوں کی امید، پیار کی جستجو، اپنوں کے درمیان ہونے کا خیال اور سب سے بڑھ کر دنیا کے جھمیلوں سے دور تمام پریشانیوں سے چھٹکارے کی امید۔ ان پانی کے چھینٹوں میں انسان گھنٹوں بھی بِتا دے تب بھی اس کا جی نہیں بھرتا۔ گھنٹہ بھر یہاں پر سکون اور پر لطف وقت گزارنے کے بعد ایک بار پھر بلیک واٹر کی جانب سفر کا آغاز کردیا۔ بلیک واٹر وادی کمراٹ کی ایک رومانوی جگہ ہے۔ سڑک مکمل طور پر دریا کنارے تعمیر کی گئی ہے، جبکہ دائیں جانب برف سے ڈھکے ہوئے پہاڑ اور جنگل تھے، بلیک واٹر یا کالا پانی کا علاقہ اور اس کے گرد و نواح کے پہاڑ سلاجیت کے لئے مشہور ہیں، تاہم یہاں سے سلاجیت نکالنا جان جوکھوں کا کام ہے، جبکہ انہیں جنگلات میں قیمتی جڑی بوٹیاں بھی پائی جاتی ہیں جن میں گچھی، کٹھ، بنفشہ، نیلوفر اور دیگر قابل ذکر ہیں۔ کالا پانی کا سارا علاقہ لذید مچھلی ٹراؤٹ کے لئے مشہور ہے، وہ الگ بات ہے کہ گھنٹوں ٹھنڈے پانی میں جال پھینکنے کے باوجود صرف 4 مچھلیاں ہی ہاتھ آسکیں۔
مچھلی کے ناکام شکار کے دوران ہی آسمان پر گہرے سیاہ بادلوں نے راج کرلیا تھا، کسی بھی وقت آندھی اور طوفان کے ساتھ شدید بارش کا امکان تھا ایسے میں صہیب الدین کاکا خیل کی جانب سے واپسی کا اعلان کیا گیا۔ چار و ناچار واپسی کے لئے گاڑی پر سوار ہوئے، قدرت کے نظاروں سے مزید لطف اندوز ہونے کے لئے میں نے جیپ کی چھت پر بیٹھنے کو ترجیح دی اور یوں ہمارا کارواں کمراٹ کی خیمہ بستی میں پہنچ گیا۔ ہوٹل والوں نے ہمارے لئے دوپہر کا کھانا تیار کر رکھا تھا جس پر ہم فوری جھپٹ پڑے اور پلک جھپکنے میں دستر خوان سے تمام اشیاء کا صفایا کردیا۔ نماز مغرب کا وقت ہوا جا رہا تھا اس لئے کھانے کے فوری بعد نماز ادا کی۔ اس دوران مقامی افراد کی جانب سے ہمارے لئے ایک مینڈھے کا انتظام کیا ہوا تھا جسے ذبح کرکے ہم نے خود ہی پکانا تھا۔ رات کے سائے گہرے ہوتے ہیں، مینڈھے کو ذبح کیا گیا اور جنگل میں لکڑیاں جلا کر کیمپ فائر کا ماحول بنا دیا۔ تمام نوجوان سیاح درویشوں کی طرح آگ کے الاؤ کے گرد جمع ہوکر خوش گپیوں میں مگن ہوگئے۔ رات کو مینڈھے کے گوشت کے ساتھ پختونوں والا سلوک کیا گیا، تین قسم کے کھانے ایک مینڈھے کے گوشت سے بنائے گئے اور کچھ بچا کر صبح کے ناشتے کے لئے رکھ لئے گئے۔ صبح اس جنت نظیر وادی سے واپسی کی راہ لی اور رات گئے ہم نے مردان میں قیام کیا۔ اس قیام پر بھی ایک تحریر لکھی جاسکتی ہے۔ مردان میں میزبانوں کی مہمان نوازی لاجواب تھی، سیاحوں کو اس جنت نظیر وادی کا دورہ کرانے میں جہاں ایم این اے محمد علی کی ذاتی دلچسپی تھی وہیں اس میں نوجوان طالب علم داؤد احمد درانی کی خصوصی کوششیں اور روابط بھی شامل تھے، ان کی کوششیں اور انتظامات واقعی لاجواب تھے۔