سفر نامہ کمراٹ ویلی
تحریر: مہرتاب
ایک تنہائی عام آدمی کے اندر ہوتی ہے جسے ختم کرنے کو وہ ہجوم میں جا نکلتا ہے اور ایک تنہائی آوارہ گرد کے اندر ہوتی جسے ختم کرنے کو بلند پہاڑوں کے ویرانے درکار ہوتے ہیں اور ہم ٹہرے آوارہ گرد سو آوارہ گردی کرنے چھٹی دفعہ کوہستان دیر کا سفر اپنے دوستوں کے ساتھ آج سے تقریبا دو مہینے پہلے طے پایا۔
کم و بیش سب دوستوں کا یہ سفر پہلی دفعہ تھا سوائے دو دوستوں کے جو پہلے بھی ایک دفعہ جا چکے تھے۔ چونکے اکثر اوقات یار لوگوں سے لمبے سفر کے ارادے میں موٹر سائیکل خود بخود سٹارٹ ہو کر مہابن کی پہاڑیوں کے دامن میں واقع بیر گلی کی طرف مڑ جاتی ہے سو سفر شروع ہونے کے دن تک دل میں وسوسے پیدا ہوتے رہے۔ خیر اللہ اللہ کر کے دن آ پہنچا اور ہم نے کمراٹ کے لئے رخت سفر باندھ لیا۔ مردان سے گاڑی لی اور ساری رات گپ شپ لگاتے ہوئے صبح پانچ بجے تھل جا پہنچے۔
تھل میں گاڑی رکی اور ہم نے اپنے میزبان عقل زرین کے گھر کی راہ لی۔ چھ سات کلومیٹر پیدل چل کر آخر کار وہاں پہنچے اور ساری رات کی تھکان کی بابت جیسے ہی سر سے سرہانہ لگا ویسے ہی ہم سو گئے۔ ایک بجے کے قریب نیند سے بیدار ہوتے ہی روایتی کھانا میزبانی کے سارے اصولوں کے ساتھ پیش کیا گیا۔ کھانا کھانے کے بعد ہم نے پیدل آبشار کی راہ لی۔ ان کے گھر سے آبشار تقریبا نو کلو میٹر فاصلے پر ہے۔ جیسے ہی ہم آبشار پہنچے بارش شروع ہو گئی سو ہم نے تھوڑی دیر بارش رکنے کا انتظار کیا اور پھر آبشار دیکھنے گئے۔ کھانے کا بندوبست وہیں کیا گیا اور رات بھی وہاں ایک دوست کے ہوٹل میں گزاری۔ صبح آنکھ حسیب لالاجی کے آواز پر کھلی کہ اٹھو بھوک لگی ہے ہم نے ناشتے کا بندوبست کیا اور پھر سے آگے رختِ سفر باندھا۔ ساڑھے چھ کلومیٹر چلنے کے بعد ہم نے کالا چشمہ میں دریا کے پار نبل بانال جانے اور وہیں کیمپ لگا کر قدرت کے نظاروں سے لطف اندوز ہونے کا فیصلہ کیا۔ ایک ڈیڑھ گھنٹہ رک کر دریا کے اُس پار ہی واپسی کی راہ لی۔ رات واپسی پر عقل زرین لالا کے ہاں گزاری اور اگلے دن کے لئے مشورہ کرنے لگے۔
یار لوگوں نے جہاز بانڈہ اور گھان سر (کٹورہ جھیل) جانے پر ٹھپہ لگایا۔ ٹکی ٹاپ کے لئے اگلے دن جیپ بک کرائی۔ ٹکی ٹاپ کا راستہ انتہائی مشکل تھا خیر ہم وہاں پہنچ گئے اور اپنا سامان ایک گھوڑے پر لاد دیا اور اوپر جہاز بانڈہ جانے کا سفر پیدل شروع ہوا۔ یہ راستہ شروع میں انتہائی مشکل چڑھائی ہے جس کے بعد انتہائی خوبصورت کنڈیل شئی بانال آتا ہے، یہاں کچھ دیر سستانے کے بعد ہم نے دوبارہ جہاز بانڈہ کی راہ لی اور ایک آخری سژت قسم کی چڑھائی چڑھنے کے بعد ہم آخر کار جہاز بانڈہ پہنچ گئے ٹکی ٹاپ سے جہاز بانڈے کا سفر ڈھائی گھنٹے کا ہے۔
ہم جیسے ہی جہاز بانڈے کے سرسبز میدانوں میں داخل ہوئے بارش پھر شروع ہوگئی، ہم نے بارش رکنے کا انتظار کیا پھر آگ لگائی اور پیٹ پوجا کرنے کی تیاری کرنے لگے ضیاءاللہ نے بہترین چکن کڑاہی پکائی اور ہم سب جو صبح کے بھوکے تھے نے بنا کسی انتظار کے کھانا کھایا۔ کھانا کھانے کے بعد ہم نے جلدی سونے اور صبح سویرے اٹھ کر جہاز باندہ کے سامنے بینڑ بانال، ناگن دریا اور کونڑ آبشار کے حسین نظاروں سے لطف اندوز ہوئے اور پھر گھان سر جانے کی ٹھان لی۔ گھان سر جاتے ہوئے پہلے راستہ ہموار اور سیدھا ہے اس کے بعد تھوڑی سی چڑھائی چڑھنے کے بعد زرا آگے جاتے ہوئے لوک سر جھیل ہے۔ یہ جھیل لمبوتری ہے اور یہاں راستہ ختم ہو جاتا ہے۔ یہاں سے آگے خچر، گدھے اور گھوڑے کے جانے کا راستہ بھی نہیں اور راستہ کیا آگے پتھروں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جو لوک سر کے ساتھ ساتھ پڑا ہوا ہے۔ ان پتھروں کو کراس کرنے کے بعد ہم اپنے سفر کے انتہائی سخت مرحلے میں داخل ہوئے۔ آگے گلیشئر تھے اور راستہ انتہائی سخت تھا لیکن گھان سر جانے کی ٹھانی گئی تھی سو ہم چلتے رہے۔ جہاز بانڈہ سے گھان سر کا راستہ ساڑھے چار کلومیٹر پر محیط ہے جو ہم نے ڈھائی گھنٹوں میں طے کیا، راستے میں ایک گلیشئر پر میرا پیر بھی پھسل گیا لیکن خدا نے خیر کیا اور ہم اس آخری چڑھائی پر پہنچ گئے جس پر دونوں ہاتھوں اور دونوں پیروں کی مدد سے ہی اوپر چڑھ سکتے ہیں جیسے ہی اس چڑھائی سے سر اوپر ہوتا ہے سامنے برفانی پہاڑوں کے بیچو بیچ گھان سر یعنی کٹورا جھیل نظر آتی ہے۔ اس جھیل کو پہلی نظر دیکھتے ہی اس میں ڈوبنے کو جی چاہتا ہے۔ سنگلاخ اور برف پوش چٹانوں کے بیچ نیلے پانی کی یہ جھیل سطح سمندر سے 11500 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ یہاں نہ رش تھا نہ شور شرابہ بس سکون، سکوت، ٹہراو اور خاموشی تھی۔ہم نے دو گھنٹے یہاں قدرتی نظاروں کو محسوس کیا اور واپسی کی راہ لی۔ واپسی پر ہم تھل پہنچے اور گھر کے لئے گاڑی بک کرائی۔ کھانا کھایا اور گاڑی میں بیٹھ کر قدرت کے اس شاہکار کو خدا حافظ کہا۔