تھل بازار کے ایک کونے میں لکڑی سے بنی تاریخی جامع مسجد دارالسلام اپنی نوعیت کی الگ ہی پہچان والی مسجد ہے-ہمارا تھل میں ایک گھنٹہ قیام کا مقصد مسجد کی زیارت اور ضروری سامان خریدنا ہی تھا۔انڈے اور پھل خریدنے کیلیے دونوں جوان چلے گئے تو میں نے باقیوں سےکہا آو مسجد چلتے ہیں، ذیشان کے ساتھ ایک دو ساتھی جیز کیش سے پیسے نکلوانے نکل پڑے، دیر سے اگر آپ تھل بازار میں داخل ہوں توتھل بازار کے شروع میں واقع پل سے پہلے تاریخی جامع مسجد واقع ہے، پنجکوڑہ دریا پہ بنا پل بہت زیادہ سجاوٹ والا نہیں سادہ لیکن مضبوط پل ہے، مسجد کے دائیں بائیں کونوں پہ دو داخلی دروازے ہیں، اس مسجد کی بنیاد تین سو سال سے زیادہ پرانی بتائی جاتی ہے، اب تک تین دفعہ اسکی تعمیرنو ہوچکی ہے۔
آج سے لگ بھگ 80 سال قبل آتشزدگی کی وجہ سے مسجد کو بہت نقصان پہنچا اور اسکی تعمیرنو کی گئی تھی، مسجد کے آگے صحن ہے دائیں ہاتھ اوپر لکڑی سے بنی سیڑھیاں دوسری منزل تک لے جاتی ہیں، جہاں مشینوں کی آواز آرہی تھی، ہمارے ساتھی منیر جو اوپر گئے انہوں نے بتایا کہ دوسری منزل پہ کام جاری ہے، مسجد مکمل طور پہ لکڑی سے تعمیر شدہ ہے، بیرونی داخلی دروازوں سے لیکر اندر تک اینٹوں کا استعمال نہیں کیا گیا، یہ فن تعمیر کا ایک خوبصورت اور اعلیٰ شاہکار ہے، جس کے ایک ایک حصہ میں کاریگروں کی محنت اور ہنرمندی کا عکس نمایاں نظر آتا ہے، مسجد کے دائیں حصہ میں ایک تہہ خانہ تھا جس کے اندر وضو خانہ بنایا گیا تھا، ابھی اس پہ کام جاری تھا وہیں سے زیرزمین رستہ باہر دریا کنارے کی طرف نکلتا تھا جہاں دریا کے سامنے چند ٹونٹیوں پہ مشتمل وضو خانہ بھی تھا، اسکے لیے چند سیڑھیاں اترنا ہوتی تھیں، سیڑھیوں کے ایک طرف وضو خانہ جبکہ ایک طرف بیت الخلا تھے، مسجد کے صحن میں داخل کے ساتھ ہی ہم ہال میں چلے آئے، ہال کے اندر لکڑی کے چھ انتہائی مضبوط اور موٹے رنگ برنگے ستون چھت کو سہارا دئیے ہوئے تھے اسکے علاوہ بیرونی طرف داخل ہوتے وقت اور دیواروں کے ساتھ بھی ستون نظر آرہے تھے، ستونوں کو نقش نگاری سے سجایا گیا تھا، مسجد کی دیواروں اور ستونوں پہ کی گئی نقش نگاری ورطہءِ حیرت میں ڈال رہی تھی ۔
نوجوان سیاحوں کی کافی تعداد مسجد کی زیارت کیلیے موجود تھی ، لکڑی کی کٹائی ،لکڑی کی دیدہ زیب ڈیزائننگ اور رنگ و روغن سے کی گئی نقش نگاری سے اس علاقہ کی ثقافت کے رنگ جھلکتے نظر آرہے تھے، ستونوں کے اوپر لکڑی کی انتہائی مضبوط اور موٹی شہتیریں رکھی گئی تھیں، محراب کے ساتھ دائیں ہاتھ منبر تھا جہاں سے روز قال اللہ قال الرسول کی صدائیں بلند ہوتی تھیں، محراب کے اطرف میں دو ستون اس حالت میں تھے کہ آدھے باہر اور آدھے دیوار کے اندر دھنسے ہوئے تھے، جو بیک وقت دیوار اور چھت کو سہارا فراہم کررہے تھے، ان دونوں ستونوں کے دائیں بائیں لکڑی کی الماری بنائی گئی تھی جس پہ قرآن پاک کے نسخے اور اسلامی کتب رکھی ہوئی تھیں، ہال تقریباً دس صفوں پہ مشتمل تھا، پرانی طرز کی لالٹین بھی مسجد کے ہال میں لٹک رہی تھیں، مسجد میں پنکھوں اور لائٹوں کا انتظام موجود تھا۔
مسجد کے ہال کے اندر ایک اور ہال تھا جس کا دروازہ درمیانی دیوار سے نکالا گیاتھا، اندرونی ہال بھی کافی بڑا تھا جس کی چھت کیلیے ستونوں اور شہتیر کا استعمال کیا گیا تھا، اندرونی بڑے بڑے ستون گول اور چار کونوں کی طرز کے تھے،اندرونی ہال میں بھی محراب بنایا گیا تھا،اندرونی ہال کی دیواروں پہ بیرونی ہال کی نسبت مختلف ڈیزائن میں نقش نگاری کی گئی تھی، اندرونی ہال کی دیواروں پہ ٹائیل نما ڈیزائن بنائے گئے تھے، دور سے معلوم ہوتا تھا جیسے قیمتی پتھروں کا استعمال کیا گیا ہو، مسجد کے صحن کی بیرونی جنگلا نما دیواریں لگ بھگ تین سے چار فٹ کی تھیں، جامع مسجد تھل فن تعمیر اور انجنیئرنگ کا بہت ہی اعلیٰ شاہکار اور نمونہ ہے۔