THE MOUNTAINS RIDERS- KUMRAT VALLEY A Paradise on Earth Kumrat Valley

Latest

THE MOUNTAINS RIDERS- KUMRAT VALLEY

شہزوربانڈہ ۔۔ پربتوں کے راہی
the Mountains riders
عمرفاروق عارفی ایک بار پھر ہم میدان میں اتررہے تھے یہ میدان دوحصوں میں بانٹا گیا تھا اسے حصوں میں بانٹنے کیلیے باڑ یا دیوار نہیں بنائی گئی تھی بلکہ یہ بانٹ قدرتی تھی، قدرت کی ہر بانٹ ہی خوبصورت ،حسیں اور حکمت سے بھری ہوتی ہے، اس میدان کے درمیان سے ایک خوبصورت ندی کا گزرہورہا تھا، یہی ندی سرسبزو شاداب میدان کو قطع کرتے ہوئے لاجواب منظر پیش کررہی تھی، یہ وہی چنگھاڑتی ہوئی ندی تھی جو دوجنگہ سے شروع ہوکر ہماری رفیقہءِ سفر تھی لیکن یہاں ندی بالکل پاوں برابر چل رہی تھی، میدان سبزے سے لدے ہوئے تھے، ندی کا پانی تیز لیکن بہت ہی مودبانہ انداز میں بہہ رہا تھا، ندی کے پار پہاڑوں پہ سبزہ کم تھا اور بڑی چٹانیں ہمیں حیرت کا بت بنارہی تھیں، پیلے، نیلے، گلابی، سفید مختلف اقسام کے پھول چلتے ہوئے قدموں کو چھوتے تھے، دنیا میں جنت کی اس سے بڑی اور کیانظیر مل سکتی ہے کہ آپ اپنے دوستوں کے ساتھ ایسی جگہ ہوں جہاں بہتی ندی جس کے دونوں اطراف سبز پٹی ہو، ندی کے کناروں تک گھاس دھنسی ہو، ندی کا شرارتی پانی گھاس کو چھیڑتے ہوئے گزرتا ہو، جہاں بیٹھنے کیلیے بڑے اور چھوٹے پتھر بطور کرسیاں قدرت نے صدیوں پہلے سے سجا رکھے ہوں، جہاں ٹیک لگانے کیلیے بڑی چٹانوں کا سہارا ہو جہاں آپ قبلہ رخ بیٹھ سکیں، جہاں ندی پار پہاڑوں کے اندر بنی سلوٹوں میں سفید برف کی تہیں جمی ہوں سرمئی پہاڑوں کے قدموں میں پست قد والے درخت جبکہ اسکی ڈھلوانوں پہ اوپر دور تک کہیں کہیں گھاس کے ٹکڑے اس خطے کے براقوں کو خوراک مہیا کریں اور دیکھنے والوں کو مبہوت و مسحور کردیں، پہاڑوں کے نیچے اور اوپر جابجا برفانی تودے خوبصورتی میں اور بھی اضافہ کا باعث بن رہے ہوں۔

ندی کے دائیں طرف جہاں ہم تھے اس سے اوپر تاحدنگاہ سبزے کی قالین بچھی ہوئیں تھیں، جن پہ پھولوں کے گلدستوں کو قدرت نے ہمارے آنے سے لاکھوں کروڑوں سال پہلے سجادیا تھا، ہمہ قسم کے پھول سر اٹھا اٹھاہر آنیوالے کو تکتے تھے، ان میدانوں میں چرتی ہوئی گائے بھیڑ بکریاں گھاس کے ہر ہر تنکے کو پیٹ میں اتارتیں اور ساتھ ساتھ کلمات تشکر ادا کررہی تھیں، کچھ پہاڑوں پہ سبزہ تھا لیکن زیادہ تر پہاڑوں کےاوپری حصوں کی ساخت قدرت کی کاریگری کا اعلیٰ نمونہ تھی، سورج نکلنے اور دھوپ کے باوجود کچھ پہاڑوں کی چوٹیاں دھواں دار دھندمیں لپٹی ہوئی تھیں یہ سارا منظر کسی جنت سے کم نہ تھا، جھیل کی طرف پہاڑوں کا ایک جھرمٹ تھا ہر پہاڑ کی انوکھی ساخت اور پھر ان پہاڑوں کے پیچھے سر نکالے پہاڑ پہ برف کے تودوں کی موجودگی ورطہءِ حیرت میں ڈال رہی تھی، بادل کے چند ایک آوارہ ٹکڑوں کی وجہ سے بلیو اور وائٹ کا ایک حسین امتزاج بن رہا تھا، ہم صبح کے نکلے ہوئے اب سطح سمندر سے 3400میٹر بلندی پہ قدم جماچکے تھے،
نوٹ: وادی کمراٹ اور وادی جندرئی کا شاندار سفرنامے ''پربتوں کے راہی'' سے اقتباس، 272 صفحات اور8 رنگین صفحات پر مشتمل یہ سفرنامہ ان شاءاللہ رمضان میں شائع ہورہا ہے