KUMRAT A BEAUTIFUL LAND WITH BEAUTIFUL PEOPLE PART-III A Paradise on Earth Kumrat Valley

Latest

KUMRAT A BEAUTIFUL LAND WITH BEAUTIFUL PEOPLE PART-III

کمراٹ؛ خوبصورت ترین لوگوں کی حسین ترین سرزمین ،حصہ سوئم
Kumrat Valley is the land of Beautiful People

تحریر : فخرالدین پشاوری

تھل کو اگر کمراٹ کا بیس کیمپ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ تھل بازار میں گاڑی سے اترنے کے بعد پہلا کام کیمپنگ کے لئے موزوں جگہ کا انتخاب یا ہوٹل میں کمرہ بک کرنے کا تھا۔ تھل پہنچتے ہی بارش نے اس قدر پرجوش و پرخلوص استقبال کیا کہ کیمپنگ کرنا مشکل ہوگیا۔ میں نے بھی اپنا ارادہ یکسر سے بدل دیا اور ہوٹل میں قیام کرنے کا تہیہ کر لیا۔ ہوٹل ڈھونڈتے ڈھونڈتے جب ایک شلٹر ہوٹل میں داخل ہوا (جہاں تمام کمرے کنٹینرز کے اندر بڑی خوبصورتی سے بنائے گئے تھے) تو یہ دیکھ کر کچھ پریشان سا ہوا کیونکہ تمام کنٹینرز یعنی کمروں کو تالے لگے ہوئے ہیں اور اس وقت وہاں انسان نامی کوئی حیوان موجود نہ تھا۔ خیر باہر نکل کر سامنے جنرل سٹور پر گیا جس وقت وہاں 8 مقامی لوگ خوش گپیوں میں مصروف تھے اور ان میں سے ایک اس ہوٹل کا مالک بھی تھا۔ ان کے سامنے اپنا مدعا بیان کیا تو سب کے سب نے ایک ہی جواب دیا کہ نہیں آپ اکیلے آئے ہو اور رمضان المبارک کا مہینہ بھی ہے اس لیے سحری و افطاری میں آپ کو مشکلات درپیش ہو سکتے ہیں۔ اس لیے اچھا ہوگا کہ آپ ہمارے ساتھ ٹھہر جائے۔ میں نے اصرار کرنا چاہا لیکن سب بے کار۔ وہ سب کے سب ایک ہی فقرہ دہرا رہے تھے کہ "نہیں آپ مہمان ہو"

زمانے کا سہارا تو بظاہر ایک دِکھاوا ہے
حقیقت میں مجھے میرا خُدا گرنے نہیں دیتا
جس طرح یہ جگہ خوبصورت ہے اسی طرح یہاں کے لوگ بھی محبتیں بکھیرنے والے، پیار کرنے والے اور مہمان نواز ہے۔ رات ان کے ہاں گزارنے کے بعد اندازہ ہوا کہ انسان دولت کی بنیاد پر بڑا نہیں ہوتا بلکہ انسان کے رویے اور اس کا انسانوں سے برتاؤ اس کے بڑے پن کی نشانی ہیں۔ مہمان نوازی کا یہ وصف ان لوگوں کو وراثت میں ملی ہے۔
کل کی افطاری اور آج کی سحری کوہستان کے روایتی کھانوں کے ساتھ کرنے کے بعد آج کمراٹ جانے کا ارادہ تھا۔ جس کے لیے کل سے ایک موٹر سائیکل والے سے بات پکی کی تھی کہ وہ مجھے موٹر سائیکل پر کمراٹ لے کے جائے گا اور شام تک میرے ساتھ رہے گا۔ صبح نو بجے کے قریب تیار ہوا تو اس کی کال آئی کہ وہ ایک گھنٹہ لیٹ پہنچے گا۔ ایک گھنٹے کا انتظار تو بہت مشکل لگ رہا تھا لیکن پھر سوچا کہ تب تک بازار میں ایک دو چکر لگا لوں گا وقت بھی گزر جائے گا اور جگہ بھی دیکھ لوں گا۔

تھل دو سو سالوں سے آباد ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جہاں کوہستانی اقوام آباد ہے۔ تھل میں حکومت کی طرف سے بنائی گئی پرائمری سکول کے علاوہ کوئی بھی چیز نظر نہیں آئی، یہاں کے مقامی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت پن بجلی کے پاور پلانٹس لگائے ہوئے ہیں۔ دریا کے کنارے آباد یہ چھوٹا سا قصبہ قدرتی حسن سے مالامال ہے۔ لکڑی سے بنے خوبصورت دکانیں اور بازار کے وسط میں بہتی دریائے پنجکوڑہ یہاں کے حسن میں مزید نکھار پیدا کرتی ہے۔ دریا پر بنے پل کو پار کیا تو دائیں طرف تھل کوہستان کی تاریخی مسجد نے اپنی طرف متوجہ کیا۔

یہ مسجد دیر کوہستان کے سب سے آخری گاؤں تھل میں واقع ہے۔ تھل بازار کے آخری حصے میں واقع اس مسجد کو دیر کوہستان کے سب سے پرانے مسجد ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ 1865ء میں اس مسجد کی تعمیر کی گئی اور 1953ء میں آگ لگنے کی وجہ سے اس کا اکثر حصہ متاثر ہوا۔ جس کو مقامی لوگوں نے دوبارہ تعمیر کیا، دوبارہ تعمیر میں سات سال لگ گئے اور 1999ء میں اس کی بالائی منزل تعمیر کی گئی۔ اس مسجد کی خاص بات یہ ہے کہ چھت کے علاوہ پوری مسجد دیار کی لکڑی سے بنی ہے۔ درختوں کے بڑےبڑے تنے بطور ستون استعمال کی گئی ہے۔ دیواروں اور چھتوں پر دیدہ زیب رنگوں سے آرائش کی گئی ہے۔ مقامی لوگوں نے اپنی قدیم اوزاروں سے اس قدر خوبصورت کنندہ کاری کی ہے کہ آج کے ترقی یافتہ دور کا انسان بھی حیران رہ جائے۔ یہ مسجد وادی کمراٹ میں واقع ہے، جہاں اکثر موسم سرد رہتا ہے۔ سردی سے نمٹنے کے لئے اس مسجد میں ایک انگیٹھی بھی بنائی گئی ہے جس کے اردگرد زیادہ تر مقامی بزرگ ذکر و اذکار میں مشغول نظر آتے ہیں۔ دریائے پنجکوڑہ کے کنارے واقع فن تعمیر کے اس شاندار نمونے کو دیکھنے کے لیے ہر سال ہزاروں لوگ آتے ہیں۔
(جاری ہے)