(کمراٹ؛ خوبصورت ترین لوگوں کی حسین ترین سرزمین (قسط دوم
تحریر : فخرالدین پشاوری
ظہر کی نماز سے تقریباً تیس منٹ پہلے تیمرگرہ پہنچ گئے جہاں ہمارے ایک بہترین دوست (جو کہ تین سال تک میراکلاس فیلو بھی رہا ہے) میرے انتظار میں روڈ کے کنارے کھڑے تھے۔ بازار ہی میں جمعہ کی نماز ادا کرنے کے بعد ان کے گھر روانہ ہوئے۔ بازار سے تقریبا تیس منٹ کی مسافت پر ان کا گھر تھا۔ اسی دن کے افطاری اور دوسرے دن کی سحری وہی پر کرنے کے بعد دیر میں ہمارا یہ دوسرا دن تھا اور ہماری منزل دیر بالا میں واقع شاہی مسجد اور نواب قلعہ سے ہوتے ہوئے اپنے ایک دوسرے دوست/کلاس فیلو کا گھرتھا۔
تیمرگرہ سے اپر دیر تک ایک کشادہ سڑک جاتی ہے، مگر اس سڑک پر چھوٹی بڑی گاڑیوں کا بے پناہ ہجوم ہوتا ہے خصوصاً وہاں کے بازاروں سے گزرتے ہوئے۔ تیمرگرہ سے اپر دیر تک پہنچنے تک راستے میں کئی چھوٹے چھوٹے بازار آتے ہیں۔ خال، طورمنگ، ناگرام، ڈاب، واڑی اور داروڑہ اہم بازار ہیں۔ دیر بالا کے ضلعی ہیڈ کوارٹر سے 6،5 کلو میٹر پہلے ایف سی چیک پوسٹ واقع ہے، جس سے گزر کر بائیں طرف راستہ دیر بازار کی طرف اور دائیں طرف ایک شاہراہ اس حسین اور دلکش وادی کی طرف جاتی ہے۔ جہاں ایک باب بھی "بابِ کمراٹ" کے نام سے تعمیر کی گئی ہے۔ یہاں سے شرینگل بازار تک بڑی ہموار سڑک جاتی ہے۔ شرینگل میں خوبصورت بازار اور ایک چھوٹا سا شہر بھی آباد ہے۔ یہاں چترال اور خصوصاً دیر کے طالب علموں کے لئے ایک یونیورسٹی بھی قائم کی گئی ہے۔یونیورسٹی شہر کے دامن میں دریا کے کنارے بنائی گئی ہے۔
شرینگل سے آگے سڑک کی حالت زار قابل رحم ہے۔ بل کھاتی سڑک کہیں چھوڑی ہو جاتی تو کہیں اتنی تنگ کہ بمشکل ایک گاڑی کے گزرنے کی جگہ بنتی ہے۔ چونکہ میں کسی ضروری کام کے لیے نہیں بلکہ سیر و تفریح کی غرض سے نکلا تھا، اس لئے وہاں کے خراب اور خطرناک راستوں سے بھی لطف اندوز ہو رہا تھا۔ ویسے بھی شاعر فرماتے
ہیں کہ
ہر دل فریب چیز نظر کا غبار ہے
آنکھیں حسین ہو تو خزاں بھی بہار ہے
راستہ ایسا کہ اسے سڑک کا نام دینا سراسر زیادتی ہوگی لیکن پھر بھی سڑک پر تعمیراتی کام تیزی سے جاری تھا اور امید ہے کہ چند ہی عشروں میں اس کی تعمیر مکمل ہو جائے گی۔ جو دریائے پنجگوڑہ کے ساتھ ساتھ جاتی، پہاڑوں کے درمیان سے بل کھاتی سڑک بہت ہی حسین مناظر کی امین ہے۔ شرینگل کے بعد پاتراک سے گزرتے ہوئے کلکوٹ اور پھر تھل پہنچ گئے۔
(جاری ہے)