کمراٹ؛ خوبصورت ترین لوگوں کی حسین ترین سرزمین
تحریر : فخرالدین پشاوری
ہر سال کی طرح اس سال بھی جانے کا پورا پروگرام بنایا تھا۔ پروگرام کیا مقام کا انتخاب بھی کیا تھا کہ کہاں جانا ہے، کب جانا ہے، کیسے جانا ہے اور کس کس نے جانا ہے۔ یہ سارا پروگرام رمضان المبارک سے پہلے طے پایا تھا اور اب انتظار تھا تو صرف رمضان کے گزرنے کا کہ بس عید کا دن آئے اور دوسرے دن ہم وادی ناران کے حسین وادیوں کی طرف نکل جائے لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
پھر کیا تھا میں نے بھی کمراٹ جانے کی ٹھان لی اور تیاری شروع کی۔ تیاری کیا تھی بیگ میں ایک کمبل ، جوتے، کپڑے، دستانے، گرم ٹوپی، مفلر، چارجر، پاور بینک، سیلفی سٹیک، کیمپنگ ٹینٹ، کوٹ اور 2
کتابیں ڈالی، جس سے بیگ کا مجموعی وزن قریباً 8 کلو تک بنا اور پشاور سے تیمرگرہ جانے والی کوسٹر میں سوار ہوا۔ گاڑی چارسدہ، مردان، تخت بھائی، شیر گڑھ اور سخا کوٹ گزرتی ہوئی درگئی پہنچ گئی۔ مالا کنڈ ڈویژن میں داخل ہوتے ہی پاکستان آرمی کی جانب سے قائم کی گئی چیک پوسٹ پر شناختی کارڈ چیک کرنے کا مرحلہ بخیر و عافیت ختم ہوا تو کچھ ہی دور جانے کے بعد ہماری گاڑی کو شاید نظر لگ گئی کہ بیچارے ڈرائیور کو محکمہ ایکسائز والوں نے روک لیا۔ روکنا کیا تھا بس ہم وہیں کے رہ گئے۔ کاغذات کی جانچ پڑتال ہوتا رہا اور ڈرائیور کالز پے کالز ملاتا رہا۔ 20،25 منٹ انتظار کرنے کے بعد ڈرائیور سیٹ پر نمودار ہوا۔ معلوم نہیں معاملہ کال کرنے سے نمٹایا گیا یا کسی اور نہیں نہیں خدا نہ کریں کہ ایسا بھی کوئی معاملہ ہوا ہوں، کیوں کہ ایک طرف رمضان المبارک کا مہینہ تو دوسری طرف سے جمعۃ المبارک کا بابرکت دن۔ معاملہ جیسے بھی نمٹایا ہو لیکن ڈرائیور غلیظ ترین الفاظ استعمال کرتے ہوئے وہاں سے رخصت ہو رہا تھا تھا۔
(جاری ہے)