VISIT TO KUMRATVALLEY ON CHINA BIKE A Paradise on Earth Kumrat Valley

Latest

VISIT TO KUMRATVALLEY ON CHINA BIKE

وادی کمراٹ کا سفر اورچائینہ موٹر سائکل

Visit to Kumrat Valley on China Bike,
تحریر زاہد امین
رمضان کے مہینے میں گروپ میں پوسٹ کی تھی کہ کیا چائینہ کی سی ڈی ستر پانچ سوبیس کلومیٹر کا سفر کرکے کمراٹ تک جا پائے گی؟ میں نے سولو ٹور کرنا تھا. کچھ بندوں نے ہمت گھٹائی بہت سو نے بڑھائی،کافی مفید مشورے بھی ملے جن کی روشنی میں طے ہوا کہ سی ڈی کمراٹ تک پہنچا دیگی اور یہ کہ سولو ٹور نہیں کرنا۔

سو عید کے بعد رش کم ہونے کے دنوں کا انتظار کرنے لگا اور ساتھ ہی ساتھ ایک دوست کو بھی چلنے پہ راضی کرلیا جس کے پاس بھی سی ڈی بائیک تھی۔ چلنے کی تاریخ طے کرلی گئی، انتظار کیا گیا اور مقررہ تاریخ سے ایک دن پہلے ہی یہ فیصلہ کیا گیا کہ سی ڈی بائیک پہ سب کچھ ہوسکتا ہے پر اپس میں گپ شپ نہیں ہوسکتی سو ایک بائیک گھر میں رہے گی اور ایک پہ دونوں اکھٹا جائینگے،اٹھارہ جون کو صبح گھر سے پہلی اذان کے ساتھ ہی تقریبا تین بجے روانہ ہوگئے، اب راستے میں ایک مشکل یہ تھی کہ کوہاٹ اور درہ آدم خیل کے بیچ کوہاٹ ٹنل آتی ہے جس میں بائیکس اور اورلوڈ گاڑیوں کا داخلہ بند ہے۔ اب یا تو بندا اوپر کوتل ٹاپ کے پرانے راستے سے جائے جو کافی لمبا بھی ہے اور اس پہ ایف سی فورس کی چیک پوسٹیں بھی بنی ہیں جہاں جگہ جگہ تلاشی دینی پڑتی ہے یعنی وقت اور پڑول دونوں کا زیاں،یا پھر بائیک پک اپ میں لوڈ کرکے ٹنل عبور کیا جائے،سو فیصلہ ہو کہ کوہاٹ تک جا کے وہاں ارمی چیک پوسٹ پہ انٹری کرئینگے اور پھر کسی پک اپ میں بائیک ڈال کے ٹنل پار کرلینگے۔ چیک پوسٹ پہ قطار میں لگ کر اپنی باری کا انتظار کیا اور باری انے پر جب دستاویزات کے لئے جیب میں ہاتھ ڈالا تو پتہ چلا کہ ہم گھر سے صرف شناختی کارڈ لیکر نکلے ہیں،بائیک کی نا رجسٹریشن ساتھ ہے نا فارم،اب صورتحال یہ تھی کہ یا تو چانس مار کے اگے چلے جائیں یا ایک سو پچاس کلو میٹر واپسی کا سفر کرکے گھر لوٹ کے کاغذات لئے جائیں اور پھر اگلے دن پھر سفر کریں۔ہم نے چانس مارنے کا ارادہ کیا اور چیک پوسٹ پہ کھڑے انٹری کرنے والے فوجی بھائی کو ساری صورتحال بتا دی،اس نے ہم دونوں کو دیکھا، پیچھے بندھے سامان کو دیکھا اور ہماری کمزور سی بائیک کو دیکھ کر ہنستے ہوئے کہا کہ یہاں سے میں اپکو گزرنے دے رہا ہوں اگے اپکی قسمت ہے کہ کہاں پہ پکڑے جاتے ہیں۔ انٹری کروا کے وہیں کسی پک اپ کا انتظار کیا جو خوش قسمتی سے چند ہی منٹ میں مل گئی، دوسو روپے میں اس سے بات طے ہوئی اور وہ ہمیں اٹھا کر ٹنل کے پار اتار گیا۔ راسے میں جگہ جگہ ہم نے ناشتہ، ارام اور فوٹوگرافی کے لئے سٹے کیا تھا تو ہم دس بجے پشاور پہنچ گئے۔
پشاور میں چھوٹی موٹی خریداری کی اور گوگل میپ پہ پشاور سے کمراٹ تک کا اپنا روٹ سیٹ کرکے اگے بڑھنے لگے۔ چارسدہ کے مقام پر جانے کیسے غفلت ہوئی اور ہم جی ٹی روڈ سے کسی گاؤں کے مقامی روڈ پہ مڑ گئے، بہت اگے جاگے جب پتہ چلا تو مسٹر گوگل سے مدد طلب کی پر ان گلیوں جیسے چھوٹے رستوں کے بارے میں معلومات اسکے پاس بھی نہیں تھی، یہاں ایک بات یاد رکھیں کہ جب بھی اپ کسی گاؤں کے بھیچ پھنس جائیں تو گوگل سے مدد لینا بند کردیں اور وہاں کے مقامی بندوں سے رستہ پوچھیں، سو ہم نے بھی یہی کیا اور راستے پوچھتے پوچھتے شارٹ کٹ رستوں سے ادھے گھنٹے میں دوبارہ مین روڈ پہ آگئے۔

ہم نے تقریبا پچاس کلومیڑ کا غلط سفر کیا، وقت بھی ضائع ہوا پر ایک فائد یہ ہوا کہ کئی خوبصورت گاؤں دیکھ لئے،شیرگڑھ میں دوپہر کا کھانا کھایا اور مالاکنڈ ٹاپ کو عبور کرنے کے لئے بائیک سٹارٹ کرلی۔ ارادہ تھا کہ سہ پہر کو ہم چکدرہ میں ہونگے، وہاں رات گزارنگے اور صبح کمراٹ کے لئے نکلیں گے ۔چکدرہ پہنچ کر ایک دو جگہ ہوٹل کا پوچھا تو جواب ملا کہ اگے تیمرگرہ جاکر سٹے کریں وہ بڑا شہر ہے ہوٹل اسانی سے مل جائے گا سو چکدرہ سے تیمرگرہ پہنچ کر دم لیا اور شام کو ہم ہوٹل میں بائیک کھڑی کرکے، کمرے میں سامان رکھ کر ہوٹل کے ساتھ گذرنے والے دریائے پنجکور کے کنارے بیٹھے گپیں مار رہے تھے، کل صبح سے سارا سفر اسی دریا کے کنارے کنارے کرنا تھا۔تیمرگرہ میں جانے کب صبح ہوگئی ہوگی پر ہم دن چڑھے جاگے، جلدی سے نہا لئے اور اس بات پہ متفق ہوئے کہ پہلے بائیک کسی میکینک کو دیکھائی جائے گی اور پھر ناشتہ کرکے سیدھا نکلا جائے گا۔بائیک اے ون فٹ فاٹ تھی پر میکینک کے دو تسلی بخش بول اطمعنان اور بڑھا دیتے ہیں، بائیک مستری کو دیکھائی اور اس نے ہر جگہ سے ٹھونک بجا کے دیکھنے کے بعد اعلان کیا کہ صرف ایک نٹ غائب ہے باقی سب چنگا ہے۔ اس نے نٹ لگا کر دیا اور جب ہم نے چارجز پوچھے تو جواب ملا کہ پیسے اسکے بنتے تو نہیں پر اپ اج کے پہلے گاہک ہو سو بغیر پیسے لئے جانے نہیں دے سکتا ورنہ سارا دن مفت میں کام کرتے گذرے گا، خیر اپنے اپنے عقیدے کی بات ہے، میکینک نے بیس روپے مانگے جو دے کر ہم واپس ہوٹل ائے اور سامان باندھ کر ناشتے کرکے وہاں سے اگے روانہ ہوگئے، راستے میں جگہ جگہ رکتے، ریلیکس کرتے،چائے پیتے اور تصویریں بناتے سہ پہر کو کمراٹ وارد ہوگئے۔

سننے میں ایا تھا کہ کمراٹ میں پانچ سو تک میں ٹینٹ یا کیبن مل جاتا ہے جسے بارگینینگ کرکے تین سو تک لے ایا جاسکتا ہے ، ہم نے تین چار جگہ ریٹ پوچھے پر کیبن والوں نے اس بار اپس میں ہزار روپے کا ریٹ سختی سے طے کرلیا تھا سو ہر جگہ ہزار ہی سننے کو ملا،ہم پانچویں ہوٹل میں ٹرائی مارنے جارہے تھے کہ ایک کوہستانی اہستہ سے سائیڈ میں اکر چلنے لگا اور دھیرے سے کہا کہ ہمارے ساتھ چلو بات کرتے ہیں۔ ہم نے بھی ایک دوسرے کو انکھوں انکھوں میں اشارہ کیا اور اسکے ساتھ ایک سائیڈ پہ ہولئے،یہاں ہزار سے بولی شروع ہوئی اور چھ سو پہ ڈیل فائینل ہوئی،اس نے کیبن کھول کے ہمیں دیکھایا اور ہم نے پسند کرکے بیگ وہاں پھینکے، بائیک کو لاک کیا اور دریا کنارے چل پڑے۔

رات کو واپس ہوئے تو کیبن والا کوہستانی پھر آ موجود ہوا، کھانے کا پوچھا ہم نے کہا جو مرضی کھلا دو ہم کھانے میں نخرہ دکھانے کے قائل نہیں ہیں پر چونکہ بارش ہو رہی ہے اور سردی بھی ہے سو اج گوشت سے کم پہ ماننے والے نہیں، کل سے اپکی مرضی سے کھائیں گے، گوشت کے نام پہ یہاں صرف چکن ملتا ہے جو عام دنوں میں ہم کھانا پسند نہیں کرتے پر اج یہ بھی غنیمت تھا، کوئی ایک گھنٹے بعد اسی برستی بارش میں چکن کڑاھی اور ساتھ میں گرم گرم نان حاضر ہوگئے ، پہلے نوالا منہ میں ڈالتے ہی پتہ لگ گیا کہ کمراٹیوں کو ابھی یہ چیزیں بنانے کی عادت نہیں ہے،کھانا بیحد بدمزا اور نان ادھے کچے تھے،خیر جو بھی تھا اس بارش میں غنیمت تھا، کھانے کے بعد جو بندا برتن اٹھانے ایا اس نے چائے کا پوچھا تو ہم نے اچھی سی ٹائٹ دودھ پتی لانے کو کہا، کوئی دو گھنٹے بعد چائے ائی تو میرا دوسرا پارٹنر سو چکا تھا۔ میں نے سوچا اچھا ہے دونوں کپ خود پی لونگا اج ضرورت بھی ہے پر جیسے ہی چائے کا پہلا سپ لیا فورا پہلا دوست کا کندھا ہلا کر اسے اٹھنے کو بولا، وہ ہڑبڑا کے اٹھا اور پوچھا "خیریت" میں نے کہا اپنے حصے کا کپ ختم کرو پھر سونا،اس نے پہلا گھونٹ لیا اور شکایت بھری نظروں سے میری طرف دیکھنے لگا، میں نے کہا "تو تمہارا کیا خیال تھا کہ یہ جوشاندہ جیسی چائے میں اکیلا ہی برداشت کرتا،پیو اور بدمزگی میں اپنا حصہ وصول کرو،خیر رات گذر گئی۔

صبح اٹھے تو سوچا جیسا رات کا کھانا تھا یقینا ناشتہ بھی ایسا ہی ہوگا،اس سے بہتر ہے کہ بندا خالی پیٹ ہی ٹریکینگ پہ نکلے اور رستے میں کچھ اچھا دیکھ کے کھا پی لے، چند ایک ضروری چیزیں بیگ میں ڈالی اور کمراٹ جنگل کی طرف نکل گئے، روڈ سے ہٹ کر دریا کنارے چلتے چلتے اور تصویریں بناتے بناتے جب پیٹ نے ناشتے کے لئے کچھ زیادہ ہی تنگ کرنا شروع کردیا تو دوبارہ راستہ کی طرف اوپر آئے گئے، دریا کنارے جہاں سے ہم نکلے وہاں روڈ کنارے ایک چھوٹے سے ہوٹل پہ نظر پڑی،ہوٹل کا نام نہیں تھا پر سڑک کنارے ایک پینا فلکس لگا رکھا تھا جس پر لاہوری ڈش لکھا تھا اور ساتھ میں ایک لمبا سا پینا فلکس تھا جس پر کچھ ماڈرن ڈششز کے نام اور تصاویر لگی تھیں۔ ہم نے پہلے چائے کا ارڈر دیا کہ اگر چائے اچھی آگئ تو یہ بندا ناشتہ بھی بہتر بنا پائے گا۔چائے آگئ اور پہلی سپ لیتے ہی پتہ چل گیا کہ بندا استاد ہے،ناشتے کا پوچھا کہ بھئی کیا کیا کھلا سکتے ہو؟. اس نے بتایا کہ یہاں کمراٹ میں کھانے کے ائٹم کم ہی ملتے ہیں، ہمارے پاس دال، چنا، چاول، انڈے اور چکن ہے، اور ان میں سے ہر چیز کو دس مختلف طریقوں سے پکا کر کھلا سکتا ہوں اپ بس ارڈر دیں اور تماشا دیکھیں۔ ہم نے انہی چیزیں میں سے سلیکٹ کرکے ناشتے کا ارڈر دیا اور کچھ دیر بعد ناشتہ سامنے تھا۔

پیٹ بھرتے ہی پیٹ نے ہمیں دعا دی اور ہم نے اس کُک کو،ناشتے کے بعد انسے بات چلی تو معلوم ہوا کہ وہ کوہستانی نہیں بلکے پشاور کے ساتھ والے ایک گاؤں "متنی" کے ہیں، نام ا ن کا خان زمان تھا، کافی سارے بھائی تھے جو ہوٹلینگ کے کاروبار سے منسلک تھے، خان زمان لاہور میں پانچ سال اور پشاور میں تین سال بھائیوں کے ساتھ ہوٹل چلا چکے تھے اور یہ کمراٹ میں انکا پہلا سیزن تھا۔ بندے کو مولا نے میٹھی زبان، اچھے اخلاق اور ہاتھ میں ذائقہ تینوں دے رکھا تھا۔ اسکے ہوٹل کے سامنے لگے ٹینٹس کے ریٹ پوچھے تو پانچ سو پہ بات بن گئی۔

یہاں نظارہ بھی خوبصورت تھا، اور سب سے بڑی بات کہ کھانا زبردست مل رہا تھا جو کمراٹ میں اک ناممکن سی بات ہے اور کافی ٹورسٹ اپنی ویڈیوز اور سفر کی روداد میں یہ شکایت کرتے دیکھے جاتے ہیں۔ہم نے اگے کی ٹریکینگ ترک کی واپس اپنے کیبن کو چلے اور وہاں کیبن کے مالک سے رات کا حساب چکتا کرکے، بائیک لیکر خان زمان کے ہوٹل کے سامنے ٹینٹ میں شفٹ ہوگئے،اگے کی دو راتیں انکی ساتھ رہیں اور ان دو راتوں دو دنوں کے دوران خان زمان نے ہمیں زبردست سے دو ناشتے، دو لنچ اور دو ڈنر کروائے،تیسرے دن صبح واپسی پر جب انسے اس سارے نقصان کی قیمت پوچھی تو اُس نے اتنی رعایت سے سب چیزوں کا بل بنایا کہ ہم سوچنے لگے کہ اس ریٹ پہ تو یہ سب کچھ ہمیں ہمارے شہر میں بھی نہیں ملنے والا، گھر سے ہم رات کے تین بجے نکلے تھے اور یہاں واپسی میں ہم کمراٹ سے صبح کے نو بجے نکلے سو چھ گھنٹے کا گیپ پڑ گیا بیچ میں،ارادہ کیا کہ چونکہ یہاں بھرپور ناشتہ کرلیا ہے تو دوپہر کا کھانا نا کھا کر وقت بچایا جائے گا اور ممکنہ تیزی سے چلتے ہوئے ہمیں رات پشاور تک پہنچانی ہوگی جہاں چند گھنٹے سو کر پھر ارام ارام سے گھر جائیں گے،اندازے ہمارے غلط نکلے اور رات کے تین بجے ہم پشاور پہنچے۔ اب یہ صبح کی اذان کا وقت تھا پر ہمیں کچھ گھنٹے نیند بھی کرنی تھی تو ہوٹل میں روم لے لیا۔ مشکل سے چار بجے انکھ لگی اور چھ بجے ہم نیچھے گذرتی گاڑیوں کے شور سے جاگ کر بستروں میں بیٹھے تھے- شاور لیا اور گھر کی طرف روانہ ہوئے۔