HOSPITALITY OF THE PEOPLE OF DIR KOHISTAN AND KUMRATVALLEY PART-II A Paradise on Earth Kumrat Valley

Latest

Saturday, April 27, 2019

HOSPITALITY OF THE PEOPLE OF DIR KOHISTAN AND KUMRATVALLEY PART-II

دیر کوہستان کے مہمانوازی کا ایک زندہ ثبوت حصہ دوئم
Hospitality of the people of Dir Kumrat

تحریر ذیشان ریاض
اب چلتے ہیں اصل داستان کی طرف۔
لاہور سے 20-21 گھنٹے کا سفر اور پہاڑ پر چڑھنے کے بعد ہم نڈھال اور اکھڑے سانسوں کے ساتھ کمرے میں پہنچے، ہمعیں دو گرم کمبل لا کر دیے گئے، پانی پلایا گیا، اسی دوران ڈرائیور صاب کی والدہ تشریف لائی بڑی گرم جوشی سے انہوں نے مجھ سے ہاتھ ملایا اور مسسز کو گلے لگایا۔چونکہ انکو اردو نہیں آتی تھی ہمیں کوہستانی نہیں آتی تھی اس لیے لفظوں کی بجائے Universal language ۔مسکراہٹ کے ذریعے آپس میں communicate کیا۔ اس کے بعد آدھے گھنٹے تک کمرے میں کوئی نہیں آیا، ہمیں ریکس ہونے اور فریش ہونے کا ٹائم دیا گیا مکمل پرائیویسی دی گئی اور آدھے گھنٹے بعد ایک بچہ گرم پانی اور ایک برتن لایا اور ہمارے ہاتھ کمبل میں بیٹھے بیٹھے دھلوا کر واپس چلا گیا، اور کچھ لمحے بعد کھانا serve کردیا تھا,ہاتھ دھلوانے کے اس Gesture نے ہماری آدھی تھکاوٹ اتار دی تھی اور باقی تھکاوٹ کھانے نے اتار دی تھی کھانے کی پکچر نیچے شیئر کررہا ہوں، چونکہ کوہستانی ایک غیور اور باغیرت قوم ہے، اس لیے انکی خواتین میرے سامنے نہیں آئیں سوائے انکی والدہ کے، چونکہ انکی باقی خواتین مسسز سے ملنا چاہتی تھیں اس لیے میری مسسز انکی والدہ اپنے ساتھ اندر لے گئیں۔
مسسز نے بتایا کہ انکی سب سے بڑی بہو نے میرے پاؤں دبانے کی بھرپور کوشش کی،لیکن میں نے مسلسل انکار کیا کیونکہ مجھے گوارہ ہی نہیں تھا کہ ایک بڑی عمر کی خاتون میرے پاؤں دباتی، انکی ایک بیٹی میرے لئے کوئلے دہکا کر لائی کچھ دیر بعد ڈرائیور صاب نے بستر وغیرہ سیٹ کرکے دیا، قہوہ لا کردیا اور شب بخیر کہہ دیا تاکہ ہم آرام کرسکیں صبح اٹھے گرم پانی سے ہمارے منہ ہاتھ دھلوائے گئے، ہم سے پوچھ کر صحن میں ناشتہ لگایا گیا، ناشتے اور صحن کا سین نیچے تصویر میں دیکھ لیں۔۔
ناشتہ وغیرہ کرکے میں نے مسسز سے کہا کہ ڈرائیور کے تمام بچوں کو پیسے دو، یہ پیسے انکی مہمان نوازی کی Compensation تو ہو ہی نہیں سکتی تھی، بس ہماری طرف سے ایک قِسم کا Token of love تھا، جس کو دیتے ہوئے ہمعیں پورے گھر کی طرف سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔۔۔مگر ہم نے پیسے بچوں کو تھما دیے اور واپس تھل جانے کے لیے اجازت لی اور کہا کہ ہمعیں وہاں پہنچا دیں تاکہ ہم آگے کمراٹ جنگل میں جاکر ڈیرہ لگا سکیں۔ اس دوران ڈرائیور صاحب کے ابو نے کوہستانی زبان میں کچھ کہا جس کا ترجمہ ڈرائیور صاب 
نے مجھے بتایا تو میں اور مسسز ایک دوسرے کا منہ تکنے لگ گئے کہ اب کیا کریں ہم؟

حصہ اول دیکھنے کے لیے  کلک کریں

حصہ سوئم پڑھنے کے لیے کلک کریں