صمد شاہی۔گمنام وادی
گمنام کوہستانی کی قلم سے
دیر کوہستان کے صرف 20 فیصد علاقے کو باہر کی دنیا نے دیکھا ہے 80 فیصد علاقے ابھی تک دنیا کی نظروں سے اوجھل ہے۔ ان گمنام لیکن قدری حسن سے مالامال علاقوں میں ایک کا نام ہے وادی صمد شاہی۔ صمد شاہی کا قدیم نام سمن شئی تھا جس کے معنی ہے سمن کا میدان، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ سمن شئی سے صمد شاہی بن گیا اور آج اسی نام سے معروف ہے۔ صمد شاہی وادی گوالدی کا سب سے حسین اور سرسبز چراگاہ ہے۔ یہاں چونکہ مقامی ضلعی حکومت کی دلچسپی سیاحت کے فروغ کے بجائے کشمیر اور افغانستان کے مسائل میں ہے اس لئے ٹھیک تو نہیں معلوم لیکن میرے معلومات کے صمد شاہی گاوں راجکوٹ ( پاتراک ) سے تقریباً 60 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ صمد شاہی کا شمار دیر کوہستان کے ان چراگاہوں میں ہوتا ہے جن کا ہماری مقامی لوک کہانیوں میں ذکر ہے۔ سطح سمندر سے تقریباً 14000 فٹ بلند وادی صمد شاہی جانے کے لئے آپ کو دیر کوہستان کے سب بڑے اور پہلے گاوں راجکوٹ ( پاتراک ) آنا ہوگا، یہاں سے دریائے گوالدی کے کنارے ایک کچا سا روڈ وادی گوادی کے طرف گیا ہے۔ اسی روڈ پر آگے آ کر گوالدی کے چھوٹے بڑے گاوں کو کراس کرکے آپ نے بر کلے پہنچنا ہے، بر کلے وادی گوالدی کا آخری گاوں ہے، یہاں رات گزارنی لازمی ہے کیونکہ ایک دن میں صمد شاہی پہنچنا ناممکن ہے، یہاں نہ تو ہوٹلز ہیں اور نہ کوئی گیسٹ ھاوس اس لئے مقامی لوگوں کا مہمان بننا پڑے گا۔
مقامی لوگ سیدھے سادے اور مہمان نواز لوگ ہیں جو ہر مہمان کو دل کی گہرایوں سے خوش آمدید کہتے ہیں اور اپنی بساط کے مطابق ہر مہمان کی بلا معاوضہ خدمت کرتے ہیں۔ اگر آپ کے پاس گاڑی ہے تو برکلے تک فور بائی فور گاڈی آرام سے آسکتی یے، یہاں گاڑی پارک کرکے آگے پیدل جانا ہوگا۔ بر کلے سے پھر آگے جنگڑی نام کا ایک مقام آتا ہے، جنگڑی کے بعد کوڑ مئی بانال کے علاقے شروع ہوتے ہیں۔ کوڑ مئی ایسا بانال ہے جس کے بارے میں میں نے کئی بزرگوں سے سنا ہے کہ دیر کوہستان کی سب سے نرم گھاس یہاں پائی جاتی ہے، کہتے ہیں کہ یہاں جو گائے ایک وقت میں چار کلو دودھ دیتی ہے تو دوسرے علاقوں میں وہی گائے دو کلو دودھ دیتی ہے۔ کوڑ مئی کے بعد صمد شاہی کے علاقے شروع ہوتے ہیں۔ صمد شاہی میں 2 چھوٹی جھیلیں دوسان جھیل اور میرعالم جھیل کے علاوہ ایک بڑی جھیل نیلا طوطا جھیل بھی واقع ہے، اس کے علاوہ لا تعدار چھوٹے بڑے آبشار، وسیع و عریض سرسبز میدان، ٹھنڈے میٹھے پانی کے چشمے۔ دیودار کے گھنے جنگلات اور بڑے بڑۓ گلیشئر بھی ہیں۔ یہ پوری وادی چاروں طرف سے اونچے اونچے پہاڑوں میں گھری ہوئی ہے جن کے چوٹیاں اکثر برف پوش ہوتی ہیں۔ جو لوگ یہاں ہر سال موسم گرما میں اپنے مال مویشیوں کے ساتھ آتے ہیں ان کے بقول صمد شاہی میں سورج کے طلوع اور غروب ہونے کے مناظر بھی بہت منفرد اور دیگر علاقوں سے مختلف ہوتے ہیں، سورج کے طلوع ہوتے ہی اونچے برفیلے پہاڑ ایسے چمکتے ہیں کہ یہ دودھیا (دودھ والے) پہاڑ نظر آتے ہیں۔ جبکہ غروب آفتاب کے وقت جب سورج چترال کے پہاڑوں کے پیچھے چھپ جاتا ہے تو وادی میں دھیمی روشنی والی شام کا اپنا ہی مزا ہوتا ہے۔
صمد شاہی میں دیرکوہستان کے مشہور چرا گاہیں واقع ہیں۔ جن میں سے کچھ کے نام یہ ہیں۔ جل بھنگ بانال، بھولی سمس بانال، شگہ بانال، دڑے بانال، دوبا بانال، جبڑ بانال، جندرکھن بانال، مندر بانال، میر باز بانال، لایان بانال، مام صحرا بانال، ڈیر کھن بانال، سان بانال، سر بانال وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ یہاں کاشکین پاس بالکل صمد شاہی کے ساتھ لگا ہوا ہے، کاشکین پاس کو ہمارے لوگ صدیوں سے چترال جانے کےلئے استعمال کرتے ہیں۔ صمد شاہی جانے کا ایک راستہ کمراٹ سے بھی ہو کر جاتا ہے، کمراٹ میں جہاں روڈ ختم ہوتا ہے یعنی دوجنگا کے سامنے ایک راستہ کونڈل بانال کی طرف جاتا ہے اور دوسرا راستہ گورشئی اور شاہ زور جھیل کےطرف جاتا ہے، اسی شاہ زور جھیل والے راستے پر آگے آ کر چھاروٹ نام کا ایک بانال یعنی چراگاہ آتا ہے۔ یہاں ایک راستہ تو سیدھا شازور بانال اور شازور جھیل کی طرف جاتا ہے جبکہ دوسرا راستہ سامنے کاشکین بانال کی طرف نکلتا ہے، آپ نے کاشکین والے راستے پر آنا ہے اور پھر کاشکین بانال کو کراس کرکے صمد شاہی میں اترنا ہوگا۔ یاد رکھئے یہ راستے (گوالدی اور کمراٹ دونوں) ایک آدھ دن کا راستہ نہیں ہے بلکہ یہ کم سے کم دو دن کا راستہ ہے۔ راستے میں نہ تو ہوٹلز ہیں اور نہ کوئی گیسٹ ھاوس اس لئے کھانے پینے کی چیزیں ساتھ لانا ضروری ہیں. جھیلوں، آبشاروں، چشموں اور گلیشیئروں کی یہ وادی موسم گرما (مئی تا ستمبر) میں سیاحوں کی منتظر رہتی ہے۔