ڈوگ درہ ۔ دیر بالا کا پر فضا گمنام وادی
تحریر: گمنام کوہستانی
ایک وقت تھا کہ دیر کوہستان کے بارے میں باہر کے بہت کم لوگ جانتے تھے۔ شہروں کے لوگ دیر کوہستان کا نام سنتے ہی لا علمی کا اظہار کرتے تھے۔ مزے کی بات یہ ہے کئی لوگ یہ سمجھتے تھے کہ ہم پاکستان میں ہے ہی نہیں۔ مجھے یاد ہے ہمارے ہاں کرک سے کچھ پشتون تبلیغی حضرات آئے تھے، ان میں سے ایک نے اپنے گھر والوں سے بات کرنی تھی، یہ موبائل وغیرہ تو اب آیا اس وقت ہمارے بازار میں رودل ماما کا پی سی او تھا، صادق امیر صیب نے مجھے اس تبلیغی مہمان کے ساتھ کیا اور ہم سیری بازار آئے۔ پی سی او میں فون پر وہ مہمان اپنے گھر والوں سے کہہ رہا تھا کہ ہم لوگ تاجکستان کے بارڈر پر ہیں، وہ دیرکوہستان کو پاکستان اور تاجکستان کا سرحدی علاقہ سمجھ رہا تھا، وقت تھا گزر گیا۔
اب یہ حال ہے کہ کمراٹ کے بارے میں پاکستان کیا باہر کے لوگ بھی جانتے ہیں۔ پاکستان بھر سے ہر سال ہزاروں لوگ کمراٹ آتے ہیں، یہاں ان پر سکون وادیوں میں اپنی زندگی کے کچھ لمحے سکون سے گزار کر واپس اپنے شہروں کے طرف لوٹ جاتے ہیں۔ یہ جو دنیا کمراٹ کے بارے میں جانتی ہے یہ بھی مقامی یا صوبائی حکومت کا کارنامہ نہیں یہ ہم لوگوں کا اپنا کارنامہ ہے، ہم سب کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ ایک دنیا آج کمراٹ کے بارے میں جانتی ہے۔ اب وقت آیا ہے کہ ہم دیر کوہستان کے ان خوبصورت علاقوں کے بارے میں دنیا کو بتائیں جو ابھی تک گمنام ہیں۔ اگر آپ حکومت یا کسی اور مسیحا کے منتظر ہیں کہ وہ ان علاقوں میں سیاحت کے فروغ کے لئے کچھ کریں گے تو یہ آپ کی خام خیالی ہے۔ ان لوگوں نے سیاحت کے فروغ کےلئے نہ پہلے کچھ کیا ہے اور نہ مستقبل میں ایسا دکھائی دے رہا ہے۔ اس لئے ہمیں خود کوشش کرنی ہوگی۔ دیر کوہستان کے ان علاقوں کے بارے میں دنیا کو بتانا ہوگا جو ابھی تک دنیا کے نظروں سے اوجھل ہیں۔ اگر آپ خود نہیں لکھ سکتے تو مجھے معلومات دیجئے وہاں کی تصویریں بھیج دیجئے میں کس مرض کی دوا ہوں؟ یہ اس مٹی کا ہم پر حق ہے کہ ہم اس کے بہتر مستقبل کےلئے اپنی بساط کے مطابق کوشش کریں۔۔۔
ابھی تک باہر کی دنیا نے دیر کوہستان کا 20 فیصد حصہ دیکھا ہے 80 فیصد حصہ ابھی تک گمنام ہے، ان گمنام وادیوں میں ایک کا نام ہے ڈوگ دارہ ہے۔ڈوگ دارہ ایک سرسبز اور حسین علاقہ ہے۔ یہاں جانے کے لئے آپ کو نہ تو تھل جانے کی ضرورت ہے اور نہ جندری یا جاز بانڈہ۔ اگر آپ دیر چکیاتن کی طرف سے دیر کوہستان آرہے ہیں تو راستے میں شرینگل نام کا ایک مقام آتا ہے، جہاں شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی ہے، شرینگل کو ہم دیر کوہستان کا دروازہ کہہ سکتے ہیں۔ شرینگل کے مین بازار سے نکل کر دیر کوہستان کی طرف تقریباً دو کلومیٹر آگے آتے ہوئے راستے میں ایک پل آتا ہے۔ پل سے آگے ایک روڈ تو سیدھا تھل کمراٹ کی طرف جاتا ہے اور ایک لنک روڈ بائیں طرف اوپر پہاڑی گھاٹی میں غائب ہوجاتا ہے یہی ڈوگ دارہ کا روڈ ہے جو دریا کے ساتھ ساتھ ڈوگ دارہ کے گمنام لیکن قدرتی حسن سے مالامال علاقوں کے طرف جاتا ہے۔ اگر آپ کالام بحرین سائڈ سے دیر کوہستان آرہے ہیں تو پھر آپ نے دیر کوہستان کے پانچ بڑے گاوں لاموتی، کلکوٹ، بریکوٹ، جار (بیاڑ) اور پھر آگے راجکوٹ (پاتراک) کو کراس کرکے اس پل تک آنا ہوگا۔۔۔
ڈوگ دارہ کا پہلا گاوں درمدالہ ہے، آگے تھوڑا سا سفر کرنے کے بعد ایک راستہ کیلوٹ گاوں کی طرف نکلتا ہے اور سیدھا راستہ ڈوگ پائیں، مینہ ڈوگ پھر برڈوگ سے ہوکر آگے جاکر مین روڈ سے دو اور راستے نکلتے ہیں، دائیں طرف کا راستہ شاٹکس اور سونڑا کے گاوں تک جاتا ہے جبکہ بائیں طرف کا راستہ ملوک خوڑ وغیرہ کے علاقوں کی طرف نکلتا ہے۔ مین روڈ پر آگے بدرکنی نام کا گاوں ہے اس کے بعد کاٹیر کا علاقہ شروع ہوتا ہے۔ کاٹیر کے دائیں طرف دریا کے دوسرے جانب ایک ندی بہتی ہے، اس ندی پر آگے جاکر نمیلہ کے علاقے شروع ہوتے ہیں، نمیلہ کے مقام پر گل بٹ کے نام سے ایک چھوٹی سی جھیل بھی ہے جس کا پانی چترال دروش کے طرف بہتا ہے۔ نمیلہ سے آگے قشقارے گاوں ہے ۔ قشقارے کے آگے پھر دیر خاص شروع ہوتا ہے۔۔۔
واپس مین روڈ پر آتے ہیں، کاٹیر سے آگے روغانو کلے آتا ہے، یہاں دائیں ہاتھ پر قدیر کلے ہے اور اس کے بعد آگے پنا غار کا علاقہ ہے۔ مین روڈ پر روغانو کلے کے بعد ببوزے کا علاقہ شروع ہوتا ہے۔ ببوزے آخری انسانی آبادی ہے اس کے آگے پھر چراہ گاہیں شروع ہوتی ہیں۔ ببوزی گاوں کے بائیں ہاتھ پر ایک ندی بہتی ہے جو لو دار (لوے دیرہ) سے آتی ہے، لوے دارہ ایک خوبصورت چراگاہ ہے جس کی دوسری طرف وادی گوالدی ہے۔ ببوزو گاوں سے سیدھا آگے پرلو بانال یعنی چراہ گاہ ہے، پرلو سے آگے کشور کے علاقے شروع ہوتے ہیں، کشور کے مقام پر ڈوگ دارہ کی مشہور جھیل پوبیت جھیل؛واقع ہے۔ اس سے آگے گھوڑوں پر چترال پہنچنے میں تقریباً سات سے 8 گھنٹے لگتے ہیں۔ پرلو کے دائیں طرف جرند کھن (جرند کو) کی طرف راستہ نکلتا ہے۔ یہاں بھی جرند کو کے نام سے ایک چھوٹی سی جھیل موجود ہے، جرند کو سے ہمارے لوگ گھوڑوں پر پانچ سے چھ گھنٹوں میں چترال کے علاقے دروش بازار آرام سے پہنچ جاتے ہیں۔ یہ راستے زمانہ قدیم سے ہمارے لوگ چترال جانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔۔۔
ڈوگ دارہ کی مین ندی پوربیت جھیل سے نکلتی ہے، الہڑ دوشیزہ کی طرح بل کھاتی لہراتی یہ ندی راستے میں اپنے ساتھ بہت سارے ندی نالوں کو لے کر دریائے پنجکوڑہ میں روپوش ہوجاتی ہے۔ ڈوگ دارہ میں تقریباً 25 گاوں ہیں۔ مشہور سیاحتی مقامات کشورہ، جرند کھن (جرندکو)۔نمیلہ، لودار ( لوے دارہ )، قشقاروں ڈب وغیرہ ہے، پوربیت جھیل کے علاوہ جرند کو جھیل۔ گل بٹ جھیل اور ایک گمنام جھیل اور بھی ہے۔ اس کے علاوہ لا تعداد جھرنے، ٹھنڈے میٹھے پانی کے چشمے، وسیع وعریض سرسبز میدان، دیار کے گھنے جنگل اور پرف پوش پہاڑ یہاں کی حسن کو چار چاند لگا رہے ہیں۔ شرینگل کے مین بازار سے ببوزو ڈوگ دارہ تک صرف تین گھنٹوں کا سفر ہے۔ یہاں نہ تو ہوٹلز ہے نہ کوئی گیسٹ ہاوس اس لئے مقامی لوگوں کی ہی میزبانی سے گزارہ کرنا ہوگا، مقامی سیدھے سادے لوگ ہیں۔ جو اپنے ہر مہمان کو دل کی گہرائیوں سے خوش آمدید کہتے ہیں۔۔
Special Thanks to Mr. Hidyat Paswal and Mr. Salim Ullah for information.