تحریر :محمد ہشام
کمراٹ جاتے ہوئے گندیگار میں پٹھان ڈرائیور سڑک کنارے بنے ہوئے ایک ہوٹل پر دل ہار بیٹھا۔اس نے وین دریا کنارے ایک سائیڈ پر لگائی اور پشتو میں اونچی آواز سے کچھ کہا اور میں نے ایسے سر ہلا دیا جیسے سب سمجھتا ہوں۔دوسری سواریوں کی طرح میں بھی نیچے اتر آیا۔میرے پاؤں کے نیچے دریائے پنجکوڑہ چنگھاڑتا تھا اور مجھے کمراٹ آنے کی دعوت دیتا تھا۔ہوٹل دیکھ کر میں سمجھ گیا تھا کہ ڈرائیور نے کھانے پانی کے لیے وین روکی ہے۔کچھ لوگ ہوٹل کی طرف لپکے اور کچھ سامنے موجود مسجد میں سجدہ ریز ہونے چلے گئے۔ میں چوں کہ تیمر گرہ میں کھانا کھا چکا تھا لہٰذا میں بھی مسجد کی طرف ہو لیا۔مسجد کے اندر داخل ہوتے ہی بائیں طرف ایک راستہ نیچے جا رہا تھا وہاں وضو خانہ تھا۔ٹونٹی چلا کر پانی کو چھوا تو میرے اندر تک یخ بستگی دوڑ گئی۔یہ پانی دریا سے آتا تھا جو برف کی طرح ٹھنڈا تھا۔
میرا ذہن پیچھے چلا گیا۔جب ہم نیلم ویلی جا رہے تھے تو لہتراڑ اور کوٹلی ستیاں سے ہوتے ہوئے جب ہم مکھیالہ پہنچے تو ظہر کا وقت ہو رہا تھا۔ہم کسی مسجد کی تلاش میں نظریں دوڑانے لگے اچانک ایک موڑ پر مسجد نظر آگئی۔ڈرائیور نے گاڑی سڑک کے کنارے اور عین پہاڑ کے نیچے کھڑی کر دی۔پہاڑ کو کاٹ کر سڑک بنائی گئی تھی اس لیے پہاڑ بالکل عمودی تھا۔ہماری گاڑی سے ذرا پیچھے پہاڑوں سے آنے والے پانی میں پائپ ڈال کر وضو کی ٹونٹیاں لگائی گئی تھیں۔ہم نے وضو کیا تو مزا آگیا۔
نہایت ٹھنڈا اور فرحت بخش پانی، وضو کر کے ہم سب تازہ دم ہو گئے۔مسجد میں قصری نماز ادا کی اس نماز کا مزا ہی کچھ اور تھا۔پہاڑوں سے آتا یخ بستہ پانی اور سڑک کنارے ایک خاموش مسجد جس کے پیچھے بہت سے بکھرے بکھرے اور ذرا ذرا سے فاصلے پر گھر،جیسے کسی نے پہاڑوں میں وہ گھر آرام سے دبا دیے ہوں اور وہ وہاں خوش و خرم ہوں۔یہ مسجد سڑک کے دوسرے کنارے ایک چھوٹی سی کھائی میں تعمیر کی گئی تھی۔اس کی دو منزلیں تھیں۔پہلی منزل کھائی کے اندر تھی اور دوسری منزل سڑک کے برابر۔نماز کے بعد ہم واپس آئے تو ڈرائیور دھواں دھار ہو رہا تھا۔ہمیں دیکھ کر اس نے جلدی سے دو تین کش لگائے اور سگریٹ کو پھینک کر گاڑی سٹارٹ کر دی۔
اس مسجد کی بھی دو منزلیں تھیں۔نیچے واش روم اور وضو خانہ تھا اوپر مسجد تھی۔پہاڑوں کے ان دونوں اسفار میں یہ دونوں مساجد مجھے ابھی تک یاد ہیں اور ان میں پڑھی گئی دو رکعت قصری نماز ابھی تک نہیں بھولا۔کیوں کہ نماز میں یکسوئی اور اپنے رب کی طرف دھیان وہیں ہو سکتا ہے جہاں کائنات بھی خاموش ہو۔دور بہت دور تک کوئی شور سنائی نہ دے۔
انسان کی اپنے رب کے ساتھ سرگوشیاں ہوں اور دلوں میں آرام اترتا محسوس ہو۔ پرسکون اور شور سے دور عبادت کرنے کا اپنا ہی مزا ہے۔بجا کہ دونوں مساجد سڑکوں کے عین کنارے واقع ہیں لیکن اول الذکر مسجد چوں کہ ایک غیر معروف علاقے میں ہے اس لیے وہاں ٹریفک نہ ہونے کے برابر ہے۔کبھی کبھار کوئی چھوٹی موٹی گاڑی خفیف سی آواز کے ساتھ گزر جاتی ہے لیکن وہ آواز بھی پہاڑوں میں سر پٹخ کر خاموش ہو جاتی ہے۔