وادی کمراٹ کا مختصر تعارف اور مشہور سیاحتی مقامات
گمنام کوہستانی کے قلم سے
وادی کمراٹ سلسلہ کوہ ہندوکش کی دامن میں واقع ایک خوبصورت وادی ہے۔ یہ خیبر پختونخوا کے علاقے کوہستان دیر بالا میں واقع ہے۔ کچھ سال پہلے شائد ہی کوئی اس علاقے کے بارے میں جانتا ہوگا، لیکن آج یہ وادی تفریح کے دلدادہ لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گئی ہے، پچھلے دو تین سالوں سے پاکستان سے لاکھوں سیاح اس وادی کا رخ کرچکے ہیں۔ اس جادوئی کشش رکھنے والی وادی میں برف پوش پہاڑ، گھنے جنگلات، ابلتے پانی کے چشمے، سرسبز وسیع میدان، گرتے آبشار، گنگناتے جھرنیں اور لاتعداد اقسام اور رنگ کے پھول جابجا نظر آتے ہیں۔ ویسے تو پوری وادی دیکھنے کی قابل ہے لیکن کچھ مقامات ایسے ہیں جنہیں دیکھے بغیر واپس آنا میرے خیال میں کمراٹ کی حسن کی توہین ہوگی ۔
جامع مسجد دارالاسلام تِھل
بظاہر اس مسجد کا کمراٹ کے خوبصورتی سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن اس مسجد کو دیر کوہستان کی سب سے قدیم اور مشہور مسجد ہونے کا اعزاز حاصل ہے، یہ مسجد دیر کوہستان کے سب سے آخری گاوں تِھل میں واقع ہے۔ تِھل بازار سے آگے دریائے پنجگوڑہ کے عین کنارے واقع اس مسجد کے دو حصے ہیں، بالائی منزل جستی چادروں سے 1999ء میں تعمیر کی گئی ہے۔ جبکہ زیریں حصہ 1865ء میں تعمیر کیا گیا ہےـ 1953 میں اس مسجد میں ہونے والے آتشزدگی کی وجہ سے اس کا ایک حصہ متاثر ہوا۔ جس کو مقامی لوگوں نے دوبارہ تعمیر کیا۔ اس مسجد کی خاص بات یہ ہے کہ سوائے چھت دیواروں کے باقی پوری مسجد دیار کی لکڑی سے بنی ہے، درختوں کے بڑے بڑے تنے ستونوں کے طور پر استعمال کئے گئے ہیں، دیواروں اور ستونوں پر کلہاڑی اور دیدہ زیب رنگوں سے آرائش کی گئی ہے کہ آج کے مشینی دور کا انسان حیران ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ یاد رہے اس وقت لکڑی کاٹنے کی مشین آری وغیرہ نہیں تھے۔ مقامی لوگوں نے اپنے قدیم آوزاروں سے دیواروں اور ستونوں پر بہت ہی خوبصورت کنندہ کاری کی ہے۔ دریائے پنجگوڑہ کے کنارے واقع داردی فن تعمیر کے اس شاندار نمونے کو دیکھنے کے لئے ہر سال ہزاروں لوگ آتے ہیںـ مسجد میں تصویر کھینچے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔
کوتگل آبشار
تِھل بازار سے نکل کر کمراٹ کی طرف جاتے ہوئے راستے میں ایک چڑھائی آتی ہے، ساتھ میں دو چار دکانیں ہیں، آگے جا کر ایف سی کی چیک پوسٹ آتی ہے، دراصل کمراٹ صرف اس جگہ کا نام ہے۔ پوری وادی کو کمراٹ کا نام باہر کے لوگوں نے دیا ہے۔ ایف سی چیک پوسٹ سے آگے والے علاقے کو سری مئی کہا جاتا ہے جہاں ہر سال کمراٹ فیسٹول منعقد ہوتا ہے۔ اس سے آگے روئی شئی کا میدان آتا ہے، جہاں اس ہموار میدان کا اختتام ہوتا ہے وہی سیدھے ہاتھ پر کوتگل ابشار بلندی سے گرتا ہے۔ یہ بالکل مین روڈ سے نظر آتا ہے، اس ابشار کو دیکھنے کے لئے آپ کو تھوڑے دور تک پیدل جانا پڑے گا۔ کم سے کم آدھا گھنٹہ آپ کو پیدل ہموار راستے پر جانا پڑے گا، دور سے یہ ایک عام سا جھرنا نظر آتا ہے لیکن نزدیک پہنچنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ یہ ایک حسین اور سحر انگیز ابشار ہے۔
لال گاہ آبشار
لال گاہ ابشار کمراٹ ویلی کا سب سے مشہور ابشار ہے، اونچائی سے گرنے والا اس ابشار کا سرد برفیلا پانی اونچے برف پوش پہاڑوں پر موجود گلیشئیر سے پگھل کر آتا ہے۔ صبح کے وقت اس کی روانی دیکھنے لائق ہوتی ہے، سرد برفیلا پانی جب اونچائی سے گر کر راستے میں پتھروں سے پٹخ کر جب زور سے زمین پر گرتا ہے تو اس خوش کن نظارے سے انسان مسحور ہو کر رہ جاتا ہے۔
(کالا پانی ( کالا چشمہ
کالا چشمہ جسے کچھ لوگ کالا پانی بھی کہتے ہیں، کمراٹ میں واقع ایک چشمے کا نام ہے۔ جس کا پانی ہلکا سا کالا نظر آتا ہے جس کی وجہ سے اسے کالا چشمہ کہتے ہیں۔ مقامی کوہستانی زبان ( گاوری داردی ) میں اسے کیشین دیرا اوس یعنی کالے پتھروں کا چشمہ کہتے ہیں۔ لفظ دیر گاوری زبان میں بڑے بڑے پتھروں کے لئے مستعمل ہے، یہ بڑے بڑے کالے پتھر اس چشمے کے ارگرد موجود ہیں جس کی وجہ سے چشمے کا پانی کالا نظر آتا ہے۔ مقامی لوک کہانیوں میں اس چشمے کا ذکر کئی بار آیا ہے۔ بزرگ کہتے ہیں کہ اس چشمے کے اوپر والے علاقے میں بہت سے جانور رہتے تھے، جن میں ریچھ سب سے زیادہ پائے جاتے تھے، جنہیں بعد میں بے رحم شکاریوں نے چن چن کر شکار کیا اور جو بچ گئے وہ اپنی جانیں بچا کر دور دراز علاقوں کی طرف بھاگنے پر مجبور ہوئے۔ اس کے علاوہ اس چشمے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ جنات کا گاوں ہے اور یہاں جنات وغیرہ رہتے ہیں۔ جو رات کے وقت اس چشمے کے کنارے اپنی بیٹھک جما کر گپ شپ لگاتے ہیں۔ کئی لوگوں نے گواہی دی ہے کہ رات کو یہاں جنات نظر آتے ہیں۔ وہ الگ بات ہے کہ ہمیں کوئی جن نظر نہیں آیا، حالانکہ کئی راتیں میں نے اس چشمے کے کنارے گزاری ہیں، بلکہ ایک آدھ بار تو خاص اس جنوں کی محفل کے چکر میں ہم رک گئے تھے کہ کیا پتہ آج جنات سے ملاقات ہو ہی جائے اور ہمیں کوئی پیاری سی پری مل جائے، اگر پری نہ ہو تو کم سے کم آلہ دین والے جن کی طرح کوئی جن تو مل ہی جائے گا۔ دو چار بار کوشش کرنے کے بعد جب کوئی نظر نہیں آیا تو ہمیں اندازہ ہوا کہ جس طرح کمراٹ سے راموش ( جنگلی بکری ) ریچھ اور لویش، شام ( مرغ زریں ) جیسے نایاب جنگلی پرندے اپنے جانیں بچا کر برف پوش پہاڑوں کے طرف جانے پر مجبور ہوئے تو ہو سکتا ہے کہ جنات بھی اب یہاں سے ہجرت کرچکے ہوں۔
دوجنگا
دوجنگا کمراٹ کا آخری مقام ہے جہاں تک گاڑی جاسکتی ہے۔ اس سے آگے روڈ ختم ہوجاتا ہے اور مزید آگے پیدل جانا پڑتا ہے۔ دوجنگا کا ہمارا علاقائی تاریخ میں بہت اہم کردار ہے، ہماری لوک کہانیوں کے مطابق اس دوجنگا سے آگے خزان کوٹ کا مقام ہمارے آباء واجداد کی آخری پناہ گاہ تھی۔ کہتے ہیں کہ جب دشمن ( مسلمان مبلغین اور ان کا مسلح لشکر ) کا زور بڑھ گیا تو مقامی لوگوں نے زیریں علاقوں سے نقل مکانی کرکے خزان کوٹ کے گھنے جنگل میں بستی بسائی اور یہاں رہنے لگےـ اسی دوجنگا کے قریب بتوٹ کے میدان میں مقامی لوگوں نے اپنے مذہب اور اپنی دھرتی کو بچانے کے لئے آخری فیصلہ کن جنگ لڑی تھی، مقامی لوک کہانیوں کے مطابق مقامی کوہستانی ( گاوری دردی) قبائل نے دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ لیکن ناکافی اسلحے اور دشمن کی زیادہ تعداد کی وجہ سے مغلوب ہوگئےـ کہا جاتا ہے کہ اس جنگ میں یہاں صدیوں سے مقیم بدھ مت کے پیروکار کوہستانی لوگ زیادہ ترمارے گئے۔ جو بچ گئے انہیں پکڑا گیا، کچھ بھاگ گئے اور کمراٹ کے ان گھنے جنگلات میں کھو گئے، مقامی کہانیوں سے بھاگنے والوں میں سے تین بندوں کا پتہ چلتا ہے، ایک باپ اور اس کی دو بیٹیوں کاـ
بزرگ کہتے ہیں کہ سخت موسم اور انجان راستوں کی وجہ سے بیٹیوں نے اپنی جانیں ہار دی لیکن ان کا باپ کاشکین پاس سے چترال کے طرف بھاگنے میں کامیاب ہوا۔ اگر آپ نے خزان کوٹ دیکھنا ہے تو دوجنگا سے تقریباً پندرہ بیس منٹ کے فاصلے پر ہے، راستے میں ایک چھوٹا سا جنگلے والا رنگین پل آئے گا، اس پل کو جیسے ہی کراس کرو تو راستہ دو حصوں میں تقسیم ہوتا ہے، سیدھے ہاتھ والا راستہ روشن بانال، جارکھور بانال اور کونڈل بانال سے ہوتے ہوئے سوات کوہستان کے علاقے شاہی باغ کی طرف نکلتا ہے۔ اور ناک کے سیدھ میں اگر جاو گے تو آگے خزان کوٹ کا علاقہ شروع ہوتا ہے، اس سے آگے راستے میں تھوڑی سی اونچائی پر چڑھنے کے بعد چھاروٹ بانال کا علاقہ شروع ہوتا ہے، بانال ہم داردی گاوری لوگ موسم گرما کے چراگاہ کو کہتے ہیں، چھاروٹ بنال میں راستہ پھر دو حصوں میں تقسیم ہوجاتا ہے، سیدھا راستہ ایز گلو بانال، گورشی بانال شازور بانال اور پھر شازور جھیل تک جاتا ہے، پھر وہاں سے آگے چترال کے علاقوں کی طرف نکلتا ہے۔
دوسرا راستہ کاشکیکن پاس سے ہوتے ہوئے چترال کے علاقوں کی طرف نکلتا ہے، کاشکین پاس ایک قدیم راستہ ہے جسے ہمارے لوگ چترال جانے کےلئے صدیوں سے استعمال کرتے ہیں بعض دوست جاز بانڈہ کو بھی وادی کمراٹ کا حصہ سمجھتے ہیں۔ لیکن درحقیقت یہ الگ علاقہ ہے، تھل بازار سے نکل کر دریا پر بنے پل کو کراس کرکے سیدھے ہاتھ والا راستہ جاز بانڈہ، باڈوگئی ٹاپ اور کالام بحرین سوات کوہستان کی طرف نکلتا ہے ۔اور الٹے ہاتھ والا راستہ کمراٹ کے سحر انگیز وادیوں کی طرف جاتا ہےدیر کوہستان کے مقامی لوگ داردی گاوری ہیں، یہاں مقامی گاوری زبان کے علاوہ پشتو بھی بولی جاتی ہے، مقامی لوگ اپنی پہچان کوہستانی نام سے کراتے ہیں لیکن یہ ان کی قبیلے یا قوم کا نام نہیں ہے، یہ ایسا ہے جیسے لاہور کے رہنے والے اپنے آپ کو لاہوری کہتے ہیں۔ ہم لوگ داردی گاوری ہیں اور گاوری زبان بولتے ہیں، گاوری زبان داردی زبانوں کے کوہستانی شاخ سے تعلق رکھتی ہے، یہ ایک ہند آریائی زبان ہے جو دیر کوہستان کے علاوہ سوات کوہستان کے علاقے کالام اور اس کے آس پاس کی وادیوں میں بھی بولی جاتی ہے۔ ہمارا اپنا مخصوص کلچر ہے۔ مقامی لوگ انتہائی مہمان نواز ہیں۔ مہمان نوازی ہمیں وراثت میں ملی ہے۔ کمراٹ میں آپ کہیں بھی جا سکتے ہیں۔ کسی پر بھی کہیں بھی کوئی روک ٹوک نہیں ہے، کسی بھی ہنگامی حالت میں کسی بھی گھر پر دستک دو آپ کو وہاں سے بھر پور مدد ملی گی، یہ ایک پرامن اور پر سکون علاقہ ہے، ہم دیر کوہستان آنے والے ہر پر امن سیاح کو خوش آمدید کہتے ہیں
بزرگ کہتے ہیں کہ سخت موسم اور انجان راستوں کی وجہ سے بیٹیوں نے اپنی جانیں ہار دی لیکن ان کا باپ کاشکین پاس سے چترال کے طرف بھاگنے میں کامیاب ہوا۔ اگر آپ نے خزان کوٹ دیکھنا ہے تو دوجنگا سے تقریباً پندرہ بیس منٹ کے فاصلے پر ہے، راستے میں ایک چھوٹا سا جنگلے والا رنگین پل آئے گا، اس پل کو جیسے ہی کراس کرو تو راستہ دو حصوں میں تقسیم ہوتا ہے، سیدھے ہاتھ والا راستہ روشن بانال، جارکھور بانال اور کونڈل بانال سے ہوتے ہوئے سوات کوہستان کے علاقے شاہی باغ کی طرف نکلتا ہے۔ اور ناک کے سیدھ میں اگر جاو گے تو آگے خزان کوٹ کا علاقہ شروع ہوتا ہے، اس سے آگے راستے میں تھوڑی سی اونچائی پر چڑھنے کے بعد چھاروٹ بانال کا علاقہ شروع ہوتا ہے، بانال ہم داردی گاوری لوگ موسم گرما کے چراگاہ کو کہتے ہیں، چھاروٹ بنال میں راستہ پھر دو حصوں میں تقسیم ہوجاتا ہے، سیدھا راستہ ایز گلو بانال، گورشی بانال شازور بانال اور پھر شازور جھیل تک جاتا ہے، پھر وہاں سے آگے چترال کے علاقوں کی طرف نکلتا ہے۔
دوسرا راستہ کاشکیکن پاس سے ہوتے ہوئے چترال کے علاقوں کی طرف نکلتا ہے، کاشکین پاس ایک قدیم راستہ ہے جسے ہمارے لوگ چترال جانے کےلئے صدیوں سے استعمال کرتے ہیں بعض دوست جاز بانڈہ کو بھی وادی کمراٹ کا حصہ سمجھتے ہیں۔ لیکن درحقیقت یہ الگ علاقہ ہے، تھل بازار سے نکل کر دریا پر بنے پل کو کراس کرکے سیدھے ہاتھ والا راستہ جاز بانڈہ، باڈوگئی ٹاپ اور کالام بحرین سوات کوہستان کی طرف نکلتا ہے ۔اور الٹے ہاتھ والا راستہ کمراٹ کے سحر انگیز وادیوں کی طرف جاتا ہےدیر کوہستان کے مقامی لوگ داردی گاوری ہیں، یہاں مقامی گاوری زبان کے علاوہ پشتو بھی بولی جاتی ہے، مقامی لوگ اپنی پہچان کوہستانی نام سے کراتے ہیں لیکن یہ ان کی قبیلے یا قوم کا نام نہیں ہے، یہ ایسا ہے جیسے لاہور کے رہنے والے اپنے آپ کو لاہوری کہتے ہیں۔ ہم لوگ داردی گاوری ہیں اور گاوری زبان بولتے ہیں، گاوری زبان داردی زبانوں کے کوہستانی شاخ سے تعلق رکھتی ہے، یہ ایک ہند آریائی زبان ہے جو دیر کوہستان کے علاوہ سوات کوہستان کے علاقے کالام اور اس کے آس پاس کی وادیوں میں بھی بولی جاتی ہے۔ ہمارا اپنا مخصوص کلچر ہے۔ مقامی لوگ انتہائی مہمان نواز ہیں۔ مہمان نوازی ہمیں وراثت میں ملی ہے۔ کمراٹ میں آپ کہیں بھی جا سکتے ہیں۔ کسی پر بھی کہیں بھی کوئی روک ٹوک نہیں ہے، کسی بھی ہنگامی حالت میں کسی بھی گھر پر دستک دو آپ کو وہاں سے بھر پور مدد ملی گی، یہ ایک پرامن اور پر سکون علاقہ ہے، ہم دیر کوہستان آنے والے ہر پر امن سیاح کو خوش آمدید کہتے ہیں