تالاؤ جھیل دوبندو دیر بالا
تحریر :ارشد غفور
گلیشئر پر ہم بہت اِحتیاط سے اُوپر کی طرف چلتے رہے،وہ ایک تنگ پہاڑی نالہ تھا.اس کے دونوں طرف پتھریلی چھٹان تھے، گرمی سے ہمارا بُرا حال تھا،میں نے تجسّس کی نگاہ سے اُوپر کی طرف دیکھا،حّد نِگاہ تک وہ نالہ آسمان سے چُھوتے ہوئے دیکھا،دل میں ایک عجیب سی بےچینی محسوس کرتے ہوئے ،ہم سب دوست خاموشی سے اُوپر کی طرف چلتے رہے،اچانک بادلوں کی یلغار نے ہمیں واقع ڈرا دیا، دن میں بالکل آندھیرا چھا گیا، جولائی کے مہینے میں ہایکنگ کرنا وہ بھی اس پُرخطر راستہ پر کوئی اچھا آئیڈیا نہیں تھا،اب ہم دو قدم بھی نہیں چل سکتے، کُہر اِتنا زیادہ تھا کہ ایک دوسر کو پہچانا بھی مشکل تھا، ہم ایک طرف بیٹھ گئے،یا اللہ کس جگہ پھنس گئے۔
بہت عرصہ سے میرا دوست سراج اللہ مجھے تالاؤ جھیل جانے کیلئے کہتا رہا، اور ساتھ ساتھ مجھے اس جگہ کی ویرانیوں اور خطرات سے بھی ڈرا رہا تھا،ایک دن اس سے کہا یار آپ نے مجھے جھیل دیکھانا ہے یا مجھے ڈرانا ہے. اور آج واقع مجھے افسوس ہو رہا تھا، کہ یہاں آنا پاگل پن تھا،سراج کی آواز سے میں چونگ گیا، مسکراتے ہوے کہا چلو راستہ صاف ہے.اللہ اللہ کرکے ہم نے ہایکنگ شروع کر دی، 20منٹ تک چلتے اور پھر اچانک بادل آتے اور ہم کہی چپ کر بیٹھ جاتے، ہم تقریباً 3گھنٹوں تک بلکل اس دیوار جیسے راستے پر ہایکنگ کرتے ہوئے آخر کار پہاڑی کی چھوٹی پر پہنچ گئے،دیر ٹاون سے صبح نماز کے بعد سراج اللہ عامر خان اور اسد خان ہم چار دوست دوبندو درہ کی طرف روانہ ہوئے، گاڑی میں تقریباً 40منٹ میں محمد امین کلے پہنچ گئے، عامر خان کا رشتہ دار نثار اور اسکا ایک دوست ہمارے انتظار میں چائے کے ساتھ تیار کھڑے تھے، وہ ہمارا رہبر تھا،اب راستہ تھوڑا آ سان تھا۔ زیادہ اونچائی کی وجہ سے درخت نام کی کوئی چیز نہیں تھی، پتھریلی اور ویران راستہ تھا،ہمارے لوگ اس جھیل کو دیر کا حصہ مانتے ہیں اور بعض لوگ اسے چترال کا حصہ مانتے ہیں، اس جھیل سے قریبی آبادی دیر کی ہیں، اور جھیل کی پانی چترال کی طرف جاتی ہے، یعنی اب ہم تقریباً دیر چترال بارڈر کے نزدیک پہنچ گئے۔
اور ہمارے ایک طرف افغانستان کی سرحداد بھی تھے.اس وقت اس علاقے میں طالبان کا بھی خطرہ تھا، اور ایک طرف پاک آرمی بھی سرحدوں کی حفاظت پر تعینات تھے. اب بھی پاک فوج کی کیموفلیج چوکیاں اس جگہ پر ہیں. یہاں پر میں پاک فوج🇵🇰 کو سلام پیش کرنا چاہتا ہوں. خدا خدا کر کے ہم تالاؤجھیل تک پہنچ گیے،ہمیں جھیل تک پہنچنے میں 5 گھنٹے لگے، اچھا خاصا گلیشئر جھیل کے اوپرے حصہ پر تھا. اور ایک گلیشئر جھیل کے درمیان میں بھی تھا،سردی بہت زیادہ تھی، اور ہم ft9950 کی بلندی پر تھے. اور میرے اندازے کے مطابق ظلع دیر بالا میں یہ جھیل دوسرا بلندی پر واقع ایک جھیل ہے. جھیل کنارے تصاویر بنواے، آرام کیا اسکے بعد جھیل کے ٹھنڈے پانی میں غوطہ لگایا، پانی سے میں ڈرتا بھی ہو. اس لیے رسی کو مضبوطی سے ایک ہاتھ سے تھام لی تھی، راستے کے مشکلات نے پریشان ضرور کیا، مگر یہ ایک ہر جھیل کی خاصیت ہے، کہ آپ جتنا بھی مشکلات سے دوچار رہے، جھیل تک پہنچنے پر آپ ایک عجیب قسم کی سکون اور اطمینان محسوس کرینگے، اب میں آ زاد تھا،اور افسوس کررہا تھا، کہ میں پہلے کیوں نہ آسکا دوپہر کے دو بجے تھے. واپسی کا ایک دوسرے راستے پر چلنے کا ارادہ کیا، اور ہر فکر سے آزاد واپسی کی راہ لی،ہمارے ساتھ کھجور، بسکٹ اور ٹافیاں تھی، اور ہمیں پتہ ہی نہ چلا کہ وہ کب کے ختم ہو ے ہیں، اب ہمیں بھوک اور سردی نے پریشان کردیا، نثار سے کہا یار یہاں کوئی بانڈہ نہیں ہے. بھوک سے ہمارا بُرا حال ہے. اس نے کہا کہ تھوڑا آگے ہے. کوشش کرتے ہیں کہ کچھ مل جائے، ایک گھنٹے بعد دور سے ہمیں ایک بانڈہ نطر آیا، بانڈہ میں بچوں اور ایک دو عورتوں کے سوا کوئی آدمی نظر نہیں آیا، بانڈہ کے نزدیک ایک چشمہ تھا، ہم نے وہی پڑاؤ کیا، کہ اتنے میں ہم نے کچھ بچوں کو اپنی طرف آتے دیکھا بچوں کے ہاتھ میں لسی اور روٹی تھی اور ایک لوکل چیز تھی، اردو میں نام نہیں آتا، پشتو میں اسے متر کہتے ہیں،شاید بچوں نے ہمیں دور سے آتے ہوئے دیکھا تھا، اور ہمارے لئے خوشی خوشی روٹی کا انتظام کیا۔
کتنے مہمان نواز لوگ ہیں. ہمارے پیارے دیر کے لوگ یقین کریں زندگی میں ایسی مھیٹی لـّسی میں نے پہلی کھبی نہیں پی تھی،کھانا کھانے کے بعد چشمے کنارے لیٹ گئے، 4بجے تازہ دم ہو کر روانہ ہوئے، اب ہمیں پہاڑ سے نیچے کی طرف جانا تھا. کـُہر اب بھی تھا. مگر کم تھا،20منٹ میں ہم پہاڑ سے نیچے اترنے والے تھیں، کہ اچانک بادلوں کی گڑگڑاہٹ سے ہم سب گھبرا گئے. یہاں آسمانی بجلی گرنے کے واقعات بہت زیادہ ہوتے ہیں،دل میں خوف لیے چلتے رہیں، اب آہستہ آہستہ اندھیرا چھانے لگا،بلکل دسمبر کی رات بارہ بجے والی اندھیرا! میں نے سیراج پر ایک اچھبتی ہوئی نظر ڈالی، اور پھر سے افسوس کرنے لگا کہ یہاں آکر اچھا نہیں کیا، راستے میں ایک شخص کو دیکھا، کھندوں پر کچھ سامان لدھا تھا،اور ارام سے ایک پھتر پر بیٹھا تھا،بابا کہا جارہے ہو؛ بابا نے کہا کہ جہاں تم جارہے ہوں میں بھی وہاں جا رہا ہوں، میں نے موسم کے بارے میں پوچھا؛ کہا ڈرنے کی کوئی ضرورت اندھیرا ختم ہو جائے گا، اور پُراسرار آندار میں کہا! ہا اگر اس دفعہ بادل گرجے تو بارش سے بچنا اور یہ کہتے ہوئے وہ بہت جلدی سے اُٹھا اور ہمارے نظروں سے اوجھل ہو گیا،اب ہم پھونک پھونک کر قدم رکھ رہے تھے، کہ اچانک زور سے آسمان گرجا اور تیز بارش شروع ہوگئی، جلدی جلدی برساتی پہن لی مگر برساتی تو کیا فولاد بھی ہمیں اس بارش سے نہیں بچا سکتا، ا ندھیرے اور بارش نے ایک منٹ سے بھی کم وقت میں ہمارا وہ حشر کیا کہ خدا کی پناہ، ہم نے بے تحاشا بھاگنا شروع کیا، ندے نالوں میں طغیانی آگئی،ایک تو بارش دوسرے آسمانی بجلی کی ڈر نے ہمارے اوسان خطاُ کیے، 3منٹ کی بارش نے ہما رے سارے سامان کی ستیاناس کی، نہ درخت نہ کوئی غار کچھ بھی تو نہیں تھا جہاں ہم پناہ لیتے،ہم دیوانہ وار بھاگنے لگے. کہ قیامت کی ژالہ باری شروع ہوگی.سردی اتنی زیادہ ہونی لگی جیسے دسمبر میں کوئی آپ کو ٹھنڈے پانی کے تالاب میں رسی سے باندھ لیں، مجھے اپنی موت نظر آنی لگی، سردی سے جسم ٹھٹھرنے لگا، میں تو گول گول گھومنے لگا، کہ سراج نے لپک کر مجھے سہارا دیا،10منٹ بعد ژالہ باری رک گئی، اگر پانچ منٹ اور ہوتی تو سردی اور خوف سے ہماری موت یقینی تھی.اندھرا چھٹنے لگا، راستہ دکھائی دیا. میں نے بے تحاشا بھاگنا شروع کیا اور دوستوں سے چیخ کر کہنے لگا اگر جان پیاری ہے تو بھاگتے رہوں تاکہ ہمارے جسم میں حرارت پیدا ہو، اور ہم بھاگنے لگے. آگے وہ شخص آرام سے ایک پھتر کے نیچے دبھکا بیٹھا تھا، اور فاتحانہ انداز سے ہمیں دیکھ رہاتھا، تقریباً 15منٹ تک بھاگتے رہے، اور اچانک آسمان سورج کی روشنی سے چمکنے لگا،موسم خوشگوار ہوگیا اور ایسا لگ رہا تھا کہ ہم نے ڈراونا خواب دیکھا تھا،میں نے پکا ارادہ کیا کہ اس کے بعد میں کھبی بھی اس جھیل کا رُخ نہیں کرونگا، اور ایک دوسرے خوبصورت ہے ۔