تحریر :ارشد غفور
سفید پہاڑوں کی تلاش: 15 اکتوبر کی رات 9بجے ہم لواری ٹاپ کے ایک اکلوتے بوسیدہ ہوٹل میں بخارئ(آ نگھیٹی) کے سامنے خاموشی کے ساتھ بیٹھے تھیں، لواری ٹنل بننے کی وجہ سے اب لواری ٹاپ پر گاڑیوں کی آمد رفت نہ ہونی کی برابر تھی، انگیٹھی سے صرف دھواں نکل رہا تھا، ہوٹل کا اکلوتا نوکر ہمارے لئے کھانا تیار کرنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا،ہم آج صبح دیر ٹاون سے لواری ٹاپ کیلئے روانہ ہو،7بجے اسی ہوٹل میں ناشتہ کیا، اور ڈبارے جھیل کی طرف ہایکنگ شروع کی، تقریباً 5 گھنٹوں میں ڈبارے جھیل تک پہنچ گیے، ڈبـارے جھیل دیر چترال سرحد پر واقع ہے، سارا راستہ پتھریلی ہے، ہر طرف ویرانی اور خاموشی چھائی ہوئی تھی، بلندی پر واقع ہونے کی وجہ سے درخت نام کی کوئی چیز نہیں ہے، یہاں کے پہاڑی سلسلے ایک طرف چترال اور دوسرے طرف افغانستان سے ملیں ہوئے ہیں، میرے ساتھ میرے دو دوست نعیم اور سیراج اللہ تھے، سیراج نے پروگرام بنایا تھا، وہ ایک اچھا شکاری اور نڈر انسان ہے، ایڈوینچر کی شوقین حضرات کیلئے یہ ایک ذبردست ٹریک ہے، راستے کی سختی نے ہمیں خاصا تھکا دیا تھا، واپسی پر سیراج نے ایک دوسرے راستے پر چلنے کیلئے کہا، کہ ہم واپس جلدی پہنچ جائینگے، ہم نے ہامی بھر لی، اور یہ ہماری زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی، آپ کو یہ بتاتا چلوں کہ پہاڑ کے اپنے کچھ اُصول ہوتے ہیں، کہ جس راستے پر گیے ہو واپسی اُسی راستے پر کرو،ورنہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، اگر! راستہ معلوم نہیں ہو۔
ہم ایک پہاڑی کے چوٹی پر پہنچ گئے، وہاں سے ہمیں لواری ٹنل کی دوسری سائیڈ دور سے نظر آ گئی، اب ہمیں نیچے جانا تھا، حدِنِگاہ تک اُترائ تھی، ہم پھونک پھونک کر قدم رکھ رہے تھے، درمیان تک پہنچنے پر اب ہمیں بالکل سیدھے جانا تھا، راستہ انتہائی خطرناک تھا، راستے کی چوڑائی ایک فِٹ سے بھی کم تھی،تھوڑی دیر چلنے کے بعد ایک گہری کھائی دکھائی دی، ہماری ایک چھوٹی سی غلطی ہمیں موت کی طرف لے جاسکتی، آگے راستہ بھی نہیں تھا،گہری کھائی کو دیکھ کر میرا سر چکرانے لگا، فوراً واپس مُڑا اور چند قدم چلنے کے بعد بیٹھ گیا، آپ کو یہ بتاتا چلوں کہ مجھے بلندی سے بہت زیادہ ڈر لگتا ہے، اُسی صورت میں جب راستہ پتلا ہو اور نیچی گہری کھائی ہو،اس کمزوری کی وجہ سے مجھے اکثر اوقات دِقّت اُٹھانی پڑتی ہے، پر اس کمبخت ہایکنگ کی شوق سے مجبور ہوں، سیراج حیرانی سے میرے طرف لپکا!اسے میری اس کمزوری کا علم نہیں تھا، میں نے بتا دیا، اس نے کہا کہ کچھ نہیں ہوگا، چلو چلتے ہیں، میں نے انکار میں سر ہلا دیا، کہ ایک تو جا نہیں سکتا، اور آگے راستہ بھی نہیں ہے، سیراج نے کہا کہ راستہ ہوگا، میں نے غصہ سے کہا کہ کیاتم زمہ داری لیتے ہو کہ راستہ ہوگا، میں اب اس آ نجان راستے پر چلنے کی غلطی نہیں کرسکتا، اور ہم نے باقاعدہ تکرار ش
روع کر دی، دوپہر کے تقریباً 2بجے تھے اور ہمیں ہرحال میں سورج غروب ہونے سے پہلے اپنے پوائنٹ تک پہنچا تھا، ورنہ سردی اور تاریکی کا مقابلہ ہم نہیں کرسکتے، چلو ۔
سیراج نے کہا کہ اب یہ ناممکن ہے، واپس پہاڑ کی چوٹی تک ہمیں مزید 4 گھنٹے درکار ہونگے،اور ڈرو خوڑ تک شاید ہم رات 11بجے تک پہنچ جائینگے، اور وہ بھی مسلسل سفر کرنا ہوگا، یہ سننا تھا کہ
میں نے کہا کہ تم نے ہمیں مشکل میں ڈال دیا، ہم تینوں پریشانی کے عالم میں خاموشی سے بیٹھے رہیں،تھوڑی دیر بعد چیخ کر کہا کہ اب جلدی سے کچھ کرو ورنہ ہم سب مر جائینگے، سیراج کو حالات کی سنگینی کا اندازہ ہونے لگا، بڑے اعتماد سے کہا کہ انشاء اللہ ہم بحفاظت یہاں سے نکل جائینگے، اور اس کی عقابی نگاہیں بے چینی سے اِدھر اُدھر دوڑنے لگی، آخر کار لمبی سانس لے کر کہا کہ اب ہمارے پاس دو راستے ہیں، اگر ہم نیچے کی طرف چلتے جائیے اور لواری ٹنل کی دوسری طرف نکلنے کی کوشش کریں تو شاید ہم 11،10بجے تک ٹنل پہنچ جائینگے،اور اگر دور سے ٹنل کی سیکورٹی والے اور پاک فوج نے ہمیں اس ویران راستے پر آتے ہوئے دیکھا تو کیا پتہ وہ شک کی بنا پر ہم پر فائرنگ نہ کردیں، کہ ہم طالبان ہے، اس وقت ڈوگ درہ میں طالبان تھے، اور وہ جگہ ہم سے کافی نزدیک تھی، میں نے فوراً نفی میں سر ہلا دیا، اور وہ خونخوار نظروں سے مجھے گھورنے لگا، دوسرا وہ سامنے والاپہاڑ! جس کی دوسری طرف ڈرو خوڑ ہے، زیادہ سے زیادہ ہم چھوٹی تک دو گھنٹوں میں پہنچ جائینگے، میں نے سامنے کی طرف دیکھا، وہ پہاڑ تو K2سے زیادہ خطرناک ہے(جھیل کے نیچی والی تصور اُس پہاڑ کی ہے) سیراج نے بے بسی کی طرح مجھے دیکھا اور نعیم کو ہاتھ سے پکڑ کر چلتا بنا، اور جاتے ہوئے کہا کہ تم یہاں پر خود بھی مر جاو گے اور ہمیں بھی مراو گے، مجھے بھی حالات کی سنگینی کا اندازہ ہوا، کہ ہمارے پاس صرف دو گھنٹے ہے، اس کے بعد سردی اور طوفان سے ہماری موت یقینی ہے، اور ہمـــت کرکے جلدی سے دوڑنے لگا،تقریباً ایک گھنٹے میں پہاڑ کے دامن میں ہم کھڑے اپنے لیے راستہ تلاش کر رہے تھے، پہاڑ بلکل دیوار جیسا تھا اور نیچے سے اوپر والہ سِرا بلکل دکھائی نہیں دیتا تھا، میں نے سیراج سے کہا کیا آپ کو یقین ہے ہم اس پر چڑھ جائینگے، اس نے میری بات کاٹ دی اور کہا کہ تم چھڑسکتے ہو، ہائٹ والا مسئلہ تو نہیں ہو گا، میں بے دلی سے ہنسا کہ مجھے اوپر جانے سے ڈر نہیں لگتا، مسئلہ مجھے نیچے جانے سے ہوتا ہے، بشرطیکہ میں نیچی کی طرف نہ دیکھوں، اگر راستہ نہیں ملا تو ایک بات یاد رکھیں میں پھر نیچھے واپس نہیں آسکتا،وہ ہنسنے لگا وہ آگے تھا نعیم درمیان میں اور میں آ خر میں!!!!
خوف اور وقت کی کمی کے ڈر سے ہم دیوانہ وار اوپر کی طرف چڑتے رہیے، تقریباً 70،60فٹ تک ہمیں کافی دشواری کا سامنا کرنا پڑا، برف کی وجہ سے ہمارے ہاتھوں نے کام کرنا چھوڑ دیا، سیراج ایک قدم چھڑتا نعیم کو ہاتھ سے پکڑتا پھر مجھے،اب آگے راستہ بلکل نہیں تھا، ہم سِہمے ہوئے خاموشی کی ساتھ چھوٹی سی پتھروں کو پکڑتے ہم بلکل بندروں کی طرح چڑھتے، اب نہ ہم نیچے جاسکتے اور نہ اوپر راستہ تھا،میں نے لمحہ بھر نیچھے کی طرف دیکھا، اور سیراج سے کہا کہ اب ہم مرنے والے ہیں، مجھے شّدت سے اپنے گھر کی یاد آئی، میرے بچے میرے آنکھوں کے سامنے گھومنے لگے، میں نے کلمہ شہادت پڑھنی شروع کی، اب اگر نیچے جاتے تو بھی موت یقینی تھی، اگر آگے جاتے تو جا نہیں سکتے، تقریباً آدھے گھنٹے تک ہم بندورں کی طرح چپکے تھے،میں نے آنکھیں بند کر دی تھی، سیراج کی آواز سنائی دی، نعیم ہاتھ دو، میں نے تجُسس کی نگاہ سے اُوپر کی طرف دیکھا ،سیراج ایک خطرناک زاوئیے سے کھڑا تھا، نعیم نے ہاتھ بڑھایا اور اوپر کی طرف قدم رکھا، کہ اچانک نعیم کا پیر پھسل گیا، اور نعیم کی ایک فلک شگاف آواز سنائی دی.میں نے نعیم کو فوراً پیر سے پکڑا نعیم سینے کے بِل گر پڑا، شکر خدا کا کہ نیچے گرنے سے بچ گیا، اور یہ سوچ کر روح کانپ گئ کہ اگر نعیم نیچے گرتا توہاتھ پیر ضرور ٹوٹ جاتے!!!!!!!!!!!!
پھر ہم کیا کرتے،اس واقعہ کے بعد اب ہم سب ایک دفعہ پھر بندر بن گئے، ایسے بندر کہ بندر بھی پہچان نہ سکے اور یہ بات میں دعویٰ سے کہہ سکتا ہوں،وقت ہمارے ہاتھوں سے نکلتا جارہا تھا، اب سیراج نے نعیم کو آگے کی طرف بڑھایا اور اسے پیر سے پکڑ کر نیچے سے زور لگایا، یہ تجربہ کامیاب رہا، اللہ اللہ کرکے ہم مزید چھڑتے رہے، کہ ایک اور مصیبت آئی، آگے دو تنگ 5 فٹ کے چھوٹے سے نالیاں تھی،سیراج نے کہا کہ دائیں طرف سے چلتے ہیں، میری چھٹی حِس مجھے بار بار سوچنے پر مجبور کر رہی تھی، اور مجھے اپنی چھٹی حِس پر پوار یقین تھا، اچانک سیراج سے کہا تھوڑا صبر کرتے ہیں، ہماری منزل قریب ہے، اب جو بھی فیصلہ کرنا ہے مجھے کرنا ہوگا، سیراج بضد تھا، میں نے انکار کر دیا، اور قدرے سخت لہجے میں کہا کہ بائیں طرف چلتے ہیں، اور چپک چپک کر روانہ ہوگئے، تھوڑی دیر چلنے کے بعد ایک بھڑا پھتر راستے میں آیا، اور سیراج نے مجھے بھرابھلا کہنا شروع کر دیا، اور ہم فوراً سے پہلے بندر بن گئے، اب یہ ایک لمحہ ہمارے آزادی کا پروانہ ثابت ہو سکتا تھا، میں نے سیراج سے کہا کہ نعیم سے اُوپر کی طرف جاو اور پانچ قدم سیدھے قدم رکھوں، پھتر پر تھوڑا سا راستہ ہے، سیراج نے قدم رکھنے شروع کر دیے، اور احتیاط سے چلتا رہا، اور سیراج کی وہ چیخ میں ساری زندگی نہیں بھول سکتا ہم پہنچ گئے ہم پہنچ گئے، اب ہماری زندگی ہم سے صرف پانچ قدم کی دوری پر تھی،چھوٹی سر کرنے کے بعد ہم سب زمین پر لیٹے رہیں،خوشی اور گھبراہٹ کی ایک عجیب سی کیفیت ہم پر دیر تک طاری رہی،سورج کب کا غُروب ہوا تھا، ہمیں پتہ ہی نہ چلا کہ ہم نے قیامت کے وہ لمحات چار گھنٹوں میں گزارے تھے، شام کے چھ بجے تھے اور ہمیں مزید تقریباً تین گھنٹے سفر کرنا تھا،ساری زندگی میں کبھی بھی مجھے اس جیسے خوفناک صورتحال سے واسطہ نہیں پڑا تھا،ہم نے چلنے کا ارادہ کیا، اور میں ایک نئے جزبے کے ساتھ ایک اور سُــفـید پـہاڑ کـِی تـلاش میں نکلنے کا اردہ لئے ہوئے مضبوط قدموں کے ساتھ چلنے لگا، تِـ۔