تحریر ارشد غفور
سانپ کی طرح وہ خوبصورت ندی سرسبز میدان میں سورج کی روشنی میں ایک عجیب سی نظارہ دے رہی تھی،یہ ندی جھیل کی طرف سے آہستہ آہستہ رینگتی ہوئی نہایت خاموشی کے ساتھ بہتے ہوئے نیچے کی طرف جارہی تھی، ایسا لگ رہا تھا کہ یہ ندی جھیل کی جُدائی برداشت نہیں کرسکتی ، مگر ہمیں زندگی دینے کیلئے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے انسانی آبادی کی طرف اِسے جانا تھا، ایسا خوبصورت میدان اِتنی اونچائی پر میں نے پہلی دفعہ دیکھا، چاروں طرف پتھریلی چھٹان تھے، اور لاتعداد بیڑ بکریاں خاموشی کے ساتھ گاس چَرنے میں مصروف تھیں،سیدگئ بانڈہ میں دو بڑے بڑے سرسبز میدان ہے،پہلے والے میدان میں بانڈے ہے، اور دوسرا میدان جو جھیل کی نزدیک ہے، اُسمیں بانڈے نہیں ہے،سوات کے یار لوگ کہتے ہیں کہ، سیدگئ جھیل ہماری ملکیت ہے، ہمارے علاوہ سوات کے ٹورسٹ حضرات تقریباً 20تک تھے،سیدگئ جھیل سوات کے علاقے مَٹہ کے نزدیک ہے، اِسی لیے یہاں کے لوگ زیادہ آ تے ہیں، اور یہ ہمارے لیے فخر کی بات ہے، اب جو لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں، ان کی اطلاع کیلئے عرض کرتا چلوں، کہ سوات کے مختلف علاقوں کے چرواہے یہاں آکر آ پنے بیڑ بکریوں کو یہاں پالتے ہیں، اور اس بانڈوں میں آباد ہوتے ہیں، اور انکے ساتھ سوات کےگُجر برادری کے لوگ بھی ہوتے ہیں، اور وہ یہاں ہر سال قلنگ(ٹیکس) دیتے ہیں،جو اُن سے عشیرئ درہ کے مالکان وصول کرتے ہیں۔
سیدگئ بانڈہ عشیرئ درہ کے گاؤں باٹل اور سمکوٹ کی ملکیت ہے، اب یہاں جو ٹورسٹ آتے ہیں، تو یہاں بانڈوں میں سوات کے چرواہے آباد رہتے ہیں،حال احوال پوچھنے پر وہ کہتے ہیں کہ ہم سوات کے باسی ہے، تو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ علاقہ سوات کا ہے، بہرحال میں اس موضوع پر مزید گفتگو نہیں کرسکتا،ہم جمرات کے دن سہ پہر تین بجے دیر ٹاون سے عشیرئ درہ باٹل تک 45کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے پہنچ گئے، میرے دوست فضل آ حد کے ساتھ رات کا کھانا کھایا، اور سیدگئ جھیل جانے کا کہا، وہا جتنے بھی لوگ تھیں، سمیت فضل آ حد سب نے کہا کہ جانا مشکل ہے،ہم پّکے اِرادہ سے نکلے تھیں، جانا ضروری تھا، میرے ساتھ میرا چھوٹا بھائی تنویر احمد، عامر خان اور اسد انجنیئر تھا،ہم وہاں سے رات کو ایک دوسرے دوست اعزار علی شاہ کے ساتھ اس کے گھر چلے گئے، فضل آ حد نے اپنے بھانجے شہزاد کو ہمارے ساتھ روانہ کیا،وہاں سے صبح 5بجے گورکوئ جو عشیرئ درہ کا آخری گاؤں ہے، گاڑی میں 30منٹ میں پہنچ گئے، وہاں گاڑی پارک کی اور وہاں ایک دوست حاجی محمد دو لڑکوں محمد حسین اور عرفان کے ساتھ ہمارے انتظار میں تیار کھڑا تھا، حاجی محمد سے اجازت لکیر ہم نے ہایکنگ شروع کر دی، 90منٹ مسلسل ہایکنگ کرنے کے بعد ایک مسجد میں داخل ہوئے اور حاجی محمد کا ایک دوست جو ہمارے انتظار میں کھڑا تھا، گرم چائے اور پراٹھوں سے ہمارا استقبال کیا، اس جگہ کا نام بِیلہ ہے،چھوٹا سا خوبصورت گاؤں تھا، اتنا خوبصورت اور عجیب گاؤں جو دوسرے گاؤں سے مختلف تھا،سارے گھروں کے چھت پر خوبصورت پھول اُگائے گئے تھے، اور گھر کے صحن میں بھی خوبصورت پھول تھے، جو ایک لاجواب منظر پیش کررہاتھا، تصویر لینے کی بہت کوشش کی مگر اندھیرے تھا، صبح کے وقت اس خوبصورت ماحول نے دل کو ایک نئ قوت بخش دی۔
اُس سے آگے ایک مقام آیا جسکا نام گھڑدہ تھا، وہاں سے ہمیں کنڈؤں کے مقام پر اوپر چھڑنا تھا، تقریباً 50منٹ کا ایک دشوار گزار راستہ تھا، اور بس یہی ایک چھڑائی تھی، اس سے اوپر پھر میدانی علاقے میں ہمیں سفر کرنا تھا، سیدگئ جھیل تک اس چھڑائی کے علاوہ سارا راستہ بہت آ سان ہے،جھیل تک ہمیں بس 10منٹ کی آخری چھڑائی چھڑنی تھی، ہم گورکوئ سے 5 گھنٹوں میں جھیل تک نہایت آ رام سے پہنچ گئے، اور یہ تقریباً 14 کلومیٹر کی ٹریک بنتی ہے، سیدگئ جھیل ایک انتہائی خوبصورت جھیل ہے، لمبائی تقریباً 531میٹر ہے، انتہائی شفاف پانی والا جھیل ہے، حیرانگی کی بات یہ ہے کہ وہاں برف کی ایک چھوٹی سی گلیشئر ہے، جس سے بمشکل 500 لیٹر پانی بھی نہیں نکلتی، اور شَب و روز اس سے پانی مسلسل بہتی ہے، اور جھیل کی سطح کم نہیں ہوتی،میری تو سمجھ میں کچھ بھی نہیں آیا کہ یہ کیا ماجرا ہے،ہلکی ہوائیں چلنے سے جھیل کی سطح میں ایک ارتعاش پیدا ہوا، سورج کی روشنی میں جھیل کی سطح مسلسل چمک رہی تھی،میرے خیال میں کٹورہ جھیل کے بعد یہ دوسرا خوبصورت جھیل ہے، دو بجے تک وہاں رکے رہے، اور نہ چاہتے ہوئے بھی واپسی کا ارادہ کیا، دوپہر کے بعد اونچائی پر اکثر بادلوں کی راج شروع ہوتی ہے، اور ہم تیزی سے واپس چلنے لگے، اور دل ہی دل مسکرا رہے تھے، کہ لوگ ویسی ہے ہمیں جھیل جانے سے روک رہے تھے، واپس کنڈؤں سے نیچے اترنے لگے، اور بِیلہ تک تین گھنٹوں میں پہنچ گئے،آسمان پر گرج چمک شروع ہوئی، بارش شروع ہونی والی تھی، اور راستہ ایک گھنٹے کا تھا، دیرآپر میں عشیرئ درہ کے علاقے میں آسمانی بجلی گرنے کے واقعات نہایت زیادہ ہوتے ہیں، ہم سارے راستے جتنے آرام سے گئے تھے، اُس ایک گھنٹہ نے ہمیں نہایت تکھا دیا، بجلی اِتنی زور سے چمکنی لگی کہ خدا کی پناہ، گاڑی تک پہنچنے میں ہماری ہمت جواب دے گئی، بارش کو بس ہماری گاڑی میں بیٹھنے تک کااِنتظار تھا، گرج چمک کے ساتھ بارش زور سے شروع ہوئی،خدا خدا کرے کے اِعزازعلی شاہ کے گھر پہنچ گئے، 9:30بجے کھانا کھانے کے بعد ہم اپنے گھر کی طرف روانہ ہوئے، اور میں ایک اور سُــفـید پـہاڑ کـِی تـلاش میں جانے کا ارادہ لئیے نہایت اطمینان سے گاڑی کو اسٹارٹ کیا-