HOW I FOUND JEHAZ BANDA-WHEN I TRAVELED FROM ISLAMABAD A Paradise on Earth Kumrat Valley

Latest

HOW I FOUND JEHAZ BANDA-WHEN I TRAVELED FROM ISLAMABAD

جہازبانڈہ
How I found Jehaz Banda

اِسی سال مئی کے آغاز میں مَیں نے محسن رضا کی ٹوؤر کمپنی "کارواں سرائے" کے ساتھ پختونخواہ کے ضلع اپردِیر میں موجود وادئ کمراٹ کا سفر کیا تھا۔ یہ وادی، سوات اور چترال کے درمیان کہیں پھنسی ہوئی ہے اور اسلام آباد سے 400 کلومیٹر دُور ہے۔ آپ کو شاید یاد ہو کہ مَیں نے سفرِ کمراٹ پر چھ اقساط پر مبنی ایک سفرنامہ تحریر کیا تھا "کُمراٹ اور روشن اندھیرے"۔ اگر نہیں یاد تو پھر شکر کریں کہ آپ ایک اذیت سے بچ گئے۔ وہ سفرنامہ باذوق شخص کو ہوش میں نہیں رہنے دیتا کیونکہ مَیں نے اپنا تمام خمر اُس میں انڈیلا ہے۔ دو مہینے بعد ہم ایک بار پھر اُنہی رستوں پر تھے مگر ایک فرق کے ساتھ۔ اِس بار کمراٹ کے علاوہ جہازبانڈہ اور جہازڈنڈ جھیل کی مہم بھی شامل تھی۔ جہازبانڈہ، وادئ کمراٹ سے مشرقی جانب ایک اور وادی، وادئ لاموتی کے اختتام پر انتہائی بلندیوں پر واقع ایک چراگاہ ہے۔ جہازڈنڈ جھیل جسے خوامخواہ کٹورہ جھیل بھی کہتے ہیں، اُس سے بھی آگے مزید بلندی پر موجود ہے۔ چاہیں آپ کمراٹ جائیں یا جہازبانڈہ، پہنچنا آپ نے "تھل" ہی ہوتا ہے جو دِیر سے کالام جانے والی سڑک پر واقع ہے۔ لہذا جو مَیں پہلے لکھ چکا، کوشش کروں گا کہ اُس پر دوبارہ نہ لکھوں، آگے قلم کی مرضی۔ پچھلی بار محسن نے مجھے کمراٹ چلنے کے لیے بہت مجبور کیا تھا مگر اِس بار مَیں نے خود محسن کو مجبور کیا کہ بھائی خدا کے لیے مجھے دوبارہ لے جا۔ سفرِ کمراٹ لکھنے کے دوران کمراٹ کے کچھ بھید مجھ پر آشکار ہوئے تھے، لہذا مجھے دوبارہ جانا تھا۔ قلم بہت کچھ آشکار کرتا ہے تب دوبارہ سفر ضروری ہو جاتا ہے۔ ایک بار شبِ وصل آ جائے تب بہت سے امور سے آگاہی حاصل ہو جاتی ہے۔ اللہ تجھے ایسے محبوب کے فراق میں نہ ڈالے جس کے ساتھ شبِ وصل گزر چکی ہو۔'

جہازبانڈہ مہم ابھی چند دن قبل جولائی کے آغاز میں سرانجام پائی تھی، یا پھر ابھی تک چل رہی ہے، کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ ماضی کیوں نہیں ہو پا رہی۔ جہازبانڈہ کی خوبصورتی اتنی ناقابلِ برداشت ہے، اتنی کہ اُس نے ماضی ہو جانے سے انکار کر دیا ہے۔ شاید سفرنامہء جہازبانڈہ سے کچھ مزید گہرائیاں اور بلندیاں آشکار ہو جائیں۔ مگر یہ بھی ممکن ہے کہ شاید یہ سفرنامہ ادھورا رہ جائے۔ قلم کے آگے کسی کی نہیں چلتی۔ مَیں کئی سفر ایسے بھی کر چکا ہوں جن پر کتاب بنتی ہے مگر مجھ سے ایک لفظ بھی نہیں لکھا گیا۔ اور کچھ سفر ایسے ہیں جن پر چند پیراگرافس سے زیادہ لکھنے کی ضرورت نہ تھی مگر اُن پر کتب وجود میں آ گئیں۔ لہذا مَیں وعدہ نہیں کر سکتا کہ یہ سفرنامہ مکمل ہو جائے۔ بس جی جو لکھ سکا، کائنات کی مہربانی ہو گی۔ گزشتہ مہم کی طرح اِس بار بھی وہی کوچ تھی، وہی کوچ کیپٹن یعنی مضطرب ڈرائیور ندیم بھائی تھے، چند ایک ممبرز بھی وہی تھے، وہی مَیں تھا، وہی تُم ہو۔ تھل تک سفر پر اگر کچھ لکھا تو وہی سب کچھ تحریر میں آ جائے گا جو گزشتہ مہم کی پہلی دو اقساط تھیں۔ نہیں خیر ایسا بھی نہیں۔ ایک ہی راستے پر بار بار چلا جائے تو ہر بار کچھ نیا ضرور ہوتا ہے اور اُس پر لکھا جا سکتا ہے بشرطیکہ قلم کی مرضی ہو اور نئے احباب اوٹ پٹانگ حرکتیں بھی کر رہے ہوں.. یا کائنات اتھل پتھل ہو گئی ہو۔

بدلِیں طرح طرح سے زمانے نے سرخیاں
لیکن جدا ہوئے نہ تری داستاں سے ہم
اور میری ریپیوٹیشن بھی کچھ ایسی ہے کہ ایک ہی جگہ کے بیسیوں رایٹ اَپس لکھ چکا ہوں۔ میری کچھ اور ریپیوٹیشن بھی ہے جس کے لیے مَیں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں اور اِس فیض کا سارا کریڈٹ اپنے مرشد مستنصر حُسین تارڑ کو دیتا ہوں۔
یکم جولائی 2018ء کی صبح صبح 5 بجے جب ہم گھر سے نکل کر لوئی بھیر کے جنگل میں سے ہوتے ہوئے اسلام آباد ایکسپریس وے پر پہنچے تو دیکھا کہ سرمئی کوچ سڑک کی غلط سائیڈ پر لاہور کی جانب منہ کیے ہماری منتظر تھی اور دروازے سے باہر خرم بسرا کھڑے تھے جو بطور سٹاف ساتھ جا رہے تھے۔ اور ہم سے مراد یہ کہ میرے ہمراہ ڈاکٹر وردہ تھیں جو گزشتہ روز کراچی سے آئی تھیں۔ اُن کے ساتھ مس سیدہ بخاری نے بھی آنا تھا مگر اُنہیں عین موقع پر امریکا آ گیا۔ مَیں نے خرم بسرا سے پوچھا کہ کوچ کو کیا ہوا؟ کیا جہازبانڈہ کسی جنوبی علاقے میں منتقل ہو گیا ہے؟ کیا پتا کوئی عاشقِ صادق اپنے ہمراہ لے گیا ہو۔ انہوں نے کہا کہ ندیم بھائی ذرا آگے نکل گئے تھے، یوٹرن لے کر آئے ہیں۔ آپ دونوں کو بٹھا کر دوبارہ یوٹرن لیں گے تب ڈیوو ٹرمینل جائیں گے۔ مَیں نے اِن یوٹرنز سے ایک سیاسی شخصیت کو یاد کیا۔ کوچ میں داخل ہو کر ہم نے سلام کیا مگر زیادہ تر نے جواب نہ دیا، محض خمارآلود نیم وا آنکھوں سے ہمیں گھورتے رہے.. ایک تو وہ سب لوگ انجان تھے، دوسرا یہ کہ شَب بھر لاہور سے سفر کر کے پہنچے تھے۔ ٹیم میں شدید ماڈرن خواتین و حضرات موجود تھے۔ کچھ نابالغ بچے بھی نظر آ رہے تھے۔ یہ ایک حوصلہ افزا صورتحال تھی کیونکہ مہم کے دوران خاموشی کے وقفے ملنے کی امید تھی۔ یقین کیجیے کہ مَیں اب بھی زیادہ تر احباب اینڈ احبابیوں سے واقف نہیں، نہ ہی خانہ پُری کے لیے مَیں بلاوجہ کسی کا ذکر کروں گا۔ وہ سب مُسافرِشَب تھے، بس۔ البتہ کچھ احباب کے جوابات آئے تھے، وہ جانے پہچانے احباب تھے، مثلاً مس سمیرا ممتاز، عمر منج، شفان حسن صاحب، منظرباز ایم بلال ایم، سُپرمَین یونس عباسی جو ہم جیسوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں، کوچ کیپٹن ندیم اور محسن رضا بادشاہ یعنی کہ ٹیم لیڈر۔ باقی تعارف رفتہ رفتہ ہوتا رہے گا۔

ڈیوو ٹرمینل سے باہر عین جی-ٹی روڈ پر کوچ روک دی گئی۔ یہاں کچھ اور احباب نے جائن کیا۔ سامان کوچ میں سے نکال کر چھت پر لوڈ ہونے لگا۔ بلکہ ایک پراڈو نے بھی جائن کیا جسے زبیر صاحب قابو کیے ہوئے تھے۔ زبیر بھائی محترم تنویر عباسی کے جاننے والے ہیں۔ کوچ میں سے کچھ مرد حضرات اُن کے ساتھ پراڈو میں منتقل ہو گئے۔ اس دوران میرے دوست فرخ شہزاد بھی ہیلمٹ پہن کر پہنچ گئے، انہوں نے بلال بھائی سے ملنا تھا۔ اس کے بعد فرخ بھائی نے ایک دو دن میں کنکورڈیا کے لیے روانہ ہو جانا تھا۔ فرخ بھائی کے سر پر بال ذرا کم ہیں لہذا یونہی لگتا ہے کہ ہمہ اوست ہیلمٹ میں ہیں۔ موٹروے پر پاکستان کی شہ رگ شیر دریا گزرا، بلکہ ہم اُس پر سے گزرے۔ کچھ کمزور سا لگ رہا تھا اور یہ تشویش ناک بات ہے۔ تقریباً 9 بجے سے کچھ دیر پہلے ہم رشکئی انٹرچینج سے اتر کر مردان سے ذرا سا پہلے پولیس کے ہتھے چڑھے بیٹھے تھے، روٹ پرمٹ کا معاملہ تھا، ہمیشہ کی طرح۔

یہیں کہیں سے ہمیں آرمی آفیسر رحمان صاحب نے جائن کیا۔ اُن کی برکت سے پولیس کافی نرم پڑ گئی۔ وہ جو پانچ ہزار ٹُھکنے تھے، چند سو روپے میں کام ہو گیا۔ الحمدللہ۔ شالا فوج سلامت رہے۔ چند کلومیٹر آگے، "مسکرائیے، آپ مردان میں ہیں" والے بابِ مردان کے بعد خیبر ریسٹورینٹ پر ناشتہ کے لیے رکے۔ یہیں کچھ احباب سے ہلکی پھلکی گفتگو شروع ہوئی۔ مردان کے اسامہ علی بھائی ہمیں ملنے کے آئے۔ وہ گزشتہ مہم میں شامل تھے۔ یہیں آشکار ہوا کہ شفان صاحب بھی عمر منج کی طرح آئل اینڈ نیچرل گیس کی فیلڈز سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہم اپنی خوراک میں طرح طرح کے آئل استعمال کرتے ہیں اور نتیجتاً نیچرل گیس پروڈیوس کرتے ہیں۔ فی الحال اتنا ہی سکوپ ہے ورنہ بجلی اور فیول کا اپنا انتظام نہ کر لیتے۔ مردان کے بعد ہمیں کسی چوکی پر زیادہ دیر نہ روکا گیا۔ یہ سب رحمان بابا کی برکات تھیں۔ وہ فوراً کوچ سے باہر نکلتے تھے، اپنا بریگیڈیر والا پتہ پھیکتے تھے اور ہم بازی جیت جاتے تھے۔ البتہ اس ساری صورتحال کا مجھے شدید نقصان ہوا۔ مجھے رحمان بابا کو کہنا ہی پڑا کہ سر آپ بے شک ہر چوکی پر دس منٹ لگایا کیجیے، نہ بھی لگتے ہوں پھر بھی لگایا کیجیے بلکہ چوکی سٹاف کو باتوں میں لگایا کیجیے کیونکہ آپ کی وجہ سے مَیں کہیں بھی سگریٹ نہیں پی پا رہا۔ ایک رِند پر اتنا ظلم نہیں کرتے۔

مالاکنڈ پاس اس بار بھی خشک تھا۔ یاد رہے کہ پی-ٹی-وی نے ہمیشہ مالاکنڈ ڈویژن میں ہر وقت بارش ہونے کی نوید سنائی تھی۔ مالاکنڈ ڈویژن میں ضلع مالاکنڈ کے علاوہ سوات، چترال، دِیر زیریں و بالا، کمراٹ، جہازبانڈہ، بنیر اور شانگلہ آتے تھے۔ پورا سال ان میں سے کسی نہ کسی علاقے میں بارش ہو رہی ہوتی ہے اسی لیے مالاکنڈ ڈویژن میں بارش ہونا ثابت ہو جاتی تھی۔ 2000ء میں ڈویژن ختم ہو گئی، اب صرف اضلاع موجود ہیں۔ اب جب بھی مالاکنڈ کی بات ہوتی ہے تو صرف ضلع مالاکنڈ کی بات ہوتی ہے جو خطے کے خشک ترین اضلاع میں شمار ہوتا ہے۔ بٹ خیلہ سے ذرا پہلے کیپٹن ندیم نے گویا جان بوجھ کر کوچ کو غلط راستے پر ڈال دیا، یوں ہم نے بہت سارا اَن-ایکسپلورڈ سوات گھوم پھر لیا۔ کوئی گھنٹہ بھر بعد پِھر ٹُر کر ہم نے تقریباً وہیں سے سڑک جائن کی جہاں سے چھوڑی تھی۔ ندیم بھائی نشہ کے طور پر اکثر ایسا کرتے ہیں کیونکہ وہ سگریٹ اور چائے نہیں پیتے۔ چکدرہ کے بعد "زیارت تلاش" کو ایک بار پھر دیکھا۔ وہاں اور یہاں تلاش ابھی بھی جاری تھی۔ اس کے بعد تیمرگرہ اور دوسرے قصبے پھلانگتے چلے گئے۔ دِیر شہر سے ذرا پہلے بابِ کمراٹ آیا جہاں سے دِیر-کالام روڈ شروع ہوتی ہے۔

شرینگل میں انتہائی دلکش بینظیر یونیورسٹی کے بعد سڑک کے عین درمیان میں زرد رنگ کی ارتھ موور کرین کھڑی تھی جس نے پوری ٹریفک روکی ہوئی تھی۔ مَیں نے شکر ادا کیا کیونکہ میرے کم از کم دس سگریٹ مِس ہو چکے تھے جو اب پورے ہو سکتے تھے۔ کوچ سے اتر کر فوراً سگریٹ لگایا اور کرین کے قریب چلا گیا۔ وہاں لینڈ سلائیڈ ہوئی تھی اور کرین ہاتھی کی سونڈ جیسے بازو سے سڑک کو کھرچ کھرچ کر ہموار کر رہی تھی جیسے آپ خارش کرتے ہیں۔ یوسفی کہتے ہیں کہ بیوی سے رومانٹک ہونا ایسے ہی ہے جیسے وہاں خارش کی جائے جہاں نہ ہو رہی ہو۔ خیر، مَیں نے گزشتہ سے پیوستہ ایک اور سگریٹ سلگایا اور دور سے ہی کرین والے سے کہا کہ آرام سے سڑک ہموار کرو، کوئی جلدی نہیں۔ اُس نے پورے 8 منٹ میں سڑک اُدھیڑ کر رکھ دی یوں راستہ بن گیا اور ٹریفک چل پڑی۔ رفتہ رفتہ برف پوش چوٹیاں نظر آنے لگ گئیں۔ اردگرد گلابی اور جامنی پھولوں سے لبریز رنگین خطے شروع ہو رہے تھے۔ شاید احباب جانتے ہوں کہ دیوسائی کے پھولوں جیسے گلابی اور جامنی خطے اصل میں آلو کے کھیت ہوتے ہیں۔ میٹھے آلو کے کھیت میں جو جامنی پھول اگتے ہیں وہ مجھے شدید "خمارآلو" کرتے ہیں۔

آخری چوکی آ گئی اور رحمان بابا دھڑام سے اتر گئے۔ اس جگہ کا نام "دروازہ" ہے۔ مَیں بھی کوچ کے دروازے سے اترا اور دِیر کوہستان کے دروازہ میں آ بیٹھا، جیسے عاشقِ صادق اپنے محبوب کے دروازہ میں آ بیٹھتا ہے اور محبوب بدنام ہو جاتا ہے۔ مہک سے لبریز ہوا ایسے دھیرے دھیرے چل رہی تھی جیسے ملکہء صبا شہنشاہ سلیمان کے دربار میں ایک شیشہ فرش پر لباس ذرا سا اُٹھا کر چلی تھیں اور عرش تک اہلِ کائنات پر صد رنگ طاری ہوئے۔ فضا میں اک خاموشی سی تھی.. اور سُن ذرا، آج خاموشیوں سے آ رہی ہے صدا۔ یہیں سے ایک جیپ ٹریک وادئ لاموتی کی جانب نکلتا ہے اور 8 کلومیٹر دور 7 ہزار فٹ بلند جندرئی گاؤں تک جاتا ہے جہاں ہم نے آج پہنچنا تھا۔ مگر چونکہ جندرئی تک کوچ نہیں جا سکتی تھی اس لیے ہم نے پہلے تھل جانا تھا جہاں ہماری جیپیں انتظار کر رہی تھیں۔ کافی دیر گزر گئی مگر رحمان بابا واپس نہ آئے۔ تشویش ہوئی کہ کہیں رحمان بابا کی تصدیق تو نہیں ہو رہی۔ جب وہ آئے تو انہوں نے صرف اتنا کہا "سگریٹ پی لیا؟" اور مجھے شدید افسوس ہوا کیونکہ مَیں نے نہیں پیا تھا۔ مَیں نے کہا کہ "آپ نے یہاں کیوں دیر لگا دی؟... مطلب دِیر میں دیر کیوں لگا دی؟" انہوں نے کہا "پچھلی چوکیوں پر مَیں آپ سب کو ڈاکٹرز اور انجینیئرز کہتا تھا جو کسی پروجیکٹ پر جا رہے ہیں تب فوراً خلاصی ہو جاتی تھی۔ یہاں مَیں نے ٹوؤرسٹس کہا تو پڑتال شروع ہو گئی۔" لو دسو۔ ابھی شام نہ ہوئی تھی اور تھل کا علاقہ شروع ہو گیا، 6 ہزار فٹ بلند تھل۔ مَیں ایک ایک منظر کو پہچانتا تھا۔ پچھلی بار مَیں اور خرم بسرا شدید چاندنی رات میں یہاں مٹر گشت کرتے رہے تھے۔ اُس وقت بھی دن ہی طاری تھا۔ اب بھی وہی منظر تھا، صرف بلیک اینڈ وائٹ نہ تھا۔

تھل میں چائے وغیرہ پیتے اور باتھ روم وغیرہ سے فارغ ہوتے ہوتے شام کے جام شروع ہو گئے۔ ابھی جیپوں میں سامان لوڈ ہونا تھا۔ مَیں اور ڈاکٹر وردہ قریب بہتے دریائے پنجکوڑہ کے کنارے تاریخی مسجد دارالسلام چلے گئے۔ گزشتہ ٹرپ میں مسجد دارالسلام میں اک کائنات طاری رہی تھی، اب اتنی جلدی دوبارہ اسی جگہ آنا ایک سحرانگیز تجربہ تھا۔ ہم کافی دیر مسجد کے قدیم ہال میں بیٹھے رہے جہاں دیودار لکڑی کی مہک دِیربالا میں عالمِ بالا کی سیر کراتی ہے۔ بالآخر اُس اندھیر شَب، جبکہ صرف دریائے پنجکوڑہ کی آواز سے منظر تصور میں نظر آتا تھا، ہم جیپوں میں سامان اور خود کو لاد کر جندرئی کی جانب چل پڑے۔ تھل سے بھی جندرئی آٹھ کلومیٹر دور ہے۔ مسجد کے قریب پُل عبور کرنے کے بعد ہم دائیں جانب مڑ گئے جو اصل شاہراہ ہی ہے جو کالام جاتی ہے۔ بائیں جانب وادئ کمراٹ شروع ہو جاتی ہے۔ شاہراہ سے دائیں جانب ایک اور جیپ ٹریک نکلا جو رفتہ رفتہ نیچے ایک ندی کے قریب چلا گیا۔ محسوس ایسا ہی ہوا کہ جیپ پانی میں داخل ہو کر دوسری جانب سے بلند ہوئی ہے۔ آگے لاموتی گاؤں تھا جس کے نام پر اس جانب کی پوری وادی کا نام ہے.. وادئ لاموتی۔ کیسا دلکش نام ہے۔

ہر جانب اندھیرا ایسے طاری تھا جیسے سیاہ سمندر ہو۔ اور ہم مُسافرِشَب ہیں۔ جب لاموتی گاؤں عبور کرنے کے بعد ہماری پجارو جیپ کی کھڑکی سے سرد ہوا محسن رضا کو چُھو کر اندر داخل ہوئی تو اندھیرے مہکنے لگے۔ تیری زلف کی شَب کا بیدار مَیں ہوں، تیری آنکھوں کے ساغر کا مے خوار مَیں ہوں۔ دبلے پتلے جیپ ٹریک کے نشیب میں دریائے زندرئی بہہ رہا تھا۔ کیسا خوبصورت نام ہے، جیسے زندہ کر دیتا ہو۔ اسی دوران پتا چلا کہ ہم ایک ایسے ریسٹ ہاؤس میں جا رہے ہیں جہاں ایک عجیب سا کمرہ ہے۔ تقریباً 30 منٹ کے مہک آور مگر اچھلن کودن والے سفر کے بعد ہم زندرئی کی بلندیوں پر موجود جندرئی گاؤں پہنچ گئے اور ایک دو-منزلہ عمارت کے قریب آ کر رک گئے۔ داخلہ دروازہ کے قریب دیوار پر دو بلب روشن تھے۔ اُسی روشنی میں معلوم پڑا کہ یہ "راجہ تاج محمد ریسٹ ہاؤس" ہے.. اور بھی بہت کچھ ہے۔ پوری ٹیم تین جیپوں سے اتر کر ریسٹ ہاؤس میں داخل ہو گئی اور پارکنگ سے متصل لان میں ڈھیر ہونے لگے۔ خواتین و حضرات کی مناسبت سے اُنہیں کمرے الاٹ کیے جا رہے تھے، سوائے ایک عجیب سے کمرے کے، وہ شَب بسری کے لیے نہ تھا.... اور مجھے ہر صورت وہیں ٹھہرنا تھا۔
محسن رضا نے لان میں ہی بار-بی-کیو کا آغاز کیا۔ اُس کے ذاتی ایجاد کردہ رحل نما فریم میں کوئلے دہک رہے تھے اور تاریک فضا کو دھواں آلود کر رہے تھے۔ مشرقی جانب سیاہ پہاڑ تھے جن کے پیچھے ایک چاند روشن تو تھا مگر ہمیں نظر نہ آتا تھا۔ ایک پہاڑ کی چوٹی کے قریب سُرخ رو سیارہ مریخ تھا۔ اگر مریخ پر جانا ہے تو اپنے راکٹ ابھی لانچ کر دیجیے، آجکل درست ٹائم ونڈو ہے۔ مگر وہاں پہنچ کر محبوب دھرتی یاد بہت آئے گی۔ ہم چکن پیس کھاتے رہے اور بلندی کی فضاؤں سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ مَیں سوچتا رہا کہ پارکنگ میں کھڑی ہوئی آلٹو اور وِٹز یہاں کیسے پہنچیں۔ جبکہ مقامی لوگ پریشان ہوتے تھے کہ نازک نازک سی ماڈرن لڑکیاں اگلے دن کا مشکل ٹریک کیسے کریں گی؟ ایک مقامی کو مَیں نے بتایا کہ ٹیم لیڈر نے لڑکیوں کو ٹریک کی مشکلات سے انجان رکھا ہوا ہے۔ لہذا وہ آرام سے کر لیں گی۔ ٹینشن ناٹ۔ مَیں نے محسن سے گزارش کی کہ پلیز سٹاف سے بات کرے اور مجھے اِسی عجیب سے کمرے میں شَب بسر کرنے دے جو ٹھہرنے کے لیے نہیں۔ چونکہ جندرئی ابھی مری ناران نہیں اس لیے سٹاف نے ہامی بھر لی۔
مَیں لکڑی کی سیڑھی چڑھ رہا تھا.. لان میں محسن آگ پے آگ دہکا رہا تھا۔ کمرے کو کنڈی لگی ہوئی تھی.. ایک نظر باہر آلو کے کھیت کی جانب دوڑائی جہاں وہ قبر تھی جس میں سے چشمے کی آواز آ رہی تھی۔ صدقے مَیں اوناں توں جنہاں دی قبر جیوے۔ وادئ لاموتی میں لاموت قبر۔ سُن ذرا، آج خاموشیوں سے آ رہی ہے صدا، سُن ذرا۔ اُس عجیب سے کمرے کی کنڈی کھول کر اندر داخل ہوا تو ایک پراسرار مہک آئی۔ ٹارچ جلا کر کمرے کی روشنیاں جلا دیں۔ یہ ایک عجائب گھر تھا۔ جی ہاں، میوزیم... ہاشمی میوزیم اوف جندرئی، وادئ لاموتی۔ دیواروں پر کم از کم دو صدیوں کی بندوقیں لٹکی ہوئی تھیں، کم از کم ساٹھ ستر تو ہوں گی۔ انہوں نے کتنوں کو خدا کے حضور پیش کیا ہو گا، رب جانے۔ ایک دیوار پر قدیم تلواریں تھیں جن کی زد میں بتھیرے سر آئے ہوں گے۔ ایک جانب مارخور اور آئیبکس کے حنوط شدہ سر تھے۔ ایک مکمل مارخور زندہ لگتا تھا، اُسی کی مہک سے پورا میوزیم چہک رہا تھا۔ چھت سے دیمک کا ایک بڑا سا گیند لٹکا ہوا تھا۔ ایک میز پر عجائب گھر کو ملنے والی شیلڈز تھیں۔ کچھ قدیم لکڑی کے چپل یا کھڑاؤں بھی رکھے ہوئے تھے۔ ایک کھڑاؤں کا جوڑا مشکوک تھا کیونکہ وہ چائنہ کے نئے کھڑاؤں تھے۔ ایک دیوار پر دف لٹکی ہوئی تھی جو واحد زندگی کی علامت تھی اور میری معلومات کے مطابق کم از کم دف ہر فرقہ میں جائز سمجھی جاتی ہے۔ موسیقی کو حرام سمجھنے والے اگر دف ایکسپرٹس کو دف بجاتا ہوا سُن لیں تو شدید کنفیوژ ہو جائیں کہ یہ جائز ساز تو شدید خمارآور ہے.. کبھی سُنیے ترکی، کُرد اور عربی موسیقاروں کو۔ مَیں نے کمرے میں دف والی دیوار کے قریب اپنا جامنی میٹرس بچھا کر اس پر جامنی سلیپنگ بیگ ڈالا۔ میرا باقی سامان بھی جامنی رنگ کا ہے، وہ بھی قریب دھرا اور تھوڑی دیر کے لیے لیٹ گیا۔ مجھے "نائٹ اوف دی میوزیم" فلم یاد آ رہی تھی جس میں ہر شَب ہر کردار اور جانور زندہ ہو کر ہیرو اشرف کے پیچھے ایسے پڑ جاتے ہیں جیسے وہ معذول وزیرِاعظم ہو۔ مَیں نے فوراً ہر قسم کی سیاسی وابستگی سے توبہ کی۔

باقی سب تو ٹھیک تھا مگر مجھے وہ مارخور گھورنا شروع ہو گیا تھا۔ ایسا محسوس ہوا کہ شَب کے اوقات میں وہ زندہ ہو جاتا ہے۔ شاید اُس نے دخل اندازی پر شدید بُرا محسوس کیا تھا۔ کچھ دیر میں دیکھا کہ کچھ اور ٹیم ممبرز بھی یہاں سونے کے لیے آ گئے۔ انہوں نے بھی ایدھر اوودھر سلیپنگ بیگ یا بسترے بچھا لیے۔ مجھے کچھ تسلی بھی ہوئی مگر اندر سے دل چاہ رہا تھا کہ کاش اکیلا ہوتا اور بھیانک شَب کو خود بسر کرتا۔ آگے رات میں نیند کی حالت میں سب نے مشترکہ طور پر میوزیم کا حصہ لگنا تھا۔ کچھ دیر بعد مَیں اُٹھ کر باہر چلا گیا۔ کچھ ٹیم ممبرز ابھی تک لان میں ہی تھے۔ مَیں بغیر ریلنگ والی بالکونی کے کونے پر جا کر بیٹھ گیا جہاں سامنے وہ قبر نظر آ رہی تھی جس میں چشمہ جاری تھا۔ معلوم نہیں کتنی دیر اہلِ قبر سے گفتگو جاری رہی۔ ڈاکٹر وردہ لان میں تھیں، اُنہیں اوپر بلا کر میوزیم دکھایا۔ تفصیل کے مطابق راجہ تاج محمد وادئ لاموتی اور وادئ کمراٹ کی ایک بااثر شخصیت ہیں۔ اُنہوں نے 22 برس دِیربالا میں سیاحت کے فروغ میں گزارے ہیں۔ اگر آپ جہازبانڈہ کے لیے آتے ہیں تو ممکن ہی نہیں کہ آپ کا راجہ جی سے واسطہ نہ پڑے۔ آج شَب وہ یہاں نہیں تھے مگر انہوں نے ہماری ٹیم کا مکمل انتظام کر رکھا تھا۔ رات.. سلیپنگ بیگ میں لیٹے ہوئے میری آنکھ کھلی۔ سب سو رہے تھے سوائے اُس مارخور کے جو مجھے سرخ آنکھوں سے گھور رہا تھا اور اُس کی مخصوص مہک تیز ہو چکی تھی۔ اور سُن ذرا، خاموشیوں سے آ رہی ہے صدا.. یہ تو خیر راجہ جی کا آبائی میوزیم تھا اور سوائے مارخور کے اور کوئی تشویش ناک شے نہیں تھی۔ اگر کبھی اسلام آباد کے میوزیم اوف نیچرل ہسٹری میں بیسیوں انسانی کھوپڑیوں، کئی ڈائناسار ڈھانچوں، ہزاروں قدیم کیڑے مکوڑوں، حنوط شدہ مگرمچھوں اور عجیب جانوروں کے مابین رات گزارنی پڑ گئی تو یقیناً کام خراب ہو جائے گا۔ کاش کام خراب ہو ہی جائے، واہ۔ عجائب گھر میں دن کی روشنی محسوس ہوئی۔ آنکھوں سے بیگ ہٹایا۔ وحشت کی فضا رفوچکر ہو چکی تھی۔ یہ سارے سیاپے رات کے ہوتے ہیں جو مجھے شدید پسند ہیں