KUMRAT AND BRIGHT LIGHTS PART-04 A Paradise on Earth Kumrat Valley

Latest

KUMRAT AND BRIGHT LIGHTS PART-04

کُمراٹ اور روشن اندھیرے حصہ چہارم
Kumrat Valley- Full travel history
تحریر مُسافرِشَب
عکاسی مُسافرِشَب` + ٹیم اے غزالِ شَب....اے میرے کُوزہ گَر
میرے پیچھے، نظروں سے اوجھل مگر حواس پر طاری، گہرا اندھیر مہک آور کُمراٹ پائن جنگل تھا.. پہلی شَب اِس پہر کیمپنگ سائیٹ سے دُور اِس گھنے جنگل میں، مَیں تنِ تنہا سردی کی شدت میں دریائے پنجکوڑہ کے کنارے بیٹھا پائن پر پائن سموک کر رہا تھا.. اے مُسافرِشَب کیوں اتنے سگریٹ پیتے ہو؟ تو پھر کیا کروں؟ کچھ نہ کچھ تو پینا ہے اس لیے سگریٹ ہی سہی.. کسی کا خون تو نہیں پیتا۔ اگر شاعری میں جواب دیا تو بُری بات ہو سکتی ہے۔ میرے سامنے، سگریٹ کے دھویں کے پار، کائنات میں، مکمل روشن چاند عین دریا کے اوپر چمک رہا تھا.. وائلڈرنَیس میں چاند کچھ زیادہ ہی چمکتا ہے، مصنوعی روشنیوں کے لبادے جو نہیں ہوتے۔ جوپیٹر سیارہ بھی شدید روشن تھا، اتنا کہ خلائی مخلوق کا جہاز لگ رہا تھا جس میں سے پی-کے برآمد ہو سکتا تھا۔
دریا کی ہر لہر نظر آتی تھی، ہر موج محوِ کلام تھی.. کہ اے موسیٰ یہ مَیں ہوں۔
"کون ہو تُم"، مَیں نے پوچھا۔
"یہ مَیں ہوں" جواب آیا۔
جانے اصل "مَیں" مَیں ہُوں یا تُم ہو۔
"یہ مَیں ہُوں" خلائے بسیط نے پھر صدا لگائی اور جامنی کائنات گونجنے لگ گئی.. کہ گویا کائنات ابھی ناتمام ہے شاید، آ رہی ہے دمادم صدائے کُن فیکُوں۔
اِک درد کا پھیلا ہوا صحرا ہے کہ مَیں ہُوں
اِک موج میں آیا ہُوا دریا ہے کہ تُم ہو
موسیٰ کی مانند کائنات کے روبرو تنہا ہو جائیں تو اُس لمحہ بہت طاقت آ جاتی ہے.. آگ لینے جاؤ تو بولتی آگ میں جلنا شروع کر دو.. ایک طلسمِ دلرُبا شروع ہو جاتا ہے..
چاند برفپوش پربتوں کو اتنا روشن کر رہا تھا کہ اُن کی منعکس روشنی میرے دل کے اندھیروں کو مضطرب کر رہی تھی۔ بلکہ مَیں آنکھیں بند کرتا تھا تو بھی روشنی میرے پپوٹوں کو روشن کر رہی تھی، آنکھ کے اندر سے پپوٹوں پر مَیں سب دیکھ رہا تھا۔ کون مَیں!!... یہ مَیں ہُوں۔ کیا مَیں اکیلا ہی جنت میں پہنچا دیا گیا ہوں؟.. جن سے مَیں شدید محبت کرتا ہوں وہ کہاں ہیں؟ کہیں دوزخ میں تو نہیں؟ یا جنت کے کسی دور دراز حصے میں تو نہیں جہاں رابطہ ممکن نہ ہو؟ ایسی جنت کا کیا فائدہ جس میں تُم تو ہو مگر تمہارا محبوب نہ ہو۔ کیا فائدہ کہ گلیاں ہو جان سنجیاں، وچ مرزا یار پھرے، کلاّ ای۔ اپنی طاقت استعمال کرو اور اُسے بھی اِیدھر لے آؤ، اپنی جنت میں، تب جنت مکمل ہو گی۔ بس یہی شفاعت تھیوری ہے۔ میری ہر جانب شدید چاندنی میں ڈوبی ہوئی گہری رات ایسے طاری تھی جیسے صحرا کی شبِ فراق میں چلتے قیس بصحرا پر مسلسل لیلیٰ طاری ہوتی تھی.. اور لیلیٰ کا مطلب رات ہے، اِک روشن کائنات ہے.. اور قَیس بصحرا مجنُوں ہے، ہو جایا کرتا ہے.. عشق میں قَیس بَصحرا کا بھی جواب نہیں تو لاجوابئ لیلیٰ کا بھی جواب نہیں اگرچہ شاعر کہتا ہے کہ دشت میں قَیس رہو، کوہ میں فرہاد رہو، مگر اِس لیلیٰ کا کیا کریں جو ہر جگہ طاری ہو جاتی ہے، مجنُوں بنے بنا گزارہ نہیں۔ ہر جگہ:- پھر سامنے لیلیٰ نقش و نگار آنے لگی اے جوش، ہوا سے بُوئے یار آنے لگی بلیک اینڈ وائٹ دِن میں جگنو کی مانند میرے پائن سگریٹ کا سرخ شعلہ دھواں چھوڑ رہا تھا اور میرے مدہوش دماغ کو مزید اُڑان دے رہا تھا..... اے میرے محبوب تُم کہاں ہو؟.. آ جاؤ کہ تُم بِن میری جنت کچھ نہیں۔ ہو بس، اگر تُم، ہمارے صنم ہم تو ستاروں پے رکھ دیں قدم اے کاش کہ ہم ہوش میں اب آنے نہ پائیں کچھ گھنٹے قبل بون فائر کے گرد کسی نے مکینیکی طور پر یہ گیت گایا تھا کیونکہ انتاکشری کے اصولوں کے مطابق اسی گیت کا پہلا لفظ پچھلے گیت سے مطابقت رکھتا تھا۔ تب سے مَیں جنگلوں میں مور کی طرح گاتا پھر رہا تھا۔ کِھلتی مہکتی یہ زلفوں کی شام ہنستے کھنکتے مہکتے یہ ہونٹوں کے جام اے کاش کہ ہم ہوش میں اب آنے نہ پائیں مَیں.. شَب کے اِس پہر، تہذیب سے دُور کیا کر رہا تھا؟ اس میں کالی گھٹا محسن رضا کا کمال تھا.. اُس نے ہمارا خیمہ جنگل کے بھید در بھید اندر لگوا دیا تھا۔ جب بہت دیر بعد مَیں راستے تلاش کرتا ہوا خیمے میں سونے کے لیے آیا تو ماحول دیکھ کر دریا کے کنارے بیٹھ گیا.. آپ ہوتے تو آپ بھی بیٹھ جاتے.. بیٹھے ہوں گے۔ یہ رات.. یہ چاندنی پھر کہاں.. سُن جا دل کی داستاں.. اے عکسِ زلفِ یار ہمیں تُو پناہ دے گھبرا کے آ گئے ہیں بڑی روشنی سے ہم کیا رات عکسِ زُلفِ یار تو نہیں؟... سٹیفن ہاکنگ کے نظریات کے مطابق پوری کائنات اِک بلیک ہول میں ہے۔ اس بلیک ہول کا سِرا اِک اور "مدر یونیورس" میں ہے جہاں ہمارے جیسی بے انتہا کائناتوں کے بلیک ہولز ہیں۔ پتا نہیں سٹیفن ہاکنگ کا دماغ ہر وقت کیا سوچتا رہتا تھا مگر بعض دفعہ ایسی باتیں کر جاتا تھا جس کے نتائج سے وہ خود بھی بے خبر تھا۔ یونیورسل بلیک ہول کا نظریہ بآسانی عرشِ عظیم سے منسلک کیا جا سکتا ہے جس کے کسی بلیک ہول میں ہماری کائنات موجود ہے، پوری کی پوری۔ ایسا محبوب پیارا لگتا ہے جو تمہیں چھوڑ تو دے مگر سوشل میڈیا پر اکثر نظر آتا رہے... ذرا حوصلہ رہتا ہے۔ رات ہے، کچھ بھی کہتے رہو، اِس لازمانیت میں کیا پتا لگتا ہے کہ کون کیا اور کیوں کہہ رہا ہے۔
آپ نے غور کیا ہو گا کہ حصہ سوم میں بات تھل سے شروع ہو کر 7 کلومیٹر دور کمراٹ فوریسٹ کیمپنگ کی شب میں بون فائر کے گرد روشن چہروں اور کسی چہرے کو گول کر دینے تک آ کر ختم ہو گئی تھی، باقی رات کا ذکر نہ تھا۔ رات کا ذکر الگ سے بنتا تھا.. بلیک اینڈ وائٹ دِن نما رات۔ اور مَیں مُسافرِشَب ہوں، ایسے کیسے چھوڑ دوں!! آپ بھی سوچتے ہوں گے کہ... وہ بھی قسطوں میں دکھاتا ہے ادائیں اپنی وہ بھی ہونے نہیں دیتا مجھے سارا پاگل.. چونکہ ہم سب میں ایک ہی روح ہے اس لیے میرا ایمان ہے کہ اپنی کیفیات و واردات کے ذریعے مَیں آپ کی کیفیات و واردات دریافت کر رہا ہوں... ایک ہی بات ہے۔ اپنے ذریعے مَیں آپ کے بھید جان لیتا ہوں۔
گزشتہ شام، ابھی سورج نہ ڈوبا تھا، مَیں ڈُوبنا شروع ہو رہا تھا۔ مَیں کمراٹ جنگل کی اِس جانب اکیلا بھٹکتا رہا تھا اور ایرفونز میں موسیقی سن رہا تھا۔ بیک وقت فطرتی خاموشی اور موسیقی سے فائدہ اٹھانے کا طریقہ ایرفونز کا استعمال ہے، زبردست ایجاد ہے۔ جنگل کے اندر اندھیرا تھا اور شدید مہک تھی۔ تنہائی ایسی تھی کہ جی بھر کر ہنسا، درختوں سے لپٹ لپٹ کر سمندر بہائے اور اُن کی مہک اپنے آپ میں منتقل کر لی، پائن فائبرز کی گھاس پر لوٹنیاں لگائیں، اس کے علاوہ بھی ہر وہ کام کیا جو آپ مجھ سے توقع نہیں رکھ سکتے.. البتہ اس کی بھی ایک حد ہے، آخر اکیلا بندہ زیادہ سے زیادہ کیا کر لے گا۔ علامہ اقبال جب کہتے ہیں کہ اے مُسافرِ شَب خود چراغ بن اپنا، تو مُسافرِ شَب کی بھی ایک حد ہے۔
جب محسن شام ڈھلے دریا کنارے اپنی ایجاد کردہ رحل نما فریم کے اوپر کوئلوں پر چکن پیس بھون رہا تھا، مَیں نے نوٹ کیا کہ لاہور سے تعلق رکھنے والے عبدل بھائی بھی بہت پروفیشنل انداز میں محسن کے ہمراہ چکن اور لیمب کباب بھون رہے تھے۔ امید ہے لیمب گوشت گجرانوالا سے ہی لایا گیا ہو گا.. ویسے خود میں کوئی خاص تبدیلی محسوس نہیں ہوئی، گوشت محفوظ ہی ہو گا۔ عبدل بھائی کی وجہ سے محسن کی اور ہماری زندگی آسان ہو رہی تھی۔ سب کی زندگی میں ایک عدد عبدل ضرور ہونا چاہیے۔ دن کے وقت ولید بھائی نے محسن کا انٹرویو کوئی دو تین بار ریکارڈ کیا تھا، ہر بار دریا کا شور حاوی ہو جاتا تھا۔ آخرکار محسن تنگ آ گیا کہ مَیں نئیں کھیڈدا۔ آخری کوشش کامیاب رہی تھی۔ ہر ٹرائی بال میں محسن بالکل الگ باتیں کر رہا تھا۔ اچھا لگا۔ ولید بھائی کا فون آ رہا تھا مگر وہ نہیں اٹھا رہے تھے۔ مَیں قریب کھڑا تھا، مجھے کہا "فون کرنے والے کو پتا نہیں کہ مَیں اَن-نون نمبر سے فون نہیں اُٹھاتا... ھاھاھا۔" مَیں نے کہا "آپ اَن-نون نمبر کی بات کر رہے ہیں، مَیں تو نون نمبر سے بھی فون نہیں اُٹھاتا... شدید ھاھاھا۔" ہم کافی دیر ہنستے رہے پھر یک دم چپ ہو گئے.... بات بُری تھی۔
دریا سے ایک ننھی منی نہر کمراٹ شنگریلا ہوٹل کے قریب آ رہی تھی۔ عملہ اپنے تمام برتن وغیرہ وہیں دھو رہا تھا۔ ہم نے بھی اس سرد نہر سے بہت فائدہ اٹھایا۔ البتہ ایک چھوٹی سی قباحت ہو گئی۔ ہوٹل سے چند میٹر اَپ سٹریم باتھ روم کیبن تھے۔ باقی کی فزکس آپ خود کیلکولیٹ کر لیں۔ نہر کے قریب کرسیوں پر بیٹھے ہوئے ڈاکٹر اسماعیل رامے نے بتایا کہ ابھی ابھی ایک سکیورٹی اہلکار پوچھ کر گیا ہے کہ سب انجوائے کر رہے ہیں ناں؟ کوئی مسئلہ تو نہیں؟ کہیں بھی اکیلے نہ جائیے گا۔ یہ علاقے محفوظ تو ہیں مگر کچھ نیچرل پرابلمز بھی ہوتے ہیں۔ جانور اٹیک کر سکتا ہے۔ وہ اہلکار اس علاقہ کا ہیرو تھا، اس نے تنِ تنہا دہشت گرد بدذوقوں سے لڑائی لڑ کر اُنہیں نکال باہر کیا تھا.. پتا نہیں کیا نام تھا اُس کا۔ سمندر خان یا دریا خان۔ ڈاکٹر صاحب نے میرے ہاتھ میں "خلا میں زندگی کی تلاش" کتاب دیکھ کر کہا "حالانکہ بحریہ یونیورسٹی ملک کی اہم ترین یونیورسٹی ہے مگر سٹوڈینٹس کو کتابیں پڑھنے کی عادت نہیں رہی۔ چھوٹے موٹے سوالوں کے جواب بھی نہیں دے پاتے۔ یہ لمحہء فکریہ ہے۔" اب مَیں انہیں کیا بطاطا کہ مجھے صرف کتابیں پڑھنے کی عادت ہے، بچپن میں میرے نصابی کرتوت اچھے نہیں رہے۔ وہ تو بھلا ہو مانچسٹر یونیورسٹی کا کہ انہوں نے محض اس بنیاد پر فلکیاتی فزکس میں مجھے داخلہ دے دیا تھا کہ مجھے کائنات سے عشق ہے۔ سوال یہ ہے کہ واقعی خلا میں ہم واحد معجزہ ہیں یا زندگی کے آثار کسی اور سیارے پر یا کسی اور ستارے کے سیارے پر بھی موجود ہیں؟ کیا کوئی بیسِک لائف ہے؟..... اگر نہیں، تو پھر ہم کیسے وجود میں آ گئے؟.. زمین پر چند ایٹمز آپس میں مل کر باشعور کیسے ہو گئے؟....
پورا دن بڑا انجوائے کیا، شام کے بعد دریا کے کنارے بھونے ہوئے چکن فِلے کھائے، بون فائر کے گرد شدید گانے گائے اور کوفی کے کپ پیے۔ اچانک، آگ کے باعث روشن چہروں میں سے ایک چہرا مزید دہک اُٹھا، غزالِ شَب بن گیا.. ڈاکٹر عدیلہ نے نہایت شاعرانہ لب و لہجہ میں اپنی غزل "شکوہ" پیش کی: اے میرے کُوزہ گر، نقش گَر اے خدائے جہانِ رنگ و بُو کُوزہء جاں کمال ہے میرا تیرے فن کی مَیں داد دیتا ہُوں تیرے پوروں کے سارے رنگ مجھ میں مَیں تیرا آئینہ ہُوں دنیا میں پَر گلہ ہے مجھے تجھ سے کچھ یہ جو رُوح تُو نے مجھ میں پُھونکی ہے خاک میں آگ تُو نے پُھونکی ہے دیوارِ بدن میں آوارہ سر پٹختی ہے، رقص کرتی ہے عقل کے مضطرب جزیروں کا برہنہ پا طواف کرتی ہے اِس کی تشنہ لبی سے ڈرتا ہوں اے خدائے جہانِ رنگ و بُو آج تجھ سے سوال کرتا ہوں میرے خالق مجھے حساب تو دے آگ دہک رہی تھی.. اور مَیں نے روشنی، حرارت اور دھویں کے امتزاج میں اپنے آپ کو کہتے سُنا "خاک میں آگ پُھونکی ہے تُو نے.. اے میرے کُوزہ گَر۔" شدید سردی میں ہم سب پروانوں کی مانند بون فائر کی آگ سے قریب تر ہونے کی کوشش کر رہے تھے مگر ہوا کے بدلتے رخ کے باعث دھواں آنکھوں میں جا رہا تھا، پھر بھی آگ کی کشش ایسی تھی کہ دور نہ ہوا جاتا تھا۔ آخر کیا وجہ ہے؟
وہاں شام کو ایک اور گروپ بھی پہنچا۔ اُن میں بھی دونوں اجناس تھیں۔ وہ بھی اپنے کیمپ کے باہر بون فائر جلا کر وہی گانے گا رہے تھے جو ہم گا رہے تھے۔ یعنی سبھی یہی کرتے ہیں۔ آپ کو شاید حیرت ہو کہ انسانی تہذیب کی ہر شاخ کا آغاز بون فائر کے گرد ہی ہوا تھا۔ لاکھوں برس پیشتر جبکہ انسان نما ہومو ایراکٹس نے ابھی لباس پہننا شروع نہیں کیا تھا، وہ آگ دریافت کر چکے تھے اور اس کے گرد بیٹھتے تھے تاکہ حشرات الارض اور شکاری جانوروں سے پناہ حاصل ہو۔ یہیں سے معاشرت نے جنم لیا۔ اول زبانوں نے خدوخال حاصل کیے۔ موسیقی اور دیگر آرٹ نے آغاز لیا۔ یہیں سے گوشت کو پکا کر کھانے کا عمل شروع ہوا۔ یہیں رفتہ رفتہ بڑے جبڑے بالآخر چھوٹے ہوتے گئے۔ یہیں انسانی دماغ نے آگ کے گرد ہونے والے اعمال کے باعث نشوونما پائی اور برین سٹورمنگ کے باعث دوسروں کے تجربات سے فائدہ اٹھانا شروع کیا۔ اسی آگ کو دیوتا بنا کر پوجا بھی گیا۔ شدید سردی میں بون فائر کیا نعمت ہوتی ہے، واقعی آگ کو دیوتا بنانے کا دل کرنے لگ جاتا ہے۔ اور پھر ایسا وقت بھی آیا کہ کوئی آگ ڈھونڈنے گیا اور پھر کائنات سمیٹ آیا۔ یہ بون فائر ہمارے ڈی-این-اے میں شامل ہے اور لاشعوری طور پر ہم قدیم زمانوں میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ انسانی تاریخ کے ارتقا اور بون فائر کے حوالے سے لاکھوں برس پر مشتمل ایک لمبی کہانی ہے۔ اے میرے کوزہ گر، خاک میں ایسی آگ پھونکی کہ جس نے انسان کو تہذیب یافتہ کیا.. یعنی سائنسی نکتہ نظر سے آگ نے آسٹریلوپیتھیکس بندر نما سے ہومونائیڈز ہیبلَس، ایراکٹس، ہیڈل برگینسز، نینڈرٹلز اور پھر ہومو سیپئن تک 60 لاکھ برس کا سفر کرا دیا... اے مقدس آگ۔
رات کے اندھیرے میں اسامہ بھائی اور اُن کے دوست نے دریا کے کنارے اور جنگل کے اندر تین خیمے لگانا شروع کیے۔ ایک خیمہ میرے اور محسن کے لیے تھا۔ جب رات بہت بڑھ گئی تب سب ممبرز اپنے اپنے مقامِ ہائبرنیشن کی جانب چلے گئے۔ بون فائر سلگتا رہا مگر اس کی بیٹری ڈاؤن ہو رہی تھی، چاندنی بڑھتی رہی، دریا مزید روشن اور موج زن ہو رہا تھا، کچھ مرد احباب جو خواتین کی موجودگی کے باعث دوسرا والا باذوق سگریٹ نہیں پی پا رہے تھے، انہوں نے مشک پھیلانا شروع کر دی۔ مَیں نے اپنے سگریٹ پیے۔ تب ایک اور محفل شروع ہوئی جس میں قصے کہانیاں تھیں، گانے باجے نہ تھے۔ آخرکار مجھے نیند آنے لگ گئی اور مَیں اپنے خیمے کی جانب سونے کے لیے چلا گیا۔ مگر..... مَیں جو جنگل میں سونے کے لیے آیا تھا، یہاں تو ماحول ہی کچھ اور تھا.. جنگل میں منگل تھا۔ نیند رفوچکر ہو گئی اور مَیں دریا کے کنارے بیٹھ گیا اگرچہ سردی کی شدت تھی۔ اب اس تحریر کو شروع سے پڑھیں۔
مَیں جامنی سلیپنگ بیگ میں گُھسا ہوا تھا، ایک خواب چل رہا تھا۔ خواب کا خواب ہونا مجھے تب سمجھ آیا جب مَیں خواب سے باہر آ چکا تھا، شاید۔ کسی کی آواز آئی تھی "احسن بھائی ناشتہ تیار ہے۔" غالباً خرم بسرا تھے۔ بہت دیر بعد اپنی مارننگ واردات سے فارغ ہو کر یعنی مقام کا تعین کر کے مَیں اُٹھا اور خیمہ کی زپ کھولی۔ چہرے پر سرد ہوا محسوس ہوئی۔ وہ دریا جو شَب میں ایک دریائے ارواح لگ رہا تھا، اب واپس جسمانی ہو کر بہہ رہا تھا۔ اگر روح طلسمِ ہوشربا ہے تو جسم بھی کم نہیں۔ پوری شاعری جسم کے زاویوں سے بھری پڑی ہے۔ پیار اِک پھول ہے اِس پھول کی خوشبُو تُم ہو میرا چہرا، میری آنکھیں، میرے گیسُو تُم ہو ایک اور شاعر کہتا ہے: ﮐﯿﺎ ﺧﺒﺮ ﺗُﻢ ﻧﮯ ﮐﮩﺎﮞ، ﮐﺲ ﺭﻭﭖ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﻣَﯿﮟ ﮐﮩﯿﮟ ﭘﺘﮭﺮ، ﮐﮩﯿﮟ ﻣَﭩﯽ، ﮐﮩﯿﮟ ﺁﺋﯿﻨﮧ تھی تو اب صبح تھی اور جسمِ محبوب کا آغاز تھا۔ یہ بھی اتنا ہوشربا تھا کہ مَیں خیمہ کے باہر ہی بیٹھا رہا، ناشتہ بھول گیا۔ جب دریا کے پانی سے منہ دھویا تب ناشتے کا خیال آیا اگرچہ چمکتے پربت چھوڑ کر ننھی منی تہذیب میں جانے کو دل نہیں کر رہا تھا۔ ناشتہ ختم ہو چکا تھا۔ سب کر چکے تھے۔ محسن کی مہربانی سے ہوٹل والوں نے مجھے پراٹھا بنا دیا جو مَیں نے چائے کے ساتھ کھا لیا۔ اس کے بعد اَپ سٹریم باتھ روم کا خیال ذہن میں لا کر نہر میں اچھی طرح ہاتھ دھوئے، کلی نہیں کی۔ ایک گروپ فوٹو ہوا۔ دو فوٹوگرافرز ساتھ ساتھ کھڑے تھے۔ ایک بے بال و پَر عامر اقبال تھے اور دوسرے بے انتہا بال و پَر ولید بھائی تھے۔ آواز آئی، بچے نیچے آگے بیٹھ جائیں۔ وہ تو مجھے بعد میں خیال آیا کہ مَیں اب بچہ نہیں رہا، بلکہ بچا ہوا بھی نہیں رہا۔ مگر فوٹو بن چکی تھی۔
اسامہ بھائی نے پروگرام بتایا۔ یہی جیپ ٹریک پر چلتے جائیں۔ کچھ کلومیٹرز کے بعد آبشار آئے گی اور پھر اُس کے بعد کالا چشمہ ہے۔ وہاں کچھ وقت گزار کر واپس آ جانا ہے۔ ہوٹل والے نے صدا لگائی "جیپ ٹریک سے جانے کی بجائے یہ سامنے پگڈنڈی جا رہی ہے، یہیں سے چلے جاؤ۔ یہ زیادہ خوبصورت ہے۔" کسی مقامی کے منہ سے "یہ زیادہ خوبصورت ہے" سُن کر حیرت بھی ہوئی اور اچھا بھی لگا۔ جیسے ہی ٹیم چلنا شروع ہوئی، بادل امڈنے لگے۔ بہرحال ہم نے چلنا شروع کر دیا۔ کافی ممبرز آگے جا چکے تھے۔ جب مَیں چلنے لگا تو معلوم پڑا کہ محسن اور خرم بسرا نے کیمپنگ میں ٹھہر کر کام نبٹانے ہیں۔ بڑا افسوس ہوا مگر مجبوری تھی۔ آگے ساتھ ساتھ مس بخاری اور مس وردہ جا رہی تھیں۔ اُن سے آگے ڈاکٹر عدیلہ سرخ کوٹ پہن کر اکیلی ہی چل رہی تھیں۔ اُن کے ساتھی جانے کہاں تھے۔ سامنے.. جنگل سے پرے، سفید پربت جھانک رہے تھے۔ ہم جو چلنے لگے، چلنے لگے ہیں یہ راستے منزل سے بہتر لگنے لگے ہیں یہ راستے کھو جائیں ہم، ہو جائیں ہم یوں لاپتا میلوں چلیں جانا کہاں نہ ہو پتا اے میرے کُوزہ گَر... خاک میں آگ تُو نے پُھونکی ہے... دیوارِ بدن میں آوارہ... سر پٹختی ہے، رقص کرتی ہے....
 (جاری)