کُمراٹ اور روشن اندھیرے حصہ سوئم
تحریر مُسافرِشَب`
عکاسی مُسافرِشَب` + ٹیم
حصہ سوم (تیری محبت میں.. / فوریسٹ کیمپ)
سطح سمندر سے 6 ہزار فٹ بلند، تھل گاؤں، کمراٹ میں.. لکڑی سے تیار شدہ پیلس ہوٹل کی دوسری منزل پر ہمارا کمرہ تھا جس میں گزشتہ شَب تقریباً ڈھائی بجے کے بعد چھ مرد ممبرز زمین پر پڑے ہوئے میٹرسِز پر لم لیٹتے رہے تھے۔ مجھے صرف ولید بھائی، عامر اقبال اور خرم بسرا کا معلوم ہے، شاید محسن نے بعد میں کابینہ جائن کی تھی۔ پانچ نے سرخ رضائیاں اوڑھ لی تھیں.. اوڑھنی اوڑھ کے ناچوں، ہر قسم توڑ کے ناچوں۔ چھٹا مرد اپنے جامنی سلیپنگ بیگ کے اندر سویا مویا یا بے ہوش پڑا ہوا تھا.. اِس مرد کی پوری زندگی جامنی کائنات کی خلا میں بہتی بہکتی ہے.. یہ، اِنڈِیڈ، مَیں تھا یا تُم ہو۔
صبح چھ بجے کے قریب، روشنی میں، میری آنکھ کھل چکی تھی مگر مَیں بدستور سلیپنگ بیگ کے بھید اندر پڑا رہا، ہر صبح یہی کرتا ہوں۔ مجھ پر ماضی و مستقبل کے بہت سے اہم و انجان خیالات و خدشات کی زبردست واردات اِسی وقت ہوتی ہے اور بالآخر سینسر ہو کر تحریر میں آ جاتی ہے۔ آپ بھی اُس وقت سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں، شعور و لاشعور کی برزخ میں بہت بھید ہوتے ہیں۔
سردی بالکل بھی نہیں تھی مگر سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ مَیں کہاں ہوں.. کیا یہ گھر ہے، یا گرینز ہوٹل کالام کا کمرہ ہے جس کی کھڑکی میں سے فلک سیر ایک کے-ٹو کی مانند نظر آتی ہے، یا کیل نیلم کا لکڑ ہوٹل ہے اور بطوطا چٹا کٹھا جھیل ٹریک پر ہماری خوفناک ٹریننگ کرنے والا ہے، یا بشام کا کمرہ نمبر 23 ہے جس کے سامنے شیردریا موج زن ہوتا ہے اور بیرونِ دریا کچھ نہیں، یا شوگراں کا کاٹیج ہے جس کے سامنے خطرناک مکڑا سربفلک ہے، یا چلاس شنگریلا ہے جہاں شیردریا پگھلی ریت کی مانند بہتا ہے، یا لیک ونڈرمیئر پر طاری ماؤنٹ ایمبل سائیڈ کی ٹاپ ہے جہاں حدت سے لبریز خیمہ میں ایک سمندر کی مہک ہے.. یہ کونسی جگہ ہے، مجھے یہاں کون لایا ہے؟.. مَیں کون ہُوں؟
تب رفتہ رفتہ کائناتی توجہ سمٹ کر اِک نکتہ پر مرکوز ہونا شروع ہوئی۔ یاد آیا، یہ تھل ہے.. کونسا تھل، صحرائے تھل؟.. نہیں، کمراٹ کا تھل۔ گزشتہ شَب بہت روشن دِن تھا، آج ٹریکنگ ڈے ہے، انجان رستے جانے کیسے ہوں گے۔ آج بیسیکلی کرنا کیا ہے؟.. نمی دانم، سوئے پڑم، می رقصم۔ ارے، ماضی کے پردوں میں سے ایک قدیم موسیقی جھانک رہی ہے.. چل آ جا..... مَیں تیری محبت میں پاگل ہو جاؤں گا، مجھے ایسا لگتا ہے، تجھے کیسا لگتا ہے.. تری دیو، سنی دیول، شدید دلکش مادھوری ڈک شِٹ، استغفار، یہ کیسا نام ہوا۔ مَیں تیری نگاہوں سے گھائل ہو جاؤں گی، مجھے ایسا لگتا ہے، تجھے کیسا لگتا ہے۔
سلیپنگ بیگ کے اندر اِک کائنات کی مہک تھی، تھی تو میری اپنی مگر مَیں نے اُس کے نام کر دی ہوئی ہے، جامنی رنگ کی طرح.. اب تو میری قبر میں سے بھی یہی خوشبو آئے گی، اتنا تو معلوم ہے۔ کچھ دن سے مَیں ٹوٹا ٹوٹا رہتا ہوں، اپنے دل سے روٹھا روٹھا رہتا ہوں، کچھ دن سے مَیں کھوئی کھوئی رہتی ہوں، جاگوں بھی تو سوئی سوئی رہتی ہوں.. واہ، آج کا دن اِس موسیقی کے نام ہوا۔ کیا واقعی کوئی اتنا بے وقوف ہو سکتا ہے کہ تجھ جیسے باذوق دوست کو چھوڑ دے.. کیا چھوڑ دینا اتنا آسان ہوتا ہے؟.... میری آنکھیں بھیگ رہی ہیں۔ مَیں نے آنکھیں پونچھ کر سامنے سے سلیپنگ بیگ ذرا سا سرکایا، سلیپنگ بیگ کے پار عین پاؤں کی جانب کھلا ہوا دروازہ تھا۔ ماحول میں دیودار لکڑی کی خوشبو اب تیری خوشبو میں شامل ہو رہی تھی۔ دروازے کے پار سامنے بلندیوں پر جہاز بانڈہ والے سفید پربت نظر آ رہے تھے.. مَیں بدستور پڑا رہا، اُنہیں گھورتا رہا۔ اچانک دروازے کے سامنے سے جامنی رنگ کی کوئی شے گزر گئی۔ مَیں ہڑبڑا گیا۔ اُٹھ کر رفتہ رفتہ باہر آیا اور دیکھا کہ ایسی کوئی شے نہ تھی۔ شاید میرا وہم تھا.. اور وہم سے بھی عشق ہو جایا کرتا ہے۔ مَت پُوچھ کہ کیا حال ہے میرا ترے پیچھے تُو دیکھ کہ کیا رنگ ہے تیرا مرے آگے اب باہر آ ہی چکا تھا تو مَیں نے تھل کا علاقہ غور سے دیکھنا شروع کیا۔ تین جانب زرخیز پہاڑوں کے پیچھے سفید سفید بلند پربت جھانک رہے تھے۔ یہ تو کچھ کچھ کالام کا ماحول ہے اگرچہ کالام کا افلاکی ماحول کہیں اور موجود نہیں، فلک سیر ہر جگہ ممکن نہیں۔
مَیں کمبائنڈ باتھ روم سے جتنا فائدہ اٹھا سکتا تھا، اُس سے آدھا فائدہ اُٹھا کر کمرے میں واپس آیا۔ پانی بہت سرد تھا، باقی اچھی نیت سے کام چلایا۔ صرف دو لوگ سوتے نظر آئے۔ رضائیاں اُن پر یوں مُودی پڑی ہوئی تھیں کہ وہ برزخ میں زندہ لگ رہے تھے.. میرا فاتحہ پڑھ کر اِن کے وسیلے سے کچھ مانگنے کو دل کیا، آخر بریلوی ہوں، نہ مرتا ہوں، نہ مرنے دیتا ہوں، بااختیار کر دیتا ہوں۔ بلھیا اساں مرنا ناہیں، گور پیا کوئی ہور۔
بہرحال سامان پیک کر کے نیچے اترا۔ اپنے تئیں مَیں سمجھا تھا کہ دیر تک سو کر بڑی عیاشی کی ہے، مگر میرے علاوہ ابھی چند ممبرز ہی جاگے تھے جو نیم خوابی میں اِیدھر اُودھر مٹک رہے تھے، شاید بات روم کے فارغ ہونے کے انتظار میں تھے مگر اندر کوئی بہت ہی زیادہ باتونی شخص بیٹھا تھا.. سارا قصور فوڈگرو کا ہے۔ ریسٹورینٹ میں ایک کپ چائے کا آرڈر دیا تاکہ آج کی ڈبی شروع کی جا سکے۔ شربت سے بھی شیریں چائے پی کر مَیں تھل بازار کی جانب نکل گیا۔ گزشتہ کل محسن رضا سے سنا تھا کہ یہاں کوئی قدیم مسجد ہے، اُسے ہی دیکھ آتا ہوں۔
کہیں قریب پانی بہنے کی آواز آ رہی تھی۔ سڑک پر چلتے ہوئے مَیں نے دیکھا کہ رایٹ جانب لکڑی کے بڑے بڑے اور لمبوترے فریمز کے اندر نہریں جاری تھیں۔ یہ ایک عجیب منظر تھا۔ دریا سے لے کر گاؤں کے کھیتوں تک لکڑی کی بڑی بڑی راہداریوں میں پانی پہنچایا جا رہا تھا.. اور پانی شدید چمک رہا تھا۔ سامنے پہاڑ پر سفید رنگ کا "اللہ" لکھا نظر آ رہا تھا جیسے تریشنگ میں نانگاپربت کی ڈھلوانوں میں "یاعلی" لکھا ہوا ہے، ہنزہ میں "حاضر امام" لکھا ہوتا ہے۔ تھل بازار کی کچی سڑک کے اردگرد تقریباً ہر قسم کی دوکان موجود تھی۔ یعنی ٹریکنگ کا سامان، جوتوں اور کھانے پینے کی دوکانیں، کافی مناسب بازار تھا اگرچہ لوگوں کے چہروں سے سادگی اور کچھ کچھ غربت جھلک رہی تھی۔ یہاں ابھی سیاحت کی عفریت نے مکمل طور پر پنجے نہیں گاڑے جو خوشحالی لاتی ہے اور مقامی روایات کا گلا بھی گھونٹ دیتی ہے تب دہائیوں بعد وہ عفریت بے چاری بائیکاٹ بائیکاٹ کی صدائیں بلند کرتی ہے۔ عفریت کا مطلب بلا ہوتا ہے، جن بھوت چڑیل.. ان سے ڈرنے کی بجائے انہیں کام پر لگایا کریں، انرجی بچائیں۔ آگے بڑھا۔ دائیں جانب دریائے پنجکوڑہ ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ وہاں سڑک کے کنارے ایک شدید پریشان حال بوڑھا نظر آیا، پس منظر میں برفپوش پربت تھے۔ اُسے دیکھ کر مستنصر حسین تارڑ کی کتاب "ہنزہ داستان" سے کچھ یاد آیا۔ بہت عرصہ پہلے جب التت ہنزہ کافی پسماندہ ہوتا تھا۔ تارڑ صاحب نے وہاں اسی قسم کے ایک پریشاں حال بوڑھے کو بیٹھے دیکھا اور اپنی نوٹ بک میں لکھا "یہ بوڑھا خوش قسمت ہے کہ التت جیسے خوبصورت گاؤں میں پریشان بیٹھا ہے اور اس کے گرد خوبصورت مناظر مسکرا رہے ہیں، یہ بوڑھا گوالمنڈی لاہور میں بیٹھ کر بھی تو پریشان ہو سکتا تھا۔" بائیں جانب ایک قبرستان تھا۔ ہر قبر پر لکڑی کا ایک فریم تھا جس پر نقش نگاری کی ہوئی تھی۔ ایسے قبرستان کالام میں بھی نظر آتے ہیں۔ بالکل ساتھ قدیم تاریخی مسجد تھی جس کے لیے مَیں آیا تھا اور اُس کے فوراً بعد ایک پُل تھا جس پر چل کر دریا عبور کیا جا سکتا تھا، غالباً پُل کا یہی کام ہوتا ہے۔ مسجد میں داخل ہونے سے پہلے مَیں پُل کے وسط میں چلا گیا، عین دریا کے درمیان۔ مجھے کچھ کام تھا۔ دریا جس جانب سے آ رہا تھا وہ وادئ کمراٹ کا بھیتر اندرون تھا.. آج کسی وقت ہم نے اِیدھر ہی داخل ہونا تھا۔ اُسی جانب وہ برفپوش پربت نظر آ رہے تھے جن کے پار چترال تھا.. وادئ کالاش تھی جہاں کے لوگوں کے جِینز میں یوروپیئن ہومو نینڈرٹلینسِز کی مقدار ہم سے کہیں زیادہ ہے۔ کمراٹ زیادہ بڑی وادی نہ تھی۔ مَیں نے دن کا پہلا سگریٹ سلگایا، جیب سے ایرفونز نکالے اور موسیقی سننے لگا۔ جی چاہے تیری آنکھوں میں کھو جاؤں آج ابھی اس وقت میں تیری ہو جاؤں کب تک آخر ہم ملنے کو ترسیں گے کب ساون آئے تو بادل برسیں گے مَیں تیری نگاہوں سے گھائل ہو جاؤں گا مجھے ایسا لگتا ہے، تجھے کیسا لگتا ہے میرا خیال ہے کہ مَیں نے کوئی دس پندرہ بار یہ گانا سُنا.. ایک دریا کے اوپر خیالات کا دریا بھی بہتا رہا.. وقت کا پتا ہی نہ چلا۔ کبھی آپ نے پورا پورا دن ایک ہی گانا سُنا ہے؟... جب موسیقی کو حرام کہنے والے عمر بھر خاموشی سُن سکتے ہیں تو کبھی آپ بھی ایک گانا پورا دن سُنیے گا.... دونوں کیفیات عالمِ بالا کی سیر کراتی ہیں، خاموشی کائنات کی موسیقی ہے۔ دیودار لکڑی سے بنی مسجد میں داخل ہو کر اوپر نظر پڑی جہاں ایک بورڈ تھا۔ اُس پر لکھا تھا "جامع مسجد دارالسلام، تھل کوہستان ضلع دیر بالا، افتتاح 1953، توسیع 1999۔" صحن میں ایک تخت پوش تھا جس پر کچھ مقامی بابے بیٹھے سی-سی-ٹی-وی کی مانند متجسس ہو کر اِیدھر اُودھر دیکھ رہے تھے۔ اچھے لگ رہے تھے۔
سامنے نِیم اوپن ایر برآمدہ نما مسجد تھی۔ ممبر و محراب سامنے ہی نظر آ رہے تھے۔ تمام ستون منقش لکڑی کے تھے، بہت رنگین مسجد تھی۔ ولید بھائی اپنی فوٹوگرافی یا ویڈیوگرافی میں بزی تھے۔ مَیں آگے بڑھا۔ ہر جانب کنول کے پھول نقش تھے جو ہوتے تو جامنی ہیں مگر لکڑی پر نقش ہونے کے باعث لکڑ رنگ تھے، یہ بھی بہت ہے۔ برآمدہ سے پار دیوار پر دو دروازے نظر آ رہے تھے۔ یعنی مسجد کا اصل ہال اندر تھا۔ کافی وسیع عریض مسجد تھی۔ جیسے ہی دروازہ کھول کر اندر دیکھا، نیم اندھیرے کے باوجود شدید رنگین اور مزید نقش نگاری نظر آئی، کم از کم پانچ پانچ فُٹ چوڑے پرہیبت ستون تھے، جیسے مَیں مصری فرعون توتن خامن کے مقبرے میں آ گیا ہوں اور 3 ہزار برس بعد پراسرار سکوت توڑا ہے.... اندر بھی ممبر و محراب تھے، سرد موسموں کے لیے... اور محراب کے قریب جامنی لباس میں اِک کائنات نما اُدھر رخ کیے حالتِ نماز میں ساکت بیٹھی ہوئی تھی، جیسے ہزاروں برسوں سے محوِ انتظار ہو۔ اِیدھر مجھ پر جذب طاری ہو گیا۔ چہرائے یُوسفِ مِصر ہے روشن کائنات میری میری بیداریوں کو خوابِ زلیخا نہ بنا، پلیز چند لمحات گزرے، مس بخاری کسی ستون کے پیچھے سے برآمد ہوئیں اور مس وردہ سے گفتگو کرنے لگیں.. جانے مس وردہ تھیں کیدھر۔ مَیں واپس برآمدہ میں آیا اور حقیقتِ کرامت پر غور کرنے لگا۔ ایک بابا جی کسی کو بتا رہے تھے کہ یہ مسجد 400 برس پرانی ہے۔ 1953 سے پہلے بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود رہی ہے۔ پورے تھل کے لوگ یہاں جمعہ پڑھنے آتے ہیں۔ اس مسجد کی چھت کے شہتیر 30 فٹ لمبے ہیں۔ مَیں نے شہتیروں کو غور سے دیکھا، وہ واقعی بہت دلکش اور بارعب تھے۔ وہاں لکڑی کی ایک لالٹین لٹک رہی تھی اور دعوتِ فکر دے رہی تھی کہ دیکھیے عین لکڑی کے اندر آگ جلتی ہے۔ مزید پتا چلا کہ 1999 میں دوسری منزل بنائی گئی۔
اس دوران مس بخاری اور مس وردہ ہال میں سے باہر نکلیں اور مسجد کی دوسری منزل پر چلی گئیں۔ سیمنٹ کی سیڑھیاں صحن میں موجود تھیں۔ مَیں بھی اوپر چلا گیا۔ اوپر سیمنٹ کا لینٹر تھا اور شدید وسیع ہال زیرِ تعمیر تھا، یعنی نامکمل تھا۔ دریا کی جانب محرابوں میں پوسٹ کارڈ ویو مناظر تھے۔ جدید تعمیر میں مقامیوں نے لکڑی کی بجائے سیمنٹ استعمال کر دیا تھا، یوں بدقسمتی سے مسجد مسخ ہو چکی تھی۔ نچلی منزل پر ایک پوری دیوار نئی لکڑی سے بنائی گئی ہے، کاش وہ ذرا سیاہ رنگ اُس پر لگا دیتے تو وہ لکڑی قدیم ہو جاتی۔ کاش وہ قدامت کا ذوق رکھتے اور پوری تعمیر میں دیودار لکڑی ہی استعمال کرتے۔ اس سلسلے میں آغا خان ڈویلوپمنٹ نیٹ ورک سے مدد لی جا سکتی تھی جن کی سپیشلٹی ہی کھنڈرات کو ریسٹور کرنا ہے۔ مگر اُن کا مذہب اسماعیلی ہے، قائدِاعظم والا.. اور تھل کے لوگ غالباً اہلسنت ہیں۔
مَیں نیچے صحن میں آ کر مسجد سے باہر نکلنے لگا مگر رک گیا۔ کچھ اور ٹیم ممبرز بھی آ رہے تھے۔ ڈاکٹر خواتین تھیں۔ انہوں نے بھی اسی طرح مسجد کی انسپیکشن کی۔ وہ بھی ہال میں گئیں اور اُن میں سے کچھ محوِ خلا ہوئیں۔ مَیں نے مسجد میں اپنی کتاب کی فوٹوگرافی کی... کیا واقعی خلا میں ہم اکیلے ہیں؟... کیا یہ معجزہء زندگی صرف زمین پر ہوا ہے؟ نمی دانم۔
محسن بھائی نے ناشتہ لگوا دیا ہو گا، ہم یہ سوچ کر مسجد سے باہر نکلے اور ہوٹل کی جانب بڑھنے لگے۔ اس دوران ڈاکٹر عدیلہ سے گفتگو کا موقع ملا اور کافی حیرت ہوئی کہ نازک سی لگتی ڈاکٹر زبردست ٹریکر ہیں۔ مَیں جس جگہ کا نام لیتا تھا وہ وہاں جا چکی تھیں۔ اب محسن کی اگلی مہم میں رش لیک بھی سرانجام دیں گی۔ مزید یہ کہ وہ شاعر بھی تھیں۔ ویری امپریسِو۔ اُن کی شاعری سننے کا ابھی موقع نہ آیا تھا۔ ڈاکٹر اسما سے بھی کچھ غیرمرئی موضوعات پر بات ہوتی رہی، شاید آگے کہیں کچھ تفصیل پیش کروں گا۔
ناشتہ میں پراٹھوں اور چائے کے ساتھ شدید لذیذ چٹنی تھی جو مِس ثمینہ عمر نے خود بنائی تھی۔ جب انہوں نے مجھ سے بہت اپنائیت سے کہا کہ میری چٹنی کو کمراٹ رایٹ اَپ میں ضرور لکھنا۔ مجھے بہت خوشی ہوئی۔ احباب واقعی میری تحریروں کو سیریئس لیتے ہیں۔ البتہ ایک خوف بھی طاری ہوا کہ اچھا رایٹ اَپ لکھنا پڑے گا۔ تحریر لکھنے سے پہلے تحریر ایک پہاڑ لگتی ہے جس کی چوٹی کو مشکلوں سے فتح کیا جاتا ہے، تب اُس پر بھی الگ سے رایٹ اَپ بنتا ہے... یوں تحریر در تحریر وجود میں آتی ہے۔ پاکستان میں سب سے زیادہ بزی اور ذمہ داریوں سے اوورلوڈِڈ رائیٹرز صرف دو ہیں، مؤرخ اور راوی۔ باقی سب پرنس اوف ویلز ہیں۔
کوچ کیپٹن نوید نظر آئے۔ مَیں نے کہا سلام علیکم نوید بھائی.. انہوں نے کہا "میرا نام ندیم ہے۔" مَیں نے کہا، اب کچھ نہیں ہو سکتا نوید بھائی، دو رایٹ اَپس میں آپ کا نام نوید نقش ہو جائے گا انشاءاللہ۔ بہتر ہے نام بدل لیں۔
اسامہ بھائی نے تمام ممبرز کو ایک جگہ جمع کر کے ٹریک کے کوائف بتائے کہ پُل عبور کر کے بائیں جانب مڑ جانا ہے اور دریا کے ساتھ ساتھ جیپ ٹریک پر چلنا ہے۔ ڈیڑھ دو گھنٹوں کی ٹریکنگ یا ہائیکنگ کے بعد جنگل شروع ہو جائیں گے.. وہیں آپ کو کیمپس نظر آ جائیں گے۔ آج وہیں شَب بسری ہو گی۔ کیمپس میں پہنچ کر دیکھیں گے کہ آج مزید کیا کرنا ہے۔ گوگل میپس پر اُس جگہ کو فوریسٹ کیمپنگ لکھا ہوا ہے۔ لہذا وداؤٹ فردر ڈیلے، ہم سب نکل کھڑے ہوئے۔ ٹیم منتظمین نے جیپ کروائی اور تمام سامان لے کر آگے نکل گئے۔ سامان میں خیمے، کھانے پینے کی چیزیں اور ممبرز کے بیگس اور رک سیکس تھے.... اوہو، بہت سے رک سیک کہہ لیں۔ تقریباً 6 ہزار فٹ بلندی کے باوجود دن گرم اور نہایت کڑاکے دار تھا۔ تھل کی چاندنی شَب طلسم ہوشربا تھی، مگر دن کے وقت وہ طلسم ٹوٹ رہا تھا.. مگر ایک خاص خماری راجکماری تھی وہ جامع مسجد دارالسلام میں اک کائنات نما کے نظر آنے کے باعث تھی.... یہ کمراٹ کا پہلا رنگ تھا، اِک چاندنی رنگ کے بعد۔
پُل کے فوراً بعد بائیں جانب سڑک کافی بہتر ہو گئی۔ وہ کمراٹ روڈ تھی جس پر ہم گرم دن دیہاڑے پیدل چلنا شروع ہوئے۔ کچھ ممبرز پیچھے آ رہے تھے، کچھ آگے جا رہے تھے، مَیں اکیلے چلنا چاہتا تھا کیونکہ مجھے موسیقی آئی ہوئی تھی، مگر یہ گرمی دِیر بالا میں ذوق تہہ و بالا کر رہی تھی۔ آگے مس بخاری اور مس وردہ جا رہی تھیں، مَیں اُن کے ساتھ چلنے لگ گیا۔ بالکل سامنے سڑک پر برفپوش پربت حاوی ہو رہے تھے۔ اِس منظر میں بلند و بالا ڈاکٹر رامے بھی چلتے نظر آئے۔ وہ بھی ساتھ چلنے لگے۔ ایک درخت آیا جس کی شاخیں بہت اوپر تھیں اور اُس پر اخروٹ کے پھول لگے ہوئے تھے۔ پھول توڑنے کے لیے ایک سیڑھی درکار تھی مگر ڈاکٹر رامے نے ہاتھ بڑھا کر پھول توڑ لیا۔ واہ، بڑا اچھا لگا۔ ارتقائی نکتہ نظر سے ہر شے تک رسائی زندگی کی دوڑ میں سبقت لے جاتی ہے۔ ایک مسجد نظر آئی جس کا لکڑی سے بنا چوڑا بلند شدید نقش و نگار مینار اتنا دلکش تھا کہ نماز پڑھنے کو دل کیا.. یہ ذوق کی انتہا ہے.. ایسا کبھی کبھار ہی ہوتا ہے سترہ اٹھرہ سالوں میں۔ اس منظر اس ماحول میں مینار واقعی لیلیٰ نقش و نگار آنے لگی والا معاملہ تھا۔
سامنے ایک ہائی ایس کھڑی تھی اور مس وردہ اُس کے قریب سے آگے نکل گئیں۔ ہائی ایس کا نمبر 119 تھا۔ یہ میرا روحانی ڈائلنگ نمبر ہے اور میرا کائنات سے تعلق کا ذریعہ ہے، ابھی مزید مت پوچھیے۔ مَیں نے مس بخاری کے کان میں سرگوشی کی "کیا آپ کی سہیلی مس وردہ کو معلوم ہے کہ جامنی رنگ کے معاملے میں مَیں کتنا ظالم ہوں.. خود بھی جامنی آگ میں جلتا ہوں اور دوسرے کو بھی جلا کر راکھ کر دیتا ہُوں!!...... غالباً اُنہوں نے بھول پن میں جامنی رنگ پہن لیا ہے اور 119 نمبر والی ہائی ایس کے قریب سے گزر گئی ہیں.. اوپر سے اُن کا فل نیم بھی وردہ احسن ہے، شی ڈزنٹ ہیو دی فینٹیسٹ اوف آئیڈیا کہ گہرائی میں کیا خطرہ چل رہا ہے۔" مس بخاری نے قہقہ مارا مگر اُن کے تاثرات نظر نہ آ سکے، وہ فل نقاب میں عقاب تھیں۔ خیر، مس وردہ میری سسٹرز کی طرح ہیں، چھوٹی یا بڑی، جو بھی۔ ویسے بھی میری چھ سات ہزار سسٹرز ہیں.. مزید بھی ہوں گی جن کی نیت مجھ تک نہیں پہنچی.. مَیں کنی کھا کر اُن کا حملہ مِس کر دیتا ہوں۔ البتہ مسجد دارالسلام میں وہ کائناتی نقش مَیں وہیں محفوظ کر آیا ہوں اور باہر سے کنڈی لگا دی ہے۔ آگے بڑھتے رہے اور دھوپ میں شدت آتی رہی۔ کچھ ممبرز اپنی جیپیں یا پجاروز ہائر کر کے ہمیں بائے بائے کرتے ہوئے آگے چلے گئے۔ جبکہ ہم جیسے جہاں گرد پیدل چلنے میں ہی سکون پاتے ہیں.. زمین کے ساتھ فزیکل کونٹیکٹ ایک مراقبہ ہے۔ شاید اس راہ پہ کچھ اور بھی راہی آئیں دھوپ میں چلتا رہوں سائے بچھائے جاؤں شوریدہ اور پرجوش دریا کے کنارے بڑے پتھر پر لکھا تھا "مچھلی پکڑنا"... ہم نے انکار کر دیا۔ شاید نیچے بھی کچھ لکھا تھا جس پر دھیان نہیں گیا۔ وادی کھل رہی تھی۔ دائیں بائیں پہاڑوں کی بلندیوں پر پائن وڈ فوریسٹ تھا مگر صاف پتا چل رہا تھا کہ وہ کٹ کٹ کر ختم ہو رہا ہے۔ اہلِ دِیر بالا نے عمران خان کو گزارش کی تھی کہ ہمارے پاس لکڑی کے علاوہ آگ جلانے کا کوئی اور ذریعہ نہیں اس لیے گیس دو گے تو ہم درخت کاٹنا بند کر دیں گے۔ غالباً بلیئن ٹری پروگرام میں نئے درخت لگانا شامل ہے، پرانے بچانا نہیں۔ عمران بھائی ذرا کچھ اور کاموں میں بزی ہیں، اللہ نیک اولاد دے، آمین۔
آخرکار مَیں نے خود کو اکیلے کیا اور دنیائے موسیق میں کھو کر آگے بڑھ گیا.. مجھے کچھ سوچنا تھا، کچھ رونا تھا، اپنے سنگ کچھ وقت گزارنا تھا۔ وادی کھلتی جا رہی تھی اور ہر جانب برفپوش پہاڑ وسیع ہوتے جا رہے تھے۔ سیمنٹ کی سڑک ایک سبزہ زار کے اندر سیدھی ہو گئی۔ اُف، موسیقی، خوشبُو، اندرونی شبِ فراق، دریا کی آواز اور موسیقی کے دوران اس سیدھی ٹک سڑک پر چلنے کا کیا لطف آیا، بیان سے باہر ہے.... کمراٹ طاری ہو رہا تھا اور حُسنِ فطرت سوات کے مقابلے میں سبقت لے جا رہا تھا۔ پیچھے مس وردہ اکیلی آ رہی تھیں اور مس بخاری غائب تھیں۔ پتا چلا کہ وہ کسی جیپ میں لفٹ لے کر آگے جا چکی ہیں۔ اب ہم دونوں آگے بڑھ رہے تھے۔ کبھی کبھی کوئی جیپ قریب سے گزر جاتی تھی۔ کچھ ڈاکٹر خواتین و حضرات بہت پیچھے پیدل آ رہے تھے۔
ہم چلتے رہے.. کئی کلومیٹرز ہو چکے تھے۔ ایک چشمہ آیا جس کے میٹھے پانی نے روح میں تازگی پیدا کر دی۔ وہاں قریب چھاؤں میں ڈاکٹر فرحانہ کچھ خواتین کے ہمراہ بیٹھی تھیں۔ اس ٹیم میں خواتین کی تعداد کافی زیادہ تھی اس لیے میرا زیادہ تر واسطہ خواتین سے ہی پڑ رہا تھا۔ مَیں اور مس وردہ آگے بڑھے۔ ایک عمارت دیکھ کر بہت خوشی طاری ہوئی۔ یہ ریسورس سینٹر تھا اور شرینگل قصبہ میں موجود شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی کے فوریسٹری اور بائیولوجیکل سائنس ڈیپارٹمنٹ سے تعلق رکھتا تھا۔ یعنی یہی مقامی جنگلات اور وحشی حیات پر تحقیق کرنے والے طلباء و اساتذہ کی خانقاہ، جیسے بدھ مت کی خانقاہیں ہوتی ہیں۔ واہ۔ کچھ جنگل سا شروع ہوا۔ ایک جانب زمین پر ہیلی پیڈ کا ایچ نظر آ رہا تھا۔ قریب آرمی قسم کی عمارت تھی مگر خیمے نظر نہ آئے۔ یقیناً ہم نے ابھی چلتے رہنا تھا۔ دھوپ کسی طور کم نہ ہو رہی تھی۔ ہلکی بارش ہو تو یہی منظر کیسا لگے گا؟ مَیں کسی بھی جگہ پہنچ کر تصور میں اُس کے موسم بدلتا ہوں، یوں اُس جگہ کے متعلق زیادہ جانکاری حاصل ہوتی ہے۔ یہ تمام علاقہ ہلکی بارش میں کیسا لگتا ہو گا، کیا ہم ایسا ماحول پا سکیں گے۔ آگے آرمی بیریئر لگا تھا۔ اسے عبور کر کے ہم آگے بڑھ گئے۔ اب گاؤں کے آخری آثار بھی ختم ہو چکے تھے۔ کمراٹ خوبصورت ہوتا جا رہا تھا، بلکہ اب تو ہوتی جا رہی تھی۔ کمراٹ خود وجودِ زن میں بدل کر اپنی ہی تصویر میں رنگ بھرنا شروع ہو گئی تھی۔
جنگل پھیلتا جا رہا تھا۔ ایک جگہ بہت سے بکرے اور گدھے ایک ساتھ چر رہے تھے۔ غالباً اُنہیں کچھ خبر نہ تھی کہ نچلے میدانوں میں بھی اِن دونوں سے ایک سا سلوک ہو رہا ہے۔ اچانک......... دور سے جنگل کے نیم اندھیرے گہرے ہوئے اور کچھ کیمپس نظر آئے۔ کمراٹ اب مہوڈنڈ میں بدل رہی تھی۔ وہی جنگل، وہی پربت، وہی خوشبو، وہی دریا، وہی مَیں اور وہی تُم..... تیرے ہی رنگ اترتے چلے جائیں مجھ میں خود کو لکھوں تری تصویر بنائے جاؤں ہم جنگل کے اندھیروں میں داخل ہو گئے۔ زمین پر زرد گیسو نما پائن فائبرز پر پائن کونز گری پڑی تھیں جن میں موجود بروزہ رطوبت ایسی مہک جاری کرتی ہے کہ... مہک جاری ہو جاتی ہے۔ ہم نے کچھ چشمے عبور کیے۔ آگے ولید بھائی کیمرہ پکرے کھرے تھے اور ویڈیوز بنا رہے تھے۔ اُن کے قریب تین ٹانگوں والا جانور بھی تھا.. مطلب ٹرائی پوڈ تھا۔ مس اسما بتا رہی تھیں کہ وہ اور مس مناہل کسی مقامی کے اوپن ایر رکشے میں سوار ہو گئیں۔ رکشے میں مرغیاں بھی تھیں۔ رکشے والا تمام خواتین کو جانے کہاں لے گیا۔ بڑی مشکل سے اُسے کیمپنگ کا سمجھایا تب اُس نے دو خواتین کو یہاں ڈراپ کیا۔ اتنی دیر میں وہی رکشے والا اوپن ایر رکشہ دوڑاتا ہوا قریب سے گزر گیا۔ ولید بھائی نے میرا انٹرویو ریکارڈ کیا حالانکہ میری زبان میرا ساتھ نہیں دیتی، مَیں صرف جلوہء طور کے دوران آگ سے بات چیت کر سکتا ہوں۔ مَیں نے بس یہی کہا کہ یہاں آؤ اور گوتم بدھ بن جاؤ۔ پہلے خیمے جو آئے وہ ہمارے نہ تھے، بلکہ ایک مردانہ ٹیم کے تھے جو ہماری خواتین کو دیکھ دیکھ باذوق ہو رہے تھے۔ اُن کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ کمراٹ میں اُنہیں صنفِ نازک نظر آ جائے گی۔ ویسے مَیں اُنہیں کہنا چاہتا تھا کہ اپنی لے کر آیا کرو۔
آخرکار ایک کیمپنگ سائیٹ آ گئی۔ وہاں لکڑ ہوٹل پر لکھا تھا "کمراٹ شنگریلا ہلز ہوٹل اینڈ ریسٹورینٹ"۔ عین مہوڈنڈ کا ماحول۔ ہوٹل کے قریب محسن اور خرم بسرا برسرِ پیکار نظر آ رہے تھے۔ ہوٹل سے کچھ فاصلے پر ہمارے ایک دو خیمے لگے نظر آ رہے تھے۔ تب.... خیبر پختونخواہ میں، دِیر بالا کی وادئ کمراٹ کے دل میں، گھنے جنگل کے سائے میں، مَیں نے روحِ کارواں سرائے، کالی گھٹا، موسم بالرضا، فوڈگرو محسن رضا کو زبردستی اپنی جانب گھمایا اور ایک گال پر پپی کر دی..... اِس بوسے کا اثر ابھی تک میرے ہونٹوں پر ہے.. اگرچہ ہونٹ سیاہ ہو گئے ہیں مگر نصف شَب میں جگنو کی مانند لو دیتے ہیں۔ واہ۔ اِس ماحول میں لانے کا شکریہ۔
ہم دن دیہاڑے اِیدھر پہنچ گئے تھے مگر یہاں ماحول ایسا تھا کہ اب کہیں اور جانے کو دل نہیں کر رہا تھا.. بس پڑا رہوں تصورِ جاناں کیے ہوئے.. جنگلوں کے اندر راستہ بنا کر بہنے والے دریائے پنجکوڑہ کے کنارے۔ بالکل ایسا ہی کیا۔ یہ سارا علاقہ اور ماحول مہوڈنڈ سے کہیں زیادہ خوبصورت تھا اور خوشی اِس بات کی تھی کہ اب کئی دن اِیدھر ہی ہیں، کہیں نہیں جانا۔ بہت سے ممبرز دریا کے کم گہرے کنارے پر نہا گا رہے تھے۔ ڈاکٹر رامے پھسلتے پھسلتے بچے۔ خواتین دریا میں بڑے درخت کے شہتیر پر بیٹھ کر تصاویر تصاویر کھیلنے لگ گئیں۔ اور مجھے لمبی فراغت تھی.. مَیں نے بہت دیر مناظر کو دل میں اتارا اور اپنی کتاب کھول لی "خلا میں زندگی کے آثار"...... کیا واقعی، ہمارے علاوہ کوئی نہیں؟ ••• آج چودھویں کی رات ہے شب بھر رہے گا چرچا ترا کچھ کہیں گے یہ چاند ہے کچھ کہیں گے چہرا ترا ہم بھی وہیں موجود ہوں گے ہم سے بھی سب پوچھیں گے ہم ہنس دیں گے، ہم چپ رہیں گے منظور ہو گا پردہ ترا شام کے بعد، اِن جنگلوں پربتوں دریاؤں میں، پنجکوڑہ کنارے، ایک جانب سے روشن دِن طلوع ہوا، بلیک اینڈ وائٹ دن... پتہ پتہ بوٹا بوٹا، لہر لہر، ہر شے روشن تھی.. کیا ہم کلر بلائنڈ ہیں؟ نہیں۔ آسمان پر ایک سے زیادہ چاند تھے۔ چاند کے قریب ایک تارا چمک رہا تھا۔ وہ عالمِ بحروبر پر طاری شدید چاندنی کے باوجود نہایت دلجمعی سے روشن تھا۔ یقیناً وہ تارا نہ تھا، جوپیٹر سیارہ تھا، نظامِ شمسی کا سب سے بڑا سیارہ۔ مَیں نے دوربین میں اُس کے تین چاند دیکھے، ایک شاید سیارہ کے پیچھے چھپا ہوا تھا۔ کچھ گھنٹوں بعد دیکھتے تو چوتھا بھی نظر آ جاتا۔ جوپیٹر کے چھوٹے چھوٹے 62 چاند مزید بھی ہیں مگر وہ نارمل ٹیلیسکوپ سے نظر نہیں آتے۔ الغرض اِس وقت آسمان پر ہمارا منکوحہ چاند ملا کر پورے چار چاند موجود تھے، اور چار تو جائز ہیں۔ اسی دوران مَیں نے محسن سے پوچھا، یار کیا اس شبِ ماہتاب کو خاص طور پلان کیا تھا؟ اُس نے کہا، نہیں یہ سب قدرت کا انعام ہے، اچھی نیت سے جو بھی کام کیا جائے اُس کی جزا ضرور ملتی ہے۔ چاندی گھلے پانی کے قریب فوڈگرو چکن فِلے بار-بی-کیو کر رہا تھا اور سرخ کوئلے دہک رہے تھے.. قریب بون فائر زرد سرخ جل رہا تھا... ہر کوئی گا رہا تھا.. مجھ سے بھی کہا گیا کہ گانا گاؤں، مَیں نے کہا کہ ٹھیک ہے لیں... مَیں نے ایک لمبی سی خاموشی کے بعد کہا "یہ انسٹرومینٹل سونگ" تھا، کسی کی تسلی نہ ہوئی۔ تمام چہرے مقدس آگ کی لو سے دہک رہے تھے..... کیا بتاؤں، منظور ہے پردہ ترا۔ ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں مُسافرِ آخرِ شَب ہمارے بعد اندھیرا نہیں، شدید اندھیرا ہے
تب رفتہ رفتہ کائناتی توجہ سمٹ کر اِک نکتہ پر مرکوز ہونا شروع ہوئی۔ یاد آیا، یہ تھل ہے.. کونسا تھل، صحرائے تھل؟.. نہیں، کمراٹ کا تھل۔ گزشتہ شَب بہت روشن دِن تھا، آج ٹریکنگ ڈے ہے، انجان رستے جانے کیسے ہوں گے۔ آج بیسیکلی کرنا کیا ہے؟.. نمی دانم، سوئے پڑم، می رقصم۔ ارے، ماضی کے پردوں میں سے ایک قدیم موسیقی جھانک رہی ہے.. چل آ جا..... مَیں تیری محبت میں پاگل ہو جاؤں گا، مجھے ایسا لگتا ہے، تجھے کیسا لگتا ہے.. تری دیو، سنی دیول، شدید دلکش مادھوری ڈک شِٹ، استغفار، یہ کیسا نام ہوا۔ مَیں تیری نگاہوں سے گھائل ہو جاؤں گی، مجھے ایسا لگتا ہے، تجھے کیسا لگتا ہے۔
سلیپنگ بیگ کے اندر اِک کائنات کی مہک تھی، تھی تو میری اپنی مگر مَیں نے اُس کے نام کر دی ہوئی ہے، جامنی رنگ کی طرح.. اب تو میری قبر میں سے بھی یہی خوشبو آئے گی، اتنا تو معلوم ہے۔ کچھ دن سے مَیں ٹوٹا ٹوٹا رہتا ہوں، اپنے دل سے روٹھا روٹھا رہتا ہوں، کچھ دن سے مَیں کھوئی کھوئی رہتی ہوں، جاگوں بھی تو سوئی سوئی رہتی ہوں.. واہ، آج کا دن اِس موسیقی کے نام ہوا۔ کیا واقعی کوئی اتنا بے وقوف ہو سکتا ہے کہ تجھ جیسے باذوق دوست کو چھوڑ دے.. کیا چھوڑ دینا اتنا آسان ہوتا ہے؟.... میری آنکھیں بھیگ رہی ہیں۔ مَیں نے آنکھیں پونچھ کر سامنے سے سلیپنگ بیگ ذرا سا سرکایا، سلیپنگ بیگ کے پار عین پاؤں کی جانب کھلا ہوا دروازہ تھا۔ ماحول میں دیودار لکڑی کی خوشبو اب تیری خوشبو میں شامل ہو رہی تھی۔ دروازے کے پار سامنے بلندیوں پر جہاز بانڈہ والے سفید پربت نظر آ رہے تھے.. مَیں بدستور پڑا رہا، اُنہیں گھورتا رہا۔ اچانک دروازے کے سامنے سے جامنی رنگ کی کوئی شے گزر گئی۔ مَیں ہڑبڑا گیا۔ اُٹھ کر رفتہ رفتہ باہر آیا اور دیکھا کہ ایسی کوئی شے نہ تھی۔ شاید میرا وہم تھا.. اور وہم سے بھی عشق ہو جایا کرتا ہے۔ مَت پُوچھ کہ کیا حال ہے میرا ترے پیچھے تُو دیکھ کہ کیا رنگ ہے تیرا مرے آگے اب باہر آ ہی چکا تھا تو مَیں نے تھل کا علاقہ غور سے دیکھنا شروع کیا۔ تین جانب زرخیز پہاڑوں کے پیچھے سفید سفید بلند پربت جھانک رہے تھے۔ یہ تو کچھ کچھ کالام کا ماحول ہے اگرچہ کالام کا افلاکی ماحول کہیں اور موجود نہیں، فلک سیر ہر جگہ ممکن نہیں۔
مَیں کمبائنڈ باتھ روم سے جتنا فائدہ اٹھا سکتا تھا، اُس سے آدھا فائدہ اُٹھا کر کمرے میں واپس آیا۔ پانی بہت سرد تھا، باقی اچھی نیت سے کام چلایا۔ صرف دو لوگ سوتے نظر آئے۔ رضائیاں اُن پر یوں مُودی پڑی ہوئی تھیں کہ وہ برزخ میں زندہ لگ رہے تھے.. میرا فاتحہ پڑھ کر اِن کے وسیلے سے کچھ مانگنے کو دل کیا، آخر بریلوی ہوں، نہ مرتا ہوں، نہ مرنے دیتا ہوں، بااختیار کر دیتا ہوں۔ بلھیا اساں مرنا ناہیں، گور پیا کوئی ہور۔
بہرحال سامان پیک کر کے نیچے اترا۔ اپنے تئیں مَیں سمجھا تھا کہ دیر تک سو کر بڑی عیاشی کی ہے، مگر میرے علاوہ ابھی چند ممبرز ہی جاگے تھے جو نیم خوابی میں اِیدھر اُودھر مٹک رہے تھے، شاید بات روم کے فارغ ہونے کے انتظار میں تھے مگر اندر کوئی بہت ہی زیادہ باتونی شخص بیٹھا تھا.. سارا قصور فوڈگرو کا ہے۔ ریسٹورینٹ میں ایک کپ چائے کا آرڈر دیا تاکہ آج کی ڈبی شروع کی جا سکے۔ شربت سے بھی شیریں چائے پی کر مَیں تھل بازار کی جانب نکل گیا۔ گزشتہ کل محسن رضا سے سنا تھا کہ یہاں کوئی قدیم مسجد ہے، اُسے ہی دیکھ آتا ہوں۔
کہیں قریب پانی بہنے کی آواز آ رہی تھی۔ سڑک پر چلتے ہوئے مَیں نے دیکھا کہ رایٹ جانب لکڑی کے بڑے بڑے اور لمبوترے فریمز کے اندر نہریں جاری تھیں۔ یہ ایک عجیب منظر تھا۔ دریا سے لے کر گاؤں کے کھیتوں تک لکڑی کی بڑی بڑی راہداریوں میں پانی پہنچایا جا رہا تھا.. اور پانی شدید چمک رہا تھا۔ سامنے پہاڑ پر سفید رنگ کا "اللہ" لکھا نظر آ رہا تھا جیسے تریشنگ میں نانگاپربت کی ڈھلوانوں میں "یاعلی" لکھا ہوا ہے، ہنزہ میں "حاضر امام" لکھا ہوتا ہے۔ تھل بازار کی کچی سڑک کے اردگرد تقریباً ہر قسم کی دوکان موجود تھی۔ یعنی ٹریکنگ کا سامان، جوتوں اور کھانے پینے کی دوکانیں، کافی مناسب بازار تھا اگرچہ لوگوں کے چہروں سے سادگی اور کچھ کچھ غربت جھلک رہی تھی۔ یہاں ابھی سیاحت کی عفریت نے مکمل طور پر پنجے نہیں گاڑے جو خوشحالی لاتی ہے اور مقامی روایات کا گلا بھی گھونٹ دیتی ہے تب دہائیوں بعد وہ عفریت بے چاری بائیکاٹ بائیکاٹ کی صدائیں بلند کرتی ہے۔ عفریت کا مطلب بلا ہوتا ہے، جن بھوت چڑیل.. ان سے ڈرنے کی بجائے انہیں کام پر لگایا کریں، انرجی بچائیں۔ آگے بڑھا۔ دائیں جانب دریائے پنجکوڑہ ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ وہاں سڑک کے کنارے ایک شدید پریشان حال بوڑھا نظر آیا، پس منظر میں برفپوش پربت تھے۔ اُسے دیکھ کر مستنصر حسین تارڑ کی کتاب "ہنزہ داستان" سے کچھ یاد آیا۔ بہت عرصہ پہلے جب التت ہنزہ کافی پسماندہ ہوتا تھا۔ تارڑ صاحب نے وہاں اسی قسم کے ایک پریشاں حال بوڑھے کو بیٹھے دیکھا اور اپنی نوٹ بک میں لکھا "یہ بوڑھا خوش قسمت ہے کہ التت جیسے خوبصورت گاؤں میں پریشان بیٹھا ہے اور اس کے گرد خوبصورت مناظر مسکرا رہے ہیں، یہ بوڑھا گوالمنڈی لاہور میں بیٹھ کر بھی تو پریشان ہو سکتا تھا۔" بائیں جانب ایک قبرستان تھا۔ ہر قبر پر لکڑی کا ایک فریم تھا جس پر نقش نگاری کی ہوئی تھی۔ ایسے قبرستان کالام میں بھی نظر آتے ہیں۔ بالکل ساتھ قدیم تاریخی مسجد تھی جس کے لیے مَیں آیا تھا اور اُس کے فوراً بعد ایک پُل تھا جس پر چل کر دریا عبور کیا جا سکتا تھا، غالباً پُل کا یہی کام ہوتا ہے۔ مسجد میں داخل ہونے سے پہلے مَیں پُل کے وسط میں چلا گیا، عین دریا کے درمیان۔ مجھے کچھ کام تھا۔ دریا جس جانب سے آ رہا تھا وہ وادئ کمراٹ کا بھیتر اندرون تھا.. آج کسی وقت ہم نے اِیدھر ہی داخل ہونا تھا۔ اُسی جانب وہ برفپوش پربت نظر آ رہے تھے جن کے پار چترال تھا.. وادئ کالاش تھی جہاں کے لوگوں کے جِینز میں یوروپیئن ہومو نینڈرٹلینسِز کی مقدار ہم سے کہیں زیادہ ہے۔ کمراٹ زیادہ بڑی وادی نہ تھی۔ مَیں نے دن کا پہلا سگریٹ سلگایا، جیب سے ایرفونز نکالے اور موسیقی سننے لگا۔ جی چاہے تیری آنکھوں میں کھو جاؤں آج ابھی اس وقت میں تیری ہو جاؤں کب تک آخر ہم ملنے کو ترسیں گے کب ساون آئے تو بادل برسیں گے مَیں تیری نگاہوں سے گھائل ہو جاؤں گا مجھے ایسا لگتا ہے، تجھے کیسا لگتا ہے میرا خیال ہے کہ مَیں نے کوئی دس پندرہ بار یہ گانا سُنا.. ایک دریا کے اوپر خیالات کا دریا بھی بہتا رہا.. وقت کا پتا ہی نہ چلا۔ کبھی آپ نے پورا پورا دن ایک ہی گانا سُنا ہے؟... جب موسیقی کو حرام کہنے والے عمر بھر خاموشی سُن سکتے ہیں تو کبھی آپ بھی ایک گانا پورا دن سُنیے گا.... دونوں کیفیات عالمِ بالا کی سیر کراتی ہیں، خاموشی کائنات کی موسیقی ہے۔ دیودار لکڑی سے بنی مسجد میں داخل ہو کر اوپر نظر پڑی جہاں ایک بورڈ تھا۔ اُس پر لکھا تھا "جامع مسجد دارالسلام، تھل کوہستان ضلع دیر بالا، افتتاح 1953، توسیع 1999۔" صحن میں ایک تخت پوش تھا جس پر کچھ مقامی بابے بیٹھے سی-سی-ٹی-وی کی مانند متجسس ہو کر اِیدھر اُودھر دیکھ رہے تھے۔ اچھے لگ رہے تھے۔
سامنے نِیم اوپن ایر برآمدہ نما مسجد تھی۔ ممبر و محراب سامنے ہی نظر آ رہے تھے۔ تمام ستون منقش لکڑی کے تھے، بہت رنگین مسجد تھی۔ ولید بھائی اپنی فوٹوگرافی یا ویڈیوگرافی میں بزی تھے۔ مَیں آگے بڑھا۔ ہر جانب کنول کے پھول نقش تھے جو ہوتے تو جامنی ہیں مگر لکڑی پر نقش ہونے کے باعث لکڑ رنگ تھے، یہ بھی بہت ہے۔ برآمدہ سے پار دیوار پر دو دروازے نظر آ رہے تھے۔ یعنی مسجد کا اصل ہال اندر تھا۔ کافی وسیع عریض مسجد تھی۔ جیسے ہی دروازہ کھول کر اندر دیکھا، نیم اندھیرے کے باوجود شدید رنگین اور مزید نقش نگاری نظر آئی، کم از کم پانچ پانچ فُٹ چوڑے پرہیبت ستون تھے، جیسے مَیں مصری فرعون توتن خامن کے مقبرے میں آ گیا ہوں اور 3 ہزار برس بعد پراسرار سکوت توڑا ہے.... اندر بھی ممبر و محراب تھے، سرد موسموں کے لیے... اور محراب کے قریب جامنی لباس میں اِک کائنات نما اُدھر رخ کیے حالتِ نماز میں ساکت بیٹھی ہوئی تھی، جیسے ہزاروں برسوں سے محوِ انتظار ہو۔ اِیدھر مجھ پر جذب طاری ہو گیا۔ چہرائے یُوسفِ مِصر ہے روشن کائنات میری میری بیداریوں کو خوابِ زلیخا نہ بنا، پلیز چند لمحات گزرے، مس بخاری کسی ستون کے پیچھے سے برآمد ہوئیں اور مس وردہ سے گفتگو کرنے لگیں.. جانے مس وردہ تھیں کیدھر۔ مَیں واپس برآمدہ میں آیا اور حقیقتِ کرامت پر غور کرنے لگا۔ ایک بابا جی کسی کو بتا رہے تھے کہ یہ مسجد 400 برس پرانی ہے۔ 1953 سے پہلے بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود رہی ہے۔ پورے تھل کے لوگ یہاں جمعہ پڑھنے آتے ہیں۔ اس مسجد کی چھت کے شہتیر 30 فٹ لمبے ہیں۔ مَیں نے شہتیروں کو غور سے دیکھا، وہ واقعی بہت دلکش اور بارعب تھے۔ وہاں لکڑی کی ایک لالٹین لٹک رہی تھی اور دعوتِ فکر دے رہی تھی کہ دیکھیے عین لکڑی کے اندر آگ جلتی ہے۔ مزید پتا چلا کہ 1999 میں دوسری منزل بنائی گئی۔
اس دوران مس بخاری اور مس وردہ ہال میں سے باہر نکلیں اور مسجد کی دوسری منزل پر چلی گئیں۔ سیمنٹ کی سیڑھیاں صحن میں موجود تھیں۔ مَیں بھی اوپر چلا گیا۔ اوپر سیمنٹ کا لینٹر تھا اور شدید وسیع ہال زیرِ تعمیر تھا، یعنی نامکمل تھا۔ دریا کی جانب محرابوں میں پوسٹ کارڈ ویو مناظر تھے۔ جدید تعمیر میں مقامیوں نے لکڑی کی بجائے سیمنٹ استعمال کر دیا تھا، یوں بدقسمتی سے مسجد مسخ ہو چکی تھی۔ نچلی منزل پر ایک پوری دیوار نئی لکڑی سے بنائی گئی ہے، کاش وہ ذرا سیاہ رنگ اُس پر لگا دیتے تو وہ لکڑی قدیم ہو جاتی۔ کاش وہ قدامت کا ذوق رکھتے اور پوری تعمیر میں دیودار لکڑی ہی استعمال کرتے۔ اس سلسلے میں آغا خان ڈویلوپمنٹ نیٹ ورک سے مدد لی جا سکتی تھی جن کی سپیشلٹی ہی کھنڈرات کو ریسٹور کرنا ہے۔ مگر اُن کا مذہب اسماعیلی ہے، قائدِاعظم والا.. اور تھل کے لوگ غالباً اہلسنت ہیں۔
مَیں نیچے صحن میں آ کر مسجد سے باہر نکلنے لگا مگر رک گیا۔ کچھ اور ٹیم ممبرز بھی آ رہے تھے۔ ڈاکٹر خواتین تھیں۔ انہوں نے بھی اسی طرح مسجد کی انسپیکشن کی۔ وہ بھی ہال میں گئیں اور اُن میں سے کچھ محوِ خلا ہوئیں۔ مَیں نے مسجد میں اپنی کتاب کی فوٹوگرافی کی... کیا واقعی خلا میں ہم اکیلے ہیں؟... کیا یہ معجزہء زندگی صرف زمین پر ہوا ہے؟ نمی دانم۔
محسن بھائی نے ناشتہ لگوا دیا ہو گا، ہم یہ سوچ کر مسجد سے باہر نکلے اور ہوٹل کی جانب بڑھنے لگے۔ اس دوران ڈاکٹر عدیلہ سے گفتگو کا موقع ملا اور کافی حیرت ہوئی کہ نازک سی لگتی ڈاکٹر زبردست ٹریکر ہیں۔ مَیں جس جگہ کا نام لیتا تھا وہ وہاں جا چکی تھیں۔ اب محسن کی اگلی مہم میں رش لیک بھی سرانجام دیں گی۔ مزید یہ کہ وہ شاعر بھی تھیں۔ ویری امپریسِو۔ اُن کی شاعری سننے کا ابھی موقع نہ آیا تھا۔ ڈاکٹر اسما سے بھی کچھ غیرمرئی موضوعات پر بات ہوتی رہی، شاید آگے کہیں کچھ تفصیل پیش کروں گا۔
ناشتہ میں پراٹھوں اور چائے کے ساتھ شدید لذیذ چٹنی تھی جو مِس ثمینہ عمر نے خود بنائی تھی۔ جب انہوں نے مجھ سے بہت اپنائیت سے کہا کہ میری چٹنی کو کمراٹ رایٹ اَپ میں ضرور لکھنا۔ مجھے بہت خوشی ہوئی۔ احباب واقعی میری تحریروں کو سیریئس لیتے ہیں۔ البتہ ایک خوف بھی طاری ہوا کہ اچھا رایٹ اَپ لکھنا پڑے گا۔ تحریر لکھنے سے پہلے تحریر ایک پہاڑ لگتی ہے جس کی چوٹی کو مشکلوں سے فتح کیا جاتا ہے، تب اُس پر بھی الگ سے رایٹ اَپ بنتا ہے... یوں تحریر در تحریر وجود میں آتی ہے۔ پاکستان میں سب سے زیادہ بزی اور ذمہ داریوں سے اوورلوڈِڈ رائیٹرز صرف دو ہیں، مؤرخ اور راوی۔ باقی سب پرنس اوف ویلز ہیں۔
کوچ کیپٹن نوید نظر آئے۔ مَیں نے کہا سلام علیکم نوید بھائی.. انہوں نے کہا "میرا نام ندیم ہے۔" مَیں نے کہا، اب کچھ نہیں ہو سکتا نوید بھائی، دو رایٹ اَپس میں آپ کا نام نوید نقش ہو جائے گا انشاءاللہ۔ بہتر ہے نام بدل لیں۔
اسامہ بھائی نے تمام ممبرز کو ایک جگہ جمع کر کے ٹریک کے کوائف بتائے کہ پُل عبور کر کے بائیں جانب مڑ جانا ہے اور دریا کے ساتھ ساتھ جیپ ٹریک پر چلنا ہے۔ ڈیڑھ دو گھنٹوں کی ٹریکنگ یا ہائیکنگ کے بعد جنگل شروع ہو جائیں گے.. وہیں آپ کو کیمپس نظر آ جائیں گے۔ آج وہیں شَب بسری ہو گی۔ کیمپس میں پہنچ کر دیکھیں گے کہ آج مزید کیا کرنا ہے۔ گوگل میپس پر اُس جگہ کو فوریسٹ کیمپنگ لکھا ہوا ہے۔ لہذا وداؤٹ فردر ڈیلے، ہم سب نکل کھڑے ہوئے۔ ٹیم منتظمین نے جیپ کروائی اور تمام سامان لے کر آگے نکل گئے۔ سامان میں خیمے، کھانے پینے کی چیزیں اور ممبرز کے بیگس اور رک سیکس تھے.... اوہو، بہت سے رک سیک کہہ لیں۔ تقریباً 6 ہزار فٹ بلندی کے باوجود دن گرم اور نہایت کڑاکے دار تھا۔ تھل کی چاندنی شَب طلسم ہوشربا تھی، مگر دن کے وقت وہ طلسم ٹوٹ رہا تھا.. مگر ایک خاص خماری راجکماری تھی وہ جامع مسجد دارالسلام میں اک کائنات نما کے نظر آنے کے باعث تھی.... یہ کمراٹ کا پہلا رنگ تھا، اِک چاندنی رنگ کے بعد۔
پُل کے فوراً بعد بائیں جانب سڑک کافی بہتر ہو گئی۔ وہ کمراٹ روڈ تھی جس پر ہم گرم دن دیہاڑے پیدل چلنا شروع ہوئے۔ کچھ ممبرز پیچھے آ رہے تھے، کچھ آگے جا رہے تھے، مَیں اکیلے چلنا چاہتا تھا کیونکہ مجھے موسیقی آئی ہوئی تھی، مگر یہ گرمی دِیر بالا میں ذوق تہہ و بالا کر رہی تھی۔ آگے مس بخاری اور مس وردہ جا رہی تھیں، مَیں اُن کے ساتھ چلنے لگ گیا۔ بالکل سامنے سڑک پر برفپوش پربت حاوی ہو رہے تھے۔ اِس منظر میں بلند و بالا ڈاکٹر رامے بھی چلتے نظر آئے۔ وہ بھی ساتھ چلنے لگے۔ ایک درخت آیا جس کی شاخیں بہت اوپر تھیں اور اُس پر اخروٹ کے پھول لگے ہوئے تھے۔ پھول توڑنے کے لیے ایک سیڑھی درکار تھی مگر ڈاکٹر رامے نے ہاتھ بڑھا کر پھول توڑ لیا۔ واہ، بڑا اچھا لگا۔ ارتقائی نکتہ نظر سے ہر شے تک رسائی زندگی کی دوڑ میں سبقت لے جاتی ہے۔ ایک مسجد نظر آئی جس کا لکڑی سے بنا چوڑا بلند شدید نقش و نگار مینار اتنا دلکش تھا کہ نماز پڑھنے کو دل کیا.. یہ ذوق کی انتہا ہے.. ایسا کبھی کبھار ہی ہوتا ہے سترہ اٹھرہ سالوں میں۔ اس منظر اس ماحول میں مینار واقعی لیلیٰ نقش و نگار آنے لگی والا معاملہ تھا۔
سامنے ایک ہائی ایس کھڑی تھی اور مس وردہ اُس کے قریب سے آگے نکل گئیں۔ ہائی ایس کا نمبر 119 تھا۔ یہ میرا روحانی ڈائلنگ نمبر ہے اور میرا کائنات سے تعلق کا ذریعہ ہے، ابھی مزید مت پوچھیے۔ مَیں نے مس بخاری کے کان میں سرگوشی کی "کیا آپ کی سہیلی مس وردہ کو معلوم ہے کہ جامنی رنگ کے معاملے میں مَیں کتنا ظالم ہوں.. خود بھی جامنی آگ میں جلتا ہوں اور دوسرے کو بھی جلا کر راکھ کر دیتا ہُوں!!...... غالباً اُنہوں نے بھول پن میں جامنی رنگ پہن لیا ہے اور 119 نمبر والی ہائی ایس کے قریب سے گزر گئی ہیں.. اوپر سے اُن کا فل نیم بھی وردہ احسن ہے، شی ڈزنٹ ہیو دی فینٹیسٹ اوف آئیڈیا کہ گہرائی میں کیا خطرہ چل رہا ہے۔" مس بخاری نے قہقہ مارا مگر اُن کے تاثرات نظر نہ آ سکے، وہ فل نقاب میں عقاب تھیں۔ خیر، مس وردہ میری سسٹرز کی طرح ہیں، چھوٹی یا بڑی، جو بھی۔ ویسے بھی میری چھ سات ہزار سسٹرز ہیں.. مزید بھی ہوں گی جن کی نیت مجھ تک نہیں پہنچی.. مَیں کنی کھا کر اُن کا حملہ مِس کر دیتا ہوں۔ البتہ مسجد دارالسلام میں وہ کائناتی نقش مَیں وہیں محفوظ کر آیا ہوں اور باہر سے کنڈی لگا دی ہے۔ آگے بڑھتے رہے اور دھوپ میں شدت آتی رہی۔ کچھ ممبرز اپنی جیپیں یا پجاروز ہائر کر کے ہمیں بائے بائے کرتے ہوئے آگے چلے گئے۔ جبکہ ہم جیسے جہاں گرد پیدل چلنے میں ہی سکون پاتے ہیں.. زمین کے ساتھ فزیکل کونٹیکٹ ایک مراقبہ ہے۔ شاید اس راہ پہ کچھ اور بھی راہی آئیں دھوپ میں چلتا رہوں سائے بچھائے جاؤں شوریدہ اور پرجوش دریا کے کنارے بڑے پتھر پر لکھا تھا "مچھلی پکڑنا"... ہم نے انکار کر دیا۔ شاید نیچے بھی کچھ لکھا تھا جس پر دھیان نہیں گیا۔ وادی کھل رہی تھی۔ دائیں بائیں پہاڑوں کی بلندیوں پر پائن وڈ فوریسٹ تھا مگر صاف پتا چل رہا تھا کہ وہ کٹ کٹ کر ختم ہو رہا ہے۔ اہلِ دِیر بالا نے عمران خان کو گزارش کی تھی کہ ہمارے پاس لکڑی کے علاوہ آگ جلانے کا کوئی اور ذریعہ نہیں اس لیے گیس دو گے تو ہم درخت کاٹنا بند کر دیں گے۔ غالباً بلیئن ٹری پروگرام میں نئے درخت لگانا شامل ہے، پرانے بچانا نہیں۔ عمران بھائی ذرا کچھ اور کاموں میں بزی ہیں، اللہ نیک اولاد دے، آمین۔
آخرکار مَیں نے خود کو اکیلے کیا اور دنیائے موسیق میں کھو کر آگے بڑھ گیا.. مجھے کچھ سوچنا تھا، کچھ رونا تھا، اپنے سنگ کچھ وقت گزارنا تھا۔ وادی کھلتی جا رہی تھی اور ہر جانب برفپوش پہاڑ وسیع ہوتے جا رہے تھے۔ سیمنٹ کی سڑک ایک سبزہ زار کے اندر سیدھی ہو گئی۔ اُف، موسیقی، خوشبُو، اندرونی شبِ فراق، دریا کی آواز اور موسیقی کے دوران اس سیدھی ٹک سڑک پر چلنے کا کیا لطف آیا، بیان سے باہر ہے.... کمراٹ طاری ہو رہا تھا اور حُسنِ فطرت سوات کے مقابلے میں سبقت لے جا رہا تھا۔ پیچھے مس وردہ اکیلی آ رہی تھیں اور مس بخاری غائب تھیں۔ پتا چلا کہ وہ کسی جیپ میں لفٹ لے کر آگے جا چکی ہیں۔ اب ہم دونوں آگے بڑھ رہے تھے۔ کبھی کبھی کوئی جیپ قریب سے گزر جاتی تھی۔ کچھ ڈاکٹر خواتین و حضرات بہت پیچھے پیدل آ رہے تھے۔
ہم چلتے رہے.. کئی کلومیٹرز ہو چکے تھے۔ ایک چشمہ آیا جس کے میٹھے پانی نے روح میں تازگی پیدا کر دی۔ وہاں قریب چھاؤں میں ڈاکٹر فرحانہ کچھ خواتین کے ہمراہ بیٹھی تھیں۔ اس ٹیم میں خواتین کی تعداد کافی زیادہ تھی اس لیے میرا زیادہ تر واسطہ خواتین سے ہی پڑ رہا تھا۔ مَیں اور مس وردہ آگے بڑھے۔ ایک عمارت دیکھ کر بہت خوشی طاری ہوئی۔ یہ ریسورس سینٹر تھا اور شرینگل قصبہ میں موجود شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی کے فوریسٹری اور بائیولوجیکل سائنس ڈیپارٹمنٹ سے تعلق رکھتا تھا۔ یعنی یہی مقامی جنگلات اور وحشی حیات پر تحقیق کرنے والے طلباء و اساتذہ کی خانقاہ، جیسے بدھ مت کی خانقاہیں ہوتی ہیں۔ واہ۔ کچھ جنگل سا شروع ہوا۔ ایک جانب زمین پر ہیلی پیڈ کا ایچ نظر آ رہا تھا۔ قریب آرمی قسم کی عمارت تھی مگر خیمے نظر نہ آئے۔ یقیناً ہم نے ابھی چلتے رہنا تھا۔ دھوپ کسی طور کم نہ ہو رہی تھی۔ ہلکی بارش ہو تو یہی منظر کیسا لگے گا؟ مَیں کسی بھی جگہ پہنچ کر تصور میں اُس کے موسم بدلتا ہوں، یوں اُس جگہ کے متعلق زیادہ جانکاری حاصل ہوتی ہے۔ یہ تمام علاقہ ہلکی بارش میں کیسا لگتا ہو گا، کیا ہم ایسا ماحول پا سکیں گے۔ آگے آرمی بیریئر لگا تھا۔ اسے عبور کر کے ہم آگے بڑھ گئے۔ اب گاؤں کے آخری آثار بھی ختم ہو چکے تھے۔ کمراٹ خوبصورت ہوتا جا رہا تھا، بلکہ اب تو ہوتی جا رہی تھی۔ کمراٹ خود وجودِ زن میں بدل کر اپنی ہی تصویر میں رنگ بھرنا شروع ہو گئی تھی۔
جنگل پھیلتا جا رہا تھا۔ ایک جگہ بہت سے بکرے اور گدھے ایک ساتھ چر رہے تھے۔ غالباً اُنہیں کچھ خبر نہ تھی کہ نچلے میدانوں میں بھی اِن دونوں سے ایک سا سلوک ہو رہا ہے۔ اچانک......... دور سے جنگل کے نیم اندھیرے گہرے ہوئے اور کچھ کیمپس نظر آئے۔ کمراٹ اب مہوڈنڈ میں بدل رہی تھی۔ وہی جنگل، وہی پربت، وہی خوشبو، وہی دریا، وہی مَیں اور وہی تُم..... تیرے ہی رنگ اترتے چلے جائیں مجھ میں خود کو لکھوں تری تصویر بنائے جاؤں ہم جنگل کے اندھیروں میں داخل ہو گئے۔ زمین پر زرد گیسو نما پائن فائبرز پر پائن کونز گری پڑی تھیں جن میں موجود بروزہ رطوبت ایسی مہک جاری کرتی ہے کہ... مہک جاری ہو جاتی ہے۔ ہم نے کچھ چشمے عبور کیے۔ آگے ولید بھائی کیمرہ پکرے کھرے تھے اور ویڈیوز بنا رہے تھے۔ اُن کے قریب تین ٹانگوں والا جانور بھی تھا.. مطلب ٹرائی پوڈ تھا۔ مس اسما بتا رہی تھیں کہ وہ اور مس مناہل کسی مقامی کے اوپن ایر رکشے میں سوار ہو گئیں۔ رکشے میں مرغیاں بھی تھیں۔ رکشے والا تمام خواتین کو جانے کہاں لے گیا۔ بڑی مشکل سے اُسے کیمپنگ کا سمجھایا تب اُس نے دو خواتین کو یہاں ڈراپ کیا۔ اتنی دیر میں وہی رکشے والا اوپن ایر رکشہ دوڑاتا ہوا قریب سے گزر گیا۔ ولید بھائی نے میرا انٹرویو ریکارڈ کیا حالانکہ میری زبان میرا ساتھ نہیں دیتی، مَیں صرف جلوہء طور کے دوران آگ سے بات چیت کر سکتا ہوں۔ مَیں نے بس یہی کہا کہ یہاں آؤ اور گوتم بدھ بن جاؤ۔ پہلے خیمے جو آئے وہ ہمارے نہ تھے، بلکہ ایک مردانہ ٹیم کے تھے جو ہماری خواتین کو دیکھ دیکھ باذوق ہو رہے تھے۔ اُن کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ کمراٹ میں اُنہیں صنفِ نازک نظر آ جائے گی۔ ویسے مَیں اُنہیں کہنا چاہتا تھا کہ اپنی لے کر آیا کرو۔
آخرکار ایک کیمپنگ سائیٹ آ گئی۔ وہاں لکڑ ہوٹل پر لکھا تھا "کمراٹ شنگریلا ہلز ہوٹل اینڈ ریسٹورینٹ"۔ عین مہوڈنڈ کا ماحول۔ ہوٹل کے قریب محسن اور خرم بسرا برسرِ پیکار نظر آ رہے تھے۔ ہوٹل سے کچھ فاصلے پر ہمارے ایک دو خیمے لگے نظر آ رہے تھے۔ تب.... خیبر پختونخواہ میں، دِیر بالا کی وادئ کمراٹ کے دل میں، گھنے جنگل کے سائے میں، مَیں نے روحِ کارواں سرائے، کالی گھٹا، موسم بالرضا، فوڈگرو محسن رضا کو زبردستی اپنی جانب گھمایا اور ایک گال پر پپی کر دی..... اِس بوسے کا اثر ابھی تک میرے ہونٹوں پر ہے.. اگرچہ ہونٹ سیاہ ہو گئے ہیں مگر نصف شَب میں جگنو کی مانند لو دیتے ہیں۔ واہ۔ اِس ماحول میں لانے کا شکریہ۔
ہم دن دیہاڑے اِیدھر پہنچ گئے تھے مگر یہاں ماحول ایسا تھا کہ اب کہیں اور جانے کو دل نہیں کر رہا تھا.. بس پڑا رہوں تصورِ جاناں کیے ہوئے.. جنگلوں کے اندر راستہ بنا کر بہنے والے دریائے پنجکوڑہ کے کنارے۔ بالکل ایسا ہی کیا۔ یہ سارا علاقہ اور ماحول مہوڈنڈ سے کہیں زیادہ خوبصورت تھا اور خوشی اِس بات کی تھی کہ اب کئی دن اِیدھر ہی ہیں، کہیں نہیں جانا۔ بہت سے ممبرز دریا کے کم گہرے کنارے پر نہا گا رہے تھے۔ ڈاکٹر رامے پھسلتے پھسلتے بچے۔ خواتین دریا میں بڑے درخت کے شہتیر پر بیٹھ کر تصاویر تصاویر کھیلنے لگ گئیں۔ اور مجھے لمبی فراغت تھی.. مَیں نے بہت دیر مناظر کو دل میں اتارا اور اپنی کتاب کھول لی "خلا میں زندگی کے آثار"...... کیا واقعی، ہمارے علاوہ کوئی نہیں؟ ••• آج چودھویں کی رات ہے شب بھر رہے گا چرچا ترا کچھ کہیں گے یہ چاند ہے کچھ کہیں گے چہرا ترا ہم بھی وہیں موجود ہوں گے ہم سے بھی سب پوچھیں گے ہم ہنس دیں گے، ہم چپ رہیں گے منظور ہو گا پردہ ترا شام کے بعد، اِن جنگلوں پربتوں دریاؤں میں، پنجکوڑہ کنارے، ایک جانب سے روشن دِن طلوع ہوا، بلیک اینڈ وائٹ دن... پتہ پتہ بوٹا بوٹا، لہر لہر، ہر شے روشن تھی.. کیا ہم کلر بلائنڈ ہیں؟ نہیں۔ آسمان پر ایک سے زیادہ چاند تھے۔ چاند کے قریب ایک تارا چمک رہا تھا۔ وہ عالمِ بحروبر پر طاری شدید چاندنی کے باوجود نہایت دلجمعی سے روشن تھا۔ یقیناً وہ تارا نہ تھا، جوپیٹر سیارہ تھا، نظامِ شمسی کا سب سے بڑا سیارہ۔ مَیں نے دوربین میں اُس کے تین چاند دیکھے، ایک شاید سیارہ کے پیچھے چھپا ہوا تھا۔ کچھ گھنٹوں بعد دیکھتے تو چوتھا بھی نظر آ جاتا۔ جوپیٹر کے چھوٹے چھوٹے 62 چاند مزید بھی ہیں مگر وہ نارمل ٹیلیسکوپ سے نظر نہیں آتے۔ الغرض اِس وقت آسمان پر ہمارا منکوحہ چاند ملا کر پورے چار چاند موجود تھے، اور چار تو جائز ہیں۔ اسی دوران مَیں نے محسن سے پوچھا، یار کیا اس شبِ ماہتاب کو خاص طور پلان کیا تھا؟ اُس نے کہا، نہیں یہ سب قدرت کا انعام ہے، اچھی نیت سے جو بھی کام کیا جائے اُس کی جزا ضرور ملتی ہے۔ چاندی گھلے پانی کے قریب فوڈگرو چکن فِلے بار-بی-کیو کر رہا تھا اور سرخ کوئلے دہک رہے تھے.. قریب بون فائر زرد سرخ جل رہا تھا... ہر کوئی گا رہا تھا.. مجھ سے بھی کہا گیا کہ گانا گاؤں، مَیں نے کہا کہ ٹھیک ہے لیں... مَیں نے ایک لمبی سی خاموشی کے بعد کہا "یہ انسٹرومینٹل سونگ" تھا، کسی کی تسلی نہ ہوئی۔ تمام چہرے مقدس آگ کی لو سے دہک رہے تھے..... کیا بتاؤں، منظور ہے پردہ ترا۔ ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں مُسافرِ آخرِ شَب ہمارے بعد اندھیرا نہیں، شدید اندھیرا ہے
(جاری)