تحریر مُسافرِشَب`
عکاسی مُسافرِشَب` + ٹیم
ایک دُور دراز وادی میں شدید روشن دن تھا مگر یہ ایک ایسا عجیب دن تھا کہ ہر جانب صرف سفید رنگ طاری تھا۔ عین سر پر چمکتا سورج بھی سفید نُور اُگل رہا تھا۔ آسمان، جنگلات، کھیت، سڑک، مَیں اور تُم.. سب سفید تھے۔ کیا ہم کلر بلائنڈ ہو چکے تھے؟ مگر کلر بلائنڈ تو وہ لوگ ہوتے ہیں جو شاعر اور ناولسٹ کی مانند کسی رنگ میں کوئی اور رنگ دیکھتے ہیں، یعنی رنگ تو پھر بھی نظر آتے ہیں۔ ہم کس قسم کے کلر بلائنڈ تھے کہ صرف برف رو سفید رنگ دیکھتے تھے؟... ہاں، جہاں سفید رنگ ہو گا تو سیاہ کو الگ سے بتانے کی ضرورت نہیں، بغیر سیاہ کچھ بھی ممکن نہیں.. جیسے چائے کہہ دینے سے کَپ کو الگ سے بتانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ رانجھا کہہ دینے سے ہیر کو الگ سے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ موسیقی جس خاموشی میں سے سر نکالتی ہے اُس خاموشی کو الگ سے بیان نہیں کیا جاتا۔ اِس یک رنگی کے باوجود منظر اتنا حسین تھا، ماحول اتنا مشکبار تھا کہ:
ایک دُور دراز وادی میں شدید روشن دن تھا مگر یہ ایک ایسا عجیب دن تھا کہ ہر جانب صرف سفید رنگ طاری تھا۔ عین سر پر چمکتا سورج بھی سفید نُور اُگل رہا تھا۔ آسمان، جنگلات، کھیت، سڑک، مَیں اور تُم.. سب سفید تھے۔ کیا ہم کلر بلائنڈ ہو چکے تھے؟ مگر کلر بلائنڈ تو وہ لوگ ہوتے ہیں جو شاعر اور ناولسٹ کی مانند کسی رنگ میں کوئی اور رنگ دیکھتے ہیں، یعنی رنگ تو پھر بھی نظر آتے ہیں۔ ہم کس قسم کے کلر بلائنڈ تھے کہ صرف برف رو سفید رنگ دیکھتے تھے؟... ہاں، جہاں سفید رنگ ہو گا تو سیاہ کو الگ سے بتانے کی ضرورت نہیں، بغیر سیاہ کچھ بھی ممکن نہیں.. جیسے چائے کہہ دینے سے کَپ کو الگ سے بتانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ رانجھا کہہ دینے سے ہیر کو الگ سے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ موسیقی جس خاموشی میں سے سر نکالتی ہے اُس خاموشی کو الگ سے بیان نہیں کیا جاتا۔ اِس یک رنگی کے باوجود منظر اتنا حسین تھا، ماحول اتنا مشکبار تھا کہ:
سامنے لیلیٰ نقش و نگار آنے لگی
جوشؔ، ہوا سے بُوئے یار آنے لگی
اور ایک یہ دن تھا، یہی کوئی صبح دس بجے کے قریب، اسلام آباد ٹو پشاور موٹروے پر، دونوں دوڑتی چلی جا رہی تھیں۔ اُن کی آخری منزل وادئ کُمراٹ تھی جو جانے کہاں تھی، نہ مَیں نے فِگر آؤٹ کرنے کی کوشش کی۔ انجان سے محبت کا رومانس ذرا الگ ہوتا ہے، مَیں اِسے توڑنا نہیں چاہتا تھا۔
اچھا یہ "دوڑتی" کو تخیل میں لائیے کہ دونوں کیسے دوڑ رہی تھیں۔ مطلب، سرمئی آنچل کوچ اور روح سفید ہائی-ایس، تیز رفتاری سے موٹروے کی ہموار سطح پر دوڑ رہی تھیں مگر اُن کی رفتار آہستہ ہی لگ رہی تھی، یہ اچھی سڑک کی نشانی ہے۔ ایسے میں کوچ کے اندر احباب میں تخلیقی و تخریبی گفتگو کے دوران روایتی موسیقی شروع ہو چکی تھی.. ڈچکم ڈچکم دھڑام گڑوم ٹوئیں شوئیں قسم کے صوتی اثرات سے تعلق رکھتی موسیقی۔
اس دوران مزید احباب کے متعلق جانکاری حاصل ہوئی۔ ایک لمبا سا لڑکا ابرار کراچی سے تعلق رکھتا تھا۔ اُس کے ڈاکٹر پیئرینٹس نے اُسے اکیلے ہی کراچی سے روانہ کر دیا تھا۔ بڑی ہمت کی بات ہے۔ یعنی نتیجا نکلا کہ ابرار بھی بالواسطہ ڈاکٹر تھا۔ شاید وہ ہائی-ایس میں تھا۔
ابھی مجھے بہت سے ساتھیوں کے نام معلوم نہ تھے۔ یہ ایک زبردست کیفیت ہوتی ہے کہ لمبے سفر کے ہمسفر کا نام تک معلوم نہ ہو۔ وہ ہمسفر تھا مگر اُس سے آشنائی نہ تھی۔ ایسی بھی کیا جلدی ہے۔
پہلے پہل مَیں دائیں جانب کھڑکی والی سیٹ پر بیٹھا ہوا باہر دیکھتا رہا تھا مگر ایک عجب اضطراب میں تھا، یوں لگ رہا تھا کہ سیٹ چُبھ رہی ہے۔ میرے ساتھ ڈاکٹر فرحانہ بیٹھی تھیں، مَیں نے اُنہیں ریکوسٹ کی کہ آپ کھڑکی والی سیٹ لے لیں حالانکہ مجھے یہ سیٹ پسند ہوتی ہے۔ سیٹ تبدیل ہوئی تب سکون ملا۔ بعد میں پتا چلا کہ سیٹ کی ٹیک پر "ڈاکٹر سدرہ" لگا ہوا تھا۔ شاید اسی لیے مَیں اضطراب میں تھا کیونکہ اِس نام سے میری کچھ مزاحیہ قسم کی یادیں ہیں۔ تمام سدراؤں سے معذرت۔
ٹیکسلا کے کٹے پھٹے پہاڑ نظر آنے لگ گئے جن کی نوکدار چوٹیاں کبھی ہنگول نیشنل پارک کا تاثر دیتی تھیں جہاں ایک نوک اتنی درستی سے وجود میں آئی ہے کہ صورتِ محبوب لگتی ہے، وہ پرنسیس اوف ہوپ ہے۔ اس شہزادی کے قدموں میں ایک بھرپور چاندنی رات گزارنے کا منصوبہ ہے۔ کبھی یہ چوٹیاں مشابروم کے راستے میں نظر آنے والی ایسی عمودی نوکدار چوٹیاں لگتی ہیں جن کی ٹاپ پر بیٹھا نہیں جا سکتا.. ذرا لیلیٰ پِیک کو تصور میں لائیے۔
دِیا جلتا رہا.. سفر جاری رہا.. بالآخر شیردریا آ گیا.. اور کوچ اتنی ہی تیز رفتاری سے پل عبور کر کے گزر گئی جیسے، تیرا قدیم محبوب تجھے نظر انداز کر کے اجنبیوں کی طرح گزر جائے اور تیرے دل میں دِیا ابھی بھی جل رہا ہو۔ روایات کے مطابق شیردریا آکاش گنگا کہکشاں کا ایک دھارا ہے اگرچہ تبت میں کوہِ کیلاش سے نکلا ہے۔ پاکستان میں ہر بہتی شے اپنا رخ شیردریا کی جانب رکھتی ہے اگرچہ وسیلہ کے طور پر چناب، جہلم، راوی، ستلج، کابل، سوات، گلگت، گذر، ہنزہ دریا استعمال ہوتے ہیں۔ یعنی راکاپوشی کے پانی دریائے ہنزہ میں شامل ہوتے ہیں مگر دریائے ہنزہ کا مقصدِ حیات بالآخر شیردریا میں گُم ہو جانا ہے... اور تب، سب قطرے، سب دھارے، شیردریا کی طاقت سے ایک بحر میں فنا ہو جاتے ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ دریائے سندھ کراچی یا حیدرآباد یا بشام یا سکردو سے تعلق رکھتا ہے حالانکہ شیردریا اُتنا ہی اسلام آباد کا بھی ہے، صرف 119 کلومیٹر دُور ہے، صرف 119... اور اتنا سفر 40 منٹ میں طے ہو جاتا ہے۔ ہم انڈس ریزرٹ ایریا سے 10 منٹ کی واک پر سندھ کے پانیوں کو جا کر ہاتھ لگا لیتے ہیں.. گویا اِک چُلو میں پوری سرزمین کی زرخیزی ہماری مٹھی میں آ جاتی ہے.. اور چُلو بھر پانی جائز ہوتا ہے۔
اس دوران مَیں اور ڈاکٹر فرحانہ اسلام آباد سے جائن کرنے کی وجہ سے شاید فریش تھے اسی لیے عجیب موضوعات پر گفتگو شروع کر لی۔ باقی احباب یقیناً ڈسٹرب ہو رہے تھے جو گزشتہ کل کی شام سے سفر میں تھے۔ ہم نے علم کے کوڑے برسائے، ظلم کیا۔
ہمارے مابین مارگلا ہلز کی نوکدار چوٹیوں کے علاوہ، عقل داڑھ کی ارتقائی وجوہات پر بات ہوئی۔ نتیجا نکالا گیا کہ ہزاروں برس پیشتر جب ہومونائیڈ انسان کچا گوشت کھاتا تھا تب ہمارے جبڑے ذرا بڑے ہوتے تھے۔ جب سے خوراک پکا کر کھائی جانے لگی ہے، ارتقائی تبدیلی ہو چکی ہے۔ جبڑا چھوٹا ہو جانے کے باعث پچھلے دانتوں کو جگہ نہیں ملتی اسی لیے وہ جبڑے کے اندر گُم رہتے ہیں مگر باہر نکلنے کی کوشش کرتے ہیں، تب جدید انسان درد کے مارے ہنسنا شروع کر دیتا ہے۔ ایک وقت آئے گا کہ عقل داڑھ پیدا ہونا بند ہو جائے گی۔ اس سلسلے میں آغاز عقل سے ہو رہا ہے جو ناپید ہو رہی ہے، داڑھ کا نمبر بعد میں آئے گا۔
مزید موضوعات تھے: چیونٹیوں میں ہارٹ اٹیک اور برین ہمبریج کا رجحان، بکروں بکریوں کی زبردستی شہادت، زلزلوں کی شرعی حیثیت، نمرہ احمد کا ضخیم ناول "نمل" جو ڈمبل کے طور پر استعمال ہوا، وغیرہ وغیرہ۔
ابھی گفتگو جاری تھی۔ صوابی انٹرچینج کے قریب دیکھا موٹروے کو اندر سے کُنڈی لگی ہوئی ہے۔ موٹروے بلاک تھی۔ ٹریفک کو کسی اور جانب موڑا جا رہا تھا حالانکہ ہم نے کافی آگے رشکئی انٹرچینج سے مردان کی جانب ایگزِٹ کرنا تھا۔ کیپٹن نوید نے صوابی انٹرچینج سے ایگزِٹ کیا اور صوابی شہر کی جانب رُخ کر لیا۔ اب ہم نہایت ہی بھونڈی سڑک پر موٹروے والی رفتار سے ڈولتے ہوئے شمال کی جانب سفر کر رہے تھے۔ بڑا ہی افسوس ہوا۔ اسی وجہ سے ہماری گفتگو تمام ہو گئی۔ ڈاکٹر فرحانہ احتجاجاً سو گئیں۔
دونوں بہنوں، مطلب گاڑیوں نے صوابی پہنچ کر مردان کی جانب دَوڑ جاری رکھی۔ کافی دیر گزر گئی اور سفر ختم ہونے میں ہی نہ آ رہا تھا۔ کافی زرخیز علاقہ تھا، ایک جانب پہاڑ ساتھ چل رہے تھے، اور سب سے حیرت ناک بات یہ تھی کہ ہر جانب پٹھان ہی پٹھان۔
مردان رِنگ روڈ کے پُل کے نیچے سائے میں ہماری کوچ بمع ہائی-ایس کھڑی ہو گئیں۔ تفصیل کے مطابق اسامہ علی نے یہیں کہیں سے ہمیں جائن کرنا تھا۔ پتا چلا کہ وہ تخت بھائی کے ہوٹل میں ہمارا انتظار کر رہا ہے اور تخت بھائی کا شہر ہم سے 40 کلومیٹر دُور تھا۔ اِس رُکنے کا فائدہ یہ ہوا کہ مَیں ذرا دھواں دھار ہو لیا۔
کیپٹن نوید سے عرض کی گئی کہ رِنگ روڈ پر چڑھ جائے، یوں باروبار سے تخت بھائی چلے جائیں گے۔ مگر کیپٹن جی نے سُنی اَن سُنی کر دی۔ ہم مردان شہر کے رش میں داخل ہو گئے۔ مردان کی وسطی شاہراہ پر جیسے ہی پہنچے، دو پولیس مینوں نے کوچ کو اشارہ دیا۔ ویسے مجھے معلوم تھا کہ ہمارا مہنگا والا چالان ہونے لگا ہے کیونکہ روٹ پرمٹ کا مسئلہ ہوتا ہے۔ مگر اس سے پہلے کہ پولیس اپنا مدعا بیان کرتی، نوید نے اُن سے تخت بھائی کا راستہ پوچھ لیا۔ اُنہوں نے پہلے خوش دلی سے راستہ بتایا پھر کچھ یوں کہا کہ اتنی بھی کیا جلدی ہے، ذرا باہر تو آؤ۔ پس نوید باہر گیا، واپس نہ آیا، بلبل کا بچہ۔
دلکش چالان اور دھواں دھار بریک کے بعد ہم تخت بھائی کی جانب بڑھ گئے۔ دائیں جانب تخت بھائی رینج نظر آ رہی تھی جس کی بلندی پر ایک قدیم آتش کدہ ہے جو اپنے سچ کے دَور میں مسلسل جلتا تھا اور اہلِ ایمان کو حرارت پہنچاتا تھا۔ ہر شَب بہت دُور سے ایک آگ جلتی نظر آتی تھی۔ اسی رینج کی عقبی جانب جابجا بدھ مت کے آثار ہیں جو سچ کا اگلا ورژن تھا۔ ایک سٹوپا کے دل اندر گوتم بدھ کی راکھ موجود ہے اور راکھ کی سطح پر زیرِ زمین سرنگ ہے۔ سرنگ میں داخل ہو جاؤ، قدیم سانسوں میں قدیم زمانوں میں پہنچ جاؤ گے۔ ایک بے خودی طاری ہو جائے گی۔
گرما گرم تخت بھائی میں بڑے پل کے نیچے ایک خستہ حال ریسٹورینٹ تھا، وہاں ہم نے ناشتہ کیا: بڑے گوشت کے چپلی کباب اور خمیری روٹیاں.. یوں لگا کہ لنچ اور ڈنر کھا رہے ہیں۔ مگر اُس وقت تمام تکالیفیں دور ہو گئیں جب ریسٹورینٹ کا "بات روم" وزٹ کیا.. بڑی بات تھی.. بلکہ بڑی بڑی بات تھی۔
سفر دوبارہ شروع ہوا۔ اگلا سٹاپ درگئی آیا جو سوات، دِیر اور چترال جانے والے مسافروں کا آرمی چیکنگ پوائنٹ ہے۔ اب یہ تمام ایریا اس وقت پاکستان کے سب سے محفوظ علاقے ہیں، بشکریہ آرمڈ فورسز اور بشکریہ دہشت گرد تنظیمیں جنہوں نے اپنی توجہ ہٹا لی ورنہ آرمی بھی کچھ نہ کر سکتی۔ بہرحال فوجی نے کہا کہ مرد مسافروں کے آئی-ڈی کارڈز لے کر اینٹری کروائی جائے۔ خواتین کی جاں بخشی ہو جاتی ہے کیونکہ اِس خطے میں عورت کو دہشت گرد تصور نہیں کیا جاتا۔ مَیں کوچ کے دروازے کے ساتھ بیٹھا تھا، باہر نکلا تو محسن نے ہائی-ایس کے کارڈز بھی مجھے پکڑا دیے۔ کارڈز لے کر ایک مورچہ نما عمارت کی جانب چلا گیا۔ اس دوران ایک مکمل سیگریٹ بھی پیا۔ کوچ مجھے کینسر کروانے پر تُلی ہوئی تھی۔ تب کارڈز کی دو ڈھیریاں دیکھتے ہوئے مجھے مزید نام پتا چلے۔ کوچ میں: ڈاکٹر نعمان، ڈاکٹر ریحان، اینجینیئر عمر، ڈاکٹر حماد، ڈاکٹر طاہر اور ڈاکٹر فیضان۔ معاف کیجیے گا اگر کسی غیرِڈاکٹر کو ڈاکٹر کہہ گیا ہوں۔ ہائی-ایس میں المشہور سخت لونڈے تھے: عبدل رحمان، حمزہ نسیم، ارحام نذیر، یاسر اسلم، عدنان، نعمان، وسیم احمد، اور ثاقب صاحب۔ یاد رہے کہ "سخت لونڈے" اصطلاح مَیں نے نہیں دی، ٹیم لیڈر نُوں پھڑو۔
پہاڑوں سے پہلے معانقہ کے طور پر مالاکنڈ پاس شروع ہوا اور شدید بارش و طوفان نے آن لیا۔ یہ مَیں نے صریح جھوٹ بولا ہے۔ مَیں نے کبھی مالاکنڈ پاس کے اردگرد بارش نہیں دیکھی۔ سُنا ہے کہ پی-ٹی-وی کے دَورِ خلافت میں یہاں موسم نہایت خوشگوار رہتا تھا۔ مالاکنڈ پاس سوات میں داخل ہونے کا ایک راستہ ہے، کئی راستے اور بھی ہیں مثلاً شانگلہ پاس، بدوگئی پاس، مہوڈنڈ سورلاس پور پاس وغیرہ۔
مالاکنڈ پاس کی دوسری جانب گوتم بدھ کے سواستُوا یعنی وادئ سوات میں سڑک دھیرے دھیرے اترتی ہے اور ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ اس کے بعد بٹ خیلہ بازار شروع ہو جاتا ہے جو غالباً ایشیا کے طویل ترین بازاروں میں سے ایک ہے، یہ بھی ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ بازار کے پیچھے سوات کینال ساتھ ساتھ رہتی ہے۔
بٹ خیلہ کے بعد ایک خاص چوک آتا ہے جسے پُل چوکی کہتے ہیں۔ یہاں پر پہنچ کر کیپٹن نوید سیدھا مینگورہ کی جانب بڑھنے لگا تو ہم نے چیخ و پکار مچا دی۔ چوک سے بائیں جانب مڑنا تھا تاکہ دِیر چترال روڈ پر آ جائیں۔ مجھے اندازہ ہو گیا کہ نوید بھائی کو بھی میری طرح معلوم نہیں کہ کُمراٹ کیدھر ہے۔ تب مَیں نے اپنا گوگل میپ اون کیا اور نیویگیشن کے فرائض سنبھال لیے اگرچہ اسامہ اور خرم بسرا ماضی میں اِن راستوں پر آ چکے تھے۔
دریائے سوات پر موجودہ جدید پُل عبور ہونا شروع ہوا۔ پل کے ساتھ گوروں کے زمانے کا ایک قدیم پل بھی تھا جسے چرچل برج کہتے ہیں۔ پل کے بعد ہم ضلع سوات کو چھوڑ کر دِیر زیریں میں داخل ہو گئے۔ دِیر 1969 میں پاکستان کا ضلع بنا اور 1996 میں تقسیم ہو کر دِیر زیریں اور دِیر بالا میں بدل گیا۔
چکدرہ آ گیا۔ یہ تمام علاقے گندھارا تہذیب کے متعلق بہت مشہور ہیں۔ چکدرہ میں ایک عجائب گھر بھی ہے جہاں قدیم تہذیبوں کے آثار ہیں۔ ہزاروں برس بعد ہمارے باقیات بھی کسی عجائب گھر میں ہوں گے۔ البتہ ہماری ہڈیاں بھی دریافت ہوں گی کیونکہ ہم اپنے مُردے نہیں جلاتے، زندے جلاتے ہیں۔
چکدرہ کے بعد بہت سے چھوٹے پتلے قصبے آتے رہے۔ منظر ایک ہی تھا۔ سڑک کے اردگرد دوکانیں، ہوٹل، گھر، اور ٹریفک، ساتھ دریا اور چھوٹے چھوٹے پہاڑ۔ ایسے ہی ایک عام سے قصبے سے گزرے تو اُس کے نام نے شدید مدہوشی طاری کی "زیارت تلاش"... کسی وجہ سے یہ کائنات اہلِ عشق کو ملنے نہیں دیتی اور وہ عمر بھر زیارت کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہوئے جان دے دیتے ہیں.. تلاش پھر بھی ختم نہیں ہوتی۔
اس دوران کسی نے پوچھا کہ کتنی دیر رہ گئی ہے۔ اب ہمیں خود معلوم نہ تھا، صرف اندازے تھے۔ میرے منہ سے نکل گیا "اتنا ہی اور ڈال لیں۔"
سڑک دریائے پنجکوڑہ کے ساتھ ساتھ چلنے لگی۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ یہ دریا کبھی دریائے دِیر اور کبھی دریائے اتروڑ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے مگر اتنا بڑا دریا ہے کہ دِیر کی ہر وادی میں اس کی شاخیں موجود ہیں۔ پنجکوڑہ کے کنارے دِیر کا سب سے اہم شہر تیمرگرہ آ گیا۔ ہم نے بائی-پاس سے شہر کو ایوائڈ کیا اور آگے بڑھ گئے۔ منظر وہی رہا مگر قصبے بدلتے رہے.. کھل، طورمنگ، ملک آباد، واری، ڈوگرام، اور صاحب آباد۔ اسی دوران ہم دِیر بالا میں داخل ہو چکے تھے۔ میرے نقشوں کے مطابق وادئ کمراٹ دِیر بالا میں کہیں گُم تھی۔
ڈورارا میں عصر کا وقت آن پہنچا اور ہم نے ایک پمپ کے باتھ روم استعمال کیے۔ پمپ کی پچھلی جانب دریائے پنجکوڑہ یا دریائے دِیر شدید روشن تھا۔ یہاں ایسی بوتلیں پی گئیں جو مچھلی والے ڈیپ فریزر سے نکالی گئی تھیں۔ دل کر رہا تھا کہ سب قے دُوں مگر میرے یوفون کے سگنل بند ہو چکے تھے، الحمدللہ۔
ابھی ہمارا سفر پانچ چھ گھنٹے مزید تھا اور آگے رات آ رہی تھی۔ کیپٹن نوید جو گزشتہ شام سے مسلسل ڈرائیو کر رہا تھا، اُس کی آنکھیں لال ہو رہی تھیں۔ یہ ایک خوفناک صورتحال تھی۔ بہرحال ٹیم لیڈر نے کہا کہ ہمیں آج شَب ہر حال میں کمراٹ پہنچنا ہے۔
کُمراٹ میں کہاں؟... کمراٹ کے آغاز میں ایک گاؤں ہے، وہاں پہنچنا تھا۔
جیسے بشام کے بعد داسو کی جانب نکلیں تو ایک نیم صحرائی نیم زرخیز سا لینڈسکیپ شروع ہوتا ہے، بالکل ویسے ماحول میں ہم سفر کرتے رہے۔ انجان خطوں کا رومان جہاں گرد کے لیے زندگی ہوتا ہے.. یہی ہمارا حال تھا، جو اب ماضی ہوا، اگرچہ کوشش میری پوری ہے کہ کچھ بھی ماضی نہ ہونے پائے۔
یہیں کہیں کوچ روکی گئی.. بشام نما ماحول میں کچھ دیر ہوا خوری اور دھواں خوری کی گئی۔ ٹیم باہر تھی۔ مَیں سگریٹ کی نئی ڈبی نکالنے کے لیے کوچ میں چڑھا۔ سیٹوں پر خواتین ڈاکٹرز کے نام نظر آئے: ڈاکٹر عدیلہ، ڈاکٹر معزہ، ڈاکٹر عاصمہ، ڈاکٹر حور، ڈاکٹر سدرہ، ڈاکٹر راحیلہ۔ ان کے علاوہ کراچی کی مس رخصانہ، رابعہ یوسف اور ڈاکٹر ثمینہ بھی موجود تھیں، کوچ سے باہر۔
سفر دوبارہ شروع ہوا۔ راستے میں جو بھی پیٹرول پمپ آ رہا تھا اس پر "بکری" لکھا ہوا تھا۔ معلوم نہیں یہ کونسی بکری ہے جو خام تیل دیتی ہے۔
پچھلی سیٹ سے ڈاکٹر اسماعیل کی آواز آئی کہ میری ٹانگیں تنگ پڑ رہی ہیں، جگہ چاہیے۔ اپنی سیٹ پر خرم بسرا کو بٹھا کر مَیں نے فولڈنگ سیٹ اٹھائی اور گرماگرم فرش پر بیٹھ گیا۔ چونکہ منظر بدل نہیں رہا تھا اس لیے مَیں نے اپنی کتاب نکالی "خلا میں زندگی کی تلاش"... نہایت ہی عجیب کتاب ہے۔ کیا واقعی ہمارے علاوہ خلا میں کوئی نہیں؟.. کیا ہم اکیلے ہیں؟.. جی تقریباً۔
شام کے بعد ایک قصبہ "چُکیاتن" آیا جہاں چوکی پر پھر ہمیں روک لیا گیا۔ ایک اور سگریٹ، پھیپھڑے احتجاج کرنے پر آ گئے مگر باذوق دماغ بضد تھا کہ اور اور اور۔ چوکی کے سامنے ایک باب نما عمارت تھی۔ گوگل میپس کے مطابق یہاں سے شمالی جانب دِیر اتروڑ روڈ شروع ہو رہی تھی۔ ہمیں باب سے داخل ہو کر دِیر چترال روڈ چھوڑ دینی چاہیے تھی۔ مگر گوگل میپس بضد تھے کہ آگے ایک پل ہے وہاں سے روڈ شروع ہو گی۔ گوگل کی بات مان لی گئی۔ یہاں سے آگے چترال کی جانب قریب ہی دِیر خاص شہر ہے.. اور اُس کے بعد لواری پاس ہے۔ ہم اتنا مغرب میں آ چکے تھے۔ مغرب اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ ہم مغرب کی جانب منہ کر کے نمازیں پڑھتے ہیں۔
رات پھیل چکی تھی۔ انتہائی خطرناک اور بوسیدہ دِیر اتروڑ روڈ پر کوچ محوِ سفر تھی۔ کمراٹ اِیدھر ہی کہیں تھا، کتنی دُور، جتنی بھی دُور۔ بار بار لینڈسلائیڈ ایریاز آ رہے تھے۔ اک وحشت سی تھی کہ بس کیا بیان کیا جائے۔ اس دوران مجھے گھسے پٹے گانے پسند نہ آ رہے تھے۔ اچانک کسی کے فون سے ایک موسیقی کی آواز آئی۔ یہ غیبی اشارہ تھا کہ یہی وقت ہے اس موسیقی کا۔ یہ موسیقی میرے پاس بھی تھی۔ آجکل مَیں فارسی موسیقار بہرام جی کی شدید کیفیت آور موسیقی سن رہا ہوں۔ جب وہ موسیقی چلی تو یوں محسوس ہوا کہ اِسی ماحول کے لیے بنی ہے۔ پوری ٹیم اس موسیقی کے سحر میں آتی جا رہی تھی۔ بہرام کی دو کمپوزیشنز نے خوب رانجھا طاری کیا، ڈریم کیچر اور لا الہٰ الا اللہ۔ ہم ریپیٹ پر سُن رہے تھے۔ تحریر لکھتے ہوئے بھی یہی موسیقی جاری ہے۔
شرینگل قصبہ کے بعد اچانک اندھیرے چھٹنا شروع ہو گئے۔ ایک نیا دن طلوع ہو رہا تھا۔ 13 ویں کا چاند بلند ہو رہا تھا۔ اردگرد برف پوش پہاڑ چاندی کے دریا میں گھل رہے تھے۔
پورے 5 گھنٹے سفر کے بعد رات 11 بجے، جبکہ ایک بلیک اینڈ وائٹ دن روشن تھا، ہماری کوچ نے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا۔ انجن کا مسئلہ درپیش تھا۔ ٹیم کوچ سے باہر نکلی اور پیدل روانہ ہو گئی۔
اِس روشن دِن میں.. بلندیوں کی مہک میں.. چاندی نما پگھلے دریا کے قریب.. روشن سڑک پر.. بہت سے شائبے آگے بڑھتے چلے جا رہے تھے.. اس دوران، مجھے کسی کا گمان ہوا، جس کے لیے مَیں نے عمر بھر ریاضت کی ہے۔ تب ایک اور دریا جاری ہوا، گرم چشمہ، تتّا پانی۔
جس کو ملنا نہیں پھر اس سے محبت کیسی
سوچتا جاؤں مگر دل میں بسائے جاؤں
سڑک سیدھی ہوئی تب ہم دوبارہ کوچ میں بیٹھ کر آگے روانہ ہو گئے۔ گوگل میپس کے مطابق تھل گاؤں آ چکا تھا مگر ہمارا ہوٹل کہاں تھا، کچھ معلوم نہ تھا۔
مَیں اور خرم بسرا کوچ سے اترے اور گاؤں کی جانب بڑھ گئے کہ شاید ہوٹل نظر آ جائے۔ کوچ ہمیں چھوڑ کر آگے چلی گئی۔ شدید روشن دن تھا مگر یہ ایک ایسا عجیب دن تھا کہ ہر جانب صرف سفید رنگ طاری تھا۔ عین سر پر چمکتا سورج بھی سفید نُور اُگل رہا تھا۔ آسمان، جنگلات، کھیت، سڑک، مَیں اور تُم.. سب سفید تھے۔ کیا ہم کلر بلائنڈ ہو چکے تھے؟ مگر کلر بلائنڈ تو وہ لوگ ہوتے ہیں جو شاعر اور ناولسٹ کی مانند کسی رنگ میں کوئی اور رنگ دیکھتے ہیں، یعنی رنگ تو پھر بھی نظر آتے ہیں۔ ہم کس قسم کے کلر بلائنڈ تھے کہ صرف برف رو سفید رنگ دیکھتے تھے؟...
تھل تھل کے دھواں ہو رہے ہم
نس نس میں نشہ، بھیگا ہے مَن
بہت آگے کوچ نے ہمیں دوبارہ بٹھا لیا۔ مگر ہمارا کام ہو چکا تھا۔ ہمارے خون کے خلیات تک روشن ہو چکے تھے۔
بہت دیر بعد بالآخر ہم تھل گاؤں کے بازار میں پہنچ گئے۔ وہاں کمراٹ پیلس ہوٹل موجود تھا جہاں ہم نے شب بسری کرنی تھی۔ سب نے تالیاں بجائیں۔ ہم اسلام آباد سے 400 کلومیٹر دُور پہنچ چکے تھے۔
تھل سے بائیں یعنی مغربی جانب ننھی منی وادئ کمراٹ شروع ہوتی ہے جسے پیدل عبور کیا جا سکتا ہے۔ راستے میں وہ جنگل آتے ہیں جو میری روح کے اندر اتر چکے ہیں۔ آخر میں پہنچ کر برف پوش پہاڑ آ جاتے ہیں جن کے پار چترال ہے۔ یعنی تھل کے بعد کمراٹ جنگل، کیمپنگ 1، کیمپنگ 2، کیمپنگ 3، آبشار، کالا پانی، کنڈل شاہی بانڈہ، چروٹ بانڈہ، ازگلو بانڈہ، اور آخر میں شہزور بانڈہ ہے، تب آپ پاس عبور کر کے چترال میں داخل ہو جاتے ہیں۔ عمران خان نے کمراٹ کو متعارف کروایا تھا۔ یوٹیوب پر پوری ڈوکومنٹری موجود ہے۔ خان صاحب بار بار کمراٹ کے دریا کا پانی اپنے منہ پر مل رہے تھے۔
تھل سے سیدھا چلتے رہیں تو براستہ اتروڑ اور بدوگئی پاس کالام پہنچا جا سکتا ہے مگر وہ سارا جیپ ٹریک ہے۔
تھل سے دائیں جانب برفپوش پہاڑوں میں جہاز بانڈہ نام کی چراگاہ ہے جسے مَیں عرصہ دراز "جہاز بندہ" سمجھتا رہا تھا۔ "بانڈہ" نہایت بھونڈا نام لگا بہرحال یہی درست تلفظ ہے جس کا مطلب چراگاہ ہے۔ تھل کے قریب جندرئی قصبہ سے جیپ ٹریک شروع ہوتا ہے جو دو ڈھائی گھنٹوں میں آخری پوائنٹ تک پہنچا دیتا ہے۔ آگے کچھ گھنٹوں کی ٹریکنگ ہے۔ جہاز بانڈہ رفتہ رفتہ مشہور ہو رہا ہے اور یہاں خواتین بھی آنے لگ گئی ہیں۔ صنفِ نازک کا وجود سیاحت میں بہت مقام رکھتا ہے۔ کٹورہ لیک بھی اُدھر موجود ہے۔
پیلس ہوٹل میں محسن نے ڈِنر کرایا۔ تب دِن جیسی روشن شَب میں رفتہ رفتہ سَب سوتے گئے.. سوائے چند خوش نصیبوں کے جو چاند کے ہمسفر ہونے کو ویرانوں میں نکل گئے.. جانے وہ کب سوئے، بلکہ انہیں نیند کیسے آ گئی۔
ویلکم ٹُو کُمراٹ.. مردانہ مردانہ سی، مگر اِس میں رنگ شروع ہو چکے تھے..... بتاؤں گا۔
Some Glimpses of the tours |
(جاری)