(حصہ اولآغاز سفر)
اردو ادب کی مشہور رومانوی شاعری اور نثر میں چند کیفیات مشترک ہیں.. دُکھ، غم، غصہ، انتشار، کسک، آس، پیاس، رونا دھونا، بلکہ محبوب کی دھلائی کرنا، چیخ و پکار، تنہائی، شبِ فراق، آنسُو، شراب.. وغیرہ وغیرہ.. اور یہ سب کیفیات صرف ایک جانب اشارہ کرتی ہیں کہ عاشق کو محبوب نہ مل سکا اور وہ زبردست مبالغہ آرائی پر اُتر آیا اور دخترِ رز سے غم غلط کیا.. خیر، ہر غزل مبالغہ آرائی نہیں، کم از کم اپنی کیفیت میں۔
اب مَیں کیا مثالیں پیش کروں، کسی بھی ناولسٹ یا شاعر کا نام گوگل پر لکھیں اور رزلٹس میں کمالات دیکھیں۔ ہم ہیں ہی دُکھی روحیں الحمدللہ۔
جدائیوں کے زخم درد زندگی نے بھر دیے تجھے بھی نیند آ گئی مجھے بھی صبر آ گیا زخمِ ہجر بھرنے سے یاد تو نہیں جاتی کچھ نشاں تو رہتے ہیں، دِل رفو بھی ہو جائے رند ہیں بھرے بیٹھے اور مے کدہ خالی کیا بنے جو ایسے میں ایک "ہُو" بھی ہو جائے اور ہاں، محبوب دسترس میں نہ ہو تو اتنا طاقت ور ہو جاتا ہے کہ رُکے تو گردشیں اُس کا طواف کرتی ہیں چلے تو اُس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں
آئیے اب آپ کو ایک ڈفرنٹ کیفیت کی شاعری سناتا ہوں۔ اگرچہ ہم میں سے بہت لوگ اِس کیفیت سے گزر چکے ہوں گے مگر اس کیفیت پر شاعری بہت ہی کم ملتی ہے.. یا پھر ایسی کیفیت شدید خطرناک ہے، ذوق کی سونامی سمجھ لیں.... سیدھا جہنم رسید کر دیتی ہے۔ مگر سیف الملوک والا میاں محمد بخشا آرام سے کہے گا کہ ایسی جہنم پر ہزاروں جنتیں قربان۔ استغفراللہ۔ تقریباً 6 ویں صدی قبل مسیح کی یونانی شاعرہ سوفوز اوف لیسبوس 26 صدیاں گزرنے کے باوجود عالمی ادب میں مشہور ہے۔ اُس کی ایک غزل اکثر ریفرنس کے طور پر استعمال ہوتی ہے، ترجمہ پیش ہے:
مَیں بستر کو ویسے ہی رہنے دوں گی بے ترتیب، شکن آلود اور سلوٹوں سے بھرا تاکہ اُس کے جسم کا نقشہ بستر پر بنا رہے کل تک مَیں غسل نہیں کروں گی کوئی لباس نہیں پہنوں گی بال نہیں بناؤں گی مجھے ڈر ہے کہ اُس کے بدن کا لمس ختم نہ ہو جائے مَیں آج کھانا نہیں کھاؤں گی نہ شام کو غازہ ملوں گی نہ ہونٹوں کو سرخی ملوں گی کہیں اس کے بوسے کا اثر ختم نہ ہو جائے مَیں کھڑکیاں دروازے بند رکھوں گی اِس ڈر سے کہ کہیں اُس کی یادیں ہوا میں تحلیل نہ ہو جائیں
یہاں دو اہم باتیں ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ سوفوز نے یہ غزل اپنی سہیلی کے لیے لکھی ہے.. وہ ہم جنس تھی۔ بلکہ یونانی جزیرہ لیسبوس سے ہی "لیسبیئن" اصطلاح وجود میں آئی ہے جس کا مطلب کچھ یوں ہوتا ہے جیسے روٹی کے ساتھ سالن کھانے کی بجائے سالن کے ساتھ سالن کھانا۔ دوسری بات یہ کہ اپنی موت سے پہلے وہ عمر بھر کی ہم جنسیت چھوڑ کر ایک مرد کی محبت میں مبتلا ہو گئی تھی، اور جب اُسے فطری محبت نہ مل سکی تو اُس نے چٹان سے کود کر خودکشی کر لی.. یعنی ایک حرام چھوڑا تو دوسرے حرام میں جا پڑی۔ ٹریجڈی صرف یہ ہے کہ مرد و زن کی محبت میں جو رولے ہوتے ہیں وہ اُس کے لیے ناتجربہ کار تھی، عمر بھر عورت کی وفا کو ہی انجوائے کرتی رہی تھی.. مرد سے پہلی بار پالا پڑا۔ یہ خطرناک موضوع چھیڑنے کا مقصد کچھ یوں ہے کہ مَیں جب سے وادئ کُمراٹ سے آیا ہوں، لباس بدلنے سے ڈر رہا ہوں کہ کہیں کُمراٹ کے جنگلوں کی مہک ختم نہ ہو جائے، مَیں روشنیاں گُل رکھتا ہوں تاکہ چاندنی شَب کے روشن اندھیرے مجھ سے بچھڑ نہ جائیں، مَیں نہانے سے ڈر رہا ہوں کہ کُمراٹ کا لمس بدن سے اتر نہ جائے، مَیں ہر اُس کام سے گریز کر رہا ہوں جو کُمراٹ کا ماحول ماضی بنا دے۔ میرے گھر والے اگرچہ مجھ سے کترا رہے ہیں مگر بیسیکلی مینوں کی۔ کہہ سکتے ہیں کہ مَیں ابھی بھی کُمراٹ میں جی رہا ہوں اور اُسی ماحول میں رہ کر یہ تحریر لکھ رہا ہوں....... وجہ تُم ہو۔ نکتہ یہ ہے کہ جب تک فیض آباد بند نہ کیا جائے، اپنی بات کی شدت اعلیٰ حکام تک نہیں پہنچائی جا سکتی، اِسی طرح اپنی شدت آپ تک پہنچانے کے لیے مجھے اِس غیرشرعی مگر شدید فطرتی غزل کا سہارا لینا پڑا۔ ہو سکے تو معاف کر دیجیے گا، نہ ہو سکے تو پھر معاف کرو بابا۔
"ایک پپی اِیدھر، ایک پپی اُوودھر"... ایک رومانوی جنگل میں، دراز قد پائن درختوں کے اندھیروں میں، مَیں نے اُس کے گال پر اپنے ہونٹ چپکا دیے اور اُس کے چہرے پر نصف صد رنگ آ کر گزر گئے، ففٹی شیڈز اوف گرے سمجھ لیں۔ اِس حرکت کی تفصیل پھر کبھی سہی، مگر ایسا ہوا تھا۔
ہوا کچھ یوں کہ چند دن قبل جب مَیں میجر وحیدی اور سویلیئن فرخ شہزاد کے ہمراہ ہنزہ میں گھوم رہا تھا، گجرانوالا کی نئی ٹوؤرسٹ کمپنی کارواں سرائے کی سیاہ یا سیاح روح فُوڈگرو محسن رضا کی کال مِس ہو گئی۔ اس کے بعد سگنلز نہ ملے اور مَیں جوابی کال کرنا بھول گیا۔ واپس اسلام آباد پہنچ کر محسن سے بات ہوئی تو اُس نے بتایا کہ وہ کُمراٹ کی جانب ایک ٹیم لے جا رہا ہے لہذا مَیں بھی چلوں۔ ایک تو مَیں لمبے سفروں سے تھکا ہوا تھا، دوسرا یہ کہ کُمراٹ مجھے مردانہ مردانہ سا نام لگتا تھا اور کبھی مجھے اپنی کشش میں مبتلا نہ کر سکا تھا۔ مَیں نے کافی چالاکی سے انکار کر دیا۔ اس سے پہلے جب بھی کُمراٹ کے منصوبے زیرِ غور آتے تھے، مَیں کہیں اور چلا جاتا تھا۔ پھر ایک ایسا وقت بھی آیا کہ مَیں نے پہاڑوں کو چھوڑ دیا۔ یہی میری سنگین غلطی تھی۔ پہلے تو مَیں اپنی مرضی سے بلندیوں پر چلا جاتا تھا مگر اب پہاڑ مجھ پر زبردستیاں کرتے ہیں اور اپنی جانب گھسیٹ لیتے ہیں۔ فطرت وہ کمبل ہوتی ہے کہ جب ایک بار تجھے اپنا بنا لے تو پھر مرضی بھی اُسی کی چلتی ہے۔ محسن رضا جیسے انسان کے ساتھ سفر نہ کرنا گھاٹے کا سودا ہے.. جو احباب اِس کالا جادو نما انسان کے ہمراہ ایک بار سفر کر لیں تب عامل بابے بھی اُن کا علاج نہیں کر سکتے، وہ احباب ایک آلٹرڈ سٹیٹ اوف مائنڈ میں آ کر محسن کے ہمراہ بار بار سفر کرتے ہیں۔ میرے ساتھ بھی یہی ہوا۔ میری نیت یہی تھی کہ کُمراٹ ہو یا کوہاٹ، مجھے بس محسن کی رفاقت چاہیے۔ مَیں نے محسن کا شاران والا ٹرپ مِس کر کے اپنے اوپر ڈپریشن طاری کر لیا تھا، اب یہ غلطی دہرانا نہیں چاہتا تھا۔
اتوار 29 اپریل 2018ء۔ اسلام آباد ایکسپریس وے سے 5 منٹ کی واک پر میرا گھر ہے۔ صبح 6 بجے سے پہلے میرے ایک لاہوری دوست خرم بسرا نے گھر کی بیل بجائی۔ خرم بھائی فارماسوٹیکلز سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ کا چہرا دیکھ کر لگتا ہے کہ مذہبی نکتہء نظر سے سامع کی زندگی کا تفصیلی جائزہ لیں گے، مگر حقیقت یہ ہے کہ اِس شخص پر عشقِ فطرت کی دیوی سوار ہے۔ شدید خاموش طبیعت اور اندر کی موج میں رہنے والا باذوق اور بے لوث شخص۔ ذرا اِن سے مل کر دیکھیے گا۔
کچھ دیر میں ہم اسلام آباد ایکسپریس وے پر انتظار کرتی فلائنگ کوچ کے قریب پہنچ گئے۔ کوچ راتوں رات سفر کر کے اسلام آباد پہنچی تھی۔ مَیں نے کوچ کے اندر جھانک کر سلام کہا۔ اس دوران مِس سیدہ بخاری نظر آ گئیں جنہوں نے بابرقعہ کے-ٹو بیس کیمپ مہم سرانجام دے کر حلقہء احباب میں نام کمایا، یہاں تک کہ مستنصر حسین تارڑ بھی اِن کے متعلق لکھتے بولتے رہتے ہیں۔ مس باپردہ کے ساتھ مس وردہ بیٹھی تھیں جو مس بخاری کی کولیگ ہیں۔ دونوں خواتین دانتوں کی ڈاکٹر ہیں.. یعنی دانت توڑ دیتی ہوتی ہیں، اسی عمل کے دوران ٹھیک بھی کر دیتی ہیں۔ سب سے فرنٹ والی سیٹ پر بوب کٹ میں کوئی دلکش خاتون بیٹھی تھیں۔ مَیں نے سوچا چلو ہور کچھ نہیں تو مردانہ مردانہ سی تصویرِ کُمراٹ میں کچھ تو رنگ ہو وجودِ زن سے۔ خاتون نے چہرا میری جانب کیا تو مجھے اُن کی تراشی ہوئی خوبصورت داڑھی نظر آئی۔ بوب کٹ اور داڑھی کا امتزاج اچھا لگا۔ اچانک یاد آیا کہ خاتون پر داڑھی چہ معنی!!... وہ تو جب میری نظر اُن گہری آنکھوں کی جانب پڑی جو رازوں کے اندر جھانک لیتی ہیں تب یاد آیا کہ یہ تو گجرانوالا سے تعلق رکھنے والے مشہور فوٹوگرافر کے-آر ولید ہیں۔ اُن سے مل کر واقعی بہت اچھا لگا۔ اگرچہ میری معلومات کے مطابق ولید بھائی خاتون نہیں مگر پھر بھی اِن کی برکت سے کُمراٹ میں رنگ پڑنے والے تھے۔ ولید بھائی سے پچھلی سیٹ پر اُن کی صاحبزادی مناہل بھی موجود تھیں۔ اور گجرانوالا بہت عجب شہر ہے... لگتا عام سا شہر ہو گا مگر کبھی آپ کو تنہائی میں بتاؤں گا کہ میرے لیے کیا ہے۔ پچھلی جانب کراچی سے آئے ہوئے کچھ مسافر تھے جنہوں نے لاہور سے جائن کیا تھا۔ اُن میں مِس لِینا، مِس عاصمہ اور دھیمے مزاج کی باذوق خاتون مِس ثمینہ عمر شامل تھیں۔ مس ثمینہ نے ہمیشہ میری تحریروں کی حوصلہ افزائی کی ہے، شدید مشکور ہوں۔ یہ تمام خواتین کبھی مس فریال اور کبھی محسن کے ہمراہ سفر کرتی رہتی ہیں۔ جانے کوچ میں اور کون کون تھا، مجھے یاد نہیں رہا۔ وقت آنے پر سب کو مینشن کروں گا۔ معلوم پڑا کہ ابھی فیض آباد اور ڈیوو ٹرمینل سے کچھ اور مسافروں کو بھی پِک کرنا ہے۔
کوچ چلی۔ کوچ کیپٹن نوید بھائی نے ایکسیلیٹر پر پاؤں رکھ کر کوچ کو کھسکایا۔ جیسے پُوت کے پاؤں پالنے میں پہچانے جاتے ہیں اسی طرح مجھے اندازہ ہو گیا کہ ہمارا کیپٹن اضطرابی حالت میں ہے اور بقیہ سفر بھی اسی طرح گزرے گا۔ فیض آباد پہنچنے تک کیپٹن نوید کا ڈرائیونگ سٹائل کچھ یوں تھا کہ جہاں چند گاڑیاں آگے آ جاتیں، وہ سو کی رفتار سے اُنہیں اوور ٹیک کرتا نتیجتاً کوچ دائیں بائیں ڈول جاتی۔ بعض کٹ اتنے ظالم ہوتے کہ یہ ڈول، بے-بی ڈول سونے دی والی بن جاتی، اندازہ کیجیے۔ کر لیا؟ اچھا۔ البتہ خالی سڑک پر وہ رفتار دھیمی کر لیتا تھا، بڑی حیرت ہوئی۔ کہہ سکتے ہیں کہ اگلے چند دن ہم بڑی سکرین پر ویڈیو گیم دیکھنے والے تھے، روڈ رَیش۔ محسن ایک ہائی-ایس کے ہمراہ وہاں ہمارا انتظار کر رہا تھا۔ ہم نے اتنی گُھٹ کر جپھی ڈالی کہ کم از کم میری آنکھیں نمناک ہو گئیں۔ بڑا مزہ آیا۔ عین دھوپ میں کالی گھٹا چھا جانا قسمت کی باتیں ہیں۔ سفید بادل تو مسکراتے رہتے ہیں، کالا گھٹا روتی بہت ہے.. کیوں بھئی کالی گھٹا؟؟!!.. سفید جدید ہائی-ایس بہت سے لڑکوں سے بھری ہوئی تھی۔ وہ بھی ٹیم میں شامل تھے۔ محسن نے کہا "تمام سخت لونڈے ہائی-ایس میں بھرے ہوئے ہیں۔" مزید استفسار پر اُس نے بتایا کہ وہ پورے سفر کے دوران ذرا سگریٹ وغیرہ پئیں گے۔ مجھے شدید حسرت ہوئی کہ کاش مَیں بھی پی سکتا.. کم از کم اتنا سخت لونڈا تو مَیں بھی ہوں۔
کچھ دیر میں ڈاکٹر فرحانہ نے جائن کیا۔ ڈاکٹر صاحبہ سینٹورس ٹاورز کے قریب رہتی ہیں۔ اِن کے لان سے تین سینٹورس ٹاورز یوں نظر آتے ہیں جیسے نانگاپربت کی چوٹیاں ہوں۔
اس کے بعد ڈاکٹر اسماعیل رامے آ گئے۔ اسماعیل صاحب ماشاءاللہ 6 فٹ سے زیادہ بلند ہیں، بلکہ اتنا ہی اور ڈال لیں۔ مجھے خیال آیا کہ اتنے ڈاکٹر، یاللہ ہمارے ہسپتالوں کا کیا ہو گا، سب ڈاکٹر تو اِیدھر جمع ہوتے جا رہے ہیں۔ ابھی ہم نے ڈیوو ٹرمینل سے مزید 11 عدد ڈاکٹر اُٹھانے تھے۔ ڈاکٹر رامے سے ہی پتا چلا کہ وہ پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہیں، بحریہ یونیورسٹی میں انجینیئرنگ کے پروفیسر ہیں۔ ویسے لفظ رامے سے مجھے راما جھیل یاد آتی ہے جس کے پانیوں میں نانگاپربت عکس ہوتا ہے اور تُم برباد ہو جاتے ہو۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ اسی قسم کی ڈاکٹر کے گھر رات بیل بجی۔ ہمسائی نے پریشانی سے کہا کہ ڈاکٹر جی میرے بچے کو کچھ ہو گیا ہے آ کر دیکھ لیں۔ ڈاکٹر نے کہا، مَیں دوسری قسم کی ڈاکٹر ہوں، دوائیوں والی نہیں، علامہ اقبال والی۔ ہمسائی نے سخت ڈانٹا "کی فیدہ ایسی ڈاکٹری کا؟" بہرحال، قوم کی تربیت کے لیے ایسے ڈاکٹر ضروری ہیں۔ ڈاکٹر رامے متاثرکن شخصیت کے حامل تھے۔
خوبصورت عامر اقبال نے بھی فیض آباد سے جائن کیا۔ عامر بھائی اتنے خوبصورت ہیں کہ موٹرسیکل پر بیٹھ کر، عینکیں پہن کر، بالکل امریکن ہیرو لگتے ہیں۔ اِن کی خوبصورتی صرف چہرے تک محدود نہیں بلکہ ماتھے سے سر اور پیچھے گردن تک جاتی ہے۔ یعنی ہوسِ بال و پَر سے آزاد ہیں۔ شکر ہے کہ عامر بھائی ڈاکٹر نہیں تھے ورنہ مَیں سخت احتجاج کرتا۔ تھوڑی تھوڑی اینگزائیٹی مجھے خرم بسرا پر بھی تھی، وہ ڈاکٹر تو نہیں مگر فارماسوٹیکل سے تو تعلق رکھتے ہیں۔
کیپٹن نوید کوچ کو فلائنگ کوچ ثابت کرتے ہوئے آئی-جے-پی روڈ پر ڈیوو ٹرمینل کی جانب اُرے اُرے جا رہے تھے۔ اِس دوران خرم بھائی نے بتایا کہ ہمارے ایک اور جہاں گرد دوست ابوبکر گرُووَر نے ٹرپ جائن کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ابوبکر کے مطابق اگر اردگرد ضرورت سے زیادہ ڈاکٹر ہوں تو بندے کی طبیعت ایویں خراب ہو جاتی ہے۔
ڈیوو ٹرمینل کی پارکنگ کے قریب کوچ کھڑی ہوئی اور ننھے مُنے ینگ ینگ سے ڈاکٹرز آنا شروع ہوئے۔ اِن خواتین و حضرات ڈاکٹرز نے ملتان سے آ کر جائن کیا تھا اور وہ نشتر ہاسپیٹل ملتان سے تعلق رکھتے تھے۔ اگر اِن کی ڈاکٹریت کا نہ پتا ہو تو سب کالج کے سٹوڈینٹس لگیں گے۔ انہی کے کولیگز ڈاکٹر شہباز، ڈاکٹر شریف، ڈاکٹر آصف اور ڈاکٹر علی عمر میری ذاتی مہمات جائن کرتے رہتے ہیں۔ اب چونکہ کچھ عرصہ سے مَیں پہاڑوں سے دور رہنے کی ناکام کوشش کر رہا ہوں اس لیے یہ ڈاکٹر محسن رضا اور میرے اوف روڈر دوست زاہد بخاری کے ساتھ جانے لگے ہیں۔ یہ تقریباً ایک ہی بات ہے۔ کوچ اور ہائی ایس کی چھتوں پر سامان کو لوڈ کر کے ترپال سے قید کیا گیا۔ اب کوچ میں ڈاکٹرز اور ہائی ایس میں سخت لونڈے تھے۔ یوں کارواں بجانبِ "مردان" چلا... اور اُس کے بعد ہم نے "تخت بھائی" میں ناشتا کرنا تھا اور وہیں اپنے ایک اور جہاں گرد دوست اُسامہ علی اور اُن کے کچھ دوستوں کو بھی پِک کرنا تھا۔ اور پھر خشک مگر بارانی مشہور مالاکنڈ پاس عبور کر کے بٹ خیلہ کے بعد چکدرہ کی جانب مُڑ جانا تھا۔ اس کے بعد مجھے کوئی خبر نہ تھی کہ آگے کہاں جانا ہے۔ جانے کُمراٹ ہے کیدھر۔ محسن بھی ہائی-ایس میں تھا اور مَیں کوچ میں۔ ہائے اب کس طرح کٹے گا یہ سفر.....
چلو خیالِ یار کی چادر تان لیتا ہوں۔ بہرحال... ڈاکٹرز + سخت لونڈے موٹروے پر محوِ سفر تھے۔ اچانک آسمانوں سے ایک کیفیت نازل ہوئی: ہم جو چلنے لگے، چلنے لگے ہیں یہ راستے منزل سے بہتر لگنے لگے ہیں یہ راستے
(جاری)
جدائیوں کے زخم درد زندگی نے بھر دیے تجھے بھی نیند آ گئی مجھے بھی صبر آ گیا زخمِ ہجر بھرنے سے یاد تو نہیں جاتی کچھ نشاں تو رہتے ہیں، دِل رفو بھی ہو جائے رند ہیں بھرے بیٹھے اور مے کدہ خالی کیا بنے جو ایسے میں ایک "ہُو" بھی ہو جائے اور ہاں، محبوب دسترس میں نہ ہو تو اتنا طاقت ور ہو جاتا ہے کہ رُکے تو گردشیں اُس کا طواف کرتی ہیں چلے تو اُس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں
آئیے اب آپ کو ایک ڈفرنٹ کیفیت کی شاعری سناتا ہوں۔ اگرچہ ہم میں سے بہت لوگ اِس کیفیت سے گزر چکے ہوں گے مگر اس کیفیت پر شاعری بہت ہی کم ملتی ہے.. یا پھر ایسی کیفیت شدید خطرناک ہے، ذوق کی سونامی سمجھ لیں.... سیدھا جہنم رسید کر دیتی ہے۔ مگر سیف الملوک والا میاں محمد بخشا آرام سے کہے گا کہ ایسی جہنم پر ہزاروں جنتیں قربان۔ استغفراللہ۔ تقریباً 6 ویں صدی قبل مسیح کی یونانی شاعرہ سوفوز اوف لیسبوس 26 صدیاں گزرنے کے باوجود عالمی ادب میں مشہور ہے۔ اُس کی ایک غزل اکثر ریفرنس کے طور پر استعمال ہوتی ہے، ترجمہ پیش ہے:
مَیں بستر کو ویسے ہی رہنے دوں گی بے ترتیب، شکن آلود اور سلوٹوں سے بھرا تاکہ اُس کے جسم کا نقشہ بستر پر بنا رہے کل تک مَیں غسل نہیں کروں گی کوئی لباس نہیں پہنوں گی بال نہیں بناؤں گی مجھے ڈر ہے کہ اُس کے بدن کا لمس ختم نہ ہو جائے مَیں آج کھانا نہیں کھاؤں گی نہ شام کو غازہ ملوں گی نہ ہونٹوں کو سرخی ملوں گی کہیں اس کے بوسے کا اثر ختم نہ ہو جائے مَیں کھڑکیاں دروازے بند رکھوں گی اِس ڈر سے کہ کہیں اُس کی یادیں ہوا میں تحلیل نہ ہو جائیں
یہاں دو اہم باتیں ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ سوفوز نے یہ غزل اپنی سہیلی کے لیے لکھی ہے.. وہ ہم جنس تھی۔ بلکہ یونانی جزیرہ لیسبوس سے ہی "لیسبیئن" اصطلاح وجود میں آئی ہے جس کا مطلب کچھ یوں ہوتا ہے جیسے روٹی کے ساتھ سالن کھانے کی بجائے سالن کے ساتھ سالن کھانا۔ دوسری بات یہ کہ اپنی موت سے پہلے وہ عمر بھر کی ہم جنسیت چھوڑ کر ایک مرد کی محبت میں مبتلا ہو گئی تھی، اور جب اُسے فطری محبت نہ مل سکی تو اُس نے چٹان سے کود کر خودکشی کر لی.. یعنی ایک حرام چھوڑا تو دوسرے حرام میں جا پڑی۔ ٹریجڈی صرف یہ ہے کہ مرد و زن کی محبت میں جو رولے ہوتے ہیں وہ اُس کے لیے ناتجربہ کار تھی، عمر بھر عورت کی وفا کو ہی انجوائے کرتی رہی تھی.. مرد سے پہلی بار پالا پڑا۔ یہ خطرناک موضوع چھیڑنے کا مقصد کچھ یوں ہے کہ مَیں جب سے وادئ کُمراٹ سے آیا ہوں، لباس بدلنے سے ڈر رہا ہوں کہ کہیں کُمراٹ کے جنگلوں کی مہک ختم نہ ہو جائے، مَیں روشنیاں گُل رکھتا ہوں تاکہ چاندنی شَب کے روشن اندھیرے مجھ سے بچھڑ نہ جائیں، مَیں نہانے سے ڈر رہا ہوں کہ کُمراٹ کا لمس بدن سے اتر نہ جائے، مَیں ہر اُس کام سے گریز کر رہا ہوں جو کُمراٹ کا ماحول ماضی بنا دے۔ میرے گھر والے اگرچہ مجھ سے کترا رہے ہیں مگر بیسیکلی مینوں کی۔ کہہ سکتے ہیں کہ مَیں ابھی بھی کُمراٹ میں جی رہا ہوں اور اُسی ماحول میں رہ کر یہ تحریر لکھ رہا ہوں....... وجہ تُم ہو۔ نکتہ یہ ہے کہ جب تک فیض آباد بند نہ کیا جائے، اپنی بات کی شدت اعلیٰ حکام تک نہیں پہنچائی جا سکتی، اِسی طرح اپنی شدت آپ تک پہنچانے کے لیے مجھے اِس غیرشرعی مگر شدید فطرتی غزل کا سہارا لینا پڑا۔ ہو سکے تو معاف کر دیجیے گا، نہ ہو سکے تو پھر معاف کرو بابا۔
"ایک پپی اِیدھر، ایک پپی اُوودھر"... ایک رومانوی جنگل میں، دراز قد پائن درختوں کے اندھیروں میں، مَیں نے اُس کے گال پر اپنے ہونٹ چپکا دیے اور اُس کے چہرے پر نصف صد رنگ آ کر گزر گئے، ففٹی شیڈز اوف گرے سمجھ لیں۔ اِس حرکت کی تفصیل پھر کبھی سہی، مگر ایسا ہوا تھا۔
ہوا کچھ یوں کہ چند دن قبل جب مَیں میجر وحیدی اور سویلیئن فرخ شہزاد کے ہمراہ ہنزہ میں گھوم رہا تھا، گجرانوالا کی نئی ٹوؤرسٹ کمپنی کارواں سرائے کی سیاہ یا سیاح روح فُوڈگرو محسن رضا کی کال مِس ہو گئی۔ اس کے بعد سگنلز نہ ملے اور مَیں جوابی کال کرنا بھول گیا۔ واپس اسلام آباد پہنچ کر محسن سے بات ہوئی تو اُس نے بتایا کہ وہ کُمراٹ کی جانب ایک ٹیم لے جا رہا ہے لہذا مَیں بھی چلوں۔ ایک تو مَیں لمبے سفروں سے تھکا ہوا تھا، دوسرا یہ کہ کُمراٹ مجھے مردانہ مردانہ سا نام لگتا تھا اور کبھی مجھے اپنی کشش میں مبتلا نہ کر سکا تھا۔ مَیں نے کافی چالاکی سے انکار کر دیا۔ اس سے پہلے جب بھی کُمراٹ کے منصوبے زیرِ غور آتے تھے، مَیں کہیں اور چلا جاتا تھا۔ پھر ایک ایسا وقت بھی آیا کہ مَیں نے پہاڑوں کو چھوڑ دیا۔ یہی میری سنگین غلطی تھی۔ پہلے تو مَیں اپنی مرضی سے بلندیوں پر چلا جاتا تھا مگر اب پہاڑ مجھ پر زبردستیاں کرتے ہیں اور اپنی جانب گھسیٹ لیتے ہیں۔ فطرت وہ کمبل ہوتی ہے کہ جب ایک بار تجھے اپنا بنا لے تو پھر مرضی بھی اُسی کی چلتی ہے۔ محسن رضا جیسے انسان کے ساتھ سفر نہ کرنا گھاٹے کا سودا ہے.. جو احباب اِس کالا جادو نما انسان کے ہمراہ ایک بار سفر کر لیں تب عامل بابے بھی اُن کا علاج نہیں کر سکتے، وہ احباب ایک آلٹرڈ سٹیٹ اوف مائنڈ میں آ کر محسن کے ہمراہ بار بار سفر کرتے ہیں۔ میرے ساتھ بھی یہی ہوا۔ میری نیت یہی تھی کہ کُمراٹ ہو یا کوہاٹ، مجھے بس محسن کی رفاقت چاہیے۔ مَیں نے محسن کا شاران والا ٹرپ مِس کر کے اپنے اوپر ڈپریشن طاری کر لیا تھا، اب یہ غلطی دہرانا نہیں چاہتا تھا۔
اتوار 29 اپریل 2018ء۔ اسلام آباد ایکسپریس وے سے 5 منٹ کی واک پر میرا گھر ہے۔ صبح 6 بجے سے پہلے میرے ایک لاہوری دوست خرم بسرا نے گھر کی بیل بجائی۔ خرم بھائی فارماسوٹیکلز سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ کا چہرا دیکھ کر لگتا ہے کہ مذہبی نکتہء نظر سے سامع کی زندگی کا تفصیلی جائزہ لیں گے، مگر حقیقت یہ ہے کہ اِس شخص پر عشقِ فطرت کی دیوی سوار ہے۔ شدید خاموش طبیعت اور اندر کی موج میں رہنے والا باذوق اور بے لوث شخص۔ ذرا اِن سے مل کر دیکھیے گا۔
کچھ دیر میں ہم اسلام آباد ایکسپریس وے پر انتظار کرتی فلائنگ کوچ کے قریب پہنچ گئے۔ کوچ راتوں رات سفر کر کے اسلام آباد پہنچی تھی۔ مَیں نے کوچ کے اندر جھانک کر سلام کہا۔ اس دوران مِس سیدہ بخاری نظر آ گئیں جنہوں نے بابرقعہ کے-ٹو بیس کیمپ مہم سرانجام دے کر حلقہء احباب میں نام کمایا، یہاں تک کہ مستنصر حسین تارڑ بھی اِن کے متعلق لکھتے بولتے رہتے ہیں۔ مس باپردہ کے ساتھ مس وردہ بیٹھی تھیں جو مس بخاری کی کولیگ ہیں۔ دونوں خواتین دانتوں کی ڈاکٹر ہیں.. یعنی دانت توڑ دیتی ہوتی ہیں، اسی عمل کے دوران ٹھیک بھی کر دیتی ہیں۔ سب سے فرنٹ والی سیٹ پر بوب کٹ میں کوئی دلکش خاتون بیٹھی تھیں۔ مَیں نے سوچا چلو ہور کچھ نہیں تو مردانہ مردانہ سی تصویرِ کُمراٹ میں کچھ تو رنگ ہو وجودِ زن سے۔ خاتون نے چہرا میری جانب کیا تو مجھے اُن کی تراشی ہوئی خوبصورت داڑھی نظر آئی۔ بوب کٹ اور داڑھی کا امتزاج اچھا لگا۔ اچانک یاد آیا کہ خاتون پر داڑھی چہ معنی!!... وہ تو جب میری نظر اُن گہری آنکھوں کی جانب پڑی جو رازوں کے اندر جھانک لیتی ہیں تب یاد آیا کہ یہ تو گجرانوالا سے تعلق رکھنے والے مشہور فوٹوگرافر کے-آر ولید ہیں۔ اُن سے مل کر واقعی بہت اچھا لگا۔ اگرچہ میری معلومات کے مطابق ولید بھائی خاتون نہیں مگر پھر بھی اِن کی برکت سے کُمراٹ میں رنگ پڑنے والے تھے۔ ولید بھائی سے پچھلی سیٹ پر اُن کی صاحبزادی مناہل بھی موجود تھیں۔ اور گجرانوالا بہت عجب شہر ہے... لگتا عام سا شہر ہو گا مگر کبھی آپ کو تنہائی میں بتاؤں گا کہ میرے لیے کیا ہے۔ پچھلی جانب کراچی سے آئے ہوئے کچھ مسافر تھے جنہوں نے لاہور سے جائن کیا تھا۔ اُن میں مِس لِینا، مِس عاصمہ اور دھیمے مزاج کی باذوق خاتون مِس ثمینہ عمر شامل تھیں۔ مس ثمینہ نے ہمیشہ میری تحریروں کی حوصلہ افزائی کی ہے، شدید مشکور ہوں۔ یہ تمام خواتین کبھی مس فریال اور کبھی محسن کے ہمراہ سفر کرتی رہتی ہیں۔ جانے کوچ میں اور کون کون تھا، مجھے یاد نہیں رہا۔ وقت آنے پر سب کو مینشن کروں گا۔ معلوم پڑا کہ ابھی فیض آباد اور ڈیوو ٹرمینل سے کچھ اور مسافروں کو بھی پِک کرنا ہے۔
کوچ چلی۔ کوچ کیپٹن نوید بھائی نے ایکسیلیٹر پر پاؤں رکھ کر کوچ کو کھسکایا۔ جیسے پُوت کے پاؤں پالنے میں پہچانے جاتے ہیں اسی طرح مجھے اندازہ ہو گیا کہ ہمارا کیپٹن اضطرابی حالت میں ہے اور بقیہ سفر بھی اسی طرح گزرے گا۔ فیض آباد پہنچنے تک کیپٹن نوید کا ڈرائیونگ سٹائل کچھ یوں تھا کہ جہاں چند گاڑیاں آگے آ جاتیں، وہ سو کی رفتار سے اُنہیں اوور ٹیک کرتا نتیجتاً کوچ دائیں بائیں ڈول جاتی۔ بعض کٹ اتنے ظالم ہوتے کہ یہ ڈول، بے-بی ڈول سونے دی والی بن جاتی، اندازہ کیجیے۔ کر لیا؟ اچھا۔ البتہ خالی سڑک پر وہ رفتار دھیمی کر لیتا تھا، بڑی حیرت ہوئی۔ کہہ سکتے ہیں کہ اگلے چند دن ہم بڑی سکرین پر ویڈیو گیم دیکھنے والے تھے، روڈ رَیش۔ محسن ایک ہائی-ایس کے ہمراہ وہاں ہمارا انتظار کر رہا تھا۔ ہم نے اتنی گُھٹ کر جپھی ڈالی کہ کم از کم میری آنکھیں نمناک ہو گئیں۔ بڑا مزہ آیا۔ عین دھوپ میں کالی گھٹا چھا جانا قسمت کی باتیں ہیں۔ سفید بادل تو مسکراتے رہتے ہیں، کالا گھٹا روتی بہت ہے.. کیوں بھئی کالی گھٹا؟؟!!.. سفید جدید ہائی-ایس بہت سے لڑکوں سے بھری ہوئی تھی۔ وہ بھی ٹیم میں شامل تھے۔ محسن نے کہا "تمام سخت لونڈے ہائی-ایس میں بھرے ہوئے ہیں۔" مزید استفسار پر اُس نے بتایا کہ وہ پورے سفر کے دوران ذرا سگریٹ وغیرہ پئیں گے۔ مجھے شدید حسرت ہوئی کہ کاش مَیں بھی پی سکتا.. کم از کم اتنا سخت لونڈا تو مَیں بھی ہوں۔
کچھ دیر میں ڈاکٹر فرحانہ نے جائن کیا۔ ڈاکٹر صاحبہ سینٹورس ٹاورز کے قریب رہتی ہیں۔ اِن کے لان سے تین سینٹورس ٹاورز یوں نظر آتے ہیں جیسے نانگاپربت کی چوٹیاں ہوں۔
اس کے بعد ڈاکٹر اسماعیل رامے آ گئے۔ اسماعیل صاحب ماشاءاللہ 6 فٹ سے زیادہ بلند ہیں، بلکہ اتنا ہی اور ڈال لیں۔ مجھے خیال آیا کہ اتنے ڈاکٹر، یاللہ ہمارے ہسپتالوں کا کیا ہو گا، سب ڈاکٹر تو اِیدھر جمع ہوتے جا رہے ہیں۔ ابھی ہم نے ڈیوو ٹرمینل سے مزید 11 عدد ڈاکٹر اُٹھانے تھے۔ ڈاکٹر رامے سے ہی پتا چلا کہ وہ پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہیں، بحریہ یونیورسٹی میں انجینیئرنگ کے پروفیسر ہیں۔ ویسے لفظ رامے سے مجھے راما جھیل یاد آتی ہے جس کے پانیوں میں نانگاپربت عکس ہوتا ہے اور تُم برباد ہو جاتے ہو۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ اسی قسم کی ڈاکٹر کے گھر رات بیل بجی۔ ہمسائی نے پریشانی سے کہا کہ ڈاکٹر جی میرے بچے کو کچھ ہو گیا ہے آ کر دیکھ لیں۔ ڈاکٹر نے کہا، مَیں دوسری قسم کی ڈاکٹر ہوں، دوائیوں والی نہیں، علامہ اقبال والی۔ ہمسائی نے سخت ڈانٹا "کی فیدہ ایسی ڈاکٹری کا؟" بہرحال، قوم کی تربیت کے لیے ایسے ڈاکٹر ضروری ہیں۔ ڈاکٹر رامے متاثرکن شخصیت کے حامل تھے۔
خوبصورت عامر اقبال نے بھی فیض آباد سے جائن کیا۔ عامر بھائی اتنے خوبصورت ہیں کہ موٹرسیکل پر بیٹھ کر، عینکیں پہن کر، بالکل امریکن ہیرو لگتے ہیں۔ اِن کی خوبصورتی صرف چہرے تک محدود نہیں بلکہ ماتھے سے سر اور پیچھے گردن تک جاتی ہے۔ یعنی ہوسِ بال و پَر سے آزاد ہیں۔ شکر ہے کہ عامر بھائی ڈاکٹر نہیں تھے ورنہ مَیں سخت احتجاج کرتا۔ تھوڑی تھوڑی اینگزائیٹی مجھے خرم بسرا پر بھی تھی، وہ ڈاکٹر تو نہیں مگر فارماسوٹیکل سے تو تعلق رکھتے ہیں۔
کیپٹن نوید کوچ کو فلائنگ کوچ ثابت کرتے ہوئے آئی-جے-پی روڈ پر ڈیوو ٹرمینل کی جانب اُرے اُرے جا رہے تھے۔ اِس دوران خرم بھائی نے بتایا کہ ہمارے ایک اور جہاں گرد دوست ابوبکر گرُووَر نے ٹرپ جائن کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ابوبکر کے مطابق اگر اردگرد ضرورت سے زیادہ ڈاکٹر ہوں تو بندے کی طبیعت ایویں خراب ہو جاتی ہے۔
ڈیوو ٹرمینل کی پارکنگ کے قریب کوچ کھڑی ہوئی اور ننھے مُنے ینگ ینگ سے ڈاکٹرز آنا شروع ہوئے۔ اِن خواتین و حضرات ڈاکٹرز نے ملتان سے آ کر جائن کیا تھا اور وہ نشتر ہاسپیٹل ملتان سے تعلق رکھتے تھے۔ اگر اِن کی ڈاکٹریت کا نہ پتا ہو تو سب کالج کے سٹوڈینٹس لگیں گے۔ انہی کے کولیگز ڈاکٹر شہباز، ڈاکٹر شریف، ڈاکٹر آصف اور ڈاکٹر علی عمر میری ذاتی مہمات جائن کرتے رہتے ہیں۔ اب چونکہ کچھ عرصہ سے مَیں پہاڑوں سے دور رہنے کی ناکام کوشش کر رہا ہوں اس لیے یہ ڈاکٹر محسن رضا اور میرے اوف روڈر دوست زاہد بخاری کے ساتھ جانے لگے ہیں۔ یہ تقریباً ایک ہی بات ہے۔ کوچ اور ہائی ایس کی چھتوں پر سامان کو لوڈ کر کے ترپال سے قید کیا گیا۔ اب کوچ میں ڈاکٹرز اور ہائی ایس میں سخت لونڈے تھے۔ یوں کارواں بجانبِ "مردان" چلا... اور اُس کے بعد ہم نے "تخت بھائی" میں ناشتا کرنا تھا اور وہیں اپنے ایک اور جہاں گرد دوست اُسامہ علی اور اُن کے کچھ دوستوں کو بھی پِک کرنا تھا۔ اور پھر خشک مگر بارانی مشہور مالاکنڈ پاس عبور کر کے بٹ خیلہ کے بعد چکدرہ کی جانب مُڑ جانا تھا۔ اس کے بعد مجھے کوئی خبر نہ تھی کہ آگے کہاں جانا ہے۔ جانے کُمراٹ ہے کیدھر۔ محسن بھی ہائی-ایس میں تھا اور مَیں کوچ میں۔ ہائے اب کس طرح کٹے گا یہ سفر.....
چلو خیالِ یار کی چادر تان لیتا ہوں۔ بہرحال... ڈاکٹرز + سخت لونڈے موٹروے پر محوِ سفر تھے۔ اچانک آسمانوں سے ایک کیفیت نازل ہوئی: ہم جو چلنے لگے، چلنے لگے ہیں یہ راستے منزل سے بہتر لگنے لگے ہیں یہ راستے
(جاری)