رعایا کے لیے جدید تعلیم کو اخلاقی زبوں حالی کا سبب سمجھنے والے نواب نے ولی عہد محمد شاہ خسرو کو ہندوستان کے ایک عیسائی ادارے بشپ نامی سکول میں داخل کرایا تھاجہاں انگریزوں کے علاوہ راجوں اور مہاراجوں کے بجے تعلیم حاصل کررہے تھے ۔گھر پر بچوں کی تعلیم کے لیے بادین استاد آف جندول جس نے شملہ سےایف اے تک تعلیم حاصل کی تھی اور گل زمان آف رباط جس نے اسلامیہ کالج سے ایف اے تک تعلیم حاصل کی تھی کی خدمات حاصل کی گئی تھی ۔
خدایار عرف جنگو میاں موضوع اسبنڑ نے 1934 ء میں صوابی سے میٹرک کرنے کے بعد دہلی ائیر فورس میں ملازمت اختیار کی تھی جس پر نواب نے استعفیٰ دلواکر واپس بلایا اور اپنے شہزادوں کو پڑھانے پر معمور کردیا ۔اس کے علاوہ نواب کے وزراء اور خواص کے بچے بھی ریاست سے باہر پڑھتے تھے ۔نواب نے اس پر چشم پوشی اختیار کی تھی جبکہ اس کے برعکس عام رعایا کے بچے اگر باہر پڑھنے جاتے تو ان کے خاندان کو ریاست بدر کیا جاتا تھے ۔
(گمنام ریاست حصہ دوم سے کچھ اقباسات)
نوابی دور میں تعلیم
نواب شاہ جہان نے اقتدار میں آکر تعلیم پر سخت پابندی لگاد ی،موقف یہ تھا کہ فرنگی علوم ہمارے جوانوں کے اخلاق بگاڑتے ہیں ۔اس زمانے میں فرنگی سے نفرت عام تھی ، لہٰذا کئی علماء نے نواب کا انگریزی تعلیم کی مخالفت میں ساتھ دیا۔البتہ دکھاوے کے خاطر عمراخانی دور کے تعلیم کو جاری رکھا گیا۔1960ء تک اس نظام تعلیم نے کوئی ترقی نہیں کی ۔سلیبس کئی دہائیوں تک شیخ سعدی کی " گلستان اور بوستان " تک محدود رہا ۔محمداسلام اجملی اپنے کتاب نوے دیر میں لکھتے ہیں کہ "نواب شاہجہان نے زمانے کے تقاضوں کا کوئی خیال نہیں رکھا اور نہ عوام کو تعلیمی حق دینے کو تیار تھے "فرنگی تعلیم تو درکنار نواب شاہ جہان نے تو دیر میں ایک مدرسہ بھی تعمیر نہیں کی اور نہ خزانے سے مدرسین کو تنخواہ دینے کا اہتمام کیا بلکہ اس وقت کے طالبعلم اناج کے عوض فارسی تعلیم حاصل کرتے تھے ۔عام لوگوں کی دینی دسترس نماز او رقل ھو تک محدود تھی ۔عورت تمام علوم سے محروم رکھی گئی تھی ۔خوش قسمت گاؤں وہ ہوتا جہاں کوئی عورت ناظرہ خوانی تک قران پڑھتی اور پڑھاتی ۔
شہزادوں کی تعلیم