نواب اورنگزیب کا اسلامیہ کالج کے لیے چندہ
دیر کی تاریخ کو تاریک پرودوں سے نکالنے میں کئی اہم انکاشافات بھی ہوئے اور ہمیں بہت ہی اہم معلومات تک رسائی ممکن ہوئی۔2002 ء میں اسلامیہ کالج کے لائبریرین عبدالمجید صاحب کے توسط سے پروفیسر ڈاکٹر شکیل احمد کا اسلامیہ کالج کی تاریخ پر لکھاگیا کتاب کے بارے میں میں معلوم ہوا۔کتاب میں اسلامیہ کالج کے تعمیر میں حصہ ڈالنے والے گمنام ہیروز کے بارےمیں لکھاگیا تھا۔ان گمنام ہیروز میں نواب دیر اورنگزیب کا بھی ذکر تھا جس کے بارے میں مصنف یو رقمطراز تھے
" 10 مئی 1911ء کو صوبہ سرحد کے کمشنر جارج روز کیپل نے اسلامیہ کالج کےتعمیر کے لیے چندہ جمع کرنے کے خاطر صوبے سے سو بڑے خوانین کا اجلاس بلایا اور ان سے معاونت طلب کی گئی ۔صوبے کے امراء اور جاگیرداروں نے کمشنر کے جھولی میں کل ساڑھے پانچ لاکھ کا چندہ ڈالا جس میں ایک لاکھ پندرہ ہزار نقدی کے علاوہ چارسو سلیپر نواب دیر کی طرف سے عطیہ کیے گئے ۔میاں رحیم شاہ کاکا خیل نے ایک لاکھ اور کریم بخش سیٹھی نے پچاس ہزار نقدی پیش کی۔گویا نواب دیر کا چندہ اور ٹمبر کو ملاکر مجموعی چندے کا ¼ حصہ بنتا ہے۔
نواب کی اس دریادلی سے عوام بے خبر رہے ۔دوسری طرف اسلامیہ کالج انتظامیہ کی ستم ظریفی ملاحضہ کریں کہ کمشنر روز کیپل کے نام پر ہال ،رحیم شاہ کے نام پر رحیم شاہ وارڈ(آر-ایس وارڈ ہاسٹل ) اور حاجی ترنگزئی صاحب کی خدمات کےصلے میں ایک ہاسٹل اور ایک سڑک ان کے نام پر قائم کی گئی لیکن نواب دیر کی خدمات کا کوئی اعتراف نہیں کیا گیا ۔
نواب کی اس دریادلی سے عوام بے خبر رہے ۔دوسری طرف اسلامیہ کالج انتظامیہ کی ستم ظریفی ملاحضہ کریں کہ کمشنر روز کیپل کے نام پر ہال ،رحیم شاہ کے نام پر رحیم شاہ وارڈ(آر-ایس وارڈ ہاسٹل ) اور حاجی ترنگزئی صاحب کی خدمات کےصلے میں ایک ہاسٹل اور ایک سڑک ان کے نام پر قائم کی گئی لیکن نواب دیر کی خدمات کا کوئی اعتراف نہیں کیا گیا ۔