نواب محمد شاہ جہان کے دور میں انتظامی امور کو چلانے کے لیے ریاست دیر کو نو تحصیلوں میں تقسیم کیا گیا تھا جن میں تحصیل ادینزئی ، تیمرگرہ، بلامبٹ ،میدا ن (لعل قلعہ) ، منڈا ،باڑوہ(جس اب ثمر باغ کہتے ہیں )،براول ،دیر اور تحصیل کوہستان شامل تھے ۔ریاست کا دارلخلافہ دیر خاص تھا ۔اقتدار میں آتے ہی نواب نے اپنے والد کے تمام افسران برطرف کر دیے اور نئی سرے سے اپنی کابینہ تشکیل دی ۔نواب نے حکم دیا کہ ریاست میں کہیں بھی میرے اجازت کے بغیر کسی کو کوئی نوکری نہ دی جائے ۔بھرتی کے وقت خود انٹرویو لیتا تھا ،انٹرویو میں خاندان کا شجر نسب،دادا اور پردادا کے نام پوچھتے تھے ۔نواب بہت ہی مردم شناس تھے اور ان کے اکثر تحصیل دار اور صوبیدا افسر بہت ہی ذہیں اور متاثر کن شخصیات پایے گیے جو نواب دیر کی اچھے انتخاب کی مثالیں تھیں۔ اپنے کابینہ میں سب سے پہلے ایسے افراد کو انتظامی عہدے دیے گئے جوا ن کے والد کے وفادار تھے ۔بیشتر اہم عہدے کمزور خاندان کے قابل افراد کو دیے تاکہ وہ تابع دار رہے اور سازش سے دور رہے ۔ فو ج میں نیلی آنکھوں والوں ،بن ٹھن کر رہنے والوں اور رشتہ داروں کو عہدوں سے دور رکھا۔
نواب دیا کے کابینہ کا تحصیل دار
تحصیل دار فوجی اور سول سربراہ کی حثیت سے ریاستی قوانین کو لاگو کرنے کا ذمہ دار تھے ۔تحصیلدار عدالتی امور اور ریاستی آئین سے پوری طرح باخبر ہوتے تھے ۔ہر ایک تحصیلدار کے ساتھ ایک خواندہ سیکرٹری جسے "مرزا" کہلاتے تھے جو سول او فوجی کیسوں کا ریکارڈ،فوج میں اسلحہ اور کارتوس کی مقدار، حاضریاں اور اخراجات کے علاوہ عشر اور جرمانوں کی ہر مد کی تفصیل رکھتا تھا۔
نوا ب شاہ جہان کے دور کے تحصیلدار
تحصیل ادینزئی- رضا خان وردگ اور بعد میں فضل غفور ڈوگ درہ ۔
تحصیل تیمرگرہ (نوے قلعہ )- حضرت علی اور دلاور جان(گنوڑئی جان)۔
تحصیل بلامبٹ -عبداللہ جان ،فضل غفور اور رضا خان وردگ۔
تحصیل لعل قلعہ- محمد زمان (بارکند ملک) بعد میں سید دلاور جان المعروف گنوڑئی جان ۔
تحصیل منڈہ -دپور ملک ترکلانی (طالب جان)۔
تحصیل حیاء سیرئی –محمود جان شینواری۔
تحصیل ثمرباغ-حضرت سید اخونزادہ اور یار جان۔
تحصیل براول-شاہ مراد خان سلطان خیل عشیرئی درہ اور امان اللہ خان کاٹنی۔
تحصیل دیر –گل زرین تحصیل دار
تحصیل کوہستان –اکبر سید خان تحصیل دار
صوبیدار (وزیر )خزانہ آمدن
صوبیدار خزانہ آمدن تالاش کے حبیب الحسن تھے ۔حبیب الحسن کے والد عجب الحسن نواب شاہ جہان کے والد نواب اورنگزیب کے قریبی افسر وں میں سے تھے ۔نواب نے حبیب الحسن کے باقی بھائیوں کو بھی بڑے عہدے دیے تھے جن میں حیاسیرئی کے تحصیل دار شیر حسن اور ایک کارخانہ افسر نورحن تھا۔
صوبیدار خزانہ خرچی
خزانہ خرچی صوبیدار فاتح جان تھے جو نواب کے تقاضے پر روزانہ دربار میں آمدن او اخراجات کی تفصیل پیش کرتے تھے ۔اناج،مہمام خانہ،نواب کے ذاتی استعمال کی چیزوں کے علاوہ ریاست کے اسلحہ کا ریکارڈ بھی ان کے پاس ہوتا تھا
قاضی القضاۃ
نواب کے قاضی القضاۃ کا صل نام مفتاح الدین تھا،گاؤں جڑجوڑئی کی مناسبت سے ان کو جڑجوڑئی مولوئی صاحب پکارا جاتا تھا۔ ان کا عہدہ چیف جسٹس کے برابر تھا ۔پیچیدہ مسائل حل کرنے میں وہ نواب کے معاون خاص تھے۔
وزیر خارجہ
درگئی سکول سے چھٹی جماعت پاس فضل غفور سابقہ مشیر مال اور تحصیلدار تحصیل ادینزئی ریاست کے خارجہ امور بھی سنبھالتے تھے ۔ اس نے وائسرائے ہند سے ملاقات کے علاوہ شاہ ایران کے بیٹیوں کی شادیوں میں شرکت کی تھی ۔بحثیت وزیر خارجہ انہوں نے دہلی میں قائد اعظم سے ایک دفعہ دہلی میں اور دو مرتبہ کراچی میں ملاقاتیں کی تھی اور پاکستان اور ریاست دیر کا تاریخی معاہدہ بھی کیا تھا۔
مشیر مال
مجائی کے تورخان صوبیدار مشیر مال ( وزیر مالیات ) تھے ۔ریاست کے سارے عہدیداروں میں سب سے اعلیٰ تعلیم یافتہ یعنی آٹھویں جماعت پاس تھے ۔کہتے ہیں کہ تورخاں صاحب حساب کتاب میں بہت مہارت رکھتے تھے ۔نواب کے استفسار پر لمحوں میں حساب کتاب ٹھیک پیش کرنے میں انتہائی درجے کے ماہر تھے۔
میر منشی
میر منشی حبیب الرحمان نواب کے پرسنل سیکرٹری تھے ۔روزانہ آئے ہوئے عریضے نواب کے سامنے پیش کرنا اور ان کے اوپر احکامات کا اندراج ان کی ذمہ داری تھی ۔فارسی اور اردو کے ماہر تھے ۔اردو اور انگریزی سرکاری دستاویزات کا فارسی میں ترجمہ کیا کرتے تھے۔
سٹیٹ مرزا
نور محمد المعروف ارباب صاحب سارے تحصیلوں کے مرزاؤں کے افسر اعلیٰ تھے ۔نواب کی موجودگی میں فوج کی تقرری ،اسلحہ کی تقسیم،تنخواہ کے عوض فوج میں زمینوں کی تقسیم اور برات کی تقسیم وغیرہ ان کی ذمہ داریاں تھی
(سلمان شاہد کے کتاب گمنام ریاست "حصہ دوم " سے چند اقتباسات )