گاوری زبان اور ہماری ذمہ داری
جذبات و احسات کے اظہار کا بہترین ذریعہ زبان ہےـ سوچ، فکر و عمل اور تہذیب زبان سے مشروط ہےـ زبان صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں ہوتی بلکہ یہ فرد کو اس کے خاندان، شناخت، ثقافت، موسیقی، سماجی اقدار، اور عقائد سے جوڑتی ہےـ ہماری مادری زبان گاوری ہے جسے عام طور پر کوہستانی کہا جاتا ہےـ یہ صرف ایک زبان نہیں ہے بلکہ ہماری پہچان بھی ہےـ کیونہ زبان، ایک جانب تاریخ، تہذیب، روایات، رسومات اور ثقافتی ورثے کو ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل کرنے کا کام سرانجام دیتی ہے تو دوسری جانب ثقافت کا زبان کے بغیر پنپنا ممکن نہیں ہوتا۔ اور اسی لئے گاوری زبان ہی ہماری اصل شناخت ہےـ جس طرح ثقافت کے تحفظ کےلئے اس کا آئندہ نسلوں کو منتقل کیا جانا ضروری ہےـ اس طرح زبان کو زندہ رکھنے کےلئے ضروری ہے کہ اُسے نسل در نسل منتقل کیا جاتا رہےـ
ہم جانتے ہیں کہ کسی زبان کو ترقی دینے کےلئے بحث و مباحثہ ہی نہیں بلکہ ٹھوس اقدامات درکار ہوتے ہیں ـ تو سوال یہ ہے کہ گاوری زبان کی ترقی اور فروغ کے لئے عملی طور پر ہم نے کیا کردار ادا کیا ہے؟ کیا ہم نے اجتماعی یا انفرادی طور پر گاوری کی ترقی اور ترویج میں اپنا کردار ادا کیا ہے؟ بد قسمتی سے اس کا جواب نفی میں ہےـ ہم میں سے ہر ایک یہ تو چاہتا ہے کہ گاوری زبان ترقی کرے لیکن عملی طور پر ہم کوئی بھی کام کرنے کو تیار نہیں ہےـ ہم لوگوں نے ساری ذمہ داری محمد زمان ساگر اور ان کی گاوری کمیونٹی ڈویلپمنٹ پروگرام کے سپرد کرکے خود آرام سے ایک طرف تماشائی بن کر بیٹھے ہیں ـ اس طرح تو کوئی بھی زبان ترقی نہیں کرسکتی۔ محمد زمان ساگر صاحب اور ان کی ٹیم ایک خاص حد تک اس کی ترقی اور ترویج میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ بنیادی کام ہمارا معاشرہ اور ہمارا انفرادی کردار ہی ادا کر سکتا ہےـ اور یہ کوئی مشکل کام بھی نہیں ہے، اگر ہم سب ملک کر باتوں کے بجائے عمل اور اپنی مدد آپ کے اصولوں کو مشعل راہ بنائیں اور پورے خلوص کے ساتھ گاوری زبان کی ترقی پر کام کرنا شروع کریں تو یہ ہمارے لئے بالکل آسان ہوجائے گا۔ اور ہمارے وہ بھائی بھی جو ابھی تک ہمارے ساتھ نہیں ہیں ہمارے ساتھ آجائیں گےـ ہمارا زیادہ تر مقصد دوسروں کو گاوری زبان کے فروغ میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے قائل کرنا ہوتا ہے لیکن اُس سے زیادہ ضروری ہے کہ ہم خود گاوری زبان کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں اور گاوری زبان کو بولنے اور سننے پر فخر کریں۔ لیکن عملی طور پر ایسا نہیں ہوتا۔ ہم میں سے بہت سارے دوست اس میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں ـ
بات صرف اتنی بھی نہیں ہے بلکہ ہم اپنی زبان کی ترقی بھی چاہتے ہیں اور اس کی توہین بھی کرتے ہیں۔ ہم ان لوگوں کو عزت اور احترام نہیں دیتے جو اپنی مقامی زبان میں ہم سے مخاطب ہوتے ہیں، ہمارے معاشرے میں جو گاوری شاعر ہے ہم انہیں عزت دینے کے بجائے ان کی بے عزتی کرتے ہیں، اور انہیں ڈوم کہہ کر ان کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ کوہستان کی زرخیز مٹی بانجھ نہیں ہے۔ آج بھی ہمارے پاس گاوری زبان کے اچھے شاعر اور سنگر ہیں، لیکن وہ اپنے اس ہنر کو عام لوگوں سے چھپاتے ہیں یا پھر وہ شرم محسوس کرتے ہیں۔ ہمیں ان لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیئے نہ کہ حوصلہ شکنی، شاعری کرنا یا پھر سنگر بننا ہر ایک کی بس کی بات نہیں ہوتی، بلکہ یہ قدرت کی عطاکردہ ایک صلاحیت ہوتی ہے جو ہر ایک میں نہیں ہوتی۔ سیانے کہتے ہیں کہ کسی بھی معاشرے کو اگر ثقافتی اور معاشرتی طور پر ختم کرنا مقصود ہو، تو سب سے پہلے اُسکے کلچر بالخصوص موسیقی کو ختم کرو وہ معاشرہ خو بخود ختم ہوجائے گا، ہمارے ساتھ بھی یہی کیا گیا ہےـ ماضی قریب میں ہمارے ہاں کئی علاقائی موسیقار اور فنکار موجود تھے ـ جن کی سریلی دھنوں سے دیر کوہستان کے وادیاں گونج اٹھتی تھی ـ سمن گل استاذ، رودل استاذ، شانی استاذ، جان فقیر استاذ، فقیروٹ استاذ اور پکول استاذ. یہ سب لوگ ستار کے بہت بڑے فنکار تھے ـ
اسی طرح پیر گل، نمیر خان، شانی دور،صفت گل ، ظاہرشاہ دور وغیرہ نایاب ہیرے پائے جاتے تھے جو گاوری لوک گیت کے شاعر اور سنگر تھےـ جمال کاکا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے زمانے کا مشہور ڈول بجانے والا تھا ـ اسی طرح محمداللہ کاکا اپنے بانسری کے وجہ سے مشہور تھا ـ کہا جاتا ہے کہ محمداللہ کاکا کے مرنے کے بعد بھی چالیس دن تک ان کی بانسری کی آواز کوہستان کے گھاٹیوں اور وادیوں میں سنائی دے رہی تھی ـ یہ سب لوگ شوقیہ فنکار تھے کسی نے بھی بطور پیشہ اسے نہیں اپنایا تھاـ کوئی پیشے کے لحاظ سے کاشتکار تھا تو کوئی چرواہا ـ لیکن اپنے کلچر اور اپنی زبان سے محبت کرنے والے لوگ تھے ـ بعد میں ہمارے ہاں ایک ایسی مذہبی لہر آئی جس نے سب کچھ الٹ پلٹ کرکے رکھ دیاـ موسیقی اور شاعری کو حرام قرار دیا گیا ـ یہ حرام حلال کا چکر صرف موسیقی یا شاعری تک محدود نہ رہا بلکہ ہمارے پورے معاشرے کو یکسر تبدیل کیا گیا ـ حتیٰ کہ ہمارے قبر تک تبدیل کئے گئے ـ پرانے زمانے میں جب کسی کا انتقال ہوجاتا تو مرنے والے کے رشتہ دار اس کے مزار پر لکڑی سے بنی ہوئی خوبصورت نقش و نقار والی دونکاچہ رکھ دیتے تاکہ جنگلی جانوروں سے قبر محفوظ ہو،اور شریر جانور قبر کو نقصان نہ پہنچا سکےـ جسے گاوری زبان میں دوکان کہتے ہیں ـ
اپنےمنفرد ڈیزائن اور خوبصورتی میں یکتا یہ دونکاچہ مرنے ولے کے ساتھ ان کے رشتہ داروں کا محبت کے اظہار طور پر بھی دیکھا جاتا،بعد میں کہا گیا کہ یہ سب اسلام میں حرام ہے اور مذہب اس کی اجازت نہیں دیتاـ پھر اہستہ اہستہ قبروں سے یہ خوبصورت نقش و نگار والے یہ دونکاچے ختم ہوگے ـ ہمارے مقامی تہواروں کو خلاف شرع کہہ کر اسے منانے والوں کی حوصلہ شکنی کی گئی جس کی وجہ سے صدیوں سے رائج یہ تہوار صفحہ ہستی سے مٹ گئے ـ موسم بہار کی آمد کی خوشی میں منانے والا تہوار بسنوں آیان ـ فصل سنبھالنے کے بعد کا تہوارشاری آیان، جس میں لوک موسیقی کی محفلیں منعقد ہوا کرتی تھی ان سب کا نام و نشان مٹ گیا ـ علاقائی موسقاروں اور شاعروں کی حوصلہ شکنی کے بعد ایک خلاں پیدا ہوا کیونکہ نوجوان نسل چاہئے وہ کسی بھی زمانے سے تعلق رکھتے ہوں موسیقی سننے پر مجبور ہوتے ہیں بقول شاعر
ہم جانتے ہیں کہ کسی زبان کو ترقی دینے کےلئے بحث و مباحثہ ہی نہیں بلکہ ٹھوس اقدامات درکار ہوتے ہیں ـ تو سوال یہ ہے کہ گاوری زبان کی ترقی اور فروغ کے لئے عملی طور پر ہم نے کیا کردار ادا کیا ہے؟ کیا ہم نے اجتماعی یا انفرادی طور پر گاوری کی ترقی اور ترویج میں اپنا کردار ادا کیا ہے؟ بد قسمتی سے اس کا جواب نفی میں ہےـ ہم میں سے ہر ایک یہ تو چاہتا ہے کہ گاوری زبان ترقی کرے لیکن عملی طور پر ہم کوئی بھی کام کرنے کو تیار نہیں ہےـ ہم لوگوں نے ساری ذمہ داری محمد زمان ساگر اور ان کی گاوری کمیونٹی ڈویلپمنٹ پروگرام کے سپرد کرکے خود آرام سے ایک طرف تماشائی بن کر بیٹھے ہیں ـ اس طرح تو کوئی بھی زبان ترقی نہیں کرسکتی۔ محمد زمان ساگر صاحب اور ان کی ٹیم ایک خاص حد تک اس کی ترقی اور ترویج میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ بنیادی کام ہمارا معاشرہ اور ہمارا انفرادی کردار ہی ادا کر سکتا ہےـ اور یہ کوئی مشکل کام بھی نہیں ہے، اگر ہم سب ملک کر باتوں کے بجائے عمل اور اپنی مدد آپ کے اصولوں کو مشعل راہ بنائیں اور پورے خلوص کے ساتھ گاوری زبان کی ترقی پر کام کرنا شروع کریں تو یہ ہمارے لئے بالکل آسان ہوجائے گا۔ اور ہمارے وہ بھائی بھی جو ابھی تک ہمارے ساتھ نہیں ہیں ہمارے ساتھ آجائیں گےـ ہمارا زیادہ تر مقصد دوسروں کو گاوری زبان کے فروغ میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے قائل کرنا ہوتا ہے لیکن اُس سے زیادہ ضروری ہے کہ ہم خود گاوری زبان کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں اور گاوری زبان کو بولنے اور سننے پر فخر کریں۔ لیکن عملی طور پر ایسا نہیں ہوتا۔ ہم میں سے بہت سارے دوست اس میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں ـ
بات صرف اتنی بھی نہیں ہے بلکہ ہم اپنی زبان کی ترقی بھی چاہتے ہیں اور اس کی توہین بھی کرتے ہیں۔ ہم ان لوگوں کو عزت اور احترام نہیں دیتے جو اپنی مقامی زبان میں ہم سے مخاطب ہوتے ہیں، ہمارے معاشرے میں جو گاوری شاعر ہے ہم انہیں عزت دینے کے بجائے ان کی بے عزتی کرتے ہیں، اور انہیں ڈوم کہہ کر ان کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ کوہستان کی زرخیز مٹی بانجھ نہیں ہے۔ آج بھی ہمارے پاس گاوری زبان کے اچھے شاعر اور سنگر ہیں، لیکن وہ اپنے اس ہنر کو عام لوگوں سے چھپاتے ہیں یا پھر وہ شرم محسوس کرتے ہیں۔ ہمیں ان لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیئے نہ کہ حوصلہ شکنی، شاعری کرنا یا پھر سنگر بننا ہر ایک کی بس کی بات نہیں ہوتی، بلکہ یہ قدرت کی عطاکردہ ایک صلاحیت ہوتی ہے جو ہر ایک میں نہیں ہوتی۔ سیانے کہتے ہیں کہ کسی بھی معاشرے کو اگر ثقافتی اور معاشرتی طور پر ختم کرنا مقصود ہو، تو سب سے پہلے اُسکے کلچر بالخصوص موسیقی کو ختم کرو وہ معاشرہ خو بخود ختم ہوجائے گا، ہمارے ساتھ بھی یہی کیا گیا ہےـ ماضی قریب میں ہمارے ہاں کئی علاقائی موسیقار اور فنکار موجود تھے ـ جن کی سریلی دھنوں سے دیر کوہستان کے وادیاں گونج اٹھتی تھی ـ سمن گل استاذ، رودل استاذ، شانی استاذ، جان فقیر استاذ، فقیروٹ استاذ اور پکول استاذ. یہ سب لوگ ستار کے بہت بڑے فنکار تھے ـ
اسی طرح پیر گل، نمیر خان، شانی دور،صفت گل ، ظاہرشاہ دور وغیرہ نایاب ہیرے پائے جاتے تھے جو گاوری لوک گیت کے شاعر اور سنگر تھےـ جمال کاکا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے زمانے کا مشہور ڈول بجانے والا تھا ـ اسی طرح محمداللہ کاکا اپنے بانسری کے وجہ سے مشہور تھا ـ کہا جاتا ہے کہ محمداللہ کاکا کے مرنے کے بعد بھی چالیس دن تک ان کی بانسری کی آواز کوہستان کے گھاٹیوں اور وادیوں میں سنائی دے رہی تھی ـ یہ سب لوگ شوقیہ فنکار تھے کسی نے بھی بطور پیشہ اسے نہیں اپنایا تھاـ کوئی پیشے کے لحاظ سے کاشتکار تھا تو کوئی چرواہا ـ لیکن اپنے کلچر اور اپنی زبان سے محبت کرنے والے لوگ تھے ـ بعد میں ہمارے ہاں ایک ایسی مذہبی لہر آئی جس نے سب کچھ الٹ پلٹ کرکے رکھ دیاـ موسیقی اور شاعری کو حرام قرار دیا گیا ـ یہ حرام حلال کا چکر صرف موسیقی یا شاعری تک محدود نہ رہا بلکہ ہمارے پورے معاشرے کو یکسر تبدیل کیا گیا ـ حتیٰ کہ ہمارے قبر تک تبدیل کئے گئے ـ پرانے زمانے میں جب کسی کا انتقال ہوجاتا تو مرنے والے کے رشتہ دار اس کے مزار پر لکڑی سے بنی ہوئی خوبصورت نقش و نقار والی دونکاچہ رکھ دیتے تاکہ جنگلی جانوروں سے قبر محفوظ ہو،اور شریر جانور قبر کو نقصان نہ پہنچا سکےـ جسے گاوری زبان میں دوکان کہتے ہیں ـ
اپنےمنفرد ڈیزائن اور خوبصورتی میں یکتا یہ دونکاچہ مرنے ولے کے ساتھ ان کے رشتہ داروں کا محبت کے اظہار طور پر بھی دیکھا جاتا،بعد میں کہا گیا کہ یہ سب اسلام میں حرام ہے اور مذہب اس کی اجازت نہیں دیتاـ پھر اہستہ اہستہ قبروں سے یہ خوبصورت نقش و نگار والے یہ دونکاچے ختم ہوگے ـ ہمارے مقامی تہواروں کو خلاف شرع کہہ کر اسے منانے والوں کی حوصلہ شکنی کی گئی جس کی وجہ سے صدیوں سے رائج یہ تہوار صفحہ ہستی سے مٹ گئے ـ موسم بہار کی آمد کی خوشی میں منانے والا تہوار بسنوں آیان ـ فصل سنبھالنے کے بعد کا تہوارشاری آیان، جس میں لوک موسیقی کی محفلیں منعقد ہوا کرتی تھی ان سب کا نام و نشان مٹ گیا ـ علاقائی موسقاروں اور شاعروں کی حوصلہ شکنی کے بعد ایک خلاں پیدا ہوا کیونکہ نوجوان نسل چاہئے وہ کسی بھی زمانے سے تعلق رکھتے ہوں موسیقی سننے پر مجبور ہوتے ہیں بقول شاعر
تش د تسبو په ټکار هم نه کیږی
ژوندون ټکور غواړی او ټنګ غواړی
تو اس خلاں کو دوسری زبانوں کے موسیقی نے پُر کیا اور آج حال یہ ہے کہ دوسری زبانوں کی موسیقی کو ہماری نوجوان نسل نے اس طرح اپنے گلے لگا لیا ہے جیسے ہماری زبان میں لفظ موسیقی کا کوئی وجود ہی نہ ہو،اگر آج ہمارے نوجوان دوسروں کی موسیقی سے متاثر ہو رہے ہیں تو کیا ہم دوسروں کو اپنی موسیقی سے متاثر نہیں کر سکتے؟ اپنی زبان کو ترقی دینے کی خواہش ہے تو ہمیں مقامی شعراء اور سنگرز کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی ـ انہیں بتانا ہوگا کہ آپ ہمارا سرمایہ ہیں۔ ہمارے لئے قابل عزت اور قابل احترام ہیں، ان کو احساس کمتری سے نکالنا ہوگا، اپنے معاشرے کو تبدیل کرنا ہوگا تاکہ ہمارے ہاں بھی شینا، کھوار اور توروال کے طرح لوگوں میں مقامی شعراء اور سنگرز کو کمتر نہیں بلکہ قابل عزت مقام مل جائے۔ اس کے دو فائدے ہیں ایک تو ہماری زبان میں بھی شینا کھوار کے طرح شعرا اور سنگرز پیدا ہوجائینگے اور دوسرے وہ نوجوان جو دوسروں کی موسیقی سن کر اپنے زبان سے بیگانگی کا اظہار کرتے ہیں ان مین بھی اپنے زبان اور کلچر سے محبت کا جذبہ بیدار ہوجائے گا۔ کیونکہ نوجوان نسل صرف موسیقی ہی سے متاثر ہوتا ہےـ
موسیقی ہی سب کچھ نہیں ہے ہمیں چاہیئے کہ مقامی سطح پر اپنی مدد آپ کے تحت گاوری زبان کے متعلق اگاہی پروگرام منعقد کریں۔ اور لوگوں کو مادری زبان کی اہمیت و افادیت کے بارے میں بتائیں، اس کے علاوہ گاوری سییکھنے کے کےپروگرام منعقد کئے جائیں تاکہ ہمارے وہ بھائی جو کوہستانی ہونے کے باوجود اپنے زبان نہیں سمجھتے وہ بھی گاوری زبان سمجھنے اور بولنے کے قابل ہوجائیں۔سوشل میڈیا کو اس کام کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہےـ گاوری ہماری پہچان ہے، اپنی پہچان کو بچانے کیلئے ہمیں آگے آنا ہوگا، ہم میں سے ہر ایک نے اپنے حصے کا کردار ادا کرنا ہوگا، تب جاکر گاوری ترقی کریگی۔ صرف ستار بجانے سے کام نہیں ہوگا ہمیں وقت کے تقاضوں کے مطابق اپنے معاشرے اور اپنے آپ کو تبدیل کرنا ہوگا اور اپنے معاشرے میں شاعر،ادیب اور سنگر کو ایک جیسا قابل احترام مقام دینا ہوگا، تب جاکر گاوری زبان صحیح معنوں میں ترقی کر سکتی ہےـ مجھے معلوم ہے کہ ہمارے معاشرے میں موسیقی پر بات کرنا مشکل ہوتا ہے اور اسے ایک غلط موضوع سمجھا جاتا ہے، اور موسیقی کی بات کرنے والے کو ڈوم کہا جاتا ہےـ ہو سکتا ہے آپ میں سے بہت سارے میرے بارے میں بھی ایسا ہی سوچ رکھتے ہو لیکن میں کسی کے سوچ پر پابندی نہیں لگا سکتا، آپ وہیں سوچیں جو آپ کو اچھا لگےـ میں وہی سوچتا ہوں جو مجھے اچھا لگتا ہےـ میں کسی شاعر،سنگر کو ڈوم نہیں سمجھتا بلکہ میں اسے اپنی زبان کی خدمت کرنے والا سمجھتا ہوں، چاہے کسی کو برا لگے یا اچھا لیکن میں وہی کچھ لکھتا ہوں جسے میں بہتر سمجھتا ہوں۔ میں کسی خوف سے اپنے خیالات نہیں دبا سکتا۔۔۔۔۔
عمران خان آذاد کا تعلق دیر کوہستان کے گاؤں کلکوٹ سے ہیں ۔ موصوف فیس بک پر گمنام کوہستانی کے نام سے علاقے کے خدمت میں مصروف ہے ۔
موسیقی ہی سب کچھ نہیں ہے ہمیں چاہیئے کہ مقامی سطح پر اپنی مدد آپ کے تحت گاوری زبان کے متعلق اگاہی پروگرام منعقد کریں۔ اور لوگوں کو مادری زبان کی اہمیت و افادیت کے بارے میں بتائیں، اس کے علاوہ گاوری سییکھنے کے کےپروگرام منعقد کئے جائیں تاکہ ہمارے وہ بھائی جو کوہستانی ہونے کے باوجود اپنے زبان نہیں سمجھتے وہ بھی گاوری زبان سمجھنے اور بولنے کے قابل ہوجائیں۔سوشل میڈیا کو اس کام کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہےـ گاوری ہماری پہچان ہے، اپنی پہچان کو بچانے کیلئے ہمیں آگے آنا ہوگا، ہم میں سے ہر ایک نے اپنے حصے کا کردار ادا کرنا ہوگا، تب جاکر گاوری ترقی کریگی۔ صرف ستار بجانے سے کام نہیں ہوگا ہمیں وقت کے تقاضوں کے مطابق اپنے معاشرے اور اپنے آپ کو تبدیل کرنا ہوگا اور اپنے معاشرے میں شاعر،ادیب اور سنگر کو ایک جیسا قابل احترام مقام دینا ہوگا، تب جاکر گاوری زبان صحیح معنوں میں ترقی کر سکتی ہےـ مجھے معلوم ہے کہ ہمارے معاشرے میں موسیقی پر بات کرنا مشکل ہوتا ہے اور اسے ایک غلط موضوع سمجھا جاتا ہے، اور موسیقی کی بات کرنے والے کو ڈوم کہا جاتا ہےـ ہو سکتا ہے آپ میں سے بہت سارے میرے بارے میں بھی ایسا ہی سوچ رکھتے ہو لیکن میں کسی کے سوچ پر پابندی نہیں لگا سکتا، آپ وہیں سوچیں جو آپ کو اچھا لگےـ میں وہی سوچتا ہوں جو مجھے اچھا لگتا ہےـ میں کسی شاعر،سنگر کو ڈوم نہیں سمجھتا بلکہ میں اسے اپنی زبان کی خدمت کرنے والا سمجھتا ہوں، چاہے کسی کو برا لگے یا اچھا لیکن میں وہی کچھ لکھتا ہوں جسے میں بہتر سمجھتا ہوں۔ میں کسی خوف سے اپنے خیالات نہیں دبا سکتا۔۔۔۔۔
عمران خان آذاد کا تعلق دیر کوہستان کے گاؤں کلکوٹ سے ہیں ۔ موصوف فیس بک پر گمنام کوہستانی کے نام سے علاقے کے خدمت میں مصروف ہے ۔