نواب دیر کا ذرائع آمدن
دیر پر کئی سالوں تک نوابان دیر نے حکومت کی۔ دور نوابی میں آمدن کے ذرائع کیا تھے اور پیسے کہاں سے ملتی تھی اس عنوان پر گمنام ریاست کے منصنف سلیمان شاہد نے تفصیل کے ساتھ بحث کیا ہے ۔گمنام ریاست حصہ دوئم میں منصف نے لکھا ہے کہ نواب اول خان محمد شریف خان کو انگریز حکومت نے 1885 ء روپے سالانہ دس ہزار مقرر کیے تھے ۔نواب دوئم اورنگزیب کے دور حکومت میں انگریز حکومت نے یہ وظیفہ بڑھاکر پچاس ہزار روپے سالانہ مقرر کر دیا تھا ۔جب 1925ء میں نواب دیر کا تاج شاہ جہان کے سر سجھا تو انگریزحکومت نے وظیفہ مذید بڑھا کر ایک لاکھ روپے مقرر کردیے ، اور اس کے بعد ہر سال کتنی بڑھوتری کی گئی،کسی کو معلوم نہیں ہے۔عام لوگوں کاخیال ہے کہ انگریز حکومت سے ملنے والی وظیفہ عوام سے چھپا دیا گیا تھا لیکن میں اس بات سے متفق نہیں ہوں کیونکہ اس وقت عوام ،نواب دیر کے سامنے اف تک نہیں کہ سکتے تو وظیفے کے بارے میں کیا پوچھتے۔ سلیمان شاہد کے مطابق الہ ڈھنڈ کے ایک بزرگ جس کا نام اکبر تھا اور جو حکومت پاکستان کے ایک انجینئر کے حثیت سے چکدرہ تا لواری سڑک کے مرمت کے کام کا انچار ج تھا ،نے انکشاف کیا تھا کہ حکومت پاکستان نواب دیر کو لواری ٹاپ سے برف ہٹانے اور سڑک کی تعمیر ومرمت کے لیےچھ لاکھ روپے سالانہ اد ا کرتے تھے ۔اس کے علاوہ جرمانوں کے مد میں ،بسوں کی کرائیوں اور دیر،تیمرگرہ اور چکدرہ کے تیل کی پمپوں سے بھی نواب دیر کو بہت زیادہ آمدن ملتا تھا ۔ریاست دیر میں نواب دیر نے ہوٹل بھی تعمیر کیے تھے جس سے آمدن ملتا تھا ۔آمدن کے مذید ذرائع ذیل تھے :۔
چونگی محصولات
ایرانی سیاح محمود دانشور اپنے کتاب بسوئے کا فرستان میں رقم طراز ہے کہ 1951ء میں چکدہ چونگی پر ٹیکس کا ٹھیکہ دولاکھ تیس ہزار کابلی روپوں کے عوض عبدالمجید ٹھیکدار کے پاس تھا ۔ بعد یہ ٹھیکہ چار لاکھ کابلی تک بڑھادیا گیا،اس کے علاوہ بھی بہت سے ٹیکس سنٹر ز تھے جس کے ٹھیکے خال کے بادشاہ محمد ٹھیکدار،اوچ کے عبدالمجید ٹھیکدار اور چکدرہ کے مجید اللہ ٹھیکدار کے پاس تھے ۔
منڈیاں
نواب دیر نے مختلف جگہوں پر منڈیا ں بھی بنائی تھی ،دیر خاص، چکدرہ ، تیمرگرہ اور میاں کلے میں واقع منڈیاں بھی ٹھیکے پر دی گئی تھی ۔تیمرگرہ منڈی کے ٹھیکے ملک نظیر محمد سکنہ دیارون،محمد شاہ خان ملک خیمہ اور ملک سید روز خان سکنہ انڈھیرے کے پاس مختلف زمانوں میں رہے تھے ۔
(عشر(اناج ٹیکس
ریاست دیر کے آمدن کا سب سے بڑا ذریع عشر تھا ۔فصل تیار کرنے کے بعد کسان اس قت فصل کھلیاں(درمند ) سے نہ اٹھاتے جب تک نوا ب دیر کے کارندے جسے ماصل کہا جاتے تھے آکر اس کا وزن کرکے فصل کا دسواں حصہ علیحدہ نہ کرتے ۔ اگر کوئی ہیرا پھیر ی کرتے یا فصل چھپاتے تھے تو اس کا جرم قتل کے جرم کے برابر تھا ۔قتل کرنے پر پانچ سو روپے جرمانہ ادا کرنا پڑتا اور اناج چھپانےپر بھی۔اس کے علاوہ دیر لوئر کے علاقہ رباط کے اخروٹ کے فی درخت پر دو روپے ٹیکس رائج تھا جس کے بدلے نواب کے سپاہی اخروٹ لے جاتے تھے ۔
قلنگ
قلنگ کے مد میں بھی نواب دیر عوام سے بہت سے پیسے بٹورتے تھے ۔قلنگ کے مد میں تحصیل داران گجر برادری کے بھیڑ بکریا اور کوہستانی قبائل سے دیسی گئی وصول کرتے تھے ۔ ایک دفعہ ایک پاکستانی افسر کے پوچھنے پر نواب دیر نے ان سے کہا تھا کہ "میری ریاست میں اتنی دیسی گھی ہے کہ اس پر پن چکی چلائی جا سکتی ہے "یہ بھڑ بکریاں اورگھی مقامی دوکان داروں پر فی من دس روپے فروخت کیے جاتے تھے ۔
اس کے علاوہ شاہی باغات ، زمینوں کے ٹیکس، گاؤں کے اجارہ داری ، جنگلا ت کے قیمتی درخت اور مقامی ملکانان سے بھی بہت کچھ نواب دیر کے خزانے میں جمع ہوتے تھے ۔ ایک اندازے کے مطابق جب نواب دیر معزول ہوا تو اس وقت ان کے خزانے میں اربوں روپے تھے جس کو حکومت پاکستان نے اپنے قبضے میں لیے اور نواب دیر کے جانشین ،نواب خسرو کے نااہلی کے سبب دیر عوام کے لوٹ ہوئے روپے دیر عوام کے فلاح و بہبود پر خر چ نہ ہو سکے۔
(گمنام ریاست سے ماخوز)
اس کے علاوہ شاہی باغات ، زمینوں کے ٹیکس، گاؤں کے اجارہ داری ، جنگلا ت کے قیمتی درخت اور مقامی ملکانان سے بھی بہت کچھ نواب دیر کے خزانے میں جمع ہوتے تھے ۔ ایک اندازے کے مطابق جب نواب دیر معزول ہوا تو اس وقت ان کے خزانے میں اربوں روپے تھے جس کو حکومت پاکستان نے اپنے قبضے میں لیے اور نواب دیر کے جانشین ،نواب خسرو کے نااہلی کے سبب دیر عوام کے لوٹ ہوئے روپے دیر عوام کے فلاح و بہبود پر خر چ نہ ہو سکے۔
(گمنام ریاست سے ماخوز)