A STORY OF TOURIST FROM LAHORE TO KUMRATVALLEY PART-III
جہاز بھانڈا جائے بغیر وادی کمراٹ کی سیاحت مکمل نہیں ہوتی۔ یہ مقام اپنے نام سے جتنا بھونڈا لگتا ہے درحقیقت اس سے بالکل مختلف ہے۔ چار پانچ گھنٹوں کی ٹریکنگ کے بعد جس مقام پر آپ پہنچتے ہیں وہاں قدرت کا حسن اپنے جوبن پر نظر آتا ہے۔ سرسبز چراگاہوں اور ان سے پرے پہاڑوں کے حسین پس منظر میں دیودار کے درختوں کے ساتھ بادلوں کی اٹھکیلیاں ایک دلفریب منظر پیش کرتی ہیں جہاں سیاح اپنے سفر کی تمام کلفتیں بھول جاتا ہے۔
اسی طرح کالا چشمہ کا مقام ٹھنڈے یخ پانی میں پاؤں ڈال کر بیٹھنے، خالص ہوا اور ماحول کا لطف لینے کے لیے بہترین جگہ ہے۔ پرندوں کی چہچہاہٹ اور دریا کے بہتے پانی کی آواز ماحول میں جو قدرتی موسیقیت پیدا کرتی ہے اس پر کئی ساز قربان کیے جا سکتے ہیں۔ ساری شام وہاں بتانے کو جی چاہتا ہے۔ شہروں کے کثافت ذدہ اور آلودہ ماحول سے تنگ باشندوں کو یہ سرسبز و شاداب پر سکون وادی ایک گوشہ عافیت مہیا کرتی ہے جہاں صرف آنکھیں موندھ کر انسان اپنے آپ کو اس آسودہ ماحول کا حصہ بنا کر دنیا سے بلند کسی جنت کے ماحول میں تصور کر سکتا ہے۔ وہ ایک چمکتا دن تھا۔ سورج اوپر اپنی شعاعیں بکھیر رہا تھا۔ ہم پنجکوڑہ دریا کے کنارے بیٹھ گئے۔ دریا کے کنارے سبز گھاس یوں بچھی تھی گویا قدرت نے ہمارے وہاں بیٹھنے کا خصوصی انتظام کیا تھا۔ سامنے دریا کا پانی سیدھے سبھاؤ بہہ رہا تھا۔ دیودار کے درخت کی اپنی ہی ایک شان ہوتی ہے۔ تکونوں کی مانند نیزوں کی طرح زمین کے سینے میں گڑے تناور درخت۔۔۔۔ قدرت نے اپنے اس چمن کی سجاوٹ کے لئے یہاں ان کا انتخاب کیا تھا جس پر وہ نازاں ہونے میں حق بجانب تھے۔ مگر جگہ جگہ کٹے ہوئے تنے پانی میں بے یار و مددگار پڑے اپنی بے بسی کی دہائی بھی دیتے تھے۔ دور کسی گلیشئیر سے پگھل کر آنے والا سرد پانی پتھریلے راستوں سے ہوتا ہوا نامعلوم منزلوں کی طرف گامزن تھا۔ شفاف پانی کی سطح کے نیچے پڑے پتھر صاف دکھائی دیتے تھے۔ ہم نے اپنی ہتھیلی پر پانی کا ایک چلو بھر کر اسے غور سے دیکھا جو جنت کے کسی چشمے کا حصہ معلوم ہوتا تھا۔ ٹھنڈے شفاف پانی کی بھی ایک عجب تاثیر ہوتی ہے۔ اسے حلق میں انڈیلا تو روح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی۔ یوں لگا جیسے انگور کی کسی جھکی بیل سے رس بھرا تازہ انگور توڑ کر منہ میں رکھ کیا ہو۔ ایسا خالص صحت بخش ان چھوا پانی شہر والوں کو بوتلوں میں بھی کہاں نصیب ہوتا ہو گا۔ دور دریا کے دوسرے کنارے چند گائیں چر رہی تھیں ایک شوخ زرد رنگ کی گائے پر ہماری نظریں گڑ گئیں۔ ہمیں بنی اسرائیل کی گائے یاد آ گئی جس کا ذکر اللہ تعالی نے سورہ بقرہ میں کر کے اسے امر کر رکھا ہے۔
نجانے کتنی دیر وہاں بیٹھے ہم اپنی قسمت پر نازاں رہے۔ پھر لوٹنے کا وقت ہوا۔ عصر کا وقت ہو رہا تھا۔ اسی جنت کے چشمے سے وضو کرنے کا ارادہ کیا۔ جوتے اتارے۔ پتلون کے پائنچے چڑھائے اور پانی میں پاؤں ڈال دیے۔ وضو شروع کیا، چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے تو لگا کہ ساری تھکان اتر گئی ہو۔ اس ایک وضو نے لاہور سے کالا چشمہ تک کے پر مشقت سفر کو راحت میں بدل دیا تھا۔ دل کیا کہ وضو ہی کیے جائیں۔
معاذ اور فرخ ہمیشہ کی طرح یہاں بھی اپنا ذاتی ہٹ بنانے کا پلان کر رہے تھے جہاں وہ گرمیوں کی چھٹیوں میں آیا کریں گے تو خوب انجوائے کریں گے۔ ہٹ کا سامان کالا چشمہ تک پہنچانے کا ذریعہ زیر غور تھا کہ دفعتا معاذ کا موبائل بج اٹھا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اسے کال سننا پڑی اور دوسرے لمحے لائیو اسلام آباد سے اس کی آن لائن کلاس کا آغاز ہو گیا۔ کل سے گھر فون کیوں نہیں کیا۔۔۔ تماشا بنا رکھا ہے۔۔۔۔ گھر کا کوئی خیال نہیں ہے۔۔۔۔ دھنیا ختم ہو چکا ہے۔۔۔ منے نے سوئی منہ میں ڈال لی ہے۔۔۔۔ صرف دو ڈائپرز باقی رہ گئے ہیں وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔ اس موقع پر پہلی بار اپنے موبائل کے سگنلز نہ آنے پر ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا۔
اٹھے تو دور سے ایک نوجوان ہمیں بھاگتا ہوا اپنی طرف آتا دکھائی دیا۔ وہ دور سے ہمیں پکار رہا تھا مگر سنائی نہ دیتا تھا کہ کیا کہہ رہا ہے۔ قریب آ کر کسی انجان زبان میں ہم سے مخاطب ہوا۔ جانے پشتو تھی یا کوہستانی۔ ہمیں کچھ سمجھ نہ آئی۔ اس سے کہا بھلے آدمی اردو میں بات کرو۔ پھر وہ ٹوٹی پھوٹی اردو میں بولا کہ کیا آپ کے پاس درد دور کرنے کی دوا ہے۔ اس کے کسی دوست کو چوٹ لگی تھی۔ معاذ نے اسے دوا دی۔ معاذ سفر میں تمام ناگزیر اشیا ساتھ رکھنا ضروری خیال کرتا ہے اس کی زنبیل میں نہ صرف درد دور کرنے کی دوا بلکہ مرہم پٹی کے ساتھ ساتھ کنگھی پٹی کا بھی پورا بندوبست ہوتا ہے۔ کریمیں، لوشن، تیل، سن بلاک، صابن، شیمپو، سرخی پوڈر اور نجانے کیا کیا الم غلم۔ مگر اس سفر پر یہ ساری تیاری کچھ زیادہ کام نہ آئی کیونکہ جن پریوں کا تذکرہ ہم نے سن رکھا تھا یہاں ان کے ساتھ سامنا کم ہی ہو سکا تھا۔ چھٹیاں ختم ہو کر کالج اسکول کھل جو چکے تھے۔
واپسی کا سفر جیپ میں ہی کرنا تھا لیکن کچھ دور تک ہم پیدل چلے۔۔۔۔ جیپ کی رفتار بھی اس کچے راستے پر پیدل کے برابر ہی تھی۔ چند اور گاڑیاں بھی اس نام نہاد سڑک پر جھومتی جھامتی چلی جاتی تھیں جن پر ان گنت افراد لٹک رہے ہوتے تھے۔ واپسی پر جیپ کے ڈرائیور سے ہم نے کہا کہ کسی ہوٹل پر چائے کے لئے رکو۔ اس نے آنے والے دو تین ہوٹلوں کے سامنے سے گاڑی گزار دی اور روکا نہیں۔ پھر لکڑی اور ٹین کے بنے ایک ہوٹل پر جیپ روکی۔ ہم نے چائے کا آرڈر دیا۔ چائے آئی تو لگا کہ جیسے گرم پانی اور دودھ کے محلول کو چائے جیسا رنگ دینے کے لئے اس میں کچھ ملایا گیا تھا۔ خیر اسے چائے سمجھ کر ہم پی گئے۔ جب ڈرائیور کو چلنے کا کہا تو اس نے جواب دیا ٹھہرو ام کھانا کھا رہا ہے۔ تب ہمیں اس ہوٹل پر رکنے کا راز سمجھ میں آیا۔ ابھی واپسی کا سفر شروع کیا جائے یا صبح کا انتظار کرنا چاہیے؟ تھل واپسی کے دوران یہ وہ سوال تھا جو ہمارے سامنے زیر غور تھا۔ رات وہاں رکتے تو آرام کر لیتے اور صبح تازہ دم سفر کا آغاز کرتے۔ رات کا سفر کرتے تو وقت بچتا تھا جو دفتر سے مفرور حضرات کے لئے خاصی اہمیت کا حامل تھا۔
مسلسل سفر کے بعد ایک مرحلہ آتا ہے جب انسان تھکاوٹ سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ تب نیند ستاتی ہے نہ بے آرامی۔ جسم پتھر کا ہو جاتا ہے۔ تب انسان اپنے آپ کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے۔ ہم اس مرحلے پر پہنچ چکے تھے۔ ہم میں سے جو ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتا وہ وہیں جم جاتا تھا۔ پھر اسی زائد از ضرورت اعتماد کے بل بوتے ہم نے رات کے وقت ہی تھل سے واپسی کے سفر کا فیصلہ کر لیا۔ راستہ خراب تھا اور رات کا پہاڑی سفر خطرناک بھی ہو سکتا تھا۔