ہر سو خاموشی کا راج تھا جس میں فقط گاڑی کے انجن کی مدھم سی آواز ارتعاش پیدا کرتی تھی۔ اترائی اترتے انجن کی مخصوص آواز اور کبھی معمولی سی چڑھائی پر گھن گرج وہ موسیقی تھی جو رات کے پہاڑی سفر پر سہمے ہوئے شہری سیاح سنتے جاتے تھے۔ راستہ کچا تھا۔ گاڑی کی ہیڈ لائیٹس کی روشنی میں دیر روڈ پر پڑے پتھر چمکتے تھے۔ کبھی کبھار آگے جاتی گاڑی سے اٹھنے والی دھول ہم تک پہنچتی تو یوں لگتا جیسے سردیوں کی ٹھٹھرتی رات میں دھند کے بادل چھا گئے ہوں۔ چند لمحوں کے لیے گرد میں راستہ کھو سا جاتا تھا مگر جب دھند چھٹتی تو گاڑی کی روشنی اور چاند کی چاندنی کا امتزاج پھر سے شروع ہو جاتا جس میں دیر روڈ کے پتھر چمکتے تھے۔
دل میں کہیں یہ دھڑکا بھی چھپا بیٹھا تھا کہ اگر رات کے اس پہر گاڑی کے ساتھ کوئی مسئلہ ہو گیا تو کیا بنے گا۔۔۔۔ مگر اس خوف سے کہ یہ خدشہ صرف بولنے سے ہی حقیقت کا روپ نہ دھار لے ہم سب خاموش تھے۔ راستے میں آنے والی تمام آبادیاں سو چکی تھیں۔ دکانیں بند تھیں۔ روشنیاں گل تھیں۔ صرف ایک چاند ہمارے ساتھ ساتھ چلتا تھا۔ کبھی کبھار جب کوئی ٹرک سامنے سے آ جاتا تو اسے راستہ دینے کے لئے معاذ کو گاڑی انتہائی بائیں جانب لے جانی پڑتی تھی جہاں ہم تھوک نگلتے ہوئے اللہ کو یاد کرتے تھے۔ خلیل ہاتھ میں موبائل پکڑے جی پی ایس سے راستہ دیکھتا جاتا تھا جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتا تھا۔
پنجکوڑہ دریا کا پانی چاند کی چاندنی میں چمکتا تھا۔۔۔۔ اس کی منزل دریائے سوات تھی جس میں شامل ہو کر اس نے اپنی ہستی کو اس میں سمو دینا تھا پھر دریائے سوات نے اپنے آپ کو دریائے کابل کے سپرد کرنا تھا جس نے بالآخر سندھ میں جا کر مدغم ہونا تھا۔ دریائے سندھ کو پختونخواہ میں "اباسین" کہا جاتا ہے یعنی دریاؤں کا باپ۔ اور اسی سندھ کی شفقت پدری سے ایک جہاں سیراب ہوتا ہے۔ سندھ ساگر جنم لیتا ہے۔ ایک تہذیب نمو پاتی ہے۔ یہی دریاؤں کا مقدر ہے۔ دوسروں کو سیراب کرنا کسی کی کھیتی ہری کر دینا کسی کے خشک و بنجر دامن کو آباد و شاد کر دینا یہی دریاؤں کا وطیرہ ہے۔
تو ہم اسی پنجکوڑہ کے سنگ دیر بالا کی طرف گامزن تھے۔ اسی طرح ہم اترتے رہے کمراٹ کے درخت پیچھے چھوڑتے گئے۔ چاند اور پنجکوڑہ ہمارے ساتھ چلتے رہے۔ رات بھیگتی رہی۔ سفر کٹتا رہا۔ مردان کو جانے والی قومی شاہراہ ہماری منزل تھی جو ایک طرف چترال کو جاتی تھی اور دوسری طرف سے ساری ملک کو ملاتی تھی۔ یہ شاہراہیں بھی عجب ماؤں جیسے کردار کی حامل ہوتی ہیں کتنی بھی ناپختہ ہوں یا ٹوٹ پھوٹ جائیں اپنے سے وابستہ لوگوں کو آپس میں ملانے کا کام کرتی رہتی ہیں۔ جلد یا بدیر بچھڑے ہوؤں کو آپس میں ملا ہی دیتی ہیں۔ انہی شاہراہوں کی بدولت حرکت ہے انہی کے دم سے زندگی کا نظام قائم ہے۔ ان پر سفر کر کے ہی سیاح اپنی محبوب وادیوں کے دامن تک پہنچتے ہیں اور یہی اپنوں کو اپنوں سے جوڑتی ہیں۔
سورج کی کرنوں کی آمد ہوا چاہتی تھی۔۔۔۔ ذرا سا سفیدہ پہاڑوں کی آوٹ سے جھانکنے لگا تھا جب ناپختہ دیر روڈ پختہ دیر مالاکنڈ روڈ سے گلے ملتی تھی اور ان پر سفر کرتے پورے چاند کی رات کے مسافر اسلام آباد کا راستہ پکڑتے تھے۔ سڑک صاف تھی اور خاموش بھی جہاں دن کے وقت بھاری بھرکم ٹرکوں اور بسوں کے قافلے رواں دواں رہتے تھے اس وقت وہ بھی شاید محو خواب تھی۔ اس خاموش سڑک کا سکوت ایک گاڑی کے انجن کی گرج نے توڑا تھا جس میں کمراٹ کی وادی کے سیاح سوار تھے جو ادھ کھلی آنکھوں اور بوجھل پپوٹوں کے ساتھ راستے کو تکتے تھے اور گاڑی کی نشستوں پر پہلو بدلتے ہوئے سنگ میل ڈھونڈتے تھے جو بتاتا تھا کہ اسلام آباد 310 کلو میٹر ہے۔ گاڑی دیر مالاکنڈ روڈ کی پختہ سڑک پر دوڑتی چلی جاتی تھی آگے اسلام آباد تھا کمراٹ کی وادی دور کہیں پیچھے تھی اور سیاحوں کے دل وہیں کہیں کمراٹ کی وادی میں کھو چکے تھے۔ (ختم شد)