اٹھارہ گھنٹوں کے مسلسل اور تھکا دینے والے سفر کے بعد ہم "تھل" پہنچے تھے۔ خیبر پختونخواہ کے ضلع دیر میں واقع
وادی کمراٹ کا قصد تھا۔ ایک نئی جگہ دیکھنے کا عزم تھا۔ ہمارے ارد گرد سبزہ اوڑھے پہاڑ ایستادہ تھے ان کے درمیان بل کھاتا دریا تھا۔ پہاڑوں کے گرد لپٹی سڑک تھی جو کبھی تھی تو کبھی نہیں تھی اور زیادہ تر نہیں تھی۔ اس پر سے گزرتی گاڑیاں تھیں ان گاڑیوں میں مسافر تھے جو خوبصورت مقامات کی محبت دل میں بسائے تھے۔
ابھی ہم جس سڑک پر سے گزر کر آئے تھے اسے سڑک کہنا تو مناسب نہیں تھا بس ایک راستہ سا تھا جس پر ہماری سوزوکی کار پنگ پانگ کی گیند کی طرح اچھلتی تھی۔ اکثر مقامات پر یہ کیفیت جامن والی گڑوی کی مانند ہو جاتی تھی جس کے اندر بیٹھے سوار اپنے آپ کو جامن کی طرح محسوس کرتے تھے جنھیں نمک لگا کر جامن والا گڑوی کے منہ پر اخبار رکھ کر زور زور سے ہلاتا تھا جس سے جامن کچھ نرم بھی ہو جاتے تھے اور نمکین نمکین سے بھی۔ کچھ یہی کیفیت ہماری بھی تھی۔
لاہور سے رات بارہ بجے روانہ ہو کر صبح ساڑھے چار بجے اسلام آباد پہنچے تھے۔ اسلام آباد سے معاذ کو لینا تھا جسے ہزار گالیوں کے بعد گھر سے نکلنے ہر آمادہ کیا تھا۔ وہ سونے پر آمادہ تھا اور ہمیں بھی ناشتے کے لالچ پر ٹھہرانا چاہتا تھا۔ مگر فرخ نے بھی ٹھان رکھی تھی اور اسے اٹھا کر ہی دم لیا۔ ہم اس کے دام میں نہیں آئے تھے اور ناشتہ راستے میں ہی کرنے کے فیصلے پر ڈٹے رہے تھے۔ چناچہ اسے جمائیاں لیتے ہوئے ہی اٹھا کر گاڑی میں ڈالا اور روانہ ہو گئے۔ یوں صبح کے چھ بجے تھے جب ہم اسلام آباد سے براستہ موٹر وے پشاور کی طرف گامزن تھے جہاں ہم نے مردان کے لئے رشکئی انٹرچینج سے موٹروے کو خیر آباد کہنا تھا۔
وہ ایک روشن صبح تھی جب ہماری گاڑی نوشہرہ مردان روڈ پر دوڑتی چلی جاتی تھی۔ سورج آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ موسم گرم تھا۔ وہ ایک عام دن تھا اور اسکول کے بچے رنگ برنگے یونیفارم میں ملبوس اسکولوں کو جاتے دکھائی دیتے تھے۔ مردان کے ہر چوک چوراہے پر پختونخواہ ٹریفک پولیس کے سپاہی فوجی جرنیلوں والی ٹوپی سر پر سجائے مستعدی سے ٹریفک کنٹرول کرنے میں مصروف تھے۔ حیرت انگیز طور پر ٹریفک سگنلز کم اور ٹریفک پولیس کے سپاہیوں کا عمل دخل ذیادہ نظر آیا۔ ہم جابجا "شناخت پریڈ" کے عمل سے گزرتے اپنے چمکتے شناختی کارڈ اور مدھم پڑتی شکلیں اہلکاروں کو دکھاتے نو بجے کے لگ بھگ بٹ خیلہ پہنچے۔ وہ سردی جس کے انتظار میں ہم گھر سے نکلے تھے تاحال مفقود تھی اور یہاں بھی دھوپ کی تمازت محسوس کی جا سکتی تھی۔ ناشتہ ہم نے بٹ خیلہ کے پر رونق بازار کی ہی ایک بیکری سے کیا تھا۔ سفر میں بازاری تیل سے بنی چیزوں سے احتیاط ہی مناسب تھی وگرنہ ہونے کو پراٹھے اور پوریاں بھی دستیاب تھیں۔ بٹ خیلہ سے چند منٹ کی مسافت پر چکدرہ وہ مقام ہے جہاں سے دائیں طرف کا راستہ وادی سوات کو نکلتا ہے اور دیر کو جانے والے بائیں جانب کا راستہ لیتے ہیں۔ چکدرہ سے آگے تیمرگرہ اور پھر بالائی دیر تک پہنچتے پہنچتے ظہر کا وقت ہو گیا تھا۔ یہاں تک سڑک کی حالت بہترین کہی جا سکتی ہے مگر یہاں سے آگے اُس سفر بامشقت کی داستان شروع ہوتی ہے جس نے ہمیں چھٹی کا دودھ یاد دلایا تھا۔
دیر بالا سے ذرا پہلے ایک پولیس چوکی پر جب "شناخت پریڈ" کے لئے روکا گیا تو ہم نے باہمی "حال احوال" کے تبادلے کے بعد اسی اہلکار سے پوچھا کہ وادی کمراٹ کا راستہ کہاں سے نکلتا ہے۔ اس نے سامنے کی طرف اشارہ کر دیا۔ سامنے مین سڑک سے دائیں طرف ایک راستہ جا رہا تھا جس پر باقاعدہ باب بھی تعمیر کیا گیا تھا۔ اس "باب" سے گزرتے ہمیں یوں لگا کہ بس ہم وادی کمراٹ میں داخل ہو ہی گئے ہیں لیکن یہ معلوم نہ تھا کہ ابھی عشق کے کئی امتحان باقی تھے۔ اہلکار سے وادی کمراٹ تک کے سفر کا وقت پوچھا کہ اس وقت تک سفر کرتے تیرہ گھنٹے ہو چکے تھے اور ہماری سوزوکی کار اس قدر سفر کے لئے اتنی بھی دوستانہ نہیں تھی اب ہم بس منزل پر پہنچ جانا چاہتے تھے۔ اہلکار نے کہا بس تین چار گھنٹے کا سفر اور ہے سڑک کی حالت کا پوچھا تو فورا بولا "ٹھیک ہے ٹھیک ہے جاؤ۔
لاہور سے رات بارہ بجے روانہ ہو کر صبح ساڑھے چار بجے اسلام آباد پہنچے تھے۔ اسلام آباد سے معاذ کو لینا تھا جسے ہزار گالیوں کے بعد گھر سے نکلنے ہر آمادہ کیا تھا۔ وہ سونے پر آمادہ تھا اور ہمیں بھی ناشتے کے لالچ پر ٹھہرانا چاہتا تھا۔ مگر فرخ نے بھی ٹھان رکھی تھی اور اسے اٹھا کر ہی دم لیا۔ ہم اس کے دام میں نہیں آئے تھے اور ناشتہ راستے میں ہی کرنے کے فیصلے پر ڈٹے رہے تھے۔ چناچہ اسے جمائیاں لیتے ہوئے ہی اٹھا کر گاڑی میں ڈالا اور روانہ ہو گئے۔ یوں صبح کے چھ بجے تھے جب ہم اسلام آباد سے براستہ موٹر وے پشاور کی طرف گامزن تھے جہاں ہم نے مردان کے لئے رشکئی انٹرچینج سے موٹروے کو خیر آباد کہنا تھا۔
وہ ایک روشن صبح تھی جب ہماری گاڑی نوشہرہ مردان روڈ پر دوڑتی چلی جاتی تھی۔ سورج آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ موسم گرم تھا۔ وہ ایک عام دن تھا اور اسکول کے بچے رنگ برنگے یونیفارم میں ملبوس اسکولوں کو جاتے دکھائی دیتے تھے۔ مردان کے ہر چوک چوراہے پر پختونخواہ ٹریفک پولیس کے سپاہی فوجی جرنیلوں والی ٹوپی سر پر سجائے مستعدی سے ٹریفک کنٹرول کرنے میں مصروف تھے۔ حیرت انگیز طور پر ٹریفک سگنلز کم اور ٹریفک پولیس کے سپاہیوں کا عمل دخل ذیادہ نظر آیا۔ ہم جابجا "شناخت پریڈ" کے عمل سے گزرتے اپنے چمکتے شناختی کارڈ اور مدھم پڑتی شکلیں اہلکاروں کو دکھاتے نو بجے کے لگ بھگ بٹ خیلہ پہنچے۔ وہ سردی جس کے انتظار میں ہم گھر سے نکلے تھے تاحال مفقود تھی اور یہاں بھی دھوپ کی تمازت محسوس کی جا سکتی تھی۔ ناشتہ ہم نے بٹ خیلہ کے پر رونق بازار کی ہی ایک بیکری سے کیا تھا۔ سفر میں بازاری تیل سے بنی چیزوں سے احتیاط ہی مناسب تھی وگرنہ ہونے کو پراٹھے اور پوریاں بھی دستیاب تھیں۔ بٹ خیلہ سے چند منٹ کی مسافت پر چکدرہ وہ مقام ہے جہاں سے دائیں طرف کا راستہ وادی سوات کو نکلتا ہے اور دیر کو جانے والے بائیں جانب کا راستہ لیتے ہیں۔ چکدرہ سے آگے تیمرگرہ اور پھر بالائی دیر تک پہنچتے پہنچتے ظہر کا وقت ہو گیا تھا۔ یہاں تک سڑک کی حالت بہترین کہی جا سکتی ہے مگر یہاں سے آگے اُس سفر بامشقت کی داستان شروع ہوتی ہے جس نے ہمیں چھٹی کا دودھ یاد دلایا تھا۔
دیر بالا سے ذرا پہلے ایک پولیس چوکی پر جب "شناخت پریڈ" کے لئے روکا گیا تو ہم نے باہمی "حال احوال" کے تبادلے کے بعد اسی اہلکار سے پوچھا کہ وادی کمراٹ کا راستہ کہاں سے نکلتا ہے۔ اس نے سامنے کی طرف اشارہ کر دیا۔ سامنے مین سڑک سے دائیں طرف ایک راستہ جا رہا تھا جس پر باقاعدہ باب بھی تعمیر کیا گیا تھا۔ اس "باب" سے گزرتے ہمیں یوں لگا کہ بس ہم وادی کمراٹ میں داخل ہو ہی گئے ہیں لیکن یہ معلوم نہ تھا کہ ابھی عشق کے کئی امتحان باقی تھے۔ اہلکار سے وادی کمراٹ تک کے سفر کا وقت پوچھا کہ اس وقت تک سفر کرتے تیرہ گھنٹے ہو چکے تھے اور ہماری سوزوکی کار اس قدر سفر کے لئے اتنی بھی دوستانہ نہیں تھی اب ہم بس منزل پر پہنچ جانا چاہتے تھے۔ اہلکار نے کہا بس تین چار گھنٹے کا سفر اور ہے سڑک کی حالت کا پوچھا تو فورا بولا "ٹھیک ہے ٹھیک ہے جاؤ۔
اس کا یہ "ٹھیک ہے ٹھیک ہے" ہمیں ہرگز جان چھڑانے والا نہیں لگا تھا بلکہ سڑک کی حالت بتانے والا محسوس ہوا تھا لہذا ہم نے اس پر یقین کیا اور چل پڑے۔ یہاں ہم گوگل میپ سے مدد لینا نہیں بھولے تھے کہ آخر جدید ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ گوگل میپ کل وقت چھ گھنٹے سے کچھ زائد بتا رہا تھا جس پر ہمارا ماتھا ٹھنکا مگر ہم نے غیروں کی گوگل کے بجائے اپنی قوم کے محافظ پر یقین کرنا مناسب خیال کیا اور چل دیے۔ راستہ وہاں سے ترانوے کلومیٹر بتایا جا رہا تھا۔ اسی گومگو کی کیفیت میں ہم چلتے رہے اور راستے میں ملنے والے چند معقول افراد سے بھی راستے کے متعلق سوال کیا مگر ہر کسی سے مختلف جواب پایا کسی نے راستہ تین گھنٹے کا بتایا تو کسی نے پانچ۔ کسی نے سڑک کی حالت زار کے متعلق مایوسی کا اظہار کیا تو کسی نے گرین سنگل دیا لہذا ہم چلتے رہے اور اصل سفر شروع ہوا۔
کچھ دیر تو سڑک درست رہی مگر پھر عشق کے امتحان شروع ہوئے۔
اس راستے پر عازم سفر ہونا اور وہ بھی ایک سوزوکی کار پر۔۔۔ اس میں ہمارے حد سے بڑھے عزم و استقلال کے بجائے حد سے زیادہ بے وقوفی اور لاپرواہی کا عنصر کارفرما تھا۔ محض سوشل میڈیا کی تصاویر اور دائیں بائیں سے سنی کہانیوں کے زیر اثر بغیر کسی تحقیق و تیاری کے ہم اس سفر کا قصد کر بیٹھے تھے اور اب کبھی اپنی قسمت کو کوس رہے تھے، کبھی راستوں کو تو کبھی ایک دوسرے کو۔ راستے کے آثار بتاتے تھے کہ یہاں کبھی سڑک بھی رہی ہو گی مگر اب ہر چند یہاں ہے کہ نہیں ہے والا معاملہ تھا کہ سڑک اور ہماری کی آنکھ مچولی سارا راستہ جاری رہی۔ کبھی تارکول سے بنی ہموار سڑک آجائے گی جہاں گاڑی کا گئیر بدلتے ہوئے ڈرائیور اپنے آپ کو فارمولا ون کا حصہ سمجھنے لگتا ہے مگر یہ احساس چند لمحوں میں رفو چکر ہو جاتا ہے جب یک دم تارکول کی سڑک کی جگہ بڑے بڑے نوکیلے پتھروں کا سلسلہ لے لیتا ہے جہاں گاڑی کی حرکت شش جہات ہو جاتی ہے۔ پھر ایسے مقام بھی آئے جہاں راستے کے احترام میں یا یوں کہیے کہ گاڑی کے احترام میں ڈرائیور کے سوا تمام مسافروں کو اترنا پڑا اور عشق کا وہ مرحلہ ڈرائیور اور گاڑی نے ہی طے کیا۔ ان دشوار گزار راستوں پر خلیل نے خوب جم کر ڈرائیونگ کی جس میں اس کے عزم و ہمت کی نسبت اس کے وزن کا زیادہ عمل دخل تھا کہ ظاہر ہے تین چار من کے مال و اسباب کے ساتھ ہلنا جلنا بھی ایک چیلنج ہوتا ہے۔
بل کھاتی سڑک کہیں چوڑی ہو جاتی تو کہیں اتنی تنگ کہ بمشکل ایک گاڑی کے گزرنے کی جگہ بنتی۔ کہیں کہیں لوگوں کے گھروں کے اس قدر قریب سے گزرتی کہ گھروں کے باہر کھڑے لوگ ہمیں ایسی نظروں سے گھورتے گویا ہم ان کے گھر کی ڈیوڑھی میں کود آئے ہوں اور ہم شرمندہ شرمندہ سے نظریں چراتے ان کے درمیان سے گزرتے جاتے۔ سورج کہیں پہاڑوں کی اوٹ میں غروب ہونے کے عمل میں مصروف تھا اور ہم گاڑی سے گردنیں باہر نکال نکال کر وادی کمراٹ کا سراغ لگانے کی کوششیں کر رہے تھے۔ اس سڑک پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی اور ہم سامنے سے آنے والی ہر گاڑی کے ڈرائیورسے بقیہ راستے کے متعلق دریافت کرتے تھے کہ شاید کوئی یہ مژدہ سنائے کہ بس اگلا موڑ مڑو گے تو وادی کمراٹ تمہارے سامنے ہو گی۔
(جاری ہے)