KUMRATVALLEY, WHERE NATURE MEET YOU A Paradise on Earth Kumrat Valley

Latest

KUMRATVALLEY, WHERE NATURE MEET YOU

وادی کمراٹ، جہاں قدرت گلے ملتی ہے
Kumrat Valley where you touch the nature

 زندگی میں بعض اوقات انسان کو ایسے مواقع میسر آتے ہیں، جن پر انسان بے اختیار کہہ اٹھتا ہے کہ یہ موقع اسے پہلے میسر کیوں نہیں آیا۔ اپنی زندگی میں مجھے قدرت نے سارا پاکستان دیکھنے اور گھومنے کا موقع دیا۔ اس حسین وطن کے جنگل گھوما، صحراؤں کی خاک چھانی، سمندر کی سیپیوں سے سرگوشیاں کیں، پہاڑوں سے ہم کلام ہوا، ندیوں کے نغمے سنے اور جھیلوں کے کنول چنے، لہلہاتے میدان دیکھے تو بل کھاتے دریاؤں سے لطف اندوز ہوا، مگر گزشتہ ہفتے گلوبل ویلیج کی سرحدوں سے پرے ایک خاموش وادی میں جانے کا اتفاق ہوا۔ صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع اپر دیر میں واقع یہ وادی ابھی تک پاکستانی اور بین الاقوامی سیاحوں کی نظروں سے اوجھل ہے۔ یہ بھی خیال رہے کہ نوجوانوں کا ایک وفد اسی وادی سے منتخب ممبر صوبائی اسمبلی محمد علی کی دعوت پر اس وادی کا دورہ کر رہا ہے۔ اسی وفد میں راقم بھی شامل ہے۔ لاہور سے تیمرگرہ تک کا سفر نجی ٹرانسپورٹ کمپنی کی بس پر کیا۔ بس میں سوار ہوتے ہی اس خطے کی ثقافت کے رنگ نظر آنا شروع ہوگئے۔ جناب موسیقی کی دھنوں سے کوسوں دور پشتو شاعری بس میں سنائی دے رہی تھی، مگر کچھ دیر بعد یہ شاعری بھی بند کردی گئی۔ بس رکنے اور چلنے کا اعلان بھی پشتو میں ہور ہا تھا جو کہ ہماری سمجھ سے بالا تھا۔ تاہم ہمارے وفد میں موجود پشتون نوجوان ترجمانی کا فرض بخوبی نبھا رہے تھے۔ لاہور سے تیمرگرہ 12 گھنٹوں پر محیط سفر ہے، اس سفر کے دوران اپنی شناختی دستاویزات ہمراہ رکھنا لازمی ہے۔ مالاکنڈ ڈویژن میں داخل ہوتے ہی پاکستان آرمی کی جانب سے قائم کی گئی چیک پوسٹس پر شناختی کارڈز کی چیکنگ ہوتی ہے۔


تیمر گرہ سے اپر دیر تک ایک کشادہ سڑک جاتی ہے، مگر اس سڑک پر چھوٹی بڑی گاڑیوں کا بے پناہ ہجوم ہوتا ہے، اس سڑک سے گزرتے ہوئے یوں لگتا ہے جیسے آپ لاہور کی مال روڈ سے جا رہے ہوں۔ تیمرگرہ سے اپر دیر پہنچنے تک راستے میں کئی چھوٹے چھوٹے بازار آتے ہیں۔ ڈاب، رباط، خال، شلفم، طورمنگ، اُنکار، خاگرام، آمین آباد، واڑی، وحید آباد اور داروڑہ اہم بازار ہیں۔ دیر بالا کے ضلعی ہیڈ کوارٹر سے 5 سو میٹر قبل ایک شاہراہ اس حسین اور دل کش وادی کی جانب جاتی ہے۔ سڑک پر تعمیراتی کام تیزی سے جاری ہے اور امید ہے کہ جلد ہی اس کی تعمیر مکمل ہوجائے گی جو دریائے پنجکوڑہ کے ساتھ ساتھ جاتی، پہاڑوں کے درمیان سے یہ بل کھاتی سڑک بہت ہی حسین مناظر کی امین ہے۔ اسی سڑک پر پہلا پڑاؤ ایک خوبصورت وادی شرینگل میں ہوتا ہے، یہاں پر خوبصورت بازار اور ایک چھوٹا سا شہر بھی آباد ہے، جب کہ یہاں ایک یونیورسٹی بھی قائم ہے۔ یونیورسٹی شہر کے دامن میں دریائے پنجکوڑہ کے کنارے بنائی گئی ہے۔ صوبائی حکومت کے تبدیلی کے دعوؤں کے برعکس اس یونیورسٹی کی حالت زار قابل رحم ہے۔ یونیورسٹی کے حال پر ایک تحریر انشاءاللہ ضرور لکھی جائے گی۔ شرینگل کے بعد پاتراک کا ایک چھوٹا سا قصبہ ہے، جہاں طالبات کے لئے ایک مڈل اسکول اور طلبہ کے لئے ہائی اسکول قائم ہے۔ یہاں پر ٹراؤٹ فش کا ایک فارم بھی ہے جو کہ سرکاری طور پر قائم کیا گیا ہے۔ یہاں ٹراؤٹ پالی تو جاتی ہے مگر بڑے ہونے کے بعد ٹراؤٹ جاتی کہاں ہے؟ وہاں موجود کسی بھی شخص نے خاطر خواہ جواب نہیں دیا۔ پاتراک سے اگلا پڑاؤ تھل میں ہوتا ہے، تھل کو وادی کمراٹ کا بیس کیمپ کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا۔ تھل 2 سو سال سے آباد ایک چھوٹا سا قصبہ ہے، جہاں کوہستانی قوم کے افراد آباد ہیں۔ یہاں طلبہ اور طالبات کے لئے علیحدہ علیحدہ پرائمری اسکول قائم ہیں۔ طالبات صرف پرائمری تک تعلیم حاصل کرتی ہیں جبکہ طلبہ کا رحجان ہائر ایجوکیشن کی جانب زیادہ ہے۔ جسطرح یہ قصبہ خوبصورت ہے اسی طرح یہاں کے لوگ محبتیں بکھیرنے والے، پیار کرنیوالے اور مہمان نواز ہیں۔ اجنبی کو دیکھ کر بے اختیار انکے ہاتھ سلام کے ساتھ مصافحہ کیلئے بلند ہوجاتے ہیں۔زندگی میں بعض اوقات انسان کو ایسے مواقع میسر آتے ہیں، جن پر انسان بے اختیار کہہ اٹھتا ہے کہ یہ موقع اسے پہلے میسر کیوں نہیں آیا۔ اپنی زندگی میں مجھے قدرت نے سارا پاکستان دیکھنے اور گھومنے کا موقع دیا۔ اس حسین وطن کے جنگل گھوما، صحراؤں کی خاک چھانی، سمندر کی سیپیوں سے سرگوشیاں کیں، پہاڑوں سے ہم کلام ہوا، ندیوں کے نغمے سنے اور جھیلوں کے کنول چنے، لہلہاتے میدان دیکھے تو بل کھاتے دریاؤں سے لطف اندوز ہوا، مگر گزشتہ ہفتے گلوبل ویلیج کی سرحدوں سے پرے ایک خاموش وادی میں جانے کا اتفاق ہوا۔ صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع اپر دیر میں واقع یہ وادی ابھی تک پاکستانی اور بین الاقوامی سیاحوں کی نظروں سے اوجھل ہے۔


یہ بھی خیال رہے کہ نوجوانوں کا ایک وفد اسی وادی سے منتخب ممبر صوبائی اسمبلی محمد علی کی دعوت پر اس وادی کا دورہ کر رہا ہے۔ اسی وفد میں راقم بھی شامل ہے۔ لاہور سے تیمرگرہ تک کا سفر نجی ٹرانسپورٹ کمپنی کی بس پر کیا۔ بس میں سوار ہوتے ہی اس خطے کی ثقافت کے رنگ نظر آنا شروع ہوگئے۔ جناب موسیقی کی دھنوں سے کوسوں دور پشتو شاعری بس میں سنائی دے رہی تھی، مگر کچھ دیر بعد یہ شاعری بھی بند کردی گئی۔ بس رکنے اور چلنے کا اعلان بھی پشتو میں ہور ہا تھا جو کہ ہماری سمجھ سے بالا تھا۔ تاہم ہمارے وفد میں موجود پشتون نوجوان ترجمانی کا فرض بخوبی نبھا رہے تھے۔ لاہور سے تیمرگرہ 12 گھنٹوں پر محیط سفر ہے، اس سفر کے دوران اپنی شناختی دستاویزات ہمراہ رکھنا لازمی ہے۔ مالاکنڈ ڈویژن میں داخل ہوتے ہی پاکستان آرمی کی جانب سے قائم کی گئی چیک پوسٹس پر شناختی کارڈز کی چیکنگ ہوتی ہے۔ تیمر گرہ سے اپر دیر تک ایک کشادہ سڑک جاتی ہے، مگر اس سڑک پر چھوٹی بڑی گاڑیوں کا بے پناہ ہجوم ہوتا ہے، اس سڑک سے گزرتے ہوئے یوں لگتا ہے جیسے آپ لاہور کی مال روڈ سے جا رہے ہوں۔ تیمرگرہ سے اپر دیر پہنچنے تک راستے میں کئی چھوٹے چھوٹے بازار آتے ہیں۔ ڈاب، رباط، خال، شلفم، طورمنگ، اُنکار، خاگرام، آمین آباد، واڑی، وحید آباد اور داروڑہ اہم بازار ہیں۔ دیر بالا کے ضلعی ہیڈ کوارٹر سے 5 سو میٹر قبل ایک شاہراہ اس حسین اور دل کش وادی کی جانب جاتی ہے۔ سڑک پر تعمیراتی کام تیزی سے جاری ہے اور امید ہے کہ جلد ہی اس کی تعمیر مکمل ہوجائے گی جو دریائے پنجکوڑہ کے ساتھ ساتھ جاتی، پہاڑوں کے درمیان سے یہ بل کھاتی سڑک بہت ہی حسین مناظر کی امین ہے۔ اسی سڑک پر پہلا پڑاؤ ایک خوبصورت وادی شرینگل میں ہوتا ہے، یہاں پر خوبصورت بازار اور ایک چھوٹا سا شہر بھی آباد ہے، جب کہ یہاں ایک یونیورسٹی بھی قائم ہے۔


یونیورسٹی شہر کے دامن میں دریائے پنجکوڑہ کے کنارے بنائی گئی ہے۔ صوبائی حکومت کے تبدیلی کے دعوؤں کے برعکس اس یونیورسٹی کی حالت زار قابل رحم ہے۔ یونیورسٹی کے حال پر ایک تحریر انشاءاللہ ضرور لکھی جائے گی۔ شرینگل کے بعد پاتراک کا ایک چھوٹا سا قصبہ ہے، جہاں طالبات کے لئے ایک مڈل اسکول اور طلبہ کے لئے ہائی اسکول قائم ہے۔ یہاں پر ٹراؤٹ فش کا ایک فارم بھی ہے جو کہ سرکاری طور پر قائم کیا گیا ہے۔ یہاں ٹراؤٹ پالی تو جاتی ہے مگر بڑے ہونے کے بعد ٹراؤٹ جاتی کہاں ہے؟ وہاں موجود کسی بھی شخص نے خاطر خواہ جواب نہیں دیا۔ پاتراک سے اگلا پڑاؤ تھل میں ہوتا ہے، تھل کو وادی کمراٹ کا بیس کیمپ کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا۔ تھل 2 سو سال سے آباد ایک چھوٹا سا قصبہ ہے، جہاں کوہستانی قوم کے افراد آباد ہیں۔ یہاں طلبہ اور طالبات کے لئے علیحدہ علیحدہ پرائمری اسکول قائم ہیں۔ طالبات صرف پرائمری تک تعلیم حاصل کرتی ہیں جبکہ طلبہ کا رحجان ہائر ایجوکیشن کی جانب زیادہ ہے۔ یہاں سوشیالوجی کے دو طالب علموں سے ملاقات ہوئی، نوجوانوں سے گفتگو کے دوران اندازہ ہو رہا تھا کہ یہ اپنی روایات سے عاری بس میڈیا کے سہارے چلنے والے نوجوان تھے۔ تھل سے اس وادی کیلئے 2 راستے نکلتے ہیں۔ ایک راستہ وادی کمراٹ کو جاتا ہے جہاں قدم قدم پر قدرت کے کرشمے انسانوں کو دعوت نظارہ دے رہے ہیں، جبکہ دوسری جانب جہاز بھانڈا (بھانڈا پشتو زبان میں اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں پہاڑوں پر 15 سے 20 گھر ہوں اور اس جگہ کو جہاز بھانڈا مقامی لوگوں کے مطابق اس لئے کہتے ہیں کہ یہ جہاز جتنی بلند جگہ ہے) اور باڑ گوئی کا پہاڑ ہے۔ ہمارے میزبانوں کی جانب سے پہلے دو دن جہاز بھانڈا اور باڑ گوئی کے پہاڑ کے دورے کیلئے مختص تھے۔ تیمرہ گرہ سے تھل تک سفر کے لیے سڑک پر تعمیرانی کام جاری تھا جس کی وجہ سے سفر میں سات گھنٹے لگے۔ تھل شہر میں حکومت کی بنائی ہوئی سڑک اور پرائمری اسکول کے علاوہ کوئی بھی چیز نظر نہیں آتی، یہاں لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت پن بجلی کے پاور پلانٹس لگائے ہوئے ہیں۔
تھل میں یہاں کی 150 سالہ پرانی مسجد ہے۔ دریا کنارے آباد یہ چھوٹا سا قصبہ قدرتی حسن سے مالا مال ہے، جس طرح یہ قصبہ خوبصورت ہے اسی طرح یہاں کے لوگ محبتیں بکھیرنے والے، پیار کرنے والے اور مہمان نواز ہیں۔ اجنبی کو دیکھ کر بے اختیار ان کے ہاتھ سلام کے ساتھ مصافحہ کیلئے بلند ہوجاتے ہیں۔ آپ گاڑی پر ہوں یا پیدل ہر چھوٹا، بڑا، نوجوان اور بوڑھا ہاتھ بلند کرکے آپ کو السلام و علیکم کہے گا۔ اسی لئے دوران سفر ڈائری میں اس وادی کا نام میں نے وادیِ السلام علیکم لکھا۔ تھل سے ہماری اگلی منزل باڑ گوئی کے جنگلات میں بنایا گیا محکمہ جنگلات کا خوبصورت ریسٹ ہاؤس تھا، رات ریسٹ ہاؤس میں گزارنے کے بعد مقامی افراد کے مشورے کے بعد باڑ گوئی کی پہاڑی پر جانے کا پروگرام ترتیب دیا گیا۔ دیر بالا سے تھل پہنچنے تک جو گاؤں یا قصبے آتے ہیں ان میں قابل ذکر شرینگل، بریکوٹ، بیاڑ، پاتراک اور کلکوٹ قابل ذکر ہیں۔