BADGOI TOP OF KUMRAT VALLEY A Paradise on Earth Kumrat Valley

Latest

BADGOI TOP OF KUMRAT VALLEY

  باڈ گوئی ٹاپ

Badgoi Pass

باڈگوئی کی پہاڑی چوٹی تک کشادہ سڑک جاتی ہے، جو تاحال کچی ہے۔ ایم پی اے محمد علی سے اس بارے میں استفسار کیا گیا تو انہوں نے صوبائی حکومت کی جانب سے فنڈز جاری نہیں کئے جانے کا شکوہ کیا۔ ہمارے دورے سے دو روز قبل محمد علی نے صوبائی حکومت کی جانب سے فنڈز جاری نہ کرنے کی وجہ سے اسمبلی اجلاس سے احتجاجاََ واک آؤٹ بھی کیا تھا۔ نوجوان ایم پی اے نے پشاور یونیورسٹی سے سوشل ورک میں ایم اے کیا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ باقی ممبران کی نسبت وہ آرام دہ کمروں میں آرام کرنے کی بجائے ہر وقت اپنے حلقے میں موجود رہتے ہیں اور حلقے کے لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لئے سرگرداں نظر آتے ہیں۔ باڑ گوئی پہاڑی کے ایک جانب ضلع دیر ہے جبکہ دوسری جانب سوات کا تفریحی مقام کالام ہے۔ چوٹی پر پہنچے سے چند سو میٹر پہلے گلیشئر گرنے کے باعث سڑک بند تھی، جس کی وجہ سے کچھ فاصلہ پیدل طے کرنا پڑا۔ پہاڑی چوٹی پر پہنچنے کے بعد بے اختیار زبان سے سبحان اللہ کے کلمات نکلے۔ ؐ
میری نظروں کے سامنے قدرت کے انمول نمونے تھے۔ نیلگوں آسمان پر چھائے ہوئے سفید بادل یوں لگ رہے تھے جیسے دودھ اُبال کھا رہا ہو۔ ساری وادی سرخ اور نیلے پھولوں سے ڈھکی ہوئی تھی۔ پہاڑی چوٹیاں سفید اور شفاف برف کی دبیز چادر اوڑھے ہوئے تھیں۔ سطح زمین سے ایک ہزار فٹ بلندی پر ہوا میں معلق چٹان جس پر خودرو پھپھوندی نے مہندی کے رنگ جمائے ہوئے تھے۔ میرے دائیں اور بائیں جانب جنگلی گلاب کی جھاڑیاں اگی ہوئی تھیں، ان پر لگے گلابوں کی خوشبو نے گویا سارا منظر مسحور کن بنا دیا۔ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے میرے کانوں میں سرگوشیاں کر رہے تھے، جیسے کسی اپنے کی یاد دل کے نہاں خانوں میں دستک دے رہی ہو۔ بہت دور نیچے وادی میں چرواہے کی بانسری کی مدہم سی آواز میرے دل کی دھڑکنوں کو تیز کر رہی تھی۔ میرے چاروں جانب خاموشیوں کے پہرے ہیں، خاموشیاں اس قدر گہری کہ شہد کی مکھی کی بھنبھنانے کی آواز بھی کانوں کے پردے پھاڑ رہی تھی۔
اس وادی کی طلسم میں قید ہونے کو تھا کہ دفعتاََ پہاڑ سے گلیشئر ٹوٹنے کی آواز سنائی دی۔ اس آواز کے ساتھ ہی میں خیالات و تصورات سے باہر نکل آیا۔ بے ربط الفاظ کو ترتیب مل گئی، بھٹکتی ہوئی روح کو تسکین مل گئی۔ مگر وہ احساس جوکسی اپنے کے پاس ہونے کا تھا وہ دفعتا کہیں دور غائب ہوگیا۔ چرواہے کی بانسری کی آواز تیز سے تیز تر ہوتی جارہی ہے اور میری پلکوں کی نمی بحر بیکراں میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔ اس پہاڑی چوٹی پر بیٹھے ہوئے دو گھنٹے گزر چکے تھے، میرے ہم سفر برف کے گولوں کے ساتھ اٹھکھیلیاں کرنے میں مگن تھے، مگر مجھے تو اس وادی کے پھولوں، سبز گھاس اور برف سے نکلتے ہوئے پانی نے اپنی جانب متوجہ کئے رکھا، تفریحی دورے کے سربراہ فیصل جاوید کی جانب سے واپسی کا اعلان ہوا جو سفر کی روایت کے مطابق ماننا پڑا، مگر میرا دل جانے کو قطعاً نہیں مان رہا تھا۔
باقی دوستوں سے الگ ہوکر پہاڑ کی چوٹی سے نیچے وادی میں جاتے ہوئے گلیشئیر کے ساتھ موج مستی کرنے لگا اور گلیشئیر سے گاڑی کی جانب پھسلتے ہوئے جانے لگا، گوکہ یہ حرکت سراسر بچکانہ لگ رہی تھی مگر اس وادی کا حسن سیاحوں کو واقعی بچہ بننے پر مجبور کردیتا ہے۔ واپسی پر آتے ہوئے اسی وادی میں قائم ایک چراگاہ اتروٹ رکے ہے۔ یہ چراگاہ قدرت کے عظیم شاہکاروں میں سے ایک انمول تحفہ ہے۔ ساری چراگاہ قیمتی جڑی بوٹیوں، خوبصورت اور خوش رنگ پھولوں سے بھری ہوئی تھی۔ سارے نوجوان اس چراگاہ سے اس قدر متاثر ہوئے کہ دن کے باقی پل یہاں ہی گزارنے کا فیصلہ کیا۔ اسی چراگاہ میں دریا کنارے کھانا بنایا گیا جوکہ ایک دلچسپ اور یادگار لمحہ تھا۔ دریا کے یخ بستہ پانی میں نہانے کا تجربہ اکثر نوجوانوں کے لئے بالکل نیا تھا، یہی وجہ تھی کہ نہانے کے بعد نوجوان گھنٹوں دھوپ میں سوئے رہے تب جا کر ان کے جسم کا درجہ حرارت معمول پر آیا۔
نماز عصر کے وقت اس چراگاہ سے واپسی کے لئے رخت سفر باندھا۔ ہمارے میزبانوں کی جانب سے دوسرا دن بھی محکمہ جنگلات کے ریسٹ ہاؤس میں قیام کے لئے رکھا گیا تھا، لیکن مقامی افراد نے ریسٹ ہاؤس میں سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے اپنے ہاں رہنے کی دعوت دی اور یہ دعوت محض اعلانات کی حد تک نہیں تھی بلکہ سختی سے ہمیں اس بارے میں پابند کیا گیا کہ ہم مقامی تحصیل ناظم کے ہاں مہمان بن کر رہیں گے۔ تحصیل ناظم کی معاشی صورت حال اگر دیکھی جائے تو ان کا شمار لوئر مڈل کلاس میں ہوتا ہے، ذریعہ آمدن جنگلات کی لکڑی سے حاصل ہونے والی آمدن ہے مگر حکومت کی جانب سے جنگلات کی کٹائی پر پابندی کی وجہ سے ان کا یہ ذریعہ بھی ختم ہوگیا تھا۔ لیکن موصوف کی مہمان نوازی لاجواب تھی۔ رات ان کے ہاں قیام کے بعد اندازہ ہوا کہ انسان دولت کی بنیاد پر بڑا نہیں ہوتا بلکہ انسان کے رویے اور اس کا انسانوں سے برتاؤ اس کے بڑے پن کی نشانی ہے۔ موصوف کو یہ وصف اپنے والد محترم سے وراثت میں ملا تھا، جنہوں نے اپنی تمام جمع پونچی لٹا کر گاؤں کے لوگوں کے لئے ہائیڈرل پاور ہاؤس بنایا جس سے 2 سو کے قریب گھرانوں کو مفت بجلی میسر ہے۔