پر(facebook.com/Kumrat Valley) سوشل میڈیا پر اور خصوصاً فیس بک پر ایک پیج کمراٹ ویلی
دیربالا میں واقع جنت النظیر وادی ،وادی کمراٹ کے بارے میں پڑھا۔ پیچ کے ایڈمن ہر روز خوبصورت تصاویر شئیر کرتے اور اسی طرح ہر روز اس وادی کو دیکھنے کا شوق پروان چھڑتا رہا ۔وادی کمراٹ جانے کے لیے اکیلا جانا تو مناسب نہیں تھا ،ہاں اور اتنے وسائل بھی دستیاب نہیں تھے لہذا ، اپنے آرزو اور شوق کو پورا کرنے کے لیے میں نے دو تین دوستوں کو بھی راضی کردیا اور اسی طرح وادی کمراٹ جانے کے
لیے پروگرام ترتیب دینے لگے ۔
ایک دوست جن کے پاس اپنی گاڑی تھی ،منت سماجت کرکے ان کو راضی کردیا اور اس طرح عید الفطر کے دوسرے دن جانے کا پلان بنایا گیا ۔ ہم صبح سویرے مردان سے روانہ ہوئے ۔مردان سے درگئی تو بہت جلد پہنچ گئے کیونکہ مردان سے درگئی تک سڑک ہائی وے(یعنی دو رویا سڑک ) ہے اور معمولی دشواریوں کے باوجود بہت جلد درگئی پہنچ گئے ۔درگئی کو کراس کرتے ہوئے ہم ملاکنڈ کے پر پیچ راستے پر گامزن ہوگئے ۔ملاکنڈ پر آہستہ آہستہ سفر کرتے کرتے ہم ملاکنڈ ٹاپ پر پہنچ گئے ،وہاں سے ہوتے ہوئے ہم بٹ خیلہ پہنچ گئے ۔بٹ خیلہ میں ٹریفک کافی جام تھا کیونکہ بٹ خیلہ ایشیا کا واحد لمبا بازار ہے جس میں کوئی چوک نہیں ہے ،خیر بٹ خیلہ کو کراس کرکے ہم پل سوکئی پہنچ گئے ۔پل سوکئی دیر اور سوات کو ملانے والے جنکشن اور جوڑ ہے ۔یہاں سے آپ سوات بھی جاسکتے ہیں اور دیر بھی۔
یہاں سے دیر جانے کے لیے آپ کو بائیں طرف مڑنا ہوگا کیونکہ سیدھا سڑک آپ کو سوات مینگورہ لے جائے گا ۔پل سوکئی سے بائیں مڑنے کے بعد چکدرہ بازار آیا ۔دیر پائیں میں چکدرہ کو کافی اہمیت حاصل ہے کیونکہ یہاں بورڈآف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن (بی ۔آئی ۔ایس۔ای ملاکنڈ) اور ملاکنڈ یونیورسٹی واقع ہے ۔چکدرہ بازار میں بھی ٹریفک جام تھا ،ایک ساتھی سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ سوات جانے کے لیے چکدرہ راموڑہ سے ہوتے ہوئے شموزو بریکوٹ تک ایک سڑک جاتا ہے ،چونکہ سڑک نیا ہے اس لیے دیر،چترال اور تیمرگرہ سے سوات مینگورہ جانے کے لیے زیادہ ترگاڑیاں اس سڑک پر جاتے ہیں ، اس لیے چکدرہ بازار میں ٹریفک جام رہتاہے۔
چکدرہ سے گزرتے ہوئے جونہیں ہم نے آگے سفر شروع کی تو سڑک بہت زبردست تھا ،سڑک نیا بنایا گیا تھا اور سفر کرنے کےلیے بلکل سازگار تھا ۔ سفر کرتے کرتے ہم تیمرگرہ پہنچ گئے ۔تیمرگرہ دیر لوئیر کا ہیڈ کوارٹر ہے اور بلڈنگز سے پتہ چلتا تھا کہ تیمرگرہ دیر لوئر ،باجوڑ ،دیربالا اور چترال کاروباری مرکز ہے ۔تیمرگرہ میں جیل کے مقام پر دو راستے تھے کسی سےپوچھا تو انہوں نے کہا کہ دونوں راستے دیر بالا جاتے ہیں لیکن سیدھا راستہ بازار سے گزرتا ہے جس پر کافی رش ہوتا ہے جبکہ دوسرسڑک بائی پاس ہے لہذا آپ بائی پاس پر چلیں ،پس ہم نے بائی پاس کا انتخاب کیا اور میاں بانڈہ پہنچ گئے ۔تیمرگرہ سے دیربالا تک کا سڑک بھی نہایت شاندار ہے ۔تیمرگرہ سے آگے جاتے ہوئے کئی بازاریں آئیں جس میں رباط،خال اور اخگرام۔یاد رہے کہ 1995 سے پہلے دیربالا اور دیر پائیں ایک ہی ضلع تھا جسکو 1995 میں دو ضلعوں میں یعنی ضلع دیر پائین اور ضلع دیر بالا میں تقسیم کی گئی ۔اخگرام ضلع دیر بالا اور دیر پائین کی باونڈری پر واقع ایک چھوٹا سا قصبہ ہے ،اخگرام کو کراس کرتے ہوئے ہم واڑی پہنچ گئے ۔واڑی سے آگے صاحب آباد پہنچ گئے ۔صاحب آباد میں تبلیغی جماعت کا مرکز ہے ۔
صاحب آباد کے بعد داروڑہ،گندیگار،بی بیوڑ اور چکیاتن آتے ہیں ۔چکیاتن کے مقام پر نواب دیر کے وقت کا پل ابھی بھی موجودہے ۔چکیاتن میں بھی آپ کو دو سڑک ملیں گے ،ایک دیر بازار کی طرف جاتا ہے اور دوسرا وادی کمرا ٹ کی طرف ۔چکیاتن میں باب کمراٹ سے گزر کر نئے سڑک پر سفر شروع کی۔سڑک نیا تھا اور کافی حد تک بہت زبردست تھا ،نئے سڑک پر جگہ جگہ ٹھنڈے چشمے تھے اور دوسری طرف دریائے پنجکوڑہ کے سنگ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں دل و دماغ کو تر وتازہ کردیتی تھی ۔سفر کرتے کرتے ہم ایک خوڑ پہنچ گئے جہاں پر بہت زیادہ گاڑیاں جمع ہوئی تھی ۔وہاں ایک گاڑی ڈرائیور سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ دونڑ خوڑ ہے،یہاں پر پل زیر تعمیر ہے اور پرانا پل جو رسیوں کا بنا ہواتھا ناکارہ ہوچکا ہے جس کی وجہ سے یہاں ٹریفک کا جام ہونا معمول بن چکا ہے ۔خیر وہاں سے ایک گھنٹہ کی انتظار کے بعد ہم نے دوبارہ سفر کاآغاز کیا اور چلتے چلتے شرینگل پہنچ گئے ۔
شرینگل دو پہاڑوں کے درمیاں ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جہاں شہید بے نظیر بٹھویونیورسٹی واقع ہے ،شرینگل میں کچھ دیر رکھنے کے بعد ہم نے دوبارہ سفر شروع کی ۔شرینگل سے تقریباً 5 یا 10منٹ کے سفر کرنے کے بعدلوہے کا پل آیا ،پل کو پار کرنے کے بعد دوسڑکوں نے تھوڑا سا کنفیوز کردیاتھا،کہ کس طرف گاڑی کو گھمادیا جائے ،وہاں ایک گاڑی والے سے پوچھا کہ بھائی جان کمراٹ جانا ہے ،کس راستے کا انتخاب کریں تو انہوں نےبتایا کہ سیدھاجائیں ،بائیں مڑنے والا سڑک ڈوگدرہ کو جاتا ہے ،وہاں سے ڈائریکشن ملنے کے بعد ہم نے سفر جاری رکھا اور پاتراک پہنچ گئے ،پاتراک بہت ہی خوبصورت گاؤں ہے ،پاتراک سے آگے جاتے ہوئے بیاڑ،بریکوٹ،کلکوٹ سے گزرنا پڑا۔
جونہیں ہم نے کلکوٹ کو کراس کیا تو دریائے پنجکوڑہ کے دونوں طرف سرسبز و شاداب نظارے اور لہلہاتے کھیت دل کو ایک عجیب تسکین بخش دیتی تھی ۔سفر کرتے کرتے ہماری گاڑی نے جونہیں دروازو کو کراس کی تو یقین کرے کہ ہم ایک بہت ہی خوبصورت علاقے میں داخل ہوگئے تھے اور یہ تھا تھل کا خوبصورت علاقہ ۔
تھل دیر کوہستان کا سب سے آخری اور خوبصورت گاؤں ہے ۔یہاں کے آبادی بھی پاتراک کے بعد سب گاؤں سے زیادہ ہے ،یہاں کے لوگ بھی میرے اندازے کے مطابق دوسرے گاؤں کے لوگوں سے زیادہ خوشحال اور مالدار ہیں کیونکہ تھل کا بازار دوسرے بازاروں سے کافی بڑا تھا اور لوگوں کی موجودگی سے پتہ چلتا تھا کہ یہاں کے لوگ زیادہ مالدار ہیں۔ہم نے تھل میں اپنے ضرورت کے اشیاء کو خریدلیے ۔تھل میں تھوڑے وقفے کے بعد ہم نے پھر سفر کاآغاز کیا ۔یہ بات بتا تا چلوں کہ ہم صبح سویرے مردان سے روانہ ہوئے تھے اور تقریباً شام 5 بجے تک تھل پہنچ چکے تھے ۔فیس بک پیچ کمراٹ ویلی سے ایک پوسٹ کے زریعے پڑھا تھا کہ اپنے ساتھ ٹینٹ ،گرم کمبل اور دیگر ضروری سامان ضرور لے آئیں ،اس لیے ہم نے اپنے ساتھ ٹینٹ اور دوسرے لوازمات کا انتظام کیا تھا ۔تھل سے روانہ ہوئے تو راستے میں پھر دوسڑکوں سے واسطہ پڑا۔پوچھنے پر ہمیں بتایا گیا کہ بائیں طرف مڑیں کیونکہ دائیں طرف مڑنے والا سڑک باڈگوئی پاس کے طرف جاتا ہے اور باڈگوئی پاس کو پارکرکے آپ سوات کوہستان (اتروڑ،کالام )جا سکتے ہیں ۔اس لیے ہم نے گاڑی کو بائیں طرف مڑدیں اور تھل کے سخر انگیز سبز زاروں میں سفر کرنے لگے ۔تھل سے تقریباً چار پانچ کلومیٹر تک سڑک کافی اچھی تھی لیکن اس کے بعد سڑک انتہائی خراب تھی ۔ہماری گاڑی بمشکل اس پر جا سکتی تھی ۔سفر کرتے کرتے ہم ریسٹ ہاوس پہنچ گئے جہاں پر آرمی جوانوں نے ہمارا سواگت کیا اور پوچھ گچھ کے بعد آگے جانے کو کہا گیا ۔آگے کچھ منٹ چلتے ہوئے ہم ایک ہموار میدان پہنچ گئے جہاں پر بہت سارے ٹینٹ ہوٹلز اور ٹینٹ لگے ہوئے تھے ۔ہم بھی تکھے ہوئے تھے بس وہی پر رات گزارنے کا فیصلہ کیا گیا ۔
رات کو کافی ٹھنڈ تھی ۔لیکن ہم نے مزے سے رات گزاری ۔صبح گوتگل سے روانہ ہوئے تو قدم قدم پر جنت انظیر نظاروں نے ہمیں خوش آمدید کہا ۔ ہم نے وادی کمراٹ میں بوتوٹ،تورے اوبہ ،آبشار اور دوسرے بہت ہی خوبصور ت جگہوں کا سیر کیا ۔