KUMRAT IS HEAVEN ON EARTH A Paradise on Earth Kumrat Valley

Latest

KUMRAT IS HEAVEN ON EARTH

کمراٹ ہے وادی جنت
Kumrat is heaven on earth

تحریر : سلمان حیدر خان
کمراٹ کے عشق کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر روز بروز دل میں پروان چڑھ رہا تھا, پھر ساتھ روزانہ گروپ میں احباب کی جانب سے دی گئی کمراٹ کے دلفریب مناظر دیکھ کر میرے اندر کا Trekker, Biker, Mountaineer, Traveler ,Photographer ایک مسلسل بےچینی کا شکار تھا ادھر کمراٹ کے عشق نے جنون سا عالم پیدا کر دیا. ڈر تھا کہ جلد ہی یہ جنون مجھے بہا کر کسی اور ہی دنیا میں نہ لے جائے کہ اسی اثناء میں میرے سفر نامے (سفر ہے زندگی) میں گلگت کے ڈرائیور عرفان بھائی کی تعریف پڑھ کر میرے لاہور کے بہت ہی اچھے دوست گلریز بھائی نے اسی پوسٹ پر کمنٹ کیا کہ "یار سلمان عرفان کو ہمارے ساتھ کمراٹ بھیج دے واپسی پر اسے گلگت چھوڑ کر آئیں گے " یہ بات مزاحأ کہی گئی تھی پر کمراٹ کا نام سن کر منہ سے رال ٹپکنے کی بجائے بہنا شروع ہو گئی اور اسی رال کی ریل پیل میں ڈبکیاں مارتے ہوئے ہم نے بھی مزاح کا جواب سنگین بد مزاحی میں دیتے ہوئے کمنٹ کا رپلائی فوراً سے بہت بعد میں فرمایا کہ " اگر کمراٹ کی بات ہے تو پھر عرفان بھائی کو چھوڑیں مجھے ساتھ لے چلیں " ابھی یہ میرے کہنے کی دیر تھی کہ گلریز بھائی اپنا پورا پلین بمعہ شیشہ(لاہوریوں کا ٹرپ ہو اور شیشہ نہ ہو, ایسے تھوڑی کہتے کہ لاہور لاہور ہے) تک بوری بند لاش کی صورت میں کاندھے پر ڈال کر کسی پرانے فلم کے نئے ولن کی طرح فوراً واٹس ایپ میں مسٹر انڈیا کی گھڑی اتار کر نمودار ہوئے, اب پلین یہ تھا کمراٹ,جہاز بانڈا, کٹورا لیک,ازمس لیک, تھل سے بارڑ گوئی, اتروڑ, کالام. سارا پلین بتا کر بولے ہاں جوان چار اگست کو لاہور پہنچ جاؤ وہاں سے رات دس گیارہ بجے نکلیں گے کمراٹ کے لئے." گلریز بھائی میں ابھی ایک ہفتہ پہلے ہی گلگت کے پندرہ روزہ ٹرپ سے واپس آیا ہوں, بجٹ بھی تھوڑا ڈھیلا ہے اس وقت اور ابو سے اگر ٹرپ کے حوالے سے پیسے مانگے تو عاق نامہ ہاتھ میں پکڑا دیں گے اور کہیں گے جا میرا بچہ کسی سستے سے اخبار میں ضرورت رشتہ والے ایڈ کے ساتھ یہ چھپوا کر میرے گھر سے اپنا بوریا بسترا بھی چھوڑ کر نکل جا" یہ وہ کچھ تھا جو میں گلریز بھائی کو کہنا چاہتا تھا لیکن میں نے گلریز بھائی کو کہا کہ چار اگست کیوں میں یکم اگست کو پہنچ جاؤں گا, تو جی ایسے
بیٹھے بٹھائے بغیر کسی پلین کے میں کمراٹ کے لئے تیار ہو گیا۔

Traveling to Lahore


"یہ جو لاہور سے محبت ہے یہ کسی اور سے محبت ہے" یہ سٹیٹس ایک بہت ہی عاجزانہ سی خواہش دل میں رکھ کر دی گئی کہ شاید غلطی سے ہی کوئی لاہور کی دوشیزہ یہ پوسٹ پڑھ کر دل والی سمائلی کا ری ایکشن بلاشک شعر پر ہی کیوں نہ کرے, ہم پھر بھی خود کو اس حالت میں محسوس کر کے سفر کی شروعات کسی اچھے شگن سے کر لیں گے۔ری ایکشن کی بجائے سیدھا میسنجر کی گھنٹی کا "ٹن" بجا اور ادھر میرے دل میں گھنٹیوں کا گورکھ دھندہ شروع ہو گیا اور ایک ہی دم" ٹن ٹن ٹن ٹن ٹن"،ایسے گھنٹیاں بجنا شروع ہو گئیں جیسے کسی پرانے ہندی فلم میں ماں اپنے بیٹے کی لاش مندر میں رکھ کر بھگوان کو جذباتی کرنے کی خاطر ٹن ٹن ٹن گھٹتی پہ گھنٹی بجائے جاتی ہے. میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی کہ میں تو خالی ری ایکشن کی امید لگائے بیٹھا تھا اور ادھر تو سیدھا ہی پریت سے بھرا پیغام آ گیا, اب میں سوچ رہا کہ کسی پری جمال کا میسج ہوگا کہ کہ کہ کہ "سلمان پلیز کل آپ ناشتہ میرے پاس کریں گے " مزید تخیلات کی صورت میں طبیعت کی خرابی کے شدید امکانات واضح تھے تو میں نے جلدی جلدی موبائل کو جیب سے نکالا, ان لاک کر کے جیسے ہی میسج کھولا تو ایک ہی دم آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا, اردگرد بیٹھے لوگوں کی آوازیں بھی بند ہو گئیں, مجھے گھٹن سی محسوس ہونا شروع ہو گئی, میں نے دل پہ ہاتھ رکھا تو دھڑکن بہت تیزی سے چل رہی تھی. اب دو منٹ پہلے کے سین کو ذہن میں لائیں جیسے ہی میں نے خوشی سے میسج پڑھنے کے لیے موبائل نکالا تو وہ میسج اعتزاز بھائی کا تھا اور کچھ یوں تھا " یار لالا لاہور آتے ہوئے میرے گھر سے بیس کلو والے آٹے کی بوری لیتے آنا تجھے تو پتہ ہے یہاں لاہور کے ہوٹلوں کی روٹی مجھے ہضم نہیں ہوتی اور فوڈ پوائزننگ کا خطرہ رہتا ہے " ۔

اس وقت مجھے جتنی گندی گندی اور واحیات گالیاں آتی تھیں میں نے کیمرے کا مائک نکال کر ہائی کوائلٹی میں ریکارڈ کر کے اعتزاز بھائی کو واٹس ایپ کیں اور کہا کہ گھٹیا انسان تیرا بیڑا غرق ہو تیرا کھکھ نہ رہے, تجھے روز کینسر کے ساتھ فوڈ پوائزننگ ہو, تو روٹی کی جگہ زہر کھائے, آدھے گھنٹے پہلے یا بعد میں یہ میسج نہیں کر سکتا تھا,ادھر یہ میسجز دیکھ کر اعتزاز بھائی آن لائن سے سیدھے آف لائن ہو گئے اور باقی کا لاہور کا سارا سفر میں نے اور اریجیت سنگھ نے دھاڑیں مار مار کر گزاری- کمراٹ کی روانگی سے قبل میں آپ کو اپنے لاہوری گینگ سے تعارف کراتا چلوں, خدا کا کہر(سوری قدرت قدرت) دیکھیں کہ ایک زوہیب بھائی آپ سب کے فیورٹ پہلے بھی رہ چکے ہیں یہ ایک اور شاہکار پیش خدمت ہے تو سب سے پہلے نمبر پر آتے ہیں زوہیب بھائی, زوہیب بھائی کو لاہور کا رومیؤ, جھنگ کا رانجھا اور ہندوستان کا عمران ہاشمی کہا جائے تو یہ ان کی شخصیت کے ٹھیک ٹھاک عین مطابق ہوگا, شعبے کے حوالے سے بات کی جائے تو زوہیب بھائی ایک چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ یعنی کہ CA ہیں , زوہیب بھائی نے خدا خدا کر کے پونے سولہ سال بعد سی اے کوالیفائیڈ کیا تو اس وقت وہ سکردو کے ٹرپ پر تھے اور اس خبر کے بعد وہ سب سے پہلے اپنے بگ باس کا دیدار کرنا چاہتے تھے تاکہ انہیں یہ خوشخبری سنا کر پروموشن بٹورا جائے تو بس جی واپسی پر زوہیب بھائی نے اپنی شادی والی شیروانی پہنی اور CA کوالیفائیڈ والا رزلٹ لے کر ایک گھنٹہ پہلے آفس پہنچ گئے کہ باس کو یہ خوشخبری وہ خود سنائیں گے ادھر باس پہلے سے آئے بیٹھے تھے اور زوہیب بھائی کے پہنچتے ہی انہیں ایک لیٹر پکڑا دیا, اب زوہیب بھائی خوشی خوشی لیٹر کھولتے ہوئے باس کو مجاقیہ انداز میں کہہ رہے کہ "سر آپ نے کہیں جیو نیوز میں تو نہیں دیکھ لیا کہ زوہیب خان نے CA پاس کر لیا ہے", جی ایسا ہی ہے زوہیب صاحب, زوہیب بھائی کا تھینکیو صرف تھینک تک آتے آتے رک گیا کیونکہ اب لیٹر کھل چکا تھا اور وہ پروموشن لیٹر نہیں بلکہ ٹرمینیشن لیٹر تھا, زوہیب بھائی شاید دنیا کے واحد CA ہوں گے جنہیں CA کوالیفائیڈ کرنے کے بعد پروموشن کی بجائے سیدھا ٹرمینیٹ کر دیا گیا اور وجہ یہی پہاڑوں کی محبت تھی جس کے لئے بیچارے پتہ نہیں کس کس کو مار کر چھٹیاں لے کر ٹرپ پر گئے تھے . دوسرے نمبر پر آتے ہیں عدنان بھائی , عدنان بھائی جم کے اتنے شوقین ہیں کہ نکاح کے وقت سب دولہے راجا کو ڈھونڈ رہے اور راجا جی جم میں پش اپس کا پچاس پچاس کا تیسرا سیٹ لگا رہے ہیں, پیشے کے لحاظ سے بزنس مین ہیں, ماشاءاللہ سے لاہور ڈیفنس میں ان کا گارمنٹس کا اپنا برینڈ ہے جس کا نام Orange ہے, کبھی بھی کچھ لینا ہو اورینج سٹور پر جائیں اور سلمان حیدر خان کا حوالہ دیں آپ کو %30 آف پر پروڈکٹس ملیں گی (عدنان بھائی اگر میرے حوالے سے کوئی آتا بھی ہے تو یار عزت رکھ لینا اب آف تو ہو گیا کیا کروں) تیسرے نمبر پر ایک مرتبہ پھر سے ایک اور CA صاحب آتے ہیں یعنی گلریز بھائی, اب ان کا اصل نام گلریز ہے اور نک نیم نومی, I mean Yar seriously Noomi, آپ بتائیں کہ نومی کہاں سے گلریز کا نک نیم لگتا ہے؟ اس ہمارے سفر کے ماسٹر مائنڈ یہی صاحب ہیں جنہیں دوست گلو بٹ کے نام سے بھی پکارتے ہیں, پہاڑوں سے اتنی زیادہ محبت کرتے ہیں کہ کہ آفس میں جب بھی فراغت ملے گوگل کھول کر پہاڑوں کے آباؤ اجداد تک پہنچ جاتے ہیں اور ایک دفعہ تو گلریز بھائی نے حد کر دی جب ان کے باس نے انہیں کوئی اہم فائل لانے کو کہا اور یہ مطلوبہ فائل لے کر باس کے پاس پہنچے تو وہ فائل کچھ یوں تھی۔۔۔۔۔

"لاہور سے مردان.... وہاں لوکل ٹرانسپورٹ پر تھل.... وہاں سے جیپ پر کمراٹ " ،آگے سے بوس بھی پہاڑوں کے دلدادہ نکلے اور کہا " جا نومی... جا.. جی لے اپنی زندگی .. چوتھے نمبر پر آتے ہیں دانش بھائی, اب دانش بھائی کے حوالے سے کیا لکھوں ؟ یہ سمجھیں کہ لونڈا گھی کا خالی گھڑا ہے گھڑا, دکھنے میں جتنا پیارا ہے (مجھ سے زیادہ ہرگز نہیں) حقیقت میں اتنا ہی معصوم ہے, محترم بھی CA کی دوڑ میں لگے ہیں اور انشاءاللہ جلد ہی کوالیفائی کر لیں گے, ہاں بات ہو رہی تھی ان کی معصومیت کی تو ایک دفعہ ان کی کلاس کی ایک لڑکی نے انہیں کہا کہ " دانش آپ مجھے بہت اچھے لگتے ہیں " آگے سے دانش بھائی نے جواب دیا " شکریہ باجی آپ بھی مجھے بہنوں کی طرح عزیز ہو" اس کے بعد پھر چراغوں میں روشنی بڑھ گئی جو آج تک کم نہ ہوئی. آخر میں باری آتی ہے مابدولت کی جو کسی بھی تعارف کے محتاج نہیں ہیں, شدید خوبصورت اور شدید سنگل کا مکسچر بنائیں تو سلمان حیدر خان بنتا ہے, اب میں اپنی کیا تعریف کروں, ہم کو شرم آوے ہے, چلیں ایک شعر عرض کرتا ہوں جو شاہد ہماری طبیعت کے مطابق ہے:ـ
میں الجھا ہوا شخص ہوں

سلجھے ہوے مزاج کا
چار اگست رات دس بجے ہم سب نے گلریز بھائی کے گھر جمع ہونا تھا اور وہیں سے نکلنا تھا, ہم سب مقررہ وقت سے پہلے ہی گلریز بھائی کے گھر پہنچ گئے لیکن ابھی تک زوہیب بھائی کا کہیں پہ اتہ تھا نہ پتہ, نام تھا نہ نشان, دس سے گیارہ بج گئے لیکن زوہیب بھائی نہ آئے. ساڑھے گیارہ بجے زہیب بھائی جلدی جلدی گھر میں داخل ہوئے اور آتے ہی کہا کہ کیا یار تم لوگ ہر دفعہ ایسے ہی دیر کر دیتے ہو, دس بجے نکلنا تھا اب گیارہ بج گئے اور ابھی تک سب بیٹھے ہو, ادھر میں نے دیکھا کہ عدنان بھائی کے ڈولے پھول رہے ہیں, ڈر تھا کہ ابھی ادھر ہی ورک آؤٹ نہ شروع کر دیں, ہم نے جلدی جلدی سارا سامان ڈگی میں رکھا اور پورے بارہ بجے لاہور سے کمراٹ کے لئے نکلے-اب میں اپنے چند محبوب شاہراوں میں سے ایک پر تھا یعنی لاہور اسلام آباد موٹر وے, ڈرائیونگ سیٹ پر عدنان بھائی براجمان تھے اور ہمیں صبح پانچ بجے سے پہلے مردان پہنچ کر وہاں سے تھل کی گاڑی پکڑنی تھی, اب زندہ دلان لاہور کی گپ شپ شروع ہو گئی اور ادھر سے ہمارے اندر کا ابن انشاء بھی پھڑ پھڑانے لگا جسے صبر کا پھل کھلا کر اس نصیحت کے ساتھ بٹھا دیا گیا کہ بیٹا بلاشک آپ ایک لکھاری ہیں آگے بھی لاہوری ہیں اور وہ بھی چار چار تو بھلائی اسی میں ہے کہ انہیں کی گپ شپ کو انجوائے کیا جائے بجائے خود گپ شپ بننے کے. باتوں باتوں میں وقت کا پتہ تک نہیں چلا اور ہم تقریباً صبح کے چار بجے مردان شہر میں پہنچ گئے, اب جیسے کسی چرسی کو وقت پہ چرس نہ ملے تو اس کا ذہنی توازن جواب دینے لگتا ہے اسی طرح ہمیں اب ایک پیالی چرسی چائے کی بہت شدت سے ضرورت تھی, ہم ایک ہوٹل میں گئے جہاں ایک بابا کھڑے تھے, وہ ذرا اونچا سنتے تھے تو ہم نے بھی بہت اونچے میں انہیں پانچ کڑک ٹپال دانے دار چائے چینی الگ کے درخواست کیااور وہ پانچ کپ چینی کے ساتھ لے آئے انہیں پھر بتایا کہ ہمارے گلریز بھائی کو شوگر ہے, یعنی ش سے شوگر تو انہیں الگ ایک کپ بغیر چینی کے لا دیں, انکل کہتے سمجھ گیا اور پھر دوبارہ سے چینی والی چائے لے آئے, اب تیسری مرتبہ ہم نے خود انہیں چائے کا نہیں کہا کہ یہ نہ ہو اب کی بار بندوق لے آئیں اور سیدھا ٹھوک دیں-

ہیس والا آ چکا تھا, ہم نے فجر کی نماز پڑھی, دانش اور زوہیب بھائی دانش کی باجی کے گھر گاڑی کھڑی کر کے واپس آ گئے کیونکہ اب ہم نے پبلک ٹرانسپورٹ پر آگے سفر کرنا تھا, ہمارا سامان دیکھ کر لوگ ہمیں مشکوک نظروں سے دیکھنے لگے تھے کہ یہ لوگ کہیں کوئی ٹرین ورین تو نہیں لوٹ کے آ رہے, ہیس میں سامان رکھا گیا تو پچھلی سات آٹھ سیٹیں صرف سامان کی بن گئیں, اور پانچ ہم لوگ, تو ہم نے ہیس ہی سپیشل کرالی جس نے دس ہزار میں ہمیں کمراٹ چھوڑنے کی بات کی. ہم تسلی سے گاڑی میں بیٹھ گئے اور تقریباً سوا پانچ بجے کے قریب مردان سے کمراٹ کے لئے نکلے, آدھے گھنٹے بعد ایک جگہ پہ ڈرائیور نے بریک لگایا اور کہا کہ یار گاڑی کے بریک ٹھیک نہیں لگ رہے میں ذرا اس کو سیٹ کرا لوں ہم نے کہا بھائی جان مہربانی آپ کی بلاشک اٹھارہ گھنٹے لگ جائیں بریکیں بنوا لیں, پھر تقریباً ایک گھنٹہ بعد گاڑی فٹ ہو گئی اور ہم نے دوبارہ رخت سفر بانھا, ماشاء اللہ ڈرائیور بھائی بہت اچھے سے گاڑی چلا ہیں, ابھی یہ میرے سوچنے کی دیر تھی کہ ادھر سے کسی دوسرے ہیس والے نے ہماری گاڑی کو بہت تیز رفتاری میں اوور ٹیک کیا, ابھی ہم اس گاڑی کو ہی دیکھ رہے تھے کہ ادھر سے پتہ نہیں ہمارے ڈرائیور کے اندر کون سے جلاد کی آتما آ گئی کہ ایک ہی دم انہوں نے ہیس کو ہیرو پلین بنا دیا اور فوراً اس ہیس والے کو پیچھے کر دیا, ہم نے سمجھا ڈرائیور حضرات ہیں ایک دوسرے سے ایسے چھپن چھپائی کھیل رہے ہوں گے اب ہمیں کیامعلوم کہ یہ چھپن چھپائی نہیں بلکہ فاسٹ اینڈ فیوریس ساڑھے بارہ پاکستان ورژن کی لائیو شوٹنگ ہو رہی ہے, جیسے ہی ہمارا ڈرائیور ان کی گاڑی کو کراس کرے یا دوسری گاڑی والا ہمیں کراس کرے تو دونوں ڈرائیور ایک دوسرے کو ایسے خونخوار نظروں سے دیکھتے جیسے دونوں کا کوئی جدی پشتی جائیداد کا بیر چلا آ رہا ہو اور اس جھگڑے کو continue رکھنے کے لئے اگلی بَلی ہم بلوں کی چھڑائی جائے گی, ہم نے اپنے ڈرائیور کو زد چھوڑنے اور صبر کرنے کے بےشمار فضائل بتائے جس کے جواب میں ہمارے پاس بیٹھے ڈرائیور کے بھائی نے بتایا کہ یہ اس کا دوست ہے اور یہ ایسے ہی پیار میں ایک دوسرے سے ریس لگا رہے ہیں, ہم نے سوچا کہ یہ اگر پیار ہے تو جنگ میں تو یہ ہماری کھوپڑیوں سے گوٹیاں کھیلیں گے, خیر آپ یہ دیکھیں کہ اس بندے نے تھل تک ایسے ہی خطرناک ڈرائیونگ کی, ہم نے تو ایک دوسرے کے ساتھ اپنی وصیتیں تک discuss کر لیں تھیں-
تقریباً آٹھ گھنٹے بعد تھل پہنچ کر ڈرائیور صاحب نے جواب دے دیا کہ جی ہماری تو بات تھل تک کی ہوئی تھی کمراٹ تو ہماری گاڑی جا ہی نہیں سکتی, تقریباً آدھے گھنٹے تک وہ ایسے بحث و مباحثہ کرتے رہے پھر ہم نے انہیں پیسے دے دیئے کہ بھائی ہم یہاں جھگڑا کرنے تو آئے نہیں ہوئے لیکن یہ آپ نے مناسب نہیں کیا, آپ جب بھی کمراٹ جائیں تو یہ یاد رکھیں کہ ہیس, بس یا ایسی کوئی لوکل گاڑی آپ کو تھل چھوڑے گی وہاں سے جیپ کر کے کمراٹ جانا ہوگا, تھل تک کا راستہ آخری تین چار گھنٹے میں تھوڑا زیادہ خراب ہو جاتا ہے باقی بہتر ہے, آپ تھل تک اپنی گاڑی پر بھی جا سکتے ہیں لیکن پبلک ٹرانسپورٹ بہتر ہے, تھل میں ہم نے جس مسجد میں عصر کی نماز پڑھی تھی لوکلز کے مطابق وہ تین سو سال پرانی ہے اور ساری کی ساری لکڑی کی بنی ہوئی ہے, مغرب کے وقت جیپ کرا کے تھل سے کمراٹ کے لئے روانہ ہوئے , کمراٹ کا راستہ بہت خراب ہے, راستے میں ہر طرف چھوٹے بڑے پتھر پڑے ہوئے ہیں لیکن جیسے جیسے آپ کمراٹ کی وادی کی جانب داخل ہوتے جائیں گے یقین کریں اس کے سحر میں ایسے گرفتار ہوں گے کہ ساڑھے تین گھنٹے کا یہ جیپ ٹریک ایسے گزر جائے گا جیسے ادھر آپ نے آنکھ جھپکی ادھر کمراٹ کی جنت میں پہنچ گئے, ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ناجانے کب ساڑھے تین گھنٹے گزر بھی گئے اور ہم عشاء کے وقت وادی جنت یعنی وادی کمراٹ کے سب سے آخری ہوٹل paradise view پہنچ گئے. دوستو میں نے اپنی پوری زندگی میں وادی کمراٹ سے زیادہ خوبصورت اور دلکش جگہ نہیں دیکھی, انشا ء اللہ اگلی قسط میں مکمل تفصیل کے ساتھ وادی کمراٹ کے بارے میں لکھوں گا جو حقیقت میں جنت کی ایک وادی ہے. زندہ دلان لاہور اچھے کھانے کے اتنے شوقین ہیں کہ عدنان بھائی اور دانش بھائی نے اپنے گھر سے بہترین قیمہ اور دال پورے دس دنوں کیلئے پیک کرا لیا, کمراٹ میں شیشے کے دھوئیں چھوڑ کر ہم نے واضح طور پر کہا کہ " یہ. .یہ... یہ کر کے دکھاؤ.. پہلے یہ... کالا پانی کے مقام پر ایک انتہائی زہریلی چیز نے میری آنکھوں کی بینائی چھین لی, دو جھانگہ کی طرف جاتے ہوئے تیز بارش نے ہمارا شاندار استقبال کیا اور ٹھا ٹھا کر کے سلامی دی, واپسی پر کالا چونسہ اور چٹہ چونسہ کی ہماری آم کی ایک پوری پیٹی اغوا ہو گئی ان سب سے بڑھ کر اگلی قسط کمراٹ کے حوالے سے ہے جو یقیناً بے انتہا حسین ہو گی۔
( جاری ہے)