نواب دوم محمد اورنگزیب خان کا اپنے بیوی خارو بی بی سے محبت کا لازاوال داستان ۔
1885 ء سے لیکر 1904 ء تک دیر پر
حکمرانی کے بعد نواب اول خان محمد شریف خان پچپن سال کی عمر میں فالج کی
بیماری سے تیمرگرہ کے مشہور مذہبی بزرگ "تیمرگرہ صاحب " کی گود
میں انتقال کرگئے ۔تیمرگرہ سے ان کی میت
دارلحکومت (یعنی آج کا دیر شہر) لائی
گئی اور شاہی قبرستان میں اپنے والد رحمت اللہ خان اور دادا غزن خان کے سنگ دفنا یا گیا ۔ نواب اول کے
وفات کے بعد ان کے صاحبزادے نواب محمد
اورنگزیب خان (المعروف بادشاہ خان وہ چاڑہ نواب ) کو تخت
پر بٹایا گیا ۔ اورنگزیب خان 1877ء میں
براول بانڈی میں پیدا ہوئے ۔ چھ ماہ کی عمر میں ایک نوکرانی کے ہاتھوں تالاب میں
گرنے سے بیمار ہوئے جن سے ان کے قوت
گویائی میں فرق آیا اس لیے لوگ اسے چاڑہ
نواب (گونگا نواب ) کے نام سے یاد کرتے تھے ۔نواب دوم نے 1904 سے لیکر 1924
تک اکثر وقت لڑائیوں میں گزارا ، اور اسی دوران بہت سے تکالیف بھی برداشت کی ۔
نواب دوم اورنگزیب خان نے مشوانی قبیلہ کے ایک خوبرو اور خوبصورت عورت
سے شادی کی تھی جس کا نام نواب دوم نے
خارو (مینا) رکھا تھا اور سارا رعایا اسے خارو بی بی کے نام سے پکارتی تھی۔ نواب
دوم خارو بی بی سے بے پناہ محبت کرتے تھے ۔ گمنام ریاست کے منصف نے خارو بی بی سے نواب دوم کے بے پناہ
محبت کے بہت سے قصے لکھے ہیں ۔ایک جگہ مصنف اس طرح رقم طراز ہے کہ جب خارو بی بی
کا انتقال ہوا تو نواب دوم جو اس وقت خود
بھی جزام اور فالج جیسے موذی مرض
میں مبتلا تھے ،کو بہت رنج ہوا اور وہ خارو بی بی کے غم سے اس قدر نڈال تھے کہ
رعایا کے افسران ان سے خارو بی بی کانام پر پیسے بٹورنے لگے تھے ،دیر کے سینکڑوں
بزرگان سے یہ قصے مشہور ہیں کہ جب نواب دوم
اورنگزیب خان اپنے خواب گاہ میں جاتے تھے تو ایک افسر خارو بی بی کا لباس
اور زیورا ت پہن کر اور اس کے انداز سے چل
کرمحل سے گزرتے ،نواب فوراً جاگ کر کہتا کہ یہ کون تھی باقی افسر کہتے کہ خارو بی
بی تھی اور کہہ رہی تھی کہ اتنی رقم بھیج دیں تو میں واپس آؤں گی،عشق اور غم میں دیوانہ نواب صاحب اپنے خزانے کے افسر کو
بلاکر کہتا کہ جلدی کریں جتنی بھی رقم
چاہیے فوراً اد کریں اور اسی طرح یہ رقم
افسران آپس میں بانٹتے تھے، اس کے علاوہ بھی بہت سے قصے مشہور ہیں۔
(گمنام ریاست سے ماخوذ)